انوکھے بیوپاری
بڑے سیاست دانوں اور وڈیروں کے نام سے جعلی فون کیے جاتے ہیں اور بڑی بڑی رقمیں بٹوری جاتی ہیں
KARACHI:
میں اپنے موبائل فون پر انجان نمبروں سے آئی ہوئی فون کالز سننے سے گریز کرتا ہوں۔ لیکن اس روز شاید میری مت ماری گئی تھی کہ میں نے بات کرلی۔ صبح کا وقت تھا اور ایک ہی نمبر سے بار بار فون آرہا تھا۔ دوسری طرف ماتحت قسم کے سرکاری لہجے میں ایک صاحب بول رہے تھے ''سائیں میں فلاں بڑے صاحب کا پی اے بول رہا ہوں۔ آپ انھیں جانتے تو ہوں گے۔
وہ اس وقت مرکز میں وزیر ہیں۔ آپ کے بڑے مداح ہیں اور حال احوال پوچھنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو ان کا نمبر دیتا ہوں۔ سائیں ذرا ان سے بات تو کرلیں۔''آج کی صحافت میں اتنا دم ہے کہ میرے جیسا پھٹیچر کالم نگار جو تیس برس کی پرہنگام صحافتی تپسّیا کے بعد بھی کسی اخبار کے کونے کھدرے میں پڑا رہتا ہے، وہ بھی خود کو پھنّے خان سمجھنے لگتا ہے۔
سوچا کہ شاید مجھ سے کوئی صحافتی کام ہوگا۔ لیکن اگر کام انھیں ہے تو فون میں کیوں کروں؟ میں اکڑ گیا۔ کہا ''دیکھیں انھیں میرا وعلیکم سلام بولو اور اگر کوئی بات کرنی ہے تو وہ خود فون کرلیں۔''
وہ تھوڑی دیر مجھے راضی کرتا رہا کہ کیا حرج ہے، اگر آپ فون کرلیں گے۔ وہ اس وقت بھی لوگوں میں گِھرے ہوئے ہیں اور مصروف ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس دوران میرا دماغ تیزی سے گھوم رہا تھا اور ان وجوہات کی فہرست بنارہا تھا جن کی بِنا پر بڑے صاحب مجھ سے بات کرسکتے تھے۔ آخر میں نے دوٹوک لہجے میں اسے بتا دیا کہ مجھے تمہارے صاحب سے فی الحال کوئی کام نہیں ہے۔
انھیں کام ہے تو فون کرلیں۔ خدا حافظ۔ یہ کہہ کر میں نے اس معاملے سے جان چھڑالی۔ مجھے یقین تھا کہ اب کوئی فون نہیں آئے گا۔ٹھیک دس منٹ کے بعد فون میں پھر ایک سرسراہٹ ہوئی اورگھنٹی گنگنانے لگی۔ میں نے نمبر دیکھا تو وہ ایک ایسا خاص قسم کا گولڈن نمبر تھا جو کسی وی وی آئی پی کے پاس ہی ہوسکتا ہے۔
موصوف کی آواز خاصی بھاری بھر کم اور لہجہ کسی پتھر کی طرح بے لچک تھا۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید ہمارے کسی وزیر کا فون آگیا ہے۔ لیکن نہیں، وہ ایک اور صاحب تھے۔ انھوں نے انتہائی شستہ انداز میں گفتگو شروع کی۔ کاروباری حالات پر کچھ روشنی ڈالی اور پھر میرے خدشات کے عین مطابق اپنے مختلف تعمیری اور فلاحی کاموں کا ذکر شروع کردیا۔ ''میں نے اور میری پارٹی نے اتنے تیر چلائے ہیں اور اتنی توپیں داغی ہیں۔
بیوائوں، یتیموں اور ناداروں کے لیے فلاں فلاں منصوبے فلاں فلاں مرحلے میں ہیں۔'' وغیرہ وغیرہ۔ اب میں اچھی طرح جان گیا تھا کہ ان حضرت کا میرے صحافتی کردار سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اب یہ مجھ سے کچھ رقم اینٹھنے کی بات کریں گے۔کوئی دو سال پہلے بھی میرے ساتھ ایک ایسی ہی واردات کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس وقت ایک بڑے وڈیرے اور پیر صاحب نے مجھ سے کلام کیا تھا اور فرمایا تھا کہ دو دن کے بعد ان کی زیر صدارت فلاں جگہ پر ایک جلسہ ہوگا جس میں بیوائوں میں سلائی مشینیں تقسیم کی جائیں گی۔
اسٹیج پر مجھے بھی جگہ دی جائے گی کیونکہ کچھ سلائی مشینوں کا حصّہ مجھ سے بھی ڈلوایا جائے گا۔ بھتہ وصول کرنے کے اس اسٹائل میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس میں دھمکی دی جاتی ہے کہ دیکھیں بابا اگر آپ تعاون نہیں کریں گے تو ہمارے جو نوجوان یہ فلاحی کام کررہے ہیں وہ خواہ مخواہ آپ کو تنگ کریں گے اور دفتر میں توڑ پھوڑ کریں گے۔
یہ سب ڈرامہ جعلی ہوتا ہے۔ بڑے سیاست دانوں اور وڈیروں کے نام سے جعلی فون کیے جاتے ہیں اور بڑی بڑی رقمیں بٹوری جاتی ہیں۔ یہ فون بھی جعلی تھا۔ مجھے شروع سے ہی شک تھا کہ یہ تو ان وزیر صاحب کی آواز نہیں ہے۔
پھر بھی میں کچھ کریدنے کی جستجو میں گفتگو کو طول دیتا گیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ کہہ کے فون بند کردیا ''... سائیں میں آپ سے کون سے کوئی لاکھوں روپے مانگ رہا ہوں۔ اب آپ ہمیں یہ بھی نہ سمجھائو کہ فلاحی کام کیسے کیے جاتے ہیں۔ آپ فون رکھو۔ ہمیں اپنا کام کرنا آتا ہے۔''
میں بہت بہادر بنتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ یہ جعلساز لوگ ہیں۔ لیکن سچّی بات یہ ہے کہ دونوں بار میرے چھکّے چھوٹ گئے تھے۔ میں نے اپنے کاروباری دفتر میں سیکیورٹی کے انتظامات دوگنا کردیے تھے اور خود کچھ دنوں کے لیے زیرِ زمین چلا گیا تھا۔ ملک چھوڑ کے جانے کے تصور پر میں لعنت بھیجتا ہوں لیکن زمین دوزی کے ان دنوں میں غیر ملکی ویزے حاصل کرنے کے بارے میں، میں نے اتنی معلومات جمع کر ڈالیں کہ آج اگر میں ملک سے فرار ہونے میں معاونت کرنے والا کوئی ادارہ کھول لوں تو تیزی سے امیر ہوسکتا ہوں۔
یہاں بھتہ مافیا کے اتنے روپ ہیں اور اتنی نفری ہے کہ اس کی گزر بسر کے لیے کراچی شہر چھوٹا پڑ گیا ہے۔ پہلے علاقے بٹے ہوئے تھے۔ حدود مقرر تھیں کہ فلاں علاقے میں فلاں گروہ کارروائی کرے گا اور دوسرا اس میں پنگا نہیں لے گا۔ اب ایک ہی علاقے کے کئی دعوے دار پیدا ہوگئے ہیں۔ کہیں علاقے پر مکمل قبضہ کرنے کی خونی جنگ ٹھکی ہے تو کہیں اپنا علاقہ بچانے کا جدل لگا ہے۔
بعض علاقوں میں خفیہ مفاہمت ہوچکی ہے۔ وہاں بھتہ خور باریاں لگاتے ہیں۔ پہلے دادا گیروں کا پھیرا تھا، اب پیدا گیر اور اٹھائی گیر بھی آن ٹپکتے ہیں۔ جہاں بس چلے وہاں کٹھ ملاّ بھی تبرکاً اپنا دائو لگالیتا ہے۔
پرانے کراچی میں لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے تین 'داماد' ہیں۔ تینوں بہت لالچی ہیں اور دن بہ دن منہ پھٹ ہوتے جارہے ہیں۔ پہلے آنے بہانے مانگتے تھے۔ پھر منہ کھول کے مانگنے لگے۔ اب چاقو کھول کے مانگتے ہیں۔دستی بم مارتے ہیں۔
میں ایک روز دفتر میں شور سن کے کمرے سے باہر آیا تو دیکھا کہ اسٹاف دو اجنبیوں سے جھگڑ رہا ہے۔ پتا چلا کہ پہلے وہ دونوں نیاز کی حلیم کے لیے چندہ لینے آیا کرتے تھے، اب زیادہ رقم طلب کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا پیر مرگیا ہے، اس کا عرس بھی کرنا ہے۔ جھگڑا یوں ہوا کہ مطلوبہ رقم نہ ملنے پر ان میں سے ایک نے مصطفیٰ قریشی کے اسٹائل میں دھمکی دی تھی۔ ''توں تے سانوں نراض کرریا ایں سوہنیا۔''
آپ اسے بھتہ وصول کرنے کا ایک نسبتاً شریفانہ طریقہ کہہ لیں۔ ایسا ہی ایک بھتہ ماہِ رمضان میں فطرے کی رسیدیں تقسیم کرکے بھی وصول کیا جاتا ہے۔ یہ کام گھروں میں رسیدیں تقسیم کرکے بھی کیا جاتا ہے اور دفاتر میں وزٹ کرکے بھی۔ دو تین صاحبان تشریف لاتے ہیں۔ آپ کے سلسلے والی کرسیوں پر براجمان ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں،
اپنے پارٹی عہدوں کا تعارف کراتے ہیں، ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور اس کے بعد فطرے کی رسیدوں کی پوری کتاب آپ کے حوالے کرکے آپ کو ثوابِ دارین پہنچادیتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ رسیدیں میں نے بھی سنبھال کے رکھی ہوئی ہیں۔ ان کی پشت پر عہدے داروں کے نام اور تاریخِ ملاقات بھی درج کردی ہے۔ میں اس اچھے وقت کے انتظار میں ہوں جب زبردستی کا یہ ثواب لوٹا کے اپنی رقم واپس لے سکوں۔
میں اپنے موبائل فون پر انجان نمبروں سے آئی ہوئی فون کالز سننے سے گریز کرتا ہوں۔ لیکن اس روز شاید میری مت ماری گئی تھی کہ میں نے بات کرلی۔ صبح کا وقت تھا اور ایک ہی نمبر سے بار بار فون آرہا تھا۔ دوسری طرف ماتحت قسم کے سرکاری لہجے میں ایک صاحب بول رہے تھے ''سائیں میں فلاں بڑے صاحب کا پی اے بول رہا ہوں۔ آپ انھیں جانتے تو ہوں گے۔
وہ اس وقت مرکز میں وزیر ہیں۔ آپ کے بڑے مداح ہیں اور حال احوال پوچھنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو ان کا نمبر دیتا ہوں۔ سائیں ذرا ان سے بات تو کرلیں۔''آج کی صحافت میں اتنا دم ہے کہ میرے جیسا پھٹیچر کالم نگار جو تیس برس کی پرہنگام صحافتی تپسّیا کے بعد بھی کسی اخبار کے کونے کھدرے میں پڑا رہتا ہے، وہ بھی خود کو پھنّے خان سمجھنے لگتا ہے۔
سوچا کہ شاید مجھ سے کوئی صحافتی کام ہوگا۔ لیکن اگر کام انھیں ہے تو فون میں کیوں کروں؟ میں اکڑ گیا۔ کہا ''دیکھیں انھیں میرا وعلیکم سلام بولو اور اگر کوئی بات کرنی ہے تو وہ خود فون کرلیں۔''
وہ تھوڑی دیر مجھے راضی کرتا رہا کہ کیا حرج ہے، اگر آپ فون کرلیں گے۔ وہ اس وقت بھی لوگوں میں گِھرے ہوئے ہیں اور مصروف ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس دوران میرا دماغ تیزی سے گھوم رہا تھا اور ان وجوہات کی فہرست بنارہا تھا جن کی بِنا پر بڑے صاحب مجھ سے بات کرسکتے تھے۔ آخر میں نے دوٹوک لہجے میں اسے بتا دیا کہ مجھے تمہارے صاحب سے فی الحال کوئی کام نہیں ہے۔
انھیں کام ہے تو فون کرلیں۔ خدا حافظ۔ یہ کہہ کر میں نے اس معاملے سے جان چھڑالی۔ مجھے یقین تھا کہ اب کوئی فون نہیں آئے گا۔ٹھیک دس منٹ کے بعد فون میں پھر ایک سرسراہٹ ہوئی اورگھنٹی گنگنانے لگی۔ میں نے نمبر دیکھا تو وہ ایک ایسا خاص قسم کا گولڈن نمبر تھا جو کسی وی وی آئی پی کے پاس ہی ہوسکتا ہے۔
موصوف کی آواز خاصی بھاری بھر کم اور لہجہ کسی پتھر کی طرح بے لچک تھا۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید ہمارے کسی وزیر کا فون آگیا ہے۔ لیکن نہیں، وہ ایک اور صاحب تھے۔ انھوں نے انتہائی شستہ انداز میں گفتگو شروع کی۔ کاروباری حالات پر کچھ روشنی ڈالی اور پھر میرے خدشات کے عین مطابق اپنے مختلف تعمیری اور فلاحی کاموں کا ذکر شروع کردیا۔ ''میں نے اور میری پارٹی نے اتنے تیر چلائے ہیں اور اتنی توپیں داغی ہیں۔
بیوائوں، یتیموں اور ناداروں کے لیے فلاں فلاں منصوبے فلاں فلاں مرحلے میں ہیں۔'' وغیرہ وغیرہ۔ اب میں اچھی طرح جان گیا تھا کہ ان حضرت کا میرے صحافتی کردار سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اب یہ مجھ سے کچھ رقم اینٹھنے کی بات کریں گے۔کوئی دو سال پہلے بھی میرے ساتھ ایک ایسی ہی واردات کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس وقت ایک بڑے وڈیرے اور پیر صاحب نے مجھ سے کلام کیا تھا اور فرمایا تھا کہ دو دن کے بعد ان کی زیر صدارت فلاں جگہ پر ایک جلسہ ہوگا جس میں بیوائوں میں سلائی مشینیں تقسیم کی جائیں گی۔
اسٹیج پر مجھے بھی جگہ دی جائے گی کیونکہ کچھ سلائی مشینوں کا حصّہ مجھ سے بھی ڈلوایا جائے گا۔ بھتہ وصول کرنے کے اس اسٹائل میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس میں دھمکی دی جاتی ہے کہ دیکھیں بابا اگر آپ تعاون نہیں کریں گے تو ہمارے جو نوجوان یہ فلاحی کام کررہے ہیں وہ خواہ مخواہ آپ کو تنگ کریں گے اور دفتر میں توڑ پھوڑ کریں گے۔
یہ سب ڈرامہ جعلی ہوتا ہے۔ بڑے سیاست دانوں اور وڈیروں کے نام سے جعلی فون کیے جاتے ہیں اور بڑی بڑی رقمیں بٹوری جاتی ہیں۔ یہ فون بھی جعلی تھا۔ مجھے شروع سے ہی شک تھا کہ یہ تو ان وزیر صاحب کی آواز نہیں ہے۔
پھر بھی میں کچھ کریدنے کی جستجو میں گفتگو کو طول دیتا گیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ کہہ کے فون بند کردیا ''... سائیں میں آپ سے کون سے کوئی لاکھوں روپے مانگ رہا ہوں۔ اب آپ ہمیں یہ بھی نہ سمجھائو کہ فلاحی کام کیسے کیے جاتے ہیں۔ آپ فون رکھو۔ ہمیں اپنا کام کرنا آتا ہے۔''
میں بہت بہادر بنتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ یہ جعلساز لوگ ہیں۔ لیکن سچّی بات یہ ہے کہ دونوں بار میرے چھکّے چھوٹ گئے تھے۔ میں نے اپنے کاروباری دفتر میں سیکیورٹی کے انتظامات دوگنا کردیے تھے اور خود کچھ دنوں کے لیے زیرِ زمین چلا گیا تھا۔ ملک چھوڑ کے جانے کے تصور پر میں لعنت بھیجتا ہوں لیکن زمین دوزی کے ان دنوں میں غیر ملکی ویزے حاصل کرنے کے بارے میں، میں نے اتنی معلومات جمع کر ڈالیں کہ آج اگر میں ملک سے فرار ہونے میں معاونت کرنے والا کوئی ادارہ کھول لوں تو تیزی سے امیر ہوسکتا ہوں۔
یہاں بھتہ مافیا کے اتنے روپ ہیں اور اتنی نفری ہے کہ اس کی گزر بسر کے لیے کراچی شہر چھوٹا پڑ گیا ہے۔ پہلے علاقے بٹے ہوئے تھے۔ حدود مقرر تھیں کہ فلاں علاقے میں فلاں گروہ کارروائی کرے گا اور دوسرا اس میں پنگا نہیں لے گا۔ اب ایک ہی علاقے کے کئی دعوے دار پیدا ہوگئے ہیں۔ کہیں علاقے پر مکمل قبضہ کرنے کی خونی جنگ ٹھکی ہے تو کہیں اپنا علاقہ بچانے کا جدل لگا ہے۔
بعض علاقوں میں خفیہ مفاہمت ہوچکی ہے۔ وہاں بھتہ خور باریاں لگاتے ہیں۔ پہلے دادا گیروں کا پھیرا تھا، اب پیدا گیر اور اٹھائی گیر بھی آن ٹپکتے ہیں۔ جہاں بس چلے وہاں کٹھ ملاّ بھی تبرکاً اپنا دائو لگالیتا ہے۔
پرانے کراچی میں لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے تین 'داماد' ہیں۔ تینوں بہت لالچی ہیں اور دن بہ دن منہ پھٹ ہوتے جارہے ہیں۔ پہلے آنے بہانے مانگتے تھے۔ پھر منہ کھول کے مانگنے لگے۔ اب چاقو کھول کے مانگتے ہیں۔دستی بم مارتے ہیں۔
میں ایک روز دفتر میں شور سن کے کمرے سے باہر آیا تو دیکھا کہ اسٹاف دو اجنبیوں سے جھگڑ رہا ہے۔ پتا چلا کہ پہلے وہ دونوں نیاز کی حلیم کے لیے چندہ لینے آیا کرتے تھے، اب زیادہ رقم طلب کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا پیر مرگیا ہے، اس کا عرس بھی کرنا ہے۔ جھگڑا یوں ہوا کہ مطلوبہ رقم نہ ملنے پر ان میں سے ایک نے مصطفیٰ قریشی کے اسٹائل میں دھمکی دی تھی۔ ''توں تے سانوں نراض کرریا ایں سوہنیا۔''
آپ اسے بھتہ وصول کرنے کا ایک نسبتاً شریفانہ طریقہ کہہ لیں۔ ایسا ہی ایک بھتہ ماہِ رمضان میں فطرے کی رسیدیں تقسیم کرکے بھی وصول کیا جاتا ہے۔ یہ کام گھروں میں رسیدیں تقسیم کرکے بھی کیا جاتا ہے اور دفاتر میں وزٹ کرکے بھی۔ دو تین صاحبان تشریف لاتے ہیں۔ آپ کے سلسلے والی کرسیوں پر براجمان ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں،
اپنے پارٹی عہدوں کا تعارف کراتے ہیں، ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور اس کے بعد فطرے کی رسیدوں کی پوری کتاب آپ کے حوالے کرکے آپ کو ثوابِ دارین پہنچادیتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ رسیدیں میں نے بھی سنبھال کے رکھی ہوئی ہیں۔ ان کی پشت پر عہدے داروں کے نام اور تاریخِ ملاقات بھی درج کردی ہے۔ میں اس اچھے وقت کے انتظار میں ہوں جب زبردستی کا یہ ثواب لوٹا کے اپنی رقم واپس لے سکوں۔