سری لنکا کے خلاف یواے ای میں سیریز بطورٹیسٹ کپتان سرفرازاحمد کی پہلی آزمائش
مصباح اور یونس کا خلا پر کرنا نوجوان کرکٹرز کے لئے ایک چیلنج
سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستانی ٹیم ٹوئنٹی 20کرکٹ میں سرخرو ہو چکی، گرین شرٹس ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جیت کر ایک روزہ کرکٹ میں بھی اپنی دھاک بٹھا چکے۔
اب شائقین کی نظریں ٹیسٹ کرکٹ کی جانب مرکوز ہیں، سری لنکن کے خلاف متحدہ عرب امارات میں شیڈول سیریز کے لئے قومی سکواڈ کا اعلان کیا جا چکا،پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی نے سری لنکا کے خلاف 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز کے لئے 16رکنی قومی ٹیم میں میر حمزہ کو پہلی بار سکواڈ کا حصہ بنایا ہے۔
سمیع اسلم کو بھی ایک سال کے وقفہ کے بعد دوبارہ صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا ہے، حارث سہیل اور عثمان صلاح الدین کو مصباح الحق اور یونس کا متبادل سمجھ کر موقع دیا گیا ہے، فٹنس مسائل کا شکار اظہر علی اور یاسر شاہ کو کلیئرنس کے بعد ٹیم میں شامل جبکہ رضوان احمد ،احمد شہزاد کو ڈراپ کیا گیا ہے۔ پاکستان نے آخری ٹیسٹ سیریز رواں سال اپریل، مئی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلی تھی،مصباح الحق کی کپتانی میں گرین کیپس نے پہلی بارکیربیئنز کو انہیں کی سرزمین پر ہرانے کا کارنامہ سرانجام دیا تھا،کپتان اور سینئر بیٹسمین یونس خان پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ یہ ان کے کیریئر کی آخری سیریز ہوگی۔
پاکستان نے تیسرے ٹیسٹ میں سخت مقابلے کے بعد میزبانوں کو زیر کرتے ہوئے نتیجہ 2-1 سے اپنے نام کیا تھا،چیمپئنز ٹرافی کے بعد سرفراز احمد کوٹیسٹ ٹیم کی بھی قیادت سونپ کر مصباح الحق کا خلاپر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وکٹ کیپر بیٹسمین کو بطور کپتان اپنی اہلیت ثابت کرنے کے ساتھ سینئرز کی ریٹائرمنٹ سے کمزور پڑنے والی بیٹنگ میں استحکام لانے کی بھی فکر کرنی ہوگی۔
سرفراز احمد کی طویل فارمیٹ میں اولین آزمائش پاکستان اورسری لنکا کے درمیان رواں ماہ شیڈول سیریز سے ہوگی،دونوں ٹیمیں 2 ٹیسٹ، 5 ایک روزہ اور 3 ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچز کھیلیں گی۔ ان میں ایک مختصرطرز کا میچ لاہور میں کروانے کی تجویز ہے۔طویل فارمیٹ کے پہلے مقابلے کا آغاز 28 ستمبر سے ابوظہبی میں ہوگا۔دونوں ٹیموں کے درمیان آخری ٹیسٹ سیریز 2015میں ہوئی جس میں پاکستان نے کامیابی 2-1 سے اپنے نام کی۔مہمان گرین کیپس نے گال میں کھیلا جانے والا پہلا میچ 10وکٹوں سے جیتا،دوسرے میں سری لنکا نے کامیابی سمیٹ کر سیریز1-1 سے برابر کر دی،پالی کیلے میں تیسرے اور فیصل کن میچ میں پاکستان نے 7وکٹوں سے فتح سمیٹ کر سیریز بھی اپنے نام کی۔
سری لنکا کے خلاف شیڈول ٹیسٹ سیریز کے حوالے سے چیف سلیکٹر انضمام الحق کا کہنا ہے کہ مصباح الحق اور یونس خان کی کمی محسوس ہوگی لیکن قومی ٹیم کے باصلاحیت کھلاڑی ان کی کمی کو پورا کریں گے۔ انضمام الحق کے مطابق مصباح الحق کی کپتانی سے ریٹائرمنٹ کے بعد سرفرا ز احمد پہلی بار ٹیسٹ میچ میں کپتانی کریں گے لیکن وہ اچھے کپتان ہیں اور قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے۔ سرفراز احمد کو اس بات کا احساس ہے کہ بطور کپتان وہ زیادہ سے زیادہ اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کریں، یو اے ای کی کنڈیشز قومی ٹیم کے لئے موزوں ہیں ،ٹیم اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کرتی آرہی ہے اور امید ہے کہ وہ پرفارمنس کا تسلسل برقرار رکھے گی ۔
پاکستان اور سری لنکا کے درمیان سیریز کے معاملات طے پاتے وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئی لینڈرز ٹوئنٹی20میچوں کی سیریز کا آخری میچ لاہور میں کھیلے گا، لیکن سری لنکن کرکٹ بورڈ اب اپنے وعدے سے مکرتا دکھائی دے رہا ہے، حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی انتظامات کا مزید جائزہ لینے کے بعد ٹیم کو 20 ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کے لیے پاکستان بھیجا جائے گا۔سری لنکن بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ایشلے ڈی سلوا کے مطابق 29 اکتوبر کو شیڈول میچ کے لیے فائنل کال دینے سے قبل سکیورٹی کا جائزہ لینے کے لیے ایک عہدیدار کو دو ہفتے قبل لاہور بھیجا جائے گا۔ سری لنکا کی ٹیم اکتوبر کے آخر میں لاہور میں مختصر طرز کا ایک میچ کھیلنے کے لئے آتی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد دنیا کا کوئی حصہ اور خطہ بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے تو کھیلوں میں تنہائی کا غم صرف پاکستان کو ہی کیوں سہنا پڑتا ہے؟
ماضی کے اوراق کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان پر عالمی کرکٹ کے دروازے 2001ء میں نائن الیون کے بعد خطے کی خراب صورتحال اور کھیل میں بھارت کے بے جا بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے بعد سے ہی بند ہونا شروع ہو گئے تھے،اس پر کاری ضرب 2002ء میں اس وقت لگی جب نیوزی لینڈ کی ٹیم دورے پر پہنچی،لاہور ٹیسٹ میں انضمام الحق کی ٹرپل سنچری21ویں صدی میں کسی بیٹسمین کی پہلی ایسی اننگز تھی، پاکستان کی بھاری مارجن سے فتح کے بعد دونوں ٹیمیں روشنیوں کے شہر کراچی پہنچی لیکن میچ کے آغاز سے چند گھنٹے قبل نیوزی لینڈ ٹیم ہوٹل کے باہر خوفناک دھماکے میں فرانسیسی انجینئرز سمیت کم از کم14افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
اس دھماکے کے بعد کیویز نے دورہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے گھر کی راہ لی۔ادھر بھارتی کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی میں مکمل اجارہ داری حاصل کر لی جس کا ذمہ دار کسی حد تک پاکستان بھی ہے لیکن 2009ء میں سری لنکن ٹیم کا دورہ ملک میں عالمی کرکٹ کے دروازے بند کرنے کا موجب بن گیا،اس بار بھی آغاز ایک ٹرپل سنچری سے ہی ہوا، یونس خان نے کراچی ٹیسٹ میں ٹرپل سنچری سکور کی،بیٹنگ کے لیے سازگار پچ پر دونوں ٹیموں کے بیٹسمینوں نے بھرپور کھیل پیش کیا جس کی وجہ سے میچ ڈرا پر ختم ہوا۔اگلے ٹیسٹ کے لیے سری لنکن ٹیم لاہور پہنچی لیکن کسے معلوم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔
ایک بار پھر میچ کے آغاز سے چند گھنٹوں پہلے سانحہ رونما ہوا جو ملک پر کرکٹ کے دروازے بندکر گیا، المیہ یہ ہواکہ جس ٹیم کو منت سماجت کر کے بلایا گیا اس کے سکیورٹی روٹ پر کوئی پولیس کی گاڑی تھی اور نہ اہلکار۔اسی سال نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کا دورہ پاکستان شیڈول تھا لیکن اس حملے کے بعد دونوں ٹیموں نے سیریز ہی منسوخ کر دی، یہی نہیں ورلڈ کپ2011کی میزبانی بھارت، سری لنکا اور بنگلا دیش کے ساتھ پاکستان کے پاس بھی تھی لیکن اس ناخوشگوار واقعے کے بعد آئی سی سی نے چار کے بجائے تین ممالک میں میچ کرانے کا فیصلہ کیا، یوں پاکستان کے حصے میں آنے والے سیمی فائنل سمیت 14میچز باقی تینوں میں بانٹ دیئے گئے۔
ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی ایک خواب بن گئی،اس دوران پاکستانی ٹیم اپنی تمام ہوم سیریز متحدہ عرب امارات میں کھیلنے پر مجبور ہوئی اور پی سی بی کو ٹی وی حقوق و اضافی اخراجات کی مد میں اربوں روپوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا تاہم دورہ زمبابوے اور کینیا کی ٹیموں کے آمد کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی بحال کی ایک امید روشن ہوئی، لاہور میں پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کے فائنل کا کامیاب انعقاد ہوا، دنیا کے سات ملکوں کے کھلاڑیوں پر مشتمل ورلڈ الیون بھی رواں ماہ تین ٹوئنٹی20 میچوں کی کامیاب سیریز کھیل چکی، ورلڈ الیون کے اس کامیاب دورے کے باوجود سری لنکن کرکٹ ٹیم کا پاکستان میں آ کر کھیلنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنا سمجھ سے بالا ہے، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ سری لنکن کرکٹ بورڈ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں نہ کھیلنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے یا کوئی خفیہ طاقت آئی لینڈرز کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی سی بی حکام کو اس سارے معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے کر مستقبل کی حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔
اب شائقین کی نظریں ٹیسٹ کرکٹ کی جانب مرکوز ہیں، سری لنکن کے خلاف متحدہ عرب امارات میں شیڈول سیریز کے لئے قومی سکواڈ کا اعلان کیا جا چکا،پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی نے سری لنکا کے خلاف 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز کے لئے 16رکنی قومی ٹیم میں میر حمزہ کو پہلی بار سکواڈ کا حصہ بنایا ہے۔
سمیع اسلم کو بھی ایک سال کے وقفہ کے بعد دوبارہ صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا ہے، حارث سہیل اور عثمان صلاح الدین کو مصباح الحق اور یونس کا متبادل سمجھ کر موقع دیا گیا ہے، فٹنس مسائل کا شکار اظہر علی اور یاسر شاہ کو کلیئرنس کے بعد ٹیم میں شامل جبکہ رضوان احمد ،احمد شہزاد کو ڈراپ کیا گیا ہے۔ پاکستان نے آخری ٹیسٹ سیریز رواں سال اپریل، مئی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلی تھی،مصباح الحق کی کپتانی میں گرین کیپس نے پہلی بارکیربیئنز کو انہیں کی سرزمین پر ہرانے کا کارنامہ سرانجام دیا تھا،کپتان اور سینئر بیٹسمین یونس خان پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ یہ ان کے کیریئر کی آخری سیریز ہوگی۔
پاکستان نے تیسرے ٹیسٹ میں سخت مقابلے کے بعد میزبانوں کو زیر کرتے ہوئے نتیجہ 2-1 سے اپنے نام کیا تھا،چیمپئنز ٹرافی کے بعد سرفراز احمد کوٹیسٹ ٹیم کی بھی قیادت سونپ کر مصباح الحق کا خلاپر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وکٹ کیپر بیٹسمین کو بطور کپتان اپنی اہلیت ثابت کرنے کے ساتھ سینئرز کی ریٹائرمنٹ سے کمزور پڑنے والی بیٹنگ میں استحکام لانے کی بھی فکر کرنی ہوگی۔
سرفراز احمد کی طویل فارمیٹ میں اولین آزمائش پاکستان اورسری لنکا کے درمیان رواں ماہ شیڈول سیریز سے ہوگی،دونوں ٹیمیں 2 ٹیسٹ، 5 ایک روزہ اور 3 ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچز کھیلیں گی۔ ان میں ایک مختصرطرز کا میچ لاہور میں کروانے کی تجویز ہے۔طویل فارمیٹ کے پہلے مقابلے کا آغاز 28 ستمبر سے ابوظہبی میں ہوگا۔دونوں ٹیموں کے درمیان آخری ٹیسٹ سیریز 2015میں ہوئی جس میں پاکستان نے کامیابی 2-1 سے اپنے نام کی۔مہمان گرین کیپس نے گال میں کھیلا جانے والا پہلا میچ 10وکٹوں سے جیتا،دوسرے میں سری لنکا نے کامیابی سمیٹ کر سیریز1-1 سے برابر کر دی،پالی کیلے میں تیسرے اور فیصل کن میچ میں پاکستان نے 7وکٹوں سے فتح سمیٹ کر سیریز بھی اپنے نام کی۔
سری لنکا کے خلاف شیڈول ٹیسٹ سیریز کے حوالے سے چیف سلیکٹر انضمام الحق کا کہنا ہے کہ مصباح الحق اور یونس خان کی کمی محسوس ہوگی لیکن قومی ٹیم کے باصلاحیت کھلاڑی ان کی کمی کو پورا کریں گے۔ انضمام الحق کے مطابق مصباح الحق کی کپتانی سے ریٹائرمنٹ کے بعد سرفرا ز احمد پہلی بار ٹیسٹ میچ میں کپتانی کریں گے لیکن وہ اچھے کپتان ہیں اور قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے۔ سرفراز احمد کو اس بات کا احساس ہے کہ بطور کپتان وہ زیادہ سے زیادہ اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کریں، یو اے ای کی کنڈیشز قومی ٹیم کے لئے موزوں ہیں ،ٹیم اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کرتی آرہی ہے اور امید ہے کہ وہ پرفارمنس کا تسلسل برقرار رکھے گی ۔
پاکستان اور سری لنکا کے درمیان سیریز کے معاملات طے پاتے وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئی لینڈرز ٹوئنٹی20میچوں کی سیریز کا آخری میچ لاہور میں کھیلے گا، لیکن سری لنکن کرکٹ بورڈ اب اپنے وعدے سے مکرتا دکھائی دے رہا ہے، حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی انتظامات کا مزید جائزہ لینے کے بعد ٹیم کو 20 ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کے لیے پاکستان بھیجا جائے گا۔سری لنکن بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ایشلے ڈی سلوا کے مطابق 29 اکتوبر کو شیڈول میچ کے لیے فائنل کال دینے سے قبل سکیورٹی کا جائزہ لینے کے لیے ایک عہدیدار کو دو ہفتے قبل لاہور بھیجا جائے گا۔ سری لنکا کی ٹیم اکتوبر کے آخر میں لاہور میں مختصر طرز کا ایک میچ کھیلنے کے لئے آتی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد دنیا کا کوئی حصہ اور خطہ بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے تو کھیلوں میں تنہائی کا غم صرف پاکستان کو ہی کیوں سہنا پڑتا ہے؟
ماضی کے اوراق کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان پر عالمی کرکٹ کے دروازے 2001ء میں نائن الیون کے بعد خطے کی خراب صورتحال اور کھیل میں بھارت کے بے جا بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے بعد سے ہی بند ہونا شروع ہو گئے تھے،اس پر کاری ضرب 2002ء میں اس وقت لگی جب نیوزی لینڈ کی ٹیم دورے پر پہنچی،لاہور ٹیسٹ میں انضمام الحق کی ٹرپل سنچری21ویں صدی میں کسی بیٹسمین کی پہلی ایسی اننگز تھی، پاکستان کی بھاری مارجن سے فتح کے بعد دونوں ٹیمیں روشنیوں کے شہر کراچی پہنچی لیکن میچ کے آغاز سے چند گھنٹے قبل نیوزی لینڈ ٹیم ہوٹل کے باہر خوفناک دھماکے میں فرانسیسی انجینئرز سمیت کم از کم14افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
اس دھماکے کے بعد کیویز نے دورہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے گھر کی راہ لی۔ادھر بھارتی کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی میں مکمل اجارہ داری حاصل کر لی جس کا ذمہ دار کسی حد تک پاکستان بھی ہے لیکن 2009ء میں سری لنکن ٹیم کا دورہ ملک میں عالمی کرکٹ کے دروازے بند کرنے کا موجب بن گیا،اس بار بھی آغاز ایک ٹرپل سنچری سے ہی ہوا، یونس خان نے کراچی ٹیسٹ میں ٹرپل سنچری سکور کی،بیٹنگ کے لیے سازگار پچ پر دونوں ٹیموں کے بیٹسمینوں نے بھرپور کھیل پیش کیا جس کی وجہ سے میچ ڈرا پر ختم ہوا۔اگلے ٹیسٹ کے لیے سری لنکن ٹیم لاہور پہنچی لیکن کسے معلوم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔
ایک بار پھر میچ کے آغاز سے چند گھنٹوں پہلے سانحہ رونما ہوا جو ملک پر کرکٹ کے دروازے بندکر گیا، المیہ یہ ہواکہ جس ٹیم کو منت سماجت کر کے بلایا گیا اس کے سکیورٹی روٹ پر کوئی پولیس کی گاڑی تھی اور نہ اہلکار۔اسی سال نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کا دورہ پاکستان شیڈول تھا لیکن اس حملے کے بعد دونوں ٹیموں نے سیریز ہی منسوخ کر دی، یہی نہیں ورلڈ کپ2011کی میزبانی بھارت، سری لنکا اور بنگلا دیش کے ساتھ پاکستان کے پاس بھی تھی لیکن اس ناخوشگوار واقعے کے بعد آئی سی سی نے چار کے بجائے تین ممالک میں میچ کرانے کا فیصلہ کیا، یوں پاکستان کے حصے میں آنے والے سیمی فائنل سمیت 14میچز باقی تینوں میں بانٹ دیئے گئے۔
ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی ایک خواب بن گئی،اس دوران پاکستانی ٹیم اپنی تمام ہوم سیریز متحدہ عرب امارات میں کھیلنے پر مجبور ہوئی اور پی سی بی کو ٹی وی حقوق و اضافی اخراجات کی مد میں اربوں روپوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا تاہم دورہ زمبابوے اور کینیا کی ٹیموں کے آمد کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی بحال کی ایک امید روشن ہوئی، لاہور میں پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کے فائنل کا کامیاب انعقاد ہوا، دنیا کے سات ملکوں کے کھلاڑیوں پر مشتمل ورلڈ الیون بھی رواں ماہ تین ٹوئنٹی20 میچوں کی کامیاب سیریز کھیل چکی، ورلڈ الیون کے اس کامیاب دورے کے باوجود سری لنکن کرکٹ ٹیم کا پاکستان میں آ کر کھیلنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنا سمجھ سے بالا ہے، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ سری لنکن کرکٹ بورڈ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں نہ کھیلنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے یا کوئی خفیہ طاقت آئی لینڈرز کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی سی بی حکام کو اس سارے معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے کر مستقبل کی حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔