جہالت غربت نہ دشمن سماج پھر کیوں اعلی تعلیم یافتہ افراد دہشت گرد بن رہے ہیں
انصار الشریعہ جیسی دہشت گرد تنظیم نے نئے سوالات کو جنم دے دیا
FAISALABAD:
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملہ کرنے والے دہشت گردوں میں سے ایک کے مارے جانے اور اس کی شناخت کے بعد پولیس پر کیے جانے والے حملوں کی گتھیاں سلجھتی چلی گئیں۔
مارے جانے والے اور موقع سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کا تعلق تنظیم انصار الشریعہ پاکستان سے تھا۔ خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کے بعد فرار ہوتے ہوئے مشتعل مکینوں کے تشدد سے مارے جانے والے ایک حملہ آور حسان کی شناخت اور اس کے قبضے سے ملنے والے اسلحے نے ان تمام رازوں سے پردہ اٹھا دیا، جس کا کھوج لگانے کے لیے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) گزشتہ کئی ماہ سے کوششوں میں مصروف تھا۔ پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث دہشت گرد کہاں سے آتے اور واردات کے بعد کہاں جا کر روپوش ہو جاتے ہیں، پولیس کے انٹیلیجنس شعبے اس بات کا سراغ ہی نہیں لگا سکے تھے کیوں کہ پولیس کے تفتیشی اداروں کے لیے چھلاوا بنا ہوا دہشت گردوں کا یہ گروپ کوئی عام لڑکوں پر مشتمل نہیں تھا۔
دہشت گردی کے بارے میں عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ ایسے واقعات میں وہ افراد ملوث ہوتے ہیں جن کی مالی استطاعت انتہائی کم ہو یا وہ زندگی کے مصائب و آلام اور مشکلات کو جھیلنے میں ناکام ہوں۔ اس قسم کے افراد دہشت گرد تنظیموں کے لیے نہ صرف ترنوالہ ثابت ہوتے ہیں بلکہ وہ ان کی برین واشنگ اور بھاری رقوم کے عوض اپنی تنظیم میں شامل کر کے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں میں سے ایک دہشت گرد کے مارے جانا اور اس کی شناخت کے بعد رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تابڑ توڑ گرفتاریوں نے نہ صرف تحقیقاتی اداروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ شہریوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں جب اتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی ملوث ہو سکتے ہیں تو پھر دہشت گردی کا آخر کار خاتمہ کیسے ہوگا؟
ایم کیو ایم کے رہنما پر قاتلانہ حملے کے بعد کی جانے والی تحقیقات کے وسیع ہوتے دائرے نے پڑھے لکھے افراد بے نقاب کر دیئے، جن کے بارے میں سن کر وہم و گمان بھی نہیں ہوتا کہ ایسے افراد بھی دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ یہ افرادنہ صرف ملک کے مایہ ناز تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے بلکہ ایسے تعلیم یافتہ افراد بھی قانون کے شکنجے میں آئے جو تدریس کے شعبے سے وابستہ اور مختلف کالعدم تنظیموں سے در پردہ نہ صرف رابطے میں تھے بلکہ ان کے لیے سہولت کاری کا کام بھی انجام دیتے تھے۔
خواجہ اظہارالحسن پر حملے کے بعد فرار ہوتے ہوئے مارے جانے والا حسان الیکٹریکل انجینئر اور ایک انجینئرنگ یونیورسٹی میں ملازمت کرتا تھا جبکہ وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی تھا، حسان کی والدہ ڈاکٹر اور والد پروفیسر ہیں۔ حسان کی شناخت کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ملیر ڈویژن پولیس کی جانب سے تابڑ توڑ چھاپہ مار کارروائیوں میں ایک درجن سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا اور بعدازاں ڈیفنس کے علاقے میں واقع ایک بنگلے پر چھاپہ مار کر تنظیم انصار الشریعہ کے ترجمان اور مبینہ سربراہ شہریار عرف ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی کو حراست میں لے لیا۔ تنظیم کے ایک اور انتہائی اہم کارندے عبدالکریم سروش صدیقی کی گلزار ہجری روفی روز پیٹل میں واقع اس کی رہائش گاہ پر ایس ایس پی ملیر ڈویژن راؤ انوار کی سربراہی میں چھاپہ مارا گیا تو مقابلے کے دوران ایک پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا جبکہ عبدالکریم سروش صدیقی زخمی حالت میں ساتھیوں مزمل اور طلحہ کے ساتھ فرار ہوگیا۔ بعدازاں ایسی اطلاعات آئیں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے نے واقعہ کے چند روز بعد طلحہٰ کو ملتان سے حراست میں لے لیا ہے، تاہم اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا ہے کہ شہر میں تنظیم انصارالشریعہ پاکستان کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا ہے اور اب صرف 4 سے 5 کارندے باقی رہ گئے ہیں جبکہ بیشتر کو پکڑ لیا گیا ہے، گلزار ہجری میں پولیس مقابلے کے دوران موقع سے فرار ہونے والے عبدالکریم سروش صدیقی سے متعلق قانون نافذ کرنے والے ادارے کو اہم معلومات ملی ہیں کہ عبدالکریم سروش صدیقی بھی الیکٹریکل انجینئر تھا اور اس نے ابتدائی تعلیم نارتھ کراچی کے ایک اسکول میں حاصل کی تھی، بعدازان گلشن اقبال میں ڈگری کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انجینئرنگ کی سند حاصل کی ، اس کے گھر کی تلاشی کے دوران ایک درجن سے زائد لیپ ٹاپ، ٹیبلٹس، 20 سے زائد یو ایس بیز بھی ملیں، جن میں سے کچھ یو ایس بیز کو تعویز میں سلائی کر کے چھپایا گیا تھا، عبدالکریم کے لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرز کو ڈی کوڈ کرنے کی کوشش جاری ہیں جبکہ ملنے والی یو ایس بیز سے انتہائی اہم ڈیٹا ملنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس نے شہر کے مختلف مقامات پر چھاپہ مار کارروائیوں میں عبدالکریم سروش کے متعدد دوستوں سمیت 14مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا ہے، جن میں سے کچھ افراد مختلف یونیورسٹیز کے طالبعلم بھی بتائے جاتے ہیں۔
خواجہ اظہار پر قاتلانہ حملے کے بعد کی جانے والی چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران حراست میں لیے جانے والے تمام افراد تفتیش کے لیے تاحال کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے حوالے نہیں کیے جا سکے حالاں کہ شہر میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے تمام مقدمات کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) میں ہی درج ہیں۔ زیر حراست افراد میں تنظیم انصار الشریعہ کے ترجمان اور سربراہ ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی سمیت دیگر اہم کارندوں کی گرفتاری کے بعد یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ شہر میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں انصارالشریعہ ہی ملوث رہی جو پولیس اہلکاروں کی ہر ٹارگٹ کلنگ کے بعد نہ صرف ذمہ دار قبول کرتی تھی بلکہ واردات کے بعد دھمکی آمیز پمفلٹ بھی پھینکتی تھی۔
انصار الشریعہ پاکستان کے ترجمان اور مبینہ سربراہ ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی کی جانب سے مختلف واقعات میں 2 طرح کے پمفلٹ استعمال کیے گئے، ایک جانب تو پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد دھمکی آمیز پمفلٹ پھینکے گئے اور اس واقعہ کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی تو دوسری جانب گزشتہ ماہ 21 اگست کو سپر ہائی وے ناردرن بائی پاس سے 3 افراد کی نعشوں کے قریب سے ایک پمفلٹ ملا تھا، جس میں انصار الشریعہ پاکستان کے ترجمان ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی نے تہرے قتل کی ذمہ دار قبل کرتے ہوئے ان دہشت گردوںکو دھمکی دی تھی جو کراچی میں سکیورٹی اہلکاروں، غریب پولیس اہلکاروں اور رضاکاروں کے قتل میں ملوث تھے جبکہ پمفلٹ میں اس تہرے قتل کو پولیس اہلکاروں اور رضاکاروں کا بدلہ قرار دیتے ہوئے آئندہ بھی بدلہ لینے کی دھمکی دی گئی تھی، حالاں کہ دوسری طرف انصار الشریعہ پاکستان کے پکڑے اور مارے جانے والے دہشت گردوں سے ملنے والے اسلحے کی فارنزک لیبارٹری میں اس بات کا تعین ہوگیا کہ شہر کے مختلف علاقوں سائٹ ایریا ، نیو ٹاؤن ، عوامی کالونی ، عزیز آباد ، سائٹ سپر ہائی وے اور گلشن اقبال میں پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
دہشت گردی کے واقعات میں پڑھے لکھے نوجوانوں کے ملوث ہونے کے اس انکشاف کے بعد والدین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد پر " کڑی" نگاہ رکھتے ہوئے اپنے بچوں کے آنے جانے اور نقل و حرکت کا جائزہ لیں ، دوستوں سے ملنے یا مشترکہ پڑھائی کے نام پر وہ کہاں جاتے ہیں اور کس سے ملتے ہیں ان تمام باتوں کی معلومات رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے تاکہ مستقبل میں کوئی تعلیم یافتہ نوجوان کسی ایسے گھناؤنے فعل کا مرتکب ہو کر اپنے اہلخانہ کے لیے شرمندگی کا باعث نہ بن سکے اور جو تعلیم وہ حاصل کر رہا ہے، اس بروئے کار لاتے ہوئے ملک و قوم کی بہتری اور ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے۔
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملہ کرنے والے دہشت گردوں میں سے ایک کے مارے جانے اور اس کی شناخت کے بعد پولیس پر کیے جانے والے حملوں کی گتھیاں سلجھتی چلی گئیں۔
مارے جانے والے اور موقع سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کا تعلق تنظیم انصار الشریعہ پاکستان سے تھا۔ خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کے بعد فرار ہوتے ہوئے مشتعل مکینوں کے تشدد سے مارے جانے والے ایک حملہ آور حسان کی شناخت اور اس کے قبضے سے ملنے والے اسلحے نے ان تمام رازوں سے پردہ اٹھا دیا، جس کا کھوج لگانے کے لیے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) گزشتہ کئی ماہ سے کوششوں میں مصروف تھا۔ پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث دہشت گرد کہاں سے آتے اور واردات کے بعد کہاں جا کر روپوش ہو جاتے ہیں، پولیس کے انٹیلیجنس شعبے اس بات کا سراغ ہی نہیں لگا سکے تھے کیوں کہ پولیس کے تفتیشی اداروں کے لیے چھلاوا بنا ہوا دہشت گردوں کا یہ گروپ کوئی عام لڑکوں پر مشتمل نہیں تھا۔
دہشت گردی کے بارے میں عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ ایسے واقعات میں وہ افراد ملوث ہوتے ہیں جن کی مالی استطاعت انتہائی کم ہو یا وہ زندگی کے مصائب و آلام اور مشکلات کو جھیلنے میں ناکام ہوں۔ اس قسم کے افراد دہشت گرد تنظیموں کے لیے نہ صرف ترنوالہ ثابت ہوتے ہیں بلکہ وہ ان کی برین واشنگ اور بھاری رقوم کے عوض اپنی تنظیم میں شامل کر کے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں میں سے ایک دہشت گرد کے مارے جانا اور اس کی شناخت کے بعد رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تابڑ توڑ گرفتاریوں نے نہ صرف تحقیقاتی اداروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ شہریوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں جب اتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی ملوث ہو سکتے ہیں تو پھر دہشت گردی کا آخر کار خاتمہ کیسے ہوگا؟
ایم کیو ایم کے رہنما پر قاتلانہ حملے کے بعد کی جانے والی تحقیقات کے وسیع ہوتے دائرے نے پڑھے لکھے افراد بے نقاب کر دیئے، جن کے بارے میں سن کر وہم و گمان بھی نہیں ہوتا کہ ایسے افراد بھی دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ یہ افرادنہ صرف ملک کے مایہ ناز تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے بلکہ ایسے تعلیم یافتہ افراد بھی قانون کے شکنجے میں آئے جو تدریس کے شعبے سے وابستہ اور مختلف کالعدم تنظیموں سے در پردہ نہ صرف رابطے میں تھے بلکہ ان کے لیے سہولت کاری کا کام بھی انجام دیتے تھے۔
خواجہ اظہارالحسن پر حملے کے بعد فرار ہوتے ہوئے مارے جانے والا حسان الیکٹریکل انجینئر اور ایک انجینئرنگ یونیورسٹی میں ملازمت کرتا تھا جبکہ وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی تھا، حسان کی والدہ ڈاکٹر اور والد پروفیسر ہیں۔ حسان کی شناخت کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ملیر ڈویژن پولیس کی جانب سے تابڑ توڑ چھاپہ مار کارروائیوں میں ایک درجن سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا اور بعدازاں ڈیفنس کے علاقے میں واقع ایک بنگلے پر چھاپہ مار کر تنظیم انصار الشریعہ کے ترجمان اور مبینہ سربراہ شہریار عرف ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی کو حراست میں لے لیا۔ تنظیم کے ایک اور انتہائی اہم کارندے عبدالکریم سروش صدیقی کی گلزار ہجری روفی روز پیٹل میں واقع اس کی رہائش گاہ پر ایس ایس پی ملیر ڈویژن راؤ انوار کی سربراہی میں چھاپہ مارا گیا تو مقابلے کے دوران ایک پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا جبکہ عبدالکریم سروش صدیقی زخمی حالت میں ساتھیوں مزمل اور طلحہ کے ساتھ فرار ہوگیا۔ بعدازاں ایسی اطلاعات آئیں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے نے واقعہ کے چند روز بعد طلحہٰ کو ملتان سے حراست میں لے لیا ہے، تاہم اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا ہے کہ شہر میں تنظیم انصارالشریعہ پاکستان کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا ہے اور اب صرف 4 سے 5 کارندے باقی رہ گئے ہیں جبکہ بیشتر کو پکڑ لیا گیا ہے، گلزار ہجری میں پولیس مقابلے کے دوران موقع سے فرار ہونے والے عبدالکریم سروش صدیقی سے متعلق قانون نافذ کرنے والے ادارے کو اہم معلومات ملی ہیں کہ عبدالکریم سروش صدیقی بھی الیکٹریکل انجینئر تھا اور اس نے ابتدائی تعلیم نارتھ کراچی کے ایک اسکول میں حاصل کی تھی، بعدازان گلشن اقبال میں ڈگری کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انجینئرنگ کی سند حاصل کی ، اس کے گھر کی تلاشی کے دوران ایک درجن سے زائد لیپ ٹاپ، ٹیبلٹس، 20 سے زائد یو ایس بیز بھی ملیں، جن میں سے کچھ یو ایس بیز کو تعویز میں سلائی کر کے چھپایا گیا تھا، عبدالکریم کے لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرز کو ڈی کوڈ کرنے کی کوشش جاری ہیں جبکہ ملنے والی یو ایس بیز سے انتہائی اہم ڈیٹا ملنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس نے شہر کے مختلف مقامات پر چھاپہ مار کارروائیوں میں عبدالکریم سروش کے متعدد دوستوں سمیت 14مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا ہے، جن میں سے کچھ افراد مختلف یونیورسٹیز کے طالبعلم بھی بتائے جاتے ہیں۔
خواجہ اظہار پر قاتلانہ حملے کے بعد کی جانے والی چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران حراست میں لیے جانے والے تمام افراد تفتیش کے لیے تاحال کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے حوالے نہیں کیے جا سکے حالاں کہ شہر میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے تمام مقدمات کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) میں ہی درج ہیں۔ زیر حراست افراد میں تنظیم انصار الشریعہ کے ترجمان اور سربراہ ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی سمیت دیگر اہم کارندوں کی گرفتاری کے بعد یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ شہر میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں انصارالشریعہ ہی ملوث رہی جو پولیس اہلکاروں کی ہر ٹارگٹ کلنگ کے بعد نہ صرف ذمہ دار قبول کرتی تھی بلکہ واردات کے بعد دھمکی آمیز پمفلٹ بھی پھینکتی تھی۔
انصار الشریعہ پاکستان کے ترجمان اور مبینہ سربراہ ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی کی جانب سے مختلف واقعات میں 2 طرح کے پمفلٹ استعمال کیے گئے، ایک جانب تو پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد دھمکی آمیز پمفلٹ پھینکے گئے اور اس واقعہ کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی تو دوسری جانب گزشتہ ماہ 21 اگست کو سپر ہائی وے ناردرن بائی پاس سے 3 افراد کی نعشوں کے قریب سے ایک پمفلٹ ملا تھا، جس میں انصار الشریعہ پاکستان کے ترجمان ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی نے تہرے قتل کی ذمہ دار قبل کرتے ہوئے ان دہشت گردوںکو دھمکی دی تھی جو کراچی میں سکیورٹی اہلکاروں، غریب پولیس اہلکاروں اور رضاکاروں کے قتل میں ملوث تھے جبکہ پمفلٹ میں اس تہرے قتل کو پولیس اہلکاروں اور رضاکاروں کا بدلہ قرار دیتے ہوئے آئندہ بھی بدلہ لینے کی دھمکی دی گئی تھی، حالاں کہ دوسری طرف انصار الشریعہ پاکستان کے پکڑے اور مارے جانے والے دہشت گردوں سے ملنے والے اسلحے کی فارنزک لیبارٹری میں اس بات کا تعین ہوگیا کہ شہر کے مختلف علاقوں سائٹ ایریا ، نیو ٹاؤن ، عوامی کالونی ، عزیز آباد ، سائٹ سپر ہائی وے اور گلشن اقبال میں پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
دہشت گردی کے واقعات میں پڑھے لکھے نوجوانوں کے ملوث ہونے کے اس انکشاف کے بعد والدین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد پر " کڑی" نگاہ رکھتے ہوئے اپنے بچوں کے آنے جانے اور نقل و حرکت کا جائزہ لیں ، دوستوں سے ملنے یا مشترکہ پڑھائی کے نام پر وہ کہاں جاتے ہیں اور کس سے ملتے ہیں ان تمام باتوں کی معلومات رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے تاکہ مستقبل میں کوئی تعلیم یافتہ نوجوان کسی ایسے گھناؤنے فعل کا مرتکب ہو کر اپنے اہلخانہ کے لیے شرمندگی کا باعث نہ بن سکے اور جو تعلیم وہ حاصل کر رہا ہے، اس بروئے کار لاتے ہوئے ملک و قوم کی بہتری اور ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے۔