انور احسن صدیقی اور ڈاکٹر طاہرہ نیّر
ان میں انکساری و سادگی کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور یہی اعلیٰ اوصاف انسان کی شخصیت میں چار چاند لگادیتے ہیں
KARACHI:
السلام علیکم! آپ انور احسن صدیقی ہیں نا، میں آپ کے کالم شوق سے پڑھتی ہوں، خاص کر وہ کالم تو مجھے بہت ہی اچھا لگا تھا جس میں آپ نے آموں کا ذکر بچّوں کے کھیل اور دلچسپی کے حوالے سے کیا تھا۔
آم والے آم دو۔ آم ہے سرکار کا، ہم بھی ہیں دربار کے، جا ایک آم لے جا، میری امّی بھی بچپن میں ہمیں ایسے ہی کھیل کھلا کر بہلایا کرتی تھیں۔ آپ نے فرخ آباد کا ذکر کیا تھا نا، تو امّی بھی فرخ آباد کی ہیں۔
ارے آپ نے مجھے پہچانا؟ ہاں غور کررہا ہوں، انھوں نے مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ میں نے نام بتایا۔ تو بولے بالکل بالکل۔ ذہن میں آپ کا نام یاد نہیں آرہا تھا۔ لیکن میں نے تو آپ کو آپ کی تصویر سے پہچانا ہے۔ شاید میں نے غور نہیں کیا۔ وہ پھر مسکرائے۔
انور احسن صدیقی سے یہ میری پہلی ملاقات پریس کلب میں ہوئی تھی۔ پھر کسی نہ کسی حوالے سے خلوص، عزت و احترام، شفقت و محبت کا رشتہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ کئی بار ان کے گھر بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ جس قدر بااخلاق اور مہذب وہ تھے، بالکل انھی جیسی عادت و خصلت کی مالک ان کی بیگم ہیں۔ بے حد خوش مزاج، انھی کی طرح نرم لہجے میں گفتگو کرنے والی۔
پچھلے سال عید کے موقعے پر انھوں نے بے حد محبت کے ساتھ اپنے نئے گھر میں مدعو کیا تھا اور میں بھی جب ہی سے سوچ رہی تھی کہ جب ان کا نیا گھر تعمیر ہوا تھا، انھوں نے بڑی محبت اور قدردانی کے ساتھ اپنی اہلیہ کے بارے میں کہا تھا کہ نقشہ انھوں نے ہی بنایا ہے۔ تو کیا وہ آرکیٹکٹ ہیں، انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔
ان کا گھر صفورا گوٹھ کے قریب ہے۔ عید کا غالباً دوسرا یا تیسرا روز تھا، جب میں اپنی صاحبزادی کے ساتھ ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوئی، اس سے قبل ان کے ''کے ڈی اے'' کے فلیٹ پر بھی جاچکی تھی۔ عید کی مناسبت اور حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے ہم نے بہت دیر باتیں کیں اور عید کے خاص پکوان و لوازمات سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے۔
لیکن اس سال انور احسن صدیقی ہم سب کو چھوڑ کر دور بہت دور چلے گئے ہیں۔ ان کی یاد، ان کی باتیں بھلائے نہیں بھولتیں۔ اکثر فرخ آباد اور اپنے اور میرے ننھیال کے حوالے سے گفتگو ہوتی۔ جب میں اپنی کتاب ''نرک'' لے کر گئی۔ کتاب پر درج شعر کو دیکھ کر بولے یہ مصرعہ آگے پیچھے ہوگیا ہے۔
میں نے اس غلطی کی وضاحت کی تو انھوں نے کہا کہ ایسی غلطیاں کمپوزنگ کے دوران اکثر ہوجاتی ہیں لیکن (بھیا) بھائی صاحب (ڈاکٹر اسلم فرخی) کو اس طرح کتاب نہیں دیں، میں وائٹو لگادیتا ہوں، وہ وائٹو کی بوتل اٹھالائے، انھوں نے خود 8-10 کتابوں پر وائٹو لگایا اور مجھ سے شعر درست کروایا پھر فکشن گروپ کی طرف سے ایک تقریب اجرا ہوئی۔
تب صدارت کی ذمے داری انھوں نے سنبھالی اور بہت اچھا مضمون پڑھا جو ہندوستان کے پرچے میں چھپ چکا ہے۔ وہ میرے مدعو کرنے پر آرٹس کونسل میں میری کتاب کی تقریبِ تعارف کے موقعے پر تشریف لائے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ بڑے خلوص سے ملتے اور میں بھی ان کی بے حد قدر اور عزت کرتی۔
عالم، فاضل، قابل اور مخلص لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ وہ سالہا سال سے ایک کثیر الاشاعت جریدے میں قسط وار ناول لکھا کرتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ ان کی تحریر کے بغیر رسالہ مکمل نظر نہیں آئے گا۔ ایکسپریس میں اس وقت ہی سے کالم ''حکایتِ خونچکاں'' کے عنوان سے لکھ رہے تھے، جب ایکسپریس کا ظہور ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔
وہ معاشرتی حقایق کی عکاسی نہایت دیانت داری اور سچّائی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ ان کے ناولوں میں بھی یہ خوبی نمایاں ہے۔ ان کے 8 ناول شایع ہوچکے ہیں۔ ''جلتی چھائوں'' کی کہانی انھوں نے بارہا سنائی اور اس طبقے پر دکھ کا اظہار کیا جو غربت میں پل کر جوان ہوتے ہیں اور دولت پانے کے بعد اپنی ہی دنیا اور اپنے ماضی کو فراموش کردیتے ہیں۔
اسی طرح ''قفس'' کی کہانی بھی معاشرتی تلخ حقایق کی عکاسی کرتی ہے کہ ہمارے ملک میں کس طرح بچیوں اور عورتوں کی خرید و فروخت جاری ہے اور اس مکروہ کاروبار کو کوئی روکنے والا نہیں۔ میں نے ''قفس'' کو اپنے کالم میں بھی شامل کیا تھا۔ وہ کینسر جیسی بیماری کے دوران بھی لکھتے رہے۔ ان کے کالم آخری وقت تک ایکسپریس کے ایڈیٹوریل صفحے کی زینت بنتے رہے۔ یقیناً وہ باہمت انسان تھے۔ وہ ڈاکٹر اسلم فرخی کے چھوٹے بھائی تھے۔
اپنے بہن بھائیوں کی محبت و اتفاق کے واقعات اکثر سناتے تھے۔ مجھ سے اکثر پوچھتے کہ (فرخ آباد) اپنے ننھیال میں کسی کے نام یاد ہیں تو بتائیے گا۔ کچھ نام میں نے بتائے، والدہ حیات ہوتیں تو شاید کسی سے کوئی شناسائی نکل آتی۔ ان کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ انھوں نے ''لوح و قلم'' نکالا اور سوویت یونین سے نکلنے والے پرچے ''طلوع'' کی ادارت بھی کرتے رہے۔
انور احسن صدیقی بے حد قناعت پسند، صابر وشاکر انسان تھے۔ میں بروقت نہ پہنچنے کی وجہ سے انھیں الوداع نہ کہہ سکی۔ جب پہنچی تو انھیں قبر کی آغوش سنبھالے دو دن گزر گئے تھے۔ ان کی تعزیت اور ان کی موت کے اسباب جاننے کے لیے آغا مسعود حسین نے نہ صرف فون کیا بلکہ خراجِ عقیدت بھی پیش کیا کہ انور احسن صدیقی سے ان کی سالہا سال کی رفاقت تھی۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انھیں جنّت کے باغوں میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل دے۔ (آمین)
ڈاکٹر طاہرہ نگہت جو بعد میں طاہرہ نیّر بنیں، انھیں میں اور وہ مجھے اس وقت سے جانتی تھی جب میرا اور میری ہمشیرہ ناہید فہیم (مصورہ) کا طالب علمی کا زمانہ تھا اور لکھنے کا شوق مجھ سے افسانے لکھوانے پر مجبور کررہا تھا۔ طاہرہ نگہت بے حد نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ میں جب بھی یونیورسٹی جاتی ان سے ضرور ملاقات کرتی کہ وہ اسی قابل تھیں، عزت کرنے اور کرانے والی۔
ان میں انکساری و سادگی کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور یہی اعلیٰ اوصاف انسان کی شخصیت میں چار چاند لگادیتے ہیں۔ حقیقتاً ان کی شخصیت میں ان کے اوصافِ حمیدہ کا اجالا بھی شامل تھا۔ طاہرہ نگہت اس وقت رشتۂ ازدواج میں مرحوم نیّر ندیم کے ساتھ منسلک ہوئیں جب وہ نیپال جارہی تھیں۔
ابھی نیپال میں وہ اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کے جوہر دکھا ہی رہی تھی کہ ان کے شوہر نیّر ندیم کا حرکتِ قلب بند ہوجانے کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ تنہا خاتون، دوسرا ملک، شوہر کی اچانک وفات، کیا گزری ہوگی ان پر؟ لیکن زندگی کی حقیقتوں کا سامنا ڈاکٹر طاہرہ نیّر جیسے لوگ بڑی ہمت اور اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس سانحے کے بعد بھی وہ کام کرتی رہیں۔ اسی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں ان کی کئی کتابیں اور تراجم منظرِعام پر آئے، ''دھوم دھام کی گھوم'' بچّوں کی کہانیوں کی کتاب ہے۔ ''غم'' ترجمہ ''تین مورتی'' کا نیپالی زبان سے اردو زبان میں، ''انکار کیسے ممکن تھا'' شاعری کا مجموعہ ہے۔ صدیق سالک کے ناول ''پریشر ککر'' کا ترجمہ نیپالی زبان میں کیا۔ طاہرہ نیّر بے حد باصلاحیت خاتون تھیں۔
نیپال میں رہتے ہوئے انھیں نیپالی زبان پر مکمل طور پر عبور حاصل ہوگیا تھا۔ واضح رہے نیپالی حکومت کی دعوت پر وہ کراچی یونیورسٹی کی طرف سے نیپال گئی تھیں اور کئی سال تک انھوں نے علم و ادب کے حوالے سے خدمات انجام دیں۔ ان کے کاموں اور کارناموں پر نیپال حکومت نے اعزازات و اکرام سے نوازا۔ یقیناً یہ ان کے لیے بے حد خوشی کی بات تھی۔ طاہرہ نیّر کا انتقال بھی ہارٹ اٹیک کے باعث ہوا۔ وہ غالباً دس روز تک اسپتال میں داخل رہیں۔ آخرکار زندگی کی بازی ہاردی اور اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ اﷲ تعالیٰ مرنے والوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو معاف فرمائے۔ (آمین)
السلام علیکم! آپ انور احسن صدیقی ہیں نا، میں آپ کے کالم شوق سے پڑھتی ہوں، خاص کر وہ کالم تو مجھے بہت ہی اچھا لگا تھا جس میں آپ نے آموں کا ذکر بچّوں کے کھیل اور دلچسپی کے حوالے سے کیا تھا۔
آم والے آم دو۔ آم ہے سرکار کا، ہم بھی ہیں دربار کے، جا ایک آم لے جا، میری امّی بھی بچپن میں ہمیں ایسے ہی کھیل کھلا کر بہلایا کرتی تھیں۔ آپ نے فرخ آباد کا ذکر کیا تھا نا، تو امّی بھی فرخ آباد کی ہیں۔
ارے آپ نے مجھے پہچانا؟ ہاں غور کررہا ہوں، انھوں نے مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ میں نے نام بتایا۔ تو بولے بالکل بالکل۔ ذہن میں آپ کا نام یاد نہیں آرہا تھا۔ لیکن میں نے تو آپ کو آپ کی تصویر سے پہچانا ہے۔ شاید میں نے غور نہیں کیا۔ وہ پھر مسکرائے۔
انور احسن صدیقی سے یہ میری پہلی ملاقات پریس کلب میں ہوئی تھی۔ پھر کسی نہ کسی حوالے سے خلوص، عزت و احترام، شفقت و محبت کا رشتہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ کئی بار ان کے گھر بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ جس قدر بااخلاق اور مہذب وہ تھے، بالکل انھی جیسی عادت و خصلت کی مالک ان کی بیگم ہیں۔ بے حد خوش مزاج، انھی کی طرح نرم لہجے میں گفتگو کرنے والی۔
پچھلے سال عید کے موقعے پر انھوں نے بے حد محبت کے ساتھ اپنے نئے گھر میں مدعو کیا تھا اور میں بھی جب ہی سے سوچ رہی تھی کہ جب ان کا نیا گھر تعمیر ہوا تھا، انھوں نے بڑی محبت اور قدردانی کے ساتھ اپنی اہلیہ کے بارے میں کہا تھا کہ نقشہ انھوں نے ہی بنایا ہے۔ تو کیا وہ آرکیٹکٹ ہیں، انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔
ان کا گھر صفورا گوٹھ کے قریب ہے۔ عید کا غالباً دوسرا یا تیسرا روز تھا، جب میں اپنی صاحبزادی کے ساتھ ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوئی، اس سے قبل ان کے ''کے ڈی اے'' کے فلیٹ پر بھی جاچکی تھی۔ عید کی مناسبت اور حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے ہم نے بہت دیر باتیں کیں اور عید کے خاص پکوان و لوازمات سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے۔
لیکن اس سال انور احسن صدیقی ہم سب کو چھوڑ کر دور بہت دور چلے گئے ہیں۔ ان کی یاد، ان کی باتیں بھلائے نہیں بھولتیں۔ اکثر فرخ آباد اور اپنے اور میرے ننھیال کے حوالے سے گفتگو ہوتی۔ جب میں اپنی کتاب ''نرک'' لے کر گئی۔ کتاب پر درج شعر کو دیکھ کر بولے یہ مصرعہ آگے پیچھے ہوگیا ہے۔
میں نے اس غلطی کی وضاحت کی تو انھوں نے کہا کہ ایسی غلطیاں کمپوزنگ کے دوران اکثر ہوجاتی ہیں لیکن (بھیا) بھائی صاحب (ڈاکٹر اسلم فرخی) کو اس طرح کتاب نہیں دیں، میں وائٹو لگادیتا ہوں، وہ وائٹو کی بوتل اٹھالائے، انھوں نے خود 8-10 کتابوں پر وائٹو لگایا اور مجھ سے شعر درست کروایا پھر فکشن گروپ کی طرف سے ایک تقریب اجرا ہوئی۔
تب صدارت کی ذمے داری انھوں نے سنبھالی اور بہت اچھا مضمون پڑھا جو ہندوستان کے پرچے میں چھپ چکا ہے۔ وہ میرے مدعو کرنے پر آرٹس کونسل میں میری کتاب کی تقریبِ تعارف کے موقعے پر تشریف لائے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ بڑے خلوص سے ملتے اور میں بھی ان کی بے حد قدر اور عزت کرتی۔
عالم، فاضل، قابل اور مخلص لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ وہ سالہا سال سے ایک کثیر الاشاعت جریدے میں قسط وار ناول لکھا کرتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ ان کی تحریر کے بغیر رسالہ مکمل نظر نہیں آئے گا۔ ایکسپریس میں اس وقت ہی سے کالم ''حکایتِ خونچکاں'' کے عنوان سے لکھ رہے تھے، جب ایکسپریس کا ظہور ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔
وہ معاشرتی حقایق کی عکاسی نہایت دیانت داری اور سچّائی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ ان کے ناولوں میں بھی یہ خوبی نمایاں ہے۔ ان کے 8 ناول شایع ہوچکے ہیں۔ ''جلتی چھائوں'' کی کہانی انھوں نے بارہا سنائی اور اس طبقے پر دکھ کا اظہار کیا جو غربت میں پل کر جوان ہوتے ہیں اور دولت پانے کے بعد اپنی ہی دنیا اور اپنے ماضی کو فراموش کردیتے ہیں۔
اسی طرح ''قفس'' کی کہانی بھی معاشرتی تلخ حقایق کی عکاسی کرتی ہے کہ ہمارے ملک میں کس طرح بچیوں اور عورتوں کی خرید و فروخت جاری ہے اور اس مکروہ کاروبار کو کوئی روکنے والا نہیں۔ میں نے ''قفس'' کو اپنے کالم میں بھی شامل کیا تھا۔ وہ کینسر جیسی بیماری کے دوران بھی لکھتے رہے۔ ان کے کالم آخری وقت تک ایکسپریس کے ایڈیٹوریل صفحے کی زینت بنتے رہے۔ یقیناً وہ باہمت انسان تھے۔ وہ ڈاکٹر اسلم فرخی کے چھوٹے بھائی تھے۔
اپنے بہن بھائیوں کی محبت و اتفاق کے واقعات اکثر سناتے تھے۔ مجھ سے اکثر پوچھتے کہ (فرخ آباد) اپنے ننھیال میں کسی کے نام یاد ہیں تو بتائیے گا۔ کچھ نام میں نے بتائے، والدہ حیات ہوتیں تو شاید کسی سے کوئی شناسائی نکل آتی۔ ان کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ انھوں نے ''لوح و قلم'' نکالا اور سوویت یونین سے نکلنے والے پرچے ''طلوع'' کی ادارت بھی کرتے رہے۔
انور احسن صدیقی بے حد قناعت پسند، صابر وشاکر انسان تھے۔ میں بروقت نہ پہنچنے کی وجہ سے انھیں الوداع نہ کہہ سکی۔ جب پہنچی تو انھیں قبر کی آغوش سنبھالے دو دن گزر گئے تھے۔ ان کی تعزیت اور ان کی موت کے اسباب جاننے کے لیے آغا مسعود حسین نے نہ صرف فون کیا بلکہ خراجِ عقیدت بھی پیش کیا کہ انور احسن صدیقی سے ان کی سالہا سال کی رفاقت تھی۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انھیں جنّت کے باغوں میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل دے۔ (آمین)
ڈاکٹر طاہرہ نگہت جو بعد میں طاہرہ نیّر بنیں، انھیں میں اور وہ مجھے اس وقت سے جانتی تھی جب میرا اور میری ہمشیرہ ناہید فہیم (مصورہ) کا طالب علمی کا زمانہ تھا اور لکھنے کا شوق مجھ سے افسانے لکھوانے پر مجبور کررہا تھا۔ طاہرہ نگہت بے حد نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ میں جب بھی یونیورسٹی جاتی ان سے ضرور ملاقات کرتی کہ وہ اسی قابل تھیں، عزت کرنے اور کرانے والی۔
ان میں انکساری و سادگی کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور یہی اعلیٰ اوصاف انسان کی شخصیت میں چار چاند لگادیتے ہیں۔ حقیقتاً ان کی شخصیت میں ان کے اوصافِ حمیدہ کا اجالا بھی شامل تھا۔ طاہرہ نگہت اس وقت رشتۂ ازدواج میں مرحوم نیّر ندیم کے ساتھ منسلک ہوئیں جب وہ نیپال جارہی تھیں۔
ابھی نیپال میں وہ اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کے جوہر دکھا ہی رہی تھی کہ ان کے شوہر نیّر ندیم کا حرکتِ قلب بند ہوجانے کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ تنہا خاتون، دوسرا ملک، شوہر کی اچانک وفات، کیا گزری ہوگی ان پر؟ لیکن زندگی کی حقیقتوں کا سامنا ڈاکٹر طاہرہ نیّر جیسے لوگ بڑی ہمت اور اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس سانحے کے بعد بھی وہ کام کرتی رہیں۔ اسی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں ان کی کئی کتابیں اور تراجم منظرِعام پر آئے، ''دھوم دھام کی گھوم'' بچّوں کی کہانیوں کی کتاب ہے۔ ''غم'' ترجمہ ''تین مورتی'' کا نیپالی زبان سے اردو زبان میں، ''انکار کیسے ممکن تھا'' شاعری کا مجموعہ ہے۔ صدیق سالک کے ناول ''پریشر ککر'' کا ترجمہ نیپالی زبان میں کیا۔ طاہرہ نیّر بے حد باصلاحیت خاتون تھیں۔
نیپال میں رہتے ہوئے انھیں نیپالی زبان پر مکمل طور پر عبور حاصل ہوگیا تھا۔ واضح رہے نیپالی حکومت کی دعوت پر وہ کراچی یونیورسٹی کی طرف سے نیپال گئی تھیں اور کئی سال تک انھوں نے علم و ادب کے حوالے سے خدمات انجام دیں۔ ان کے کاموں اور کارناموں پر نیپال حکومت نے اعزازات و اکرام سے نوازا۔ یقیناً یہ ان کے لیے بے حد خوشی کی بات تھی۔ طاہرہ نیّر کا انتقال بھی ہارٹ اٹیک کے باعث ہوا۔ وہ غالباً دس روز تک اسپتال میں داخل رہیں۔ آخرکار زندگی کی بازی ہاردی اور اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ اﷲ تعالیٰ مرنے والوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو معاف فرمائے۔ (آمین)