آئین میں حقوق برابرمگر خواتین کو فالج زدہ بنا دیا گیاسپریم کورٹ
تمام شعبوں میں خواتین سے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، غیر ریاستی عناصر دہشت پھیلانے میں مصروف ہیں
ISLAMABAD:
سپریم کورٹ نے قراردیاہے کہ خواتین کی ترقی وبہبودسے متعلق وزارت اورمحکمے کسی صورت قلیل مدتی نہیں ہوسکتے،ان کودوام حاصل ہے اور ان اداروں کے ملازمین بھی قلیل مدتی تصورنہیں کئے جاسکتے۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے جاری تحریر ی فیصلہ میں آبزرویشن دی گئی کہ دستورپاکستان میں مرداورخواتین کا فرق ختم کرتے ہوئے انھیں یکساں حقوق دیے گئے ہیں مگر بدقسمتی سے تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کیساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔وفاقی وصوبائی مقننہ میں نشستیں مخصوص ہونے کے باوجودخواتین کی تعلیمی و فنی قابلیت کے لحاظ سے آئینی حقوق دینے کے بجائے ان کیساتھ امتیازی سلوک کیا جاتاہے اسی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے غیرریاستی عناصر منظم طریقے سے دہشت پھیلانے میں مصروف ہیں اور خواتین پرتعلیم، ملازمت اورشعبہ ہائے زندگی بشمول کھیل کے میدان میں حصہ لینے کیخلاف نام نہاد جہادکررہے ہیں جوکہ آئندہ نسلوں کیلیے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ ملک کے مختلف اداروں اورمردوں نے ملک کی آدھی آبادی (خواتین)کو فالج زدہ بنا دیا ہے اور خواتین کو مردوں پر انحصارکرنے پر مجبورکردیا گیا،عدالت نے قرار دیا کہ جہاں بھی خواتین کوموقع ملاانہوں نے ذہنی پختگی کا مظاہرہ کیاہے۔ عدالت نے یہ آبزرویشن پختونخوا میں ویمن کرائسس سینٹرزبند کرنے کیخلاف پشاورہائیکورٹ کے فیصلہ پراپیل کا تحریری فیصلہ سناتے ہوئے دی ہے۔
عدالت نے پشاورہائیکورٹ کافیصلہ برقراررکھتے ہوئے خیبر پختونخواکے چارویمن کرائسز سینٹرز کھولنے کاحکم دیدیاہے۔6 صفحات پرمشتمل فیصلہ جسٹس دوست محمدخان نے تحریرکیاہے۔ عدالت نے قراردیاہے کہ خیبرپختونخوامیں حکام نے ایک جنبش قلم سے خواتین ملازمین کو فارغ کردیاجبکہ دیگرصوبوں نے اس قسم کے ملازمین کی ملازمتوں کودوام بخشاہے،عدالت نے فیصلہ میں کہاہے کہ پاکستان نے بطورریاست اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے خودکوپابندبنایاہے کہ خواتین کیخلاف جرائم اورامتیازی سلوک مکمل طور پرختم کیاجائیگا اوران کوتعلیم، ملازمت اور زندگی کے ہر شعبہ میں موثر نمائندگی دی جائیگی۔ عدالت عظمیٰ نے قراردیا ہے کہ پشاورہائیکورٹ کے فیصلہ میں کوئی سقم نہیں ہے اس لیے صوبائی حکومت کی اپیل خارج کی جاتی ہے۔ یادرہے کہ کے پی حکومت نے 2010 میں چاروں ویمن کرائسز سینٹرز بندکرکے8 سال سے کام کرنیوالی 40 خواتین ملازمین کو نوکری سے نکال دیاتھااورپشاورہائیکورٹ نے ان سینٹرزکوبحال کرنیکاحکم دیاتھاجس کیخلاف کے پی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی۔
سپریم کورٹ نے قراردیاہے کہ خواتین کی ترقی وبہبودسے متعلق وزارت اورمحکمے کسی صورت قلیل مدتی نہیں ہوسکتے،ان کودوام حاصل ہے اور ان اداروں کے ملازمین بھی قلیل مدتی تصورنہیں کئے جاسکتے۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے جاری تحریر ی فیصلہ میں آبزرویشن دی گئی کہ دستورپاکستان میں مرداورخواتین کا فرق ختم کرتے ہوئے انھیں یکساں حقوق دیے گئے ہیں مگر بدقسمتی سے تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کیساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔وفاقی وصوبائی مقننہ میں نشستیں مخصوص ہونے کے باوجودخواتین کی تعلیمی و فنی قابلیت کے لحاظ سے آئینی حقوق دینے کے بجائے ان کیساتھ امتیازی سلوک کیا جاتاہے اسی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے غیرریاستی عناصر منظم طریقے سے دہشت پھیلانے میں مصروف ہیں اور خواتین پرتعلیم، ملازمت اورشعبہ ہائے زندگی بشمول کھیل کے میدان میں حصہ لینے کیخلاف نام نہاد جہادکررہے ہیں جوکہ آئندہ نسلوں کیلیے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ ملک کے مختلف اداروں اورمردوں نے ملک کی آدھی آبادی (خواتین)کو فالج زدہ بنا دیا ہے اور خواتین کو مردوں پر انحصارکرنے پر مجبورکردیا گیا،عدالت نے قرار دیا کہ جہاں بھی خواتین کوموقع ملاانہوں نے ذہنی پختگی کا مظاہرہ کیاہے۔ عدالت نے یہ آبزرویشن پختونخوا میں ویمن کرائسس سینٹرزبند کرنے کیخلاف پشاورہائیکورٹ کے فیصلہ پراپیل کا تحریری فیصلہ سناتے ہوئے دی ہے۔
عدالت نے پشاورہائیکورٹ کافیصلہ برقراررکھتے ہوئے خیبر پختونخواکے چارویمن کرائسز سینٹرز کھولنے کاحکم دیدیاہے۔6 صفحات پرمشتمل فیصلہ جسٹس دوست محمدخان نے تحریرکیاہے۔ عدالت نے قراردیاہے کہ خیبرپختونخوامیں حکام نے ایک جنبش قلم سے خواتین ملازمین کو فارغ کردیاجبکہ دیگرصوبوں نے اس قسم کے ملازمین کی ملازمتوں کودوام بخشاہے،عدالت نے فیصلہ میں کہاہے کہ پاکستان نے بطورریاست اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے خودکوپابندبنایاہے کہ خواتین کیخلاف جرائم اورامتیازی سلوک مکمل طور پرختم کیاجائیگا اوران کوتعلیم، ملازمت اور زندگی کے ہر شعبہ میں موثر نمائندگی دی جائیگی۔ عدالت عظمیٰ نے قراردیا ہے کہ پشاورہائیکورٹ کے فیصلہ میں کوئی سقم نہیں ہے اس لیے صوبائی حکومت کی اپیل خارج کی جاتی ہے۔ یادرہے کہ کے پی حکومت نے 2010 میں چاروں ویمن کرائسز سینٹرز بندکرکے8 سال سے کام کرنیوالی 40 خواتین ملازمین کو نوکری سے نکال دیاتھااورپشاورہائیکورٹ نے ان سینٹرزکوبحال کرنیکاحکم دیاتھاجس کیخلاف کے پی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی۔