روہنگیا کے مسلمان اور دلخراش واقعات
دردناک آوازیں میرے کانوں میں آرہی ہیں اور میں روہنگیائی بچوں، عورتوں، مردوں، ضعیفوں کے نالے، دلخراش چیخیں سنتی ہوں
ISLAMABAD:
گہری تاریک رات ہے، دور دور تک اندھیرا پھیلا ہوا ہے، خوف، دہشت، بربریت کے سائے نوکیلے پنجوں کے ساتھ ڈرے، سہمے انسانوں کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں اور پھر چند ثانیوں میں ہی خون میں لتھڑے انسانی جسم، جلے ہوئے ابدان اور اعضائے جسمانی، ہر سمت بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تڑپتے اور مرتے ہوئے لوگوں کے منہ سے نکلتی ہوئی آہ و بکا درندوں کے دل بھی دہلانے کے لیے کافی ہے لیکن یہ ظالم، سفاک جانوروں سے کہیں بدتر ہیں، جانور کا پیٹ بھرجاتا ہے اور وہ کچھ دیر کے لیے خواب خرگوش کے مزے لیتا ہے لیکن یہ درندے نما انسان دوبارہ مقتل کو آباد کردیتے ہیں۔
دردناک آوازیں میرے کانوں میں آرہی ہیں اور میں روہنگیائی بچوں، عورتوں، مردوں، ضعیفوں کے نالے، دلخراش چیخیں سنتی ہوں، اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہوں، پھر میں آنکھیں بند کرلیتی ہوں اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی ہوں، اﷲ سے فریاد کرنے کے لیے میرے لب کھل جاتے ہیں ''اے میرے پالن ہار، میرے جسم و روح کے خالق، مسلمان ہی آخر کیوں ہر محاذ پر چارے کی طرح کاٹے جارہے ہیں، گاجر مولی کی طرح ان کے ٹکڑے کیے جارہے ہیں، ان کے سروں کے مینار اور ان کے جسموں کو گولیوں سے بھونا جارہا ہے، جن بچیوں کے بدن اور چہرے کسی نے نہ دیکھے تھے ان کی ایسی بے پردگی کہ الحفیظ الامان، ان کی عزتوں کو شیطانوں کے فلک شگاف قہقہوں کے ساتھ مسخ کیا جارہا ہے۔
بے شک یہ ہمارے اپنے کرتوت ہیں، امت مسلمہ کی آنکھوں پر غفلت کی پٹی بندھی ہوئی ہے، مسلم حکمران اپنے بھائیوں کی تکلیف سے بے خبر اپنے ہی عشرت کدہ میں گم ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے انسان بے شک خسارے میں ہے۔ ہم اتحاد، اخوت اور بھائی چارے کے انمول جذبات کو اپنے پیروں تلے روند چکے ہیں، اسی لیے آج اپنے کیے کی سزا وہ کاٹ رہے ہیں جو کمزور ہیں، بے وطن ہیں، کیمپوں میں زندگیوں کا الاؤ روشن کیے ہوئے ہیں، وہ امن کی تلاش میں زخمی تن من لیے مردہ بچوں کو سینے سے لگائے خوف و ہراس کے ساتھ ننگے پاؤں دوڑ رہے ہیں، ان کا سفر ختم نہیں ہوتا ہے، کوئی انھیں پناہ دینے والا نہیں ہے، لاکھوں کی تعداد میں یہ بدنصیب مہاجر سعودی عرب، تھائی لینڈ، ملائیشیا، بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش میں مقیم ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے، کوئی ان کا ملک نہیں، بس بے دخل ہونے والے مظلوم ہیں، ان پر ہر لمحہ ملک بدری کا خوف طاری رہتا ہے۔ برما میں زندگی گزارتے ہوئے انھیں شرمناک اور دل کو پاش پاش کرنے والے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انھیں شادی کرنے کی اجازت لینی پڑتی ہے اور اس کے عوض کثیر رقم طلب کی جاتی ہے۔
ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ دلہن کو شادی کے موقع پر سب سے پہلے فوجی افسر کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ یہ مسلم حکمرانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ والدین، لڑکی کا شوہر، اس کے گھر والے زندہ درگور ہوجاتے ہیں، ان کی بے بسی سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ان مسلمان خاندانوں کی تذلیل کس قدر سفاکی کے ساتھ کی جاتی ہے۔ بدھ مت کے پیروکاروں نے اپنے آپ کو جانور سے ہزار درجے کمتر کر دکھایا ہے، وہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں، روہنگیائی فوجی اصل طاقت کے مالک بنے ہوئے ہیں، آنگ سان سوچی کو صرف اور صرف اپنی حکومت کی فکر ہے، اس نے جمہوریت کی آڑ لے کر اقتدار حاصل کیا تھا، وہ 2016 سے بند آنکھوں اور مردہ ضمیر کے ساتھ حکومت کررہی ہے، وہ کسی بھی معاملے میں جرنیلوں سے ٹکر نہیں لے سکتی، ایسا کرنے سے اس کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔
ان ظالم اور درندہ صفت حاکموں کو تکلیف کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب آگ ان کے محلوں تک پہنچ جاتی ہے، بھارتی وزیراعظم آنگ سان سوچی کو بڑھاوا دینے کے لیے اس وقت برما جاتے ہیں جب انسانی گوشت، ہڈیاں جل رہی ہیں اور جلتے ہوئے انسانوں کے دل و جگر کی بو دور دور تک پہنچ گئی ہے۔ ایسے میں وہ شخص اپنے ملک بھارت سے روہنگیائی مسلمانوں کو نکالنے کی بات کررہا ہے۔ بھارت میں اس وقت چالیس ہزار مسلمان کیمپوں میں پناہ گزین ہیں، بھارتی تنظیمیں آوازیں اٹھارہی ہیں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ انھیں کیمپوں سے نہ نکالے۔ پاکستان میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں، ان حالات میں بھی جب کہ ان کے جسم زخمی اور روح گھائل اور مال و اسباب نذر آتش ہونے کے بعد بھی راکھائن کے مسلمان اپنے دین پر ڈٹے ہوئے ہیں، مگر ایمان کی دولت سے سرشار ہیں۔
مجھے اس وقت قرآن پاک کی سورۃ البروج یاد آگئی ہے، جس کا مختصر احوال لکھ رہی ہوں، مشہور تفسیر کے مطابق ان آیات میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ پچھلی امت میں ایک بادشاہ تھا جو جادو گر سے کام لیا کرتا تھا، جب جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہاکہ میرے پاس کوئی لڑکا بھیج دو تاکہ اسے میں جادو سکھاؤں۔ یہ لڑکا جب جادوگر کے پاس جاتا ہے تو راستے میں ایک راہب مل جاتا ہے، جو اسے توحید کے بارے میں بتاتا ہے۔ ایک دن وہ جارہا تھا کہ راستے میں اسے ایک بڑا جانور نظر آیا، جس نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا تھا، بعض روایتوں میں ہے وہ جانور شیر تھا، لڑکے نے ایک پتھر اٹھایا اور اﷲ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اﷲ اگر راہب کی باتیں جادوگر کی باتوں سے آپ کو زیادہ پسند ہیں تو اس پتھر سے اس جانور کو مروا دیجیے، اس نے پتھر جو پھینکا تو شیر مرگیا۔
اس واقعے کے بعد لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ اس لڑکے کے پاس کوئی خاص علم ہے، ایک اندھے کے بینائی کے لیے دعا کروائی، لڑکے نے کہاکہ تم وعدہ کرو کہ اﷲ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لے آؤگے تو میں تمہارے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعا کروںگا، اس نے یہ شرط مان لی اور لڑکے کی دعا سے اس کو اﷲ نے بینائی عطا فرما دی اور وہ توحید پر ایمان لے آیا۔ ان واقعات کی خبر جب بادشاہ کو ملی تو اس نے لڑکے، نابینا اور راہب کو گرفتار کرلیا اور ان سب کو توحید کے انکار پر مجبور کیا، جب وہ نہ مانے تو بادشاہ نے راہب اور نابینا کو آری سے چروادیا اور لڑکے کو پہاڑ سے پھینکنے کا حکم دیا، لڑکے نے اپنے لیے دعا کی، پہاڑ پر زلزلہ آگیا، لوگ مرگئے لیکن لڑکا زندہ سلامت رہا، اسی طرح بادشاہ کے حکم کے مطابق سمندر میں ڈبویا گیا.
لڑکے نے پھر دعا کی کشتی ڈوب گئی لیکن لڑکا سلامت رہا، آخر میں لڑکے نے بادشاہ سے کہاکہ مجھے مارنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ایک میدان میں تم سب لوگوں کو جمع کرو اور مجھے سولی پر چڑھاؤ اور اﷲ کا نام لے کر تیر سے میرا نشانہ لگاؤ، بادشاہ نے ایسا ہی کیا تیر اس کی کنپٹی پر جالگا اور لڑکا شہید ہوگیا، لوگوں نے جب یہ دیکھا تو بہت سے ایمان لے آئے۔ یہ دیکھ کر اس کافر بادشاہ نے خندقیں کھدوانے کا اور اس میں آگ بھڑکانے کا حکم دیا اور کہا جو کوئی دین حق کو نہ چھوڑے اسے ان خندقوں میں ڈال دیا جائے، اس طرح ایمان والوں کی ایک بڑی تعداد کو زندہ جلادیا گیا۔ ایسا ہی حال میانمار میں ہے۔ آنگ سان سوچی نامی کافرہ جو امن کی نوبیل انعام یافتہ ہے اس کے حکم پر آگ جلادی گئی ہے اور گھروں اور اس میں رہنے والوں کو آگ کی خندقوں میں پھینک دیا گیا ہے، لیکن ان کے ایمان کی تازگی میں ذرا برابر فرق نہیں آیا ہے، در اصل قرآن کے مطابق یہی اہل ایمان اور جنتی ہیں۔
گہری تاریک رات ہے، دور دور تک اندھیرا پھیلا ہوا ہے، خوف، دہشت، بربریت کے سائے نوکیلے پنجوں کے ساتھ ڈرے، سہمے انسانوں کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں اور پھر چند ثانیوں میں ہی خون میں لتھڑے انسانی جسم، جلے ہوئے ابدان اور اعضائے جسمانی، ہر سمت بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تڑپتے اور مرتے ہوئے لوگوں کے منہ سے نکلتی ہوئی آہ و بکا درندوں کے دل بھی دہلانے کے لیے کافی ہے لیکن یہ ظالم، سفاک جانوروں سے کہیں بدتر ہیں، جانور کا پیٹ بھرجاتا ہے اور وہ کچھ دیر کے لیے خواب خرگوش کے مزے لیتا ہے لیکن یہ درندے نما انسان دوبارہ مقتل کو آباد کردیتے ہیں۔
دردناک آوازیں میرے کانوں میں آرہی ہیں اور میں روہنگیائی بچوں، عورتوں، مردوں، ضعیفوں کے نالے، دلخراش چیخیں سنتی ہوں، اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہوں، پھر میں آنکھیں بند کرلیتی ہوں اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی ہوں، اﷲ سے فریاد کرنے کے لیے میرے لب کھل جاتے ہیں ''اے میرے پالن ہار، میرے جسم و روح کے خالق، مسلمان ہی آخر کیوں ہر محاذ پر چارے کی طرح کاٹے جارہے ہیں، گاجر مولی کی طرح ان کے ٹکڑے کیے جارہے ہیں، ان کے سروں کے مینار اور ان کے جسموں کو گولیوں سے بھونا جارہا ہے، جن بچیوں کے بدن اور چہرے کسی نے نہ دیکھے تھے ان کی ایسی بے پردگی کہ الحفیظ الامان، ان کی عزتوں کو شیطانوں کے فلک شگاف قہقہوں کے ساتھ مسخ کیا جارہا ہے۔
بے شک یہ ہمارے اپنے کرتوت ہیں، امت مسلمہ کی آنکھوں پر غفلت کی پٹی بندھی ہوئی ہے، مسلم حکمران اپنے بھائیوں کی تکلیف سے بے خبر اپنے ہی عشرت کدہ میں گم ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے انسان بے شک خسارے میں ہے۔ ہم اتحاد، اخوت اور بھائی چارے کے انمول جذبات کو اپنے پیروں تلے روند چکے ہیں، اسی لیے آج اپنے کیے کی سزا وہ کاٹ رہے ہیں جو کمزور ہیں، بے وطن ہیں، کیمپوں میں زندگیوں کا الاؤ روشن کیے ہوئے ہیں، وہ امن کی تلاش میں زخمی تن من لیے مردہ بچوں کو سینے سے لگائے خوف و ہراس کے ساتھ ننگے پاؤں دوڑ رہے ہیں، ان کا سفر ختم نہیں ہوتا ہے، کوئی انھیں پناہ دینے والا نہیں ہے، لاکھوں کی تعداد میں یہ بدنصیب مہاجر سعودی عرب، تھائی لینڈ، ملائیشیا، بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش میں مقیم ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے، کوئی ان کا ملک نہیں، بس بے دخل ہونے والے مظلوم ہیں، ان پر ہر لمحہ ملک بدری کا خوف طاری رہتا ہے۔ برما میں زندگی گزارتے ہوئے انھیں شرمناک اور دل کو پاش پاش کرنے والے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انھیں شادی کرنے کی اجازت لینی پڑتی ہے اور اس کے عوض کثیر رقم طلب کی جاتی ہے۔
ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ دلہن کو شادی کے موقع پر سب سے پہلے فوجی افسر کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ یہ مسلم حکمرانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ والدین، لڑکی کا شوہر، اس کے گھر والے زندہ درگور ہوجاتے ہیں، ان کی بے بسی سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ان مسلمان خاندانوں کی تذلیل کس قدر سفاکی کے ساتھ کی جاتی ہے۔ بدھ مت کے پیروکاروں نے اپنے آپ کو جانور سے ہزار درجے کمتر کر دکھایا ہے، وہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں، روہنگیائی فوجی اصل طاقت کے مالک بنے ہوئے ہیں، آنگ سان سوچی کو صرف اور صرف اپنی حکومت کی فکر ہے، اس نے جمہوریت کی آڑ لے کر اقتدار حاصل کیا تھا، وہ 2016 سے بند آنکھوں اور مردہ ضمیر کے ساتھ حکومت کررہی ہے، وہ کسی بھی معاملے میں جرنیلوں سے ٹکر نہیں لے سکتی، ایسا کرنے سے اس کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔
ان ظالم اور درندہ صفت حاکموں کو تکلیف کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب آگ ان کے محلوں تک پہنچ جاتی ہے، بھارتی وزیراعظم آنگ سان سوچی کو بڑھاوا دینے کے لیے اس وقت برما جاتے ہیں جب انسانی گوشت، ہڈیاں جل رہی ہیں اور جلتے ہوئے انسانوں کے دل و جگر کی بو دور دور تک پہنچ گئی ہے۔ ایسے میں وہ شخص اپنے ملک بھارت سے روہنگیائی مسلمانوں کو نکالنے کی بات کررہا ہے۔ بھارت میں اس وقت چالیس ہزار مسلمان کیمپوں میں پناہ گزین ہیں، بھارتی تنظیمیں آوازیں اٹھارہی ہیں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ انھیں کیمپوں سے نہ نکالے۔ پاکستان میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں، ان حالات میں بھی جب کہ ان کے جسم زخمی اور روح گھائل اور مال و اسباب نذر آتش ہونے کے بعد بھی راکھائن کے مسلمان اپنے دین پر ڈٹے ہوئے ہیں، مگر ایمان کی دولت سے سرشار ہیں۔
مجھے اس وقت قرآن پاک کی سورۃ البروج یاد آگئی ہے، جس کا مختصر احوال لکھ رہی ہوں، مشہور تفسیر کے مطابق ان آیات میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ پچھلی امت میں ایک بادشاہ تھا جو جادو گر سے کام لیا کرتا تھا، جب جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہاکہ میرے پاس کوئی لڑکا بھیج دو تاکہ اسے میں جادو سکھاؤں۔ یہ لڑکا جب جادوگر کے پاس جاتا ہے تو راستے میں ایک راہب مل جاتا ہے، جو اسے توحید کے بارے میں بتاتا ہے۔ ایک دن وہ جارہا تھا کہ راستے میں اسے ایک بڑا جانور نظر آیا، جس نے لوگوں کا راستہ روکا ہوا تھا، بعض روایتوں میں ہے وہ جانور شیر تھا، لڑکے نے ایک پتھر اٹھایا اور اﷲ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اﷲ اگر راہب کی باتیں جادوگر کی باتوں سے آپ کو زیادہ پسند ہیں تو اس پتھر سے اس جانور کو مروا دیجیے، اس نے پتھر جو پھینکا تو شیر مرگیا۔
اس واقعے کے بعد لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ اس لڑکے کے پاس کوئی خاص علم ہے، ایک اندھے کے بینائی کے لیے دعا کروائی، لڑکے نے کہاکہ تم وعدہ کرو کہ اﷲ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لے آؤگے تو میں تمہارے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعا کروںگا، اس نے یہ شرط مان لی اور لڑکے کی دعا سے اس کو اﷲ نے بینائی عطا فرما دی اور وہ توحید پر ایمان لے آیا۔ ان واقعات کی خبر جب بادشاہ کو ملی تو اس نے لڑکے، نابینا اور راہب کو گرفتار کرلیا اور ان سب کو توحید کے انکار پر مجبور کیا، جب وہ نہ مانے تو بادشاہ نے راہب اور نابینا کو آری سے چروادیا اور لڑکے کو پہاڑ سے پھینکنے کا حکم دیا، لڑکے نے اپنے لیے دعا کی، پہاڑ پر زلزلہ آگیا، لوگ مرگئے لیکن لڑکا زندہ سلامت رہا، اسی طرح بادشاہ کے حکم کے مطابق سمندر میں ڈبویا گیا.
لڑکے نے پھر دعا کی کشتی ڈوب گئی لیکن لڑکا سلامت رہا، آخر میں لڑکے نے بادشاہ سے کہاکہ مجھے مارنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ایک میدان میں تم سب لوگوں کو جمع کرو اور مجھے سولی پر چڑھاؤ اور اﷲ کا نام لے کر تیر سے میرا نشانہ لگاؤ، بادشاہ نے ایسا ہی کیا تیر اس کی کنپٹی پر جالگا اور لڑکا شہید ہوگیا، لوگوں نے جب یہ دیکھا تو بہت سے ایمان لے آئے۔ یہ دیکھ کر اس کافر بادشاہ نے خندقیں کھدوانے کا اور اس میں آگ بھڑکانے کا حکم دیا اور کہا جو کوئی دین حق کو نہ چھوڑے اسے ان خندقوں میں ڈال دیا جائے، اس طرح ایمان والوں کی ایک بڑی تعداد کو زندہ جلادیا گیا۔ ایسا ہی حال میانمار میں ہے۔ آنگ سان سوچی نامی کافرہ جو امن کی نوبیل انعام یافتہ ہے اس کے حکم پر آگ جلادی گئی ہے اور گھروں اور اس میں رہنے والوں کو آگ کی خندقوں میں پھینک دیا گیا ہے، لیکن ان کے ایمان کی تازگی میں ذرا برابر فرق نہیں آیا ہے، در اصل قرآن کے مطابق یہی اہل ایمان اور جنتی ہیں۔