پاکستان لوٹ کا مال کیوں
کرپشن کے سمندر میں حکمران، سیاست دان، بیورو کریٹس، صنعت کار و تاجر سرکاری ملازمین ہی نہیں ایک عام آدمی بھی ملوث ہے
اخباری خبر کے مطابق سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس دوست محمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ملک کے 771 ملین روپے لوٹ لیے گئے لیکن اس کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ہم عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی وجہ سے مجبور ہیں کیونکہ ملزم کو سزا نہ دینے والوں کو شریک ملزم قرار دے دیں۔ پاناما لیکس کے بعد پاکستان میں سب سے ہارٹ ایشو کرپشن بنی ہوئی ہے۔
سیاست دانوں، حکمرانوں اور بیورو کریٹس کی کرپشن کے ساتھ اب کھلے عام سب اداروں کے احتساب کے بھی مطالبے کیے جارہے ہیں کہ عوام کے منتخب وزیراعظم کی نا اہلی اور ان کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے اس لیے اب ہر ادارے کا احتساب ضروری ہوگیا ہے کیونکہ کرپشن نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے اور اب تو پاکستان کو دنیا کا وہ چوتھا ملک قرار دیا گیا ہے جہاں کرپشن عروج پر ہے جب کہ ملک کا ہر شہری غیر ملکی قرضوں کے باعث مقروض ہوچکا ہے۔
ملک کی یہ بدقسمتی تھی کہ پاکستان اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی اپنے اس بانی سے محروم ہوگیا تھا جو ملکی خزانے کے دیانت دار، محافظ تھے اور سرکاری فنڈ سے کابینہ کے اجلاس میں چائے فراہم کیے جانے کے بھی خلاف تھے۔ قائد اعظم نے بطور گورنر جنرل اپنی ذات پر کبھی سرکاری پیسہ خرچ نہیں ہونے دیا تھا اور نہ اپنے خاندان کو اپنی سرکاری حیثیت کا کوئی بھی فائدہ اٹھانے دیا تھا مگر بانی کی رحلت کے بعد ان کا پاکستان لوٹ کا مال بنادیا گیا جو آج مکمل طور پر کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔
کرپشن کے سمندر میں حکمران، سیاست دان، بیورو کریٹس، صنعت کار و تاجر سرکاری ملازمین ہی نہیں ایک عام آدمی بھی ملوث ہے اور ملک کے دو اہم اداروں کے اہم عہدے داروں کی مبینہ کرپشن نے معاملات اتنے عام ہوگئے ہیں کہ اب دیگر اداروں اور ان کے سرکردہ پرسنز کے خلاف بھی کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں اور ملک کا کوئی بھی سرکاری ادارہ اور نجی شعبہ کرپشن سے پاک قرار نہیں دیا جارہا اور کرپشن روکنے کے اداروں کے اہم عہدے دار بھی کرپشن کے الزامات سے محفوظ نہیں رہے ہیں اور وہ عہدے دار جن پر کرپشن روکنے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے پر بھی کرپشن کے الزام لگیں ۔ وزیراعظم کے خلاف انکوائری کرائی جائے۔
اب میڈیا نے عوام میں اتنا شعور ضرور پیدا کردیا ہے کہ وہ ملک کے ہر ادارے کی کارکردگی پر بات کرنے لگے ہیں اور کمنٹس دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا تو سرکاری پابندی کے باعث مجبور ہے مگر سوشل میڈیا ہر ایک کے اظہار رائے کے لیے موجود ہے جس پر لوگ کھل کر آزادی اظہار سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ عدالت عظمیٰ نے پہلی بار ملک کے وزیراعظم کے خلاف اپنی دی گئی مدت میں ریفرنسز احتساب عدالتوں میں داخل کرادیے۔ ملک میں ایسا ایک بھی غیر جانبدار اور غیر متنازعہ ادارہ موجود نہیں جو اعتماد کے قابل رہا ہو۔
کرپشن عوامی سطح پر لوگوں میں اتنی سرائیت کرچکی ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ تو کیا ایک عام آدمی بھی کرپشن سے محفوظ نہیں ہے اور ملک کا ہر صادق و امین کہلانے والا شخص بھی اب کرپشن سے انکار نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ جب ہمارے اوپر والے ہی کرپٹ ہیں تو ہم کیوں نہ ایسا کریں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اب وہی ایماندار ہے جس میں کرپشن کرنے کی صلاحیت نہیں اور ایسے لوگوں ہی کے لیے انگور کھٹے ہیں۔
سرکاری دفاتر اور نچلی سطح کی عدالتوں میں مقدمات اور عوامی مسائل پر مہینوں توجہ نہیں دی جاتی، ہر سرکاری درخواست ہر میز پر اس وقت تک رکی جاتی ہے جب تک رشوت نہ مل جائے یا سفارش آجائے کہاجاتا ہے کہ رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جہنمی دنیا میں لوگوں کو خوشی سے نہیں مجبوری میں اپنا کام آگے بڑھانے کے لیے رشوت دینا پڑتی ہے، ہر سرکاری دفتر میں فائلیں جان بوجھ کر دباکر رکھی جاتی ہیں اور وارثوں کی طرف سے رشوت کے نوٹوں سے ہی ان پر پڑی گرد جھڑتی ہے، کرپشن کے ثبوت کی فائلیں سرکاری دفاتر سے غائب کرادی جاتی ہیں یا پر اسرار آگ کے ذریعے ثبوت مٹادیے جاتے ہیں اور معاملہ ختم کردیا جاتا ہے یا رشوت مل جانے پر داخل دفتر ہوجاتا ہے۔
عوام میں نچلی سطح پر کرپشن اب عروج پر ہے دوسرے کسی مجبوری سے فائدہ اٹھانا اب ہر شخص اپنا حق سمجھتا ہے اکثریت کرپشن کے ہر معاملے میں اپنا حصہ مانگتی ہے جس طرح اعلیٰ حکومتی ایوانوں میں کرپشن ضروری ہوچکی ہے اسی طرح نچلی سطح پر اس قدر کرپشن موجود ہے کہ اسے روکنے والا کوئی ادارہ ہی موجود نہیں، سرکاری ادارے موجود ہیں جو خود بھی کرپشن زیادہ کررہے ہیں اور سدباب کوئی نہیں کرتا۔
عوامی سطح پر صرف گوشت، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام ضلع انتظامیہ کے ہاتھ میں تو ہے مگر یہ صرف رمضان المبارک کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے اور باقی 11 ماہ تک منافع خوروں کوکوئی بھی نہیں پوچھتا، تہواروں کے موقعے پر ایک دوسرے کو لوٹنا اپنا حق بنالیا گیا ہے اور جو سرکاری ملازم گراں فروشوں کے ہاتھوں لٹتے ہیں وہ تو اپنی رشوت اور عیدی بڑھاکر اپنی زائد دی گئی رقم پوری کرلیتے ہیں اور نجی ملازموں اور عام لوگوں کو یہ نقصان اپنے اخراجات میں کمی لاکر پورا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کو شکایت ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری محکموں کے متعلقہ ملازمین ہی عوام کو ٹیکس دینے سے روکتے ہیں اور انھیں ٹیکس چوری کرنے اور ٹیکس سے بچنے کے طریقے بتاتے ہیں اگر ایک لاکھ روپے سالانہ ٹیکس ہو تو بیس پچیس ہزار روپے رشوت لے کر بیس پچیس ہزار ٹیکس ادا کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں ۔اس طرح ٹیکس دینے والے کو جب آدھی رقم بچے گی تو وہ کرپشن کا حصہ کیوں نہیں بنے گا اور حکومت کو بھی نقصان پہنچائے گا، حکومت درست طور پر ٹیکس لینا نہیں چاہتی تو مخصوص فارمولے پر عمل کرکے بدنام ضرور ہوتی ہے اسی لیے حکومت اور عوام نے کرپشن کو ضروری جز بنا رکھا ہے۔
سیاست دانوں، حکمرانوں اور بیورو کریٹس کی کرپشن کے ساتھ اب کھلے عام سب اداروں کے احتساب کے بھی مطالبے کیے جارہے ہیں کہ عوام کے منتخب وزیراعظم کی نا اہلی اور ان کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے اس لیے اب ہر ادارے کا احتساب ضروری ہوگیا ہے کیونکہ کرپشن نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے اور اب تو پاکستان کو دنیا کا وہ چوتھا ملک قرار دیا گیا ہے جہاں کرپشن عروج پر ہے جب کہ ملک کا ہر شہری غیر ملکی قرضوں کے باعث مقروض ہوچکا ہے۔
ملک کی یہ بدقسمتی تھی کہ پاکستان اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی اپنے اس بانی سے محروم ہوگیا تھا جو ملکی خزانے کے دیانت دار، محافظ تھے اور سرکاری فنڈ سے کابینہ کے اجلاس میں چائے فراہم کیے جانے کے بھی خلاف تھے۔ قائد اعظم نے بطور گورنر جنرل اپنی ذات پر کبھی سرکاری پیسہ خرچ نہیں ہونے دیا تھا اور نہ اپنے خاندان کو اپنی سرکاری حیثیت کا کوئی بھی فائدہ اٹھانے دیا تھا مگر بانی کی رحلت کے بعد ان کا پاکستان لوٹ کا مال بنادیا گیا جو آج مکمل طور پر کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔
کرپشن کے سمندر میں حکمران، سیاست دان، بیورو کریٹس، صنعت کار و تاجر سرکاری ملازمین ہی نہیں ایک عام آدمی بھی ملوث ہے اور ملک کے دو اہم اداروں کے اہم عہدے داروں کی مبینہ کرپشن نے معاملات اتنے عام ہوگئے ہیں کہ اب دیگر اداروں اور ان کے سرکردہ پرسنز کے خلاف بھی کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں اور ملک کا کوئی بھی سرکاری ادارہ اور نجی شعبہ کرپشن سے پاک قرار نہیں دیا جارہا اور کرپشن روکنے کے اداروں کے اہم عہدے دار بھی کرپشن کے الزامات سے محفوظ نہیں رہے ہیں اور وہ عہدے دار جن پر کرپشن روکنے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے پر بھی کرپشن کے الزام لگیں ۔ وزیراعظم کے خلاف انکوائری کرائی جائے۔
اب میڈیا نے عوام میں اتنا شعور ضرور پیدا کردیا ہے کہ وہ ملک کے ہر ادارے کی کارکردگی پر بات کرنے لگے ہیں اور کمنٹس دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا تو سرکاری پابندی کے باعث مجبور ہے مگر سوشل میڈیا ہر ایک کے اظہار رائے کے لیے موجود ہے جس پر لوگ کھل کر آزادی اظہار سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ عدالت عظمیٰ نے پہلی بار ملک کے وزیراعظم کے خلاف اپنی دی گئی مدت میں ریفرنسز احتساب عدالتوں میں داخل کرادیے۔ ملک میں ایسا ایک بھی غیر جانبدار اور غیر متنازعہ ادارہ موجود نہیں جو اعتماد کے قابل رہا ہو۔
کرپشن عوامی سطح پر لوگوں میں اتنی سرائیت کرچکی ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ تو کیا ایک عام آدمی بھی کرپشن سے محفوظ نہیں ہے اور ملک کا ہر صادق و امین کہلانے والا شخص بھی اب کرپشن سے انکار نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ جب ہمارے اوپر والے ہی کرپٹ ہیں تو ہم کیوں نہ ایسا کریں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اب وہی ایماندار ہے جس میں کرپشن کرنے کی صلاحیت نہیں اور ایسے لوگوں ہی کے لیے انگور کھٹے ہیں۔
سرکاری دفاتر اور نچلی سطح کی عدالتوں میں مقدمات اور عوامی مسائل پر مہینوں توجہ نہیں دی جاتی، ہر سرکاری درخواست ہر میز پر اس وقت تک رکی جاتی ہے جب تک رشوت نہ مل جائے یا سفارش آجائے کہاجاتا ہے کہ رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جہنمی دنیا میں لوگوں کو خوشی سے نہیں مجبوری میں اپنا کام آگے بڑھانے کے لیے رشوت دینا پڑتی ہے، ہر سرکاری دفتر میں فائلیں جان بوجھ کر دباکر رکھی جاتی ہیں اور وارثوں کی طرف سے رشوت کے نوٹوں سے ہی ان پر پڑی گرد جھڑتی ہے، کرپشن کے ثبوت کی فائلیں سرکاری دفاتر سے غائب کرادی جاتی ہیں یا پر اسرار آگ کے ذریعے ثبوت مٹادیے جاتے ہیں اور معاملہ ختم کردیا جاتا ہے یا رشوت مل جانے پر داخل دفتر ہوجاتا ہے۔
عوام میں نچلی سطح پر کرپشن اب عروج پر ہے دوسرے کسی مجبوری سے فائدہ اٹھانا اب ہر شخص اپنا حق سمجھتا ہے اکثریت کرپشن کے ہر معاملے میں اپنا حصہ مانگتی ہے جس طرح اعلیٰ حکومتی ایوانوں میں کرپشن ضروری ہوچکی ہے اسی طرح نچلی سطح پر اس قدر کرپشن موجود ہے کہ اسے روکنے والا کوئی ادارہ ہی موجود نہیں، سرکاری ادارے موجود ہیں جو خود بھی کرپشن زیادہ کررہے ہیں اور سدباب کوئی نہیں کرتا۔
عوامی سطح پر صرف گوشت، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام ضلع انتظامیہ کے ہاتھ میں تو ہے مگر یہ صرف رمضان المبارک کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے اور باقی 11 ماہ تک منافع خوروں کوکوئی بھی نہیں پوچھتا، تہواروں کے موقعے پر ایک دوسرے کو لوٹنا اپنا حق بنالیا گیا ہے اور جو سرکاری ملازم گراں فروشوں کے ہاتھوں لٹتے ہیں وہ تو اپنی رشوت اور عیدی بڑھاکر اپنی زائد دی گئی رقم پوری کرلیتے ہیں اور نجی ملازموں اور عام لوگوں کو یہ نقصان اپنے اخراجات میں کمی لاکر پورا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کو شکایت ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری محکموں کے متعلقہ ملازمین ہی عوام کو ٹیکس دینے سے روکتے ہیں اور انھیں ٹیکس چوری کرنے اور ٹیکس سے بچنے کے طریقے بتاتے ہیں اگر ایک لاکھ روپے سالانہ ٹیکس ہو تو بیس پچیس ہزار روپے رشوت لے کر بیس پچیس ہزار ٹیکس ادا کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں ۔اس طرح ٹیکس دینے والے کو جب آدھی رقم بچے گی تو وہ کرپشن کا حصہ کیوں نہیں بنے گا اور حکومت کو بھی نقصان پہنچائے گا، حکومت درست طور پر ٹیکس لینا نہیں چاہتی تو مخصوص فارمولے پر عمل کرکے بدنام ضرور ہوتی ہے اسی لیے حکومت اور عوام نے کرپشن کو ضروری جز بنا رکھا ہے۔