دہشت گردی اور پاکستان کا فرسودہ نظامِ تعلیم
پاکستان میں رائج فرسودہ نظام کے تحت دی جانے والی تعلیم نہ چاہتے ہوئے بھی دہشت گرد ہی پیدا کرسکتی ہے۔
مادر وطن پر دہشت گردی کو فروغ دینے اور دہشت گرد بنانے جیسے الزامات وقتاً فوقتاً لگتے رہتے ہیں جنہیں ہمارے حکمران کبھی خاطر میں نہیں لائے، جو بالکل درست طرزِ عمل ہے کیونکہ ان الزامات میں سیاست اور مفاد کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں۔ گو کہ ہمارے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے مٹھی بھر دہشت گردوں کو پاکستان کا نام بدنام کرنے کا موقع ملا اور کچھ عرصے کےلیے ہم دہشت گردی کا شکار بھی رہے، لیکن پاک فوج کی جانب سے مختلف آپریشنز کے ذریعے ان تمام دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کردیا گیا۔ آخرکار میران شاہ ایک بار پھر سے آباد ہوگیا۔ پاک فوج واقعی مبارکباد کی مستحق ہے۔
اوہ! آپ کچھ اور سمجھ بیٹھے! دراصل میرا آج کا موضوع نہ تو دہشت گردی ہے اور نہ پاک فوج کے وہ کارنامے جن سے ہم سب ہی بخوبی واقف ہیں اور جن کےلیے ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج صاحبہ کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے بعد ایک بات نے مجھے گزشتہ شب پریشان کیے رکھا کہ ہمارے، یعنی پاکستان کے اتنا سب کرنے کے باوجود بھی امریکا ہم سے ہر وقت ''ڈُو مور'' کا مطالبہ ہی کرتا رہتا ہے اور بھارت ہماری تمام کوششوں کو پسِ پشت ڈال کر جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کی نظربندی اور اُڑی واقعے کی پاکستان میں ایف آئی آر سمیت تمام اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دہشت گردی کی رٹ لگائے ہوئے ہے اور کہتا ہے کہ وہ مذاکرات کےلیے تیار نہیں۔ چلیے، یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ یہ سب سیاست کا کھیل ہے، مگر سشما سوراج کے بیان ''ہم نے ڈاکٹرز اور انجینئر پیدا کیے مگر پاکستان نے صرف دہشت گرد پیدا کیے'' کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا؛ اور خاص طور پر سانحہ صفورا اور حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی انصار الشرعیہ میں ملک کی اعلیٰ جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ کا ملوث ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آزادی سے لے کر آج تک بھارت نے پاکستان کو کھلے دل سے قبول ہی نہیں کیا، اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس بیان کے بعد کہ جس میں انہوں نے پاکستان کو تنہا کرنے کا دعویٰ کیا ہے، یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ بھارت ہمیں بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارت سمیت ساری دنیا کو پاکستان پر الزام تراشی کا موقع کون دیتا ہے؟
میری عاجزانہ رائے کے مطابق اس کا آسان ترین جواب پاکستان میں رائج وہ فرسودہ نظام ہے جس کے تحت دی جانے والی تعلیم نہ چاہتے ہوئے بھی دہشت گرد ہی پیدا کرسکتی ہے۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم ہر خاص و عام کےلیے یکساں نظام تعلیم رائج کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس معاملے میں وطنِ عزیز کی اشرافیہ، المعروف ''ایلیٹ کلاس'' کا کردار کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جو کبھی نہیں چاہے گی کہ غریب کا بچہ پڑھ لکھ کر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجائے، ان کے برابر یا ان سے اونچی کرسی پر بیٹھنے اور اُن پرحکمرانی کے قابل بنے۔ یہ چند فیصد لوگ اس 98 فیصد آبادی پر حکمرانی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، اس لیے تو یہ ہمارا خون چوس کر اپنے بچوں کو حصولِ تعلیم کےلیے بیرون ملک بھیجتے ہیں تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھتے ہوئے غریب کےلیے آواز بلند کریں اور اُس نظام کو بہتر کرنے کی بات کریں جس میں وہ کبھی رہے ہی نہیں، جس کے معاشی و معاشرتی تانے بانے سے وہ واقف ہی نہیں۔
تلخ نوائی پر معذرت لیکن یہ تو صرف اس ملک کو لوٹنا اور غریب عوام کو نچوڑنا جانتے ہیں ورنہ جس صوبے میں غریبوں کی بہتری کے یہ دعویدار پچھلے کئی برس بلکہ عشروں سے حکمرانی کررہے ہیں، وہاں تو انسان کو دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے۔ جہاں تعلیم کے نام پر وہ نظام رائج ہو کہ جس سے نکل کر بچہ صرف جاگیرداروں اور وڈیروں کی غلامی کے قابل ہی بن سکتا ہے؛ اور علاج کی بات کی جائے تو جس علاقے نے صوبے کو 3 وزیراعلیٰ دیئے وہاں آج تک سرکاری اسپتال ہی قائم نہ ہوسکا اور عامۃ الناس کے پینے کےلیے ایسا آلودہ اور بدبودار پانی دستیاب ہے جو یہ حکمران اپنے کتوں کو پلانا بھی گوارا نہ کریں۔
یہ تو بات ہوئی حکمرانوں کی جو اس ملک کے تعلیمی نظام کا حصہ بننا ہی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ تو پھر اس فرسوہ نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ جب شہزادوں اور شہزادیوں کو ان جامعات اور اسپتالوں کی ضرورت ہی نہیں۔ اور جہاں تک حصولِ انصاف کا تعلق ہے، تو وہ بھی ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' کے مصداق کیا جارہا ہے۔ یہ اس پورے ملک اور اس میں جاری و ساری نظام کو اپنی پشتینی جاگیر سمجھتے ہیں۔ اور کیوں نہ سمجھیں کہ انصاف کے اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے لوگ ان ہی کے تلوے چاٹتے ہیں، ان ہی کے پھینکے ہوئے راتپ پر پلتے ہیں۔
یہاں بھی پڑوسی ملک بھارت کے نظام تعلیم کی بات کرنا چاہوں گا جو غریبوں کی تعداد میں ہم سے کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود تعلیم سمیت ہر میدان میں ہم سے آگے ہے۔ آج ایک طرف بھارت دنیا بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ کے شعبوں میں بلند مقام حاصل کرچکا ہے جبکہ خلا میں مشن بھیجنے کے نت نئے ریکارڈ بھی قائم کررہا ہے تو دوسری جانب ہم لاہور میں ایک انٹرنیشنل کرکٹ میچ کروانے کو اپنی بہت بڑی جیت سمجھ رہے ہیں۔
لیجیے جناب! میں پھر کہیں سے کہیں نکل گیا۔ بات ہورہی تھی طبقاتی نظام تعلیم کی جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ''اے لیولز'' اور ''او لیولز''سے فارغ ہونے والے بچوں کو ملک کی بڑی جامعات میں مواقع دیئے جاتے ہیں اور آگے جاکر انہیں یورپ اور امریکا سمیت دیگر ممالک کی اسکالرشپس بھی فراہم کردی جاتی ہیں۔ مگر ان کے برعکس کالے پیلے سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے بچوں کا کوئی مستقبل ہی نہیں ہوتا۔ اگرچہ ان میں سے چند ایک انتہائی محنت اور لگن سے منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ضرور ہوجاتے ہیں لیکن اکثر پھر بھی ڈگریاں لینے کے باوجود دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر ہی مجبور رہتے ہیں۔
اعلی تعلیمی اداروں اور دہشت گردی میں تعلق پر بحث کرتے وقت ہم عموماً اس نکتے کو نظرانداز کرجاتے ہیں کہ کسی بھی نوجوان کےلیے ڈگری لینے کے بعد زندگی کا دوسرا اہم ترین مرحلہ ملازمت یا روزگار کا حصول ہوتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جو انہیں شدت پسندی کی طرف راغب ہونے پر مجبور کرتا ہے۔ جب انہیں روزگار اور حصولِ رزق کے درست اور راست مواقع دکھائی نہیں ملتے تو ایسے میں انصارالشریعہ، داعش اور ان جیسی دیگر تنظیمیں انہیں بڑی آسانی سے اپنے جال میں پھنسا لیتی ہیں اور دہشت گردی کی راہ پر ڈال دیتی ہیں۔ جب یہ نوجوان، جن پر روزگار سے لے کر پُرامن زندگی تک کے بیشتر راستے بند کردیئے جاتے ہیں، دہشت گردی کی کسی کارروائی میں ملوث پائے جاتے ہیں تو ہمارے حکمران کچھ دیر کےلیے نیند سے جاگتے ہیں، لگا بندھا بیان ''ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سرکاری جامعات دہشت گردوں کی افزائش گاہیں تو نہیں'' دیتے ہیں، اور دوبارہ خواب غفلت میں چلے جاتے ہیں۔ ارے جناب! سیدھے سبھاؤ کیوں نہیں کہتے کہ والدین اب بچوں کو سرکاری جامعات سے نکال کر نجی جامعات میں پڑھوائیں تاکہ ہمارا بھی کچھ بھلا ہو۔
جابجا تعلیمی ادارے قائم ہونے کے باوجود آج تعلیم اتنی ناپید کیوں ہے؟ کیونکہ ملکی جامعات پر دہشت گردوں کی افزئش گاہ کا الزام لگا کر ویسے ہی سیاست کی نذر کیا جارہا ہے اور رہی سہی کسر ہمارے ہی درمیان سے نکلنے والے ان اساتذہ نے پوری کردی ہے جو سرکاری خرچے پر پلنے کے باوجود اپنا زیادہ تر وقت یا تو پرائیویٹ یونیورسٹیز میں صرف کرکے نوٹ چھاپتے ہیں یا پھر ''ہوم ٹیوشن'' کے نام پر بچوں کو اپنے ہاں بلاکر بے وقوف بناتے ہیں۔ سرکاری جامعات میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث کئی اساتذہ وہاں صرف اپنی شکل دکھانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
بہرحال! ہمارے حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ اگر اس قوم کے نوجوان صحیح معنوں میں اعلی تعلیم یافتہ ہوگئے، ان کے ذہن بیدار ہوگئے اور پاکستانی قوم تعلیم یافتہ قوموں کی صف میں کھڑی ہوگئی تو کم از کم ان کی غلامی کرنے کےلیے کوئی بھی تیار نہیں ہوگا۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر تعلیم کو درست سمت میں فروغ حاصل ہوگیا تو تمام صوبوں میں رائج فرسودہ نظام کو کون زندہ رکھے گا؛ اس نظامِ تعلیم کو کہ جس کے تحت یہ وڈیرے اور جاگیردار ان لوگوں کو اپنے پیر چھونے کا کہتے ہیں اور ان غریبوں کی بیٹیوں، زمینوں اور مال مویشیوں پر قبضہ کرنا اپنا موروثی حق سمجھتے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ خدانخواستہ اگر یہ قوم ترقی یافتہ ہوگئی تو پھر ان حکمرانوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ بھی کرے گی، اور آزادی و خود مختاری کےلیے بھی آواز بلند کرے گی۔ مگر ہمارے حکمران ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے کیونکہ ہم پر لاکھ دہشت گردی کو فروغ دینے اور دہشت گرد پیدا کرنے کے الزامات لگتے رہیں، لیکن یہ نظام اگر ایک بار درست ہوگیا تو اقتدار میں بیٹھے ان ظالموں کو سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ اور تو اور، ان کے بچے اس قابل بھی نہیں کہ غریب کی طرح محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی ہی کماسکیں۔
اوہ! آپ کچھ اور سمجھ بیٹھے! دراصل میرا آج کا موضوع نہ تو دہشت گردی ہے اور نہ پاک فوج کے وہ کارنامے جن سے ہم سب ہی بخوبی واقف ہیں اور جن کےلیے ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج صاحبہ کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے بعد ایک بات نے مجھے گزشتہ شب پریشان کیے رکھا کہ ہمارے، یعنی پاکستان کے اتنا سب کرنے کے باوجود بھی امریکا ہم سے ہر وقت ''ڈُو مور'' کا مطالبہ ہی کرتا رہتا ہے اور بھارت ہماری تمام کوششوں کو پسِ پشت ڈال کر جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کی نظربندی اور اُڑی واقعے کی پاکستان میں ایف آئی آر سمیت تمام اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دہشت گردی کی رٹ لگائے ہوئے ہے اور کہتا ہے کہ وہ مذاکرات کےلیے تیار نہیں۔ چلیے، یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ یہ سب سیاست کا کھیل ہے، مگر سشما سوراج کے بیان ''ہم نے ڈاکٹرز اور انجینئر پیدا کیے مگر پاکستان نے صرف دہشت گرد پیدا کیے'' کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا؛ اور خاص طور پر سانحہ صفورا اور حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی انصار الشرعیہ میں ملک کی اعلیٰ جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ کا ملوث ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آزادی سے لے کر آج تک بھارت نے پاکستان کو کھلے دل سے قبول ہی نہیں کیا، اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس بیان کے بعد کہ جس میں انہوں نے پاکستان کو تنہا کرنے کا دعویٰ کیا ہے، یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ بھارت ہمیں بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارت سمیت ساری دنیا کو پاکستان پر الزام تراشی کا موقع کون دیتا ہے؟
میری عاجزانہ رائے کے مطابق اس کا آسان ترین جواب پاکستان میں رائج وہ فرسودہ نظام ہے جس کے تحت دی جانے والی تعلیم نہ چاہتے ہوئے بھی دہشت گرد ہی پیدا کرسکتی ہے۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم ہر خاص و عام کےلیے یکساں نظام تعلیم رائج کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس معاملے میں وطنِ عزیز کی اشرافیہ، المعروف ''ایلیٹ کلاس'' کا کردار کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جو کبھی نہیں چاہے گی کہ غریب کا بچہ پڑھ لکھ کر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجائے، ان کے برابر یا ان سے اونچی کرسی پر بیٹھنے اور اُن پرحکمرانی کے قابل بنے۔ یہ چند فیصد لوگ اس 98 فیصد آبادی پر حکمرانی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، اس لیے تو یہ ہمارا خون چوس کر اپنے بچوں کو حصولِ تعلیم کےلیے بیرون ملک بھیجتے ہیں تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھتے ہوئے غریب کےلیے آواز بلند کریں اور اُس نظام کو بہتر کرنے کی بات کریں جس میں وہ کبھی رہے ہی نہیں، جس کے معاشی و معاشرتی تانے بانے سے وہ واقف ہی نہیں۔
تلخ نوائی پر معذرت لیکن یہ تو صرف اس ملک کو لوٹنا اور غریب عوام کو نچوڑنا جانتے ہیں ورنہ جس صوبے میں غریبوں کی بہتری کے یہ دعویدار پچھلے کئی برس بلکہ عشروں سے حکمرانی کررہے ہیں، وہاں تو انسان کو دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے۔ جہاں تعلیم کے نام پر وہ نظام رائج ہو کہ جس سے نکل کر بچہ صرف جاگیرداروں اور وڈیروں کی غلامی کے قابل ہی بن سکتا ہے؛ اور علاج کی بات کی جائے تو جس علاقے نے صوبے کو 3 وزیراعلیٰ دیئے وہاں آج تک سرکاری اسپتال ہی قائم نہ ہوسکا اور عامۃ الناس کے پینے کےلیے ایسا آلودہ اور بدبودار پانی دستیاب ہے جو یہ حکمران اپنے کتوں کو پلانا بھی گوارا نہ کریں۔
یہ تو بات ہوئی حکمرانوں کی جو اس ملک کے تعلیمی نظام کا حصہ بننا ہی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ تو پھر اس فرسوہ نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ جب شہزادوں اور شہزادیوں کو ان جامعات اور اسپتالوں کی ضرورت ہی نہیں۔ اور جہاں تک حصولِ انصاف کا تعلق ہے، تو وہ بھی ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' کے مصداق کیا جارہا ہے۔ یہ اس پورے ملک اور اس میں جاری و ساری نظام کو اپنی پشتینی جاگیر سمجھتے ہیں۔ اور کیوں نہ سمجھیں کہ انصاف کے اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے لوگ ان ہی کے تلوے چاٹتے ہیں، ان ہی کے پھینکے ہوئے راتپ پر پلتے ہیں۔
یہاں بھی پڑوسی ملک بھارت کے نظام تعلیم کی بات کرنا چاہوں گا جو غریبوں کی تعداد میں ہم سے کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود تعلیم سمیت ہر میدان میں ہم سے آگے ہے۔ آج ایک طرف بھارت دنیا بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ کے شعبوں میں بلند مقام حاصل کرچکا ہے جبکہ خلا میں مشن بھیجنے کے نت نئے ریکارڈ بھی قائم کررہا ہے تو دوسری جانب ہم لاہور میں ایک انٹرنیشنل کرکٹ میچ کروانے کو اپنی بہت بڑی جیت سمجھ رہے ہیں۔
لیجیے جناب! میں پھر کہیں سے کہیں نکل گیا۔ بات ہورہی تھی طبقاتی نظام تعلیم کی جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ''اے لیولز'' اور ''او لیولز''سے فارغ ہونے والے بچوں کو ملک کی بڑی جامعات میں مواقع دیئے جاتے ہیں اور آگے جاکر انہیں یورپ اور امریکا سمیت دیگر ممالک کی اسکالرشپس بھی فراہم کردی جاتی ہیں۔ مگر ان کے برعکس کالے پیلے سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے بچوں کا کوئی مستقبل ہی نہیں ہوتا۔ اگرچہ ان میں سے چند ایک انتہائی محنت اور لگن سے منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ضرور ہوجاتے ہیں لیکن اکثر پھر بھی ڈگریاں لینے کے باوجود دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر ہی مجبور رہتے ہیں۔
اعلی تعلیمی اداروں اور دہشت گردی میں تعلق پر بحث کرتے وقت ہم عموماً اس نکتے کو نظرانداز کرجاتے ہیں کہ کسی بھی نوجوان کےلیے ڈگری لینے کے بعد زندگی کا دوسرا اہم ترین مرحلہ ملازمت یا روزگار کا حصول ہوتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جو انہیں شدت پسندی کی طرف راغب ہونے پر مجبور کرتا ہے۔ جب انہیں روزگار اور حصولِ رزق کے درست اور راست مواقع دکھائی نہیں ملتے تو ایسے میں انصارالشریعہ، داعش اور ان جیسی دیگر تنظیمیں انہیں بڑی آسانی سے اپنے جال میں پھنسا لیتی ہیں اور دہشت گردی کی راہ پر ڈال دیتی ہیں۔ جب یہ نوجوان، جن پر روزگار سے لے کر پُرامن زندگی تک کے بیشتر راستے بند کردیئے جاتے ہیں، دہشت گردی کی کسی کارروائی میں ملوث پائے جاتے ہیں تو ہمارے حکمران کچھ دیر کےلیے نیند سے جاگتے ہیں، لگا بندھا بیان ''ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سرکاری جامعات دہشت گردوں کی افزائش گاہیں تو نہیں'' دیتے ہیں، اور دوبارہ خواب غفلت میں چلے جاتے ہیں۔ ارے جناب! سیدھے سبھاؤ کیوں نہیں کہتے کہ والدین اب بچوں کو سرکاری جامعات سے نکال کر نجی جامعات میں پڑھوائیں تاکہ ہمارا بھی کچھ بھلا ہو۔
جابجا تعلیمی ادارے قائم ہونے کے باوجود آج تعلیم اتنی ناپید کیوں ہے؟ کیونکہ ملکی جامعات پر دہشت گردوں کی افزئش گاہ کا الزام لگا کر ویسے ہی سیاست کی نذر کیا جارہا ہے اور رہی سہی کسر ہمارے ہی درمیان سے نکلنے والے ان اساتذہ نے پوری کردی ہے جو سرکاری خرچے پر پلنے کے باوجود اپنا زیادہ تر وقت یا تو پرائیویٹ یونیورسٹیز میں صرف کرکے نوٹ چھاپتے ہیں یا پھر ''ہوم ٹیوشن'' کے نام پر بچوں کو اپنے ہاں بلاکر بے وقوف بناتے ہیں۔ سرکاری جامعات میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث کئی اساتذہ وہاں صرف اپنی شکل دکھانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
بہرحال! ہمارے حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ اگر اس قوم کے نوجوان صحیح معنوں میں اعلی تعلیم یافتہ ہوگئے، ان کے ذہن بیدار ہوگئے اور پاکستانی قوم تعلیم یافتہ قوموں کی صف میں کھڑی ہوگئی تو کم از کم ان کی غلامی کرنے کےلیے کوئی بھی تیار نہیں ہوگا۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر تعلیم کو درست سمت میں فروغ حاصل ہوگیا تو تمام صوبوں میں رائج فرسودہ نظام کو کون زندہ رکھے گا؛ اس نظامِ تعلیم کو کہ جس کے تحت یہ وڈیرے اور جاگیردار ان لوگوں کو اپنے پیر چھونے کا کہتے ہیں اور ان غریبوں کی بیٹیوں، زمینوں اور مال مویشیوں پر قبضہ کرنا اپنا موروثی حق سمجھتے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ خدانخواستہ اگر یہ قوم ترقی یافتہ ہوگئی تو پھر ان حکمرانوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ بھی کرے گی، اور آزادی و خود مختاری کےلیے بھی آواز بلند کرے گی۔ مگر ہمارے حکمران ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے کیونکہ ہم پر لاکھ دہشت گردی کو فروغ دینے اور دہشت گرد پیدا کرنے کے الزامات لگتے رہیں، لیکن یہ نظام اگر ایک بار درست ہوگیا تو اقتدار میں بیٹھے ان ظالموں کو سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ اور تو اور، ان کے بچے اس قابل بھی نہیں کہ غریب کی طرح محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی ہی کماسکیں۔