نظام انصاف کو رہا کیا جائے
عوام کو سب سے پہلے یہ تحریک چلانا چاہیے کہ ہمارے نظام انصاف کو اس منحوس سائے سے آزاد کیا جائے
جس معاملے پر آج ہم کچھ کہنا چاہ رہے ہیں، اس کے بارے میں ہماری جانکاری ابھی یقین کے تیسرے درجے یعنی علم الیقین تک ہے۔ عین الیقین اور حق الیقین کے درجات تک ابھی نہیں پہنچے ہیں، ویسے تو سب کو پتہ ہے لیکن ممکن ہے اکثر لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ یقین کے تین درجات ہوتے ہیں،علم الیقین وہ ہے جب آپ دھوئیں کو دیکھ کر آگ کا اندازہ قائم کریں ، عین الیقین وہ ہے جب آپ اس آگ کو آنکھوں سے دیکھ لیں لیکن حق الیقین یہ ہے جب آپ اس آگ کے قریب جائیں تپش محسوس کریں، ہاتھ ڈال دیں یا کچھ جلا دیں ۔چنانچہ عدالتی معاملات ، قانونی موشگافیوں اور انصاف کے صادرات سے ہم خود واقف نہیں، اس لیے اگر کوئی بھول چوک ہوجائے تو پیشگی معذرت ۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہمیں کھجلی نہیں ہو رہی ہے تو وہاں کھجانے کی ضرورت ہی کیا ہے تو اس کی وجہ ہماری ایک مجبوری بھی ہے اور ایک ضرورت بھی ۔ مجبوری کا قصہ تو یوں ہے کہ شیخ معظم خان مندوخیل ہمارے بڑے پیارے دوست ہیں اور پتہ نہیں اس نے کس مقدس مزار پر جا کر قسم کھائی ہوئی ہے کہ ملک کے عدالتی نظام ، قوانین کے نام اور انصاف کے قیام پر لکھوں گا اور اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں لکھوں گا، اس معاملے میں اب تک اتنے کالم لکھ چکا ہے کہ از خود نوٹس کی چار جلدیں چھپ چکی ہیں اور شاید دوچار اور بھی تیار ہوں گی۔
ہم سے بھی اکثر ایسے ہی معاملات پر لکھنے کے لیے کہتا رہتا ہے لیکن یہ بات تو آپ بھی جانتے ہیں اور دوبارہ بھی کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ہم صرف نام کے پختون ہیں ، اندر سے نہایت ہی ڈرپوک تھڑدلے بلکہ بزدل ہیں، اس لیے ایسے مقامات سے دور ہی دور رہنا پسند کرتے ہیں جہاں خطرے کی کوئی بو باس ہو لیکن اب مجبوراً ڈرتے ڈرتے اس لیے ہاتھ لگا رہے ہیں کہ ایک تو شیخ صاحب تقریباً آدھے ہم سے روٹھ چکے ہیں اور باقی آدھے بھی روٹھنے کو ہیں، دوسرے یہ کہ گزشتہ ایک دو سال سے جس طرح ان سیاسی نوسربازوں نے ہمارے پورے عدالتی نظام کو یرغمال بنایا ہوا ، اس سے کہیں عوام کو یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس ملک کا سب کچھ صرف ''خاص '' لوگوں کے لیے ہے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، اب تک تو یہ امید قائم ہے کہ عدالتی نظام کا سایہ ہمارے سر پر موجود ہے اور ہمارے آنسوؤں کو پونچھنے کے لیے بھی کوئی تو ہے ۔
ویسے تو جسٹس منیر کے وقت سے سیاسی لوگوں نے عدالتوں کو نہ جانے کتنے پیر الدین شریف زادوں، قصوریوں اور نجاریوں کی مدد سے اتنا الجھا رکھا ہے کہ عوام چاہتے ہوئے بھی توجہ نہیں دے پا رہے ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے تو ایسا لگتا ہے جیسے اس ملک میں صرف پندرہ فیصد خواص ہی بستے ہیں خاص طور پر جب عمران خان کو کرکٹر اور مخیر ہونے کے بعد شوق لگا ہے کہ سیاست میں بھی وہ ہیرو بن سکتے ہیں۔ تب سے عدالتوں کے سامنے دنیا بھر کی غلاظتیں اور بد بوئیں لائی جا رہی ہیں۔
لگتا ہے جیسے پورا نظام انصاف ہی اس مخصوص دائرے میں محصور کیا گیا ہے جس میں یہ خاص لوگ ضرورت کے لیے نہیں بلکہ شوق اور شغل کے لیے کھیل تماشے کر رہے ہیں، درمیان میں اگر جھگڑا کوئی ہے تو صرف اتنا جتنا ڈاکوؤں کو لوٹے ہوئے مال کی تقسیم میں ہوتا ہے یا مالک دکان کی توجہ ہٹا کر لوٹنے کا سلسلہ چل رہا ہو یا بچے کو درخت میں سونے کی چڑیا دکھا کر کچھ کاٹنے کا مقصد ہو ۔ ورنہ کون ہے جو ننگوں کے کلب میں کپڑے پہنے ہوئے ہے ۔
قانون اور نظام انصاف کو اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ قتل ہونے والے کے اقربا کسی پر دعویٰ سے ڈرتے ہیں کہ دعویٰ دائر کرنے کے لیے خود کوگروی رکھنا پڑے گا۔ ایک تو گیا ہے اسے جیتنے کے لیے نہ جانے کتنوں کو اپنی ہستی سے ہاتھ دھونا پڑے گا ،اس مسلسل عمل سے عوام تو احاطہ عدالت تک بھی نہیں پہنچ پا رہے ہیں اور جو کسی نہ کسی طرح پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کی باری نہ جانے کبھی آئے۔ جب ملک کی وزیر اعظم کے قتل کا مقدمہ نو سال لیتا ہے باوجود کروڑوں خرچ کرنے کے تو ملک کے '' حقیر اعظم '' کی کیا حیثیت ہے، اس میں عدالتی نظام کا کوئی دوش ہے بھی نہیں، ایک انار آخر کتنے بیماروں میں بانٹا جا سکتا ہے ۔
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہا ں کہاں بر سے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
اس نظام کو اس لیے اتنا مہنگا، اتنا ناقابل رسائی، اتنا ناقابل حصول اسی لیے بنایا گیا کہ عوام اس کے قریب تک بھی نہ پٹخ سکیں اور نظام انصاف کو اتنا محصور مجبور اور مصروف رکھا جائے کہ اگر چاہے بھی تو ان شوقیہ مشاغل سے فارغ ہو کر عوام کی طرف توجہ دینا ممکن نہ ہو، اسے یاد ہی نہ آئے کہ
کبھی فتراک میں میرے کوئی نخچیر بھی تھا
بلکہ ہمارے خیال میں تو عوام کو سب سے پہلے یہ تحریک چلانا چاہیے کہ ہمارے نظام انصاف کو اس منحوس سائے سے آزاد کیا جائے، اس کا بوس سے نجات دلائی جائے جو پندرہ فیصد ہوتے ہوئے بھی پورے نظام کو جیب میں ڈالے ہوئے پچاسی فیصدہی عوام سمیت اور نظام انصاف سمیت نتیجہ دیکھنا ہو تو ملک بھر کی عدالتوں میں پڑے ہوئے مقدمات بلکہ '' اصلی مقدمات '' کی تعداد دیکھی جا سکتی جن کی آنکھیں انتظار کر تے کرتے بے نور ہو گئی ہیں ۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہمیں کھجلی نہیں ہو رہی ہے تو وہاں کھجانے کی ضرورت ہی کیا ہے تو اس کی وجہ ہماری ایک مجبوری بھی ہے اور ایک ضرورت بھی ۔ مجبوری کا قصہ تو یوں ہے کہ شیخ معظم خان مندوخیل ہمارے بڑے پیارے دوست ہیں اور پتہ نہیں اس نے کس مقدس مزار پر جا کر قسم کھائی ہوئی ہے کہ ملک کے عدالتی نظام ، قوانین کے نام اور انصاف کے قیام پر لکھوں گا اور اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں لکھوں گا، اس معاملے میں اب تک اتنے کالم لکھ چکا ہے کہ از خود نوٹس کی چار جلدیں چھپ چکی ہیں اور شاید دوچار اور بھی تیار ہوں گی۔
ہم سے بھی اکثر ایسے ہی معاملات پر لکھنے کے لیے کہتا رہتا ہے لیکن یہ بات تو آپ بھی جانتے ہیں اور دوبارہ بھی کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ہم صرف نام کے پختون ہیں ، اندر سے نہایت ہی ڈرپوک تھڑدلے بلکہ بزدل ہیں، اس لیے ایسے مقامات سے دور ہی دور رہنا پسند کرتے ہیں جہاں خطرے کی کوئی بو باس ہو لیکن اب مجبوراً ڈرتے ڈرتے اس لیے ہاتھ لگا رہے ہیں کہ ایک تو شیخ صاحب تقریباً آدھے ہم سے روٹھ چکے ہیں اور باقی آدھے بھی روٹھنے کو ہیں، دوسرے یہ کہ گزشتہ ایک دو سال سے جس طرح ان سیاسی نوسربازوں نے ہمارے پورے عدالتی نظام کو یرغمال بنایا ہوا ، اس سے کہیں عوام کو یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس ملک کا سب کچھ صرف ''خاص '' لوگوں کے لیے ہے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، اب تک تو یہ امید قائم ہے کہ عدالتی نظام کا سایہ ہمارے سر پر موجود ہے اور ہمارے آنسوؤں کو پونچھنے کے لیے بھی کوئی تو ہے ۔
ویسے تو جسٹس منیر کے وقت سے سیاسی لوگوں نے عدالتوں کو نہ جانے کتنے پیر الدین شریف زادوں، قصوریوں اور نجاریوں کی مدد سے اتنا الجھا رکھا ہے کہ عوام چاہتے ہوئے بھی توجہ نہیں دے پا رہے ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے تو ایسا لگتا ہے جیسے اس ملک میں صرف پندرہ فیصد خواص ہی بستے ہیں خاص طور پر جب عمران خان کو کرکٹر اور مخیر ہونے کے بعد شوق لگا ہے کہ سیاست میں بھی وہ ہیرو بن سکتے ہیں۔ تب سے عدالتوں کے سامنے دنیا بھر کی غلاظتیں اور بد بوئیں لائی جا رہی ہیں۔
لگتا ہے جیسے پورا نظام انصاف ہی اس مخصوص دائرے میں محصور کیا گیا ہے جس میں یہ خاص لوگ ضرورت کے لیے نہیں بلکہ شوق اور شغل کے لیے کھیل تماشے کر رہے ہیں، درمیان میں اگر جھگڑا کوئی ہے تو صرف اتنا جتنا ڈاکوؤں کو لوٹے ہوئے مال کی تقسیم میں ہوتا ہے یا مالک دکان کی توجہ ہٹا کر لوٹنے کا سلسلہ چل رہا ہو یا بچے کو درخت میں سونے کی چڑیا دکھا کر کچھ کاٹنے کا مقصد ہو ۔ ورنہ کون ہے جو ننگوں کے کلب میں کپڑے پہنے ہوئے ہے ۔
قانون اور نظام انصاف کو اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ قتل ہونے والے کے اقربا کسی پر دعویٰ سے ڈرتے ہیں کہ دعویٰ دائر کرنے کے لیے خود کوگروی رکھنا پڑے گا۔ ایک تو گیا ہے اسے جیتنے کے لیے نہ جانے کتنوں کو اپنی ہستی سے ہاتھ دھونا پڑے گا ،اس مسلسل عمل سے عوام تو احاطہ عدالت تک بھی نہیں پہنچ پا رہے ہیں اور جو کسی نہ کسی طرح پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کی باری نہ جانے کبھی آئے۔ جب ملک کی وزیر اعظم کے قتل کا مقدمہ نو سال لیتا ہے باوجود کروڑوں خرچ کرنے کے تو ملک کے '' حقیر اعظم '' کی کیا حیثیت ہے، اس میں عدالتی نظام کا کوئی دوش ہے بھی نہیں، ایک انار آخر کتنے بیماروں میں بانٹا جا سکتا ہے ۔
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہا ں کہاں بر سے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
اس نظام کو اس لیے اتنا مہنگا، اتنا ناقابل رسائی، اتنا ناقابل حصول اسی لیے بنایا گیا کہ عوام اس کے قریب تک بھی نہ پٹخ سکیں اور نظام انصاف کو اتنا محصور مجبور اور مصروف رکھا جائے کہ اگر چاہے بھی تو ان شوقیہ مشاغل سے فارغ ہو کر عوام کی طرف توجہ دینا ممکن نہ ہو، اسے یاد ہی نہ آئے کہ
کبھی فتراک میں میرے کوئی نخچیر بھی تھا
بلکہ ہمارے خیال میں تو عوام کو سب سے پہلے یہ تحریک چلانا چاہیے کہ ہمارے نظام انصاف کو اس منحوس سائے سے آزاد کیا جائے، اس کا بوس سے نجات دلائی جائے جو پندرہ فیصد ہوتے ہوئے بھی پورے نظام کو جیب میں ڈالے ہوئے پچاسی فیصدہی عوام سمیت اور نظام انصاف سمیت نتیجہ دیکھنا ہو تو ملک بھر کی عدالتوں میں پڑے ہوئے مقدمات بلکہ '' اصلی مقدمات '' کی تعداد دیکھی جا سکتی جن کی آنکھیں انتظار کر تے کرتے بے نور ہو گئی ہیں ۔