ملکی افق پر چشم کشا سیاسی آثار
اراکین اسمبلی کی ووٹنگ میں حصہ لینے اور نہ لینے پر سرزنش ہورہی ہے
قومی سیاست گمبھیرتا اور طلسم ہوشربا بنی ہوئی ہے۔ ملک کے سیاسی افق پر احتساب کے بادل چھائے ہوئے ہیں، برسراقتدار طبقے کے خلاف مختلف مقدمات کی سماعت جاری ہے، بادی النظر میں مقصد مملکت خداداد کو کرپشن ، بد انتظامی، اختیارات کے ناجائز استعمال، لوٹ کھسوٹ اور ذاتی مفادات کے ناسور سے بچانا ہے۔
آیندہ انتخابات کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ ہورہی ہیں، فوری انتخابات اور قومی اسمبلی میں نئے قائد ایوان کے لیے تبدیلی کی کشمکش تیز ہے، تاہم ایک طرف اضطراب، تناؤ اور باہمی چپقلش کی اندوہ ناک داخلی صورتحال ہے جب کہ عالمی سطح پر ملک کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا اعصاب شکن منظر نامہ عوام کے لیے سوہان روح بن چکا ہے، اندرون خانہ سیاسی استحکام اور نظام کو دھچکے لگنے کی اطلاعات ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال سے جمہوری عمل کو استقامت حاصل ہونے کے بجائے نتیجہ خیز سیاسی مکالمے کی جگہ مین اسٹریم سیاست بند گلی اور تاریک سرنگ کی طرف نکل جانے کو بے تاب ہے، اداروں کے مابین ٹکراؤ کے خدشات پر میڈیا میں روز نئے پینڈورا باکس کھولے جارہے ہیں ، جس کی ڈفلی اس کا راگ لمحہ موجود کا چلن بنا ہوا ہے،اسے گردش افلاک نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ جمہوری عمل کو مروجہ اور مسلمہ پارلیمانی روایات کی زنجیر بنانے سے گریز کا شاخسانہ ہے ، لہٰذا بات اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی اور کشمکش کے بحران کو شدید کررہی ہے، ہوشمندی کے مظاہرے کا یہی موزوں وقت ہے۔
سیاسی سرکشی کسی کے مفاد میں نہیں، اندازہ کیجیے کہ انتخابی اصلاحات بل کی سینیٹ سے منظوری ملتی ہے، اسے قومی اسمبلی کی دوبارہ منظوری کے لیے جس دن بھیجا جاتا ہے اسی روز اسے ہائیکورٹ میں چیلنج جب کہ سپریم کورٹ بار معاملے پر اجلاس بلالیتی ہے ۔ اراکین اسمبلی کی ووٹنگ میں حصہ لینے اور نہ لینے پر سرزنش ہورہی ہے، اسی اثنا میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ایک بار پھرکہا ہے کہ اقتدار کی تکون میں پارلیمان سب سے کمزور ادارہ ہے، اگر پارلیمان کے دونوں ایوان اور صوبائی اسمبلیاں اپنا آئینی کردارادا کریں تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہوگی۔
ادھر سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ملک بھر میںلاپتہ ہونے والے افرادکی تعداد میں مسلسل اضافے پرگہری تشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ لاپتہ افراد ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ ملک بھرسے کئی ہزاروںلوگ لاپتہ ہیں، ورثاء ،خاندان ،کسمپرسی کی حالت میںہیںکوئی شنوائی نہیں، لوگ اٹھائے جاتے ہیں اور انھی اداروں کو تحقیقات کے لیے کہا جاتا ہے، لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا بعد میں تشدد شدہ لاشیں ملتی ہیں۔
مزید برآں سینیٹ قائمہ کمیٹی آبی وسائل نے حکومت کو بھارتی آبی جارحیت کے سدباب کے لیے عالمی سطح پرکوششوں کومزید تیز کرنیکی ہدایت کر دی مگر اس تناظر میں ہم اپنی قومی ہزیمت کا جائزہ لیں جو حالیہ دنوں میں عالمی عدالتوں میں ہوئیں ، دو بڑے کیسز کارکے اور ریکوڈک میں مادر وطن کو کروڑوں ڈالر کے جرمانے بھرنے کے عدالتی حکم ملے ، سیاچن کو بھارت اور پاکستان کے درمیان انا کی دلدل قراردیا گیا ہے۔
کلبھوشن کیس لٹک گیا ہے، کنٹرول لائن پر کشیدگی اور بھارتی ریشہ دوانیوں کے سدباب کی ضرورت ہے جب کہ اندرونی خلفشار ختم کرنے اور جمہوری عمل کی پیش رفت کے لیے پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز اپنے مفادات کا ارینجمنٹ بنائیں، فکر کریں کہ ٹرمپ کا اگلا قدم کیا ہوگا، خطے کی چالاکی کے ساتھ بالادستی کا تاج بھارت کے سر پر کیوں رکھے جانے کی امریکی ضد جاری ہے، افغانستان کی ڈیولپمنٹ کیا رنگ لانے والی ہے۔
سول سوسائٹی کے اندر سے ایک اضطراب اور بے یقینی کا غبار اٹھ رہا ہے، جرائم پیشہ مافیائیں قانون کی حکمرانی کو خواب وخیال بنانے پر تلی ہوئی ہے، اس جانب بھی فوری توجہ دی جانی چاہیے، مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، کہیں بھی چیک اینڈ بیلنس نہیں ، اداروں اور بیوروکریسی میں توازن کا داخلی میکنزم بھی نعیف و نزار سا لگتا ہے، بین الصوبائی خیر سگالی، جمہوری اسپرٹ، یکجہتی اور سیاسی کشادہ دلی کے فقدان نے ساری سیاست تماشہ گری کی نذر کردی ہے، ملک کی سیاسی بے بسی پر کچھ تو رحم کیا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسٹیک ہولڈرز آگے بڑھیں اور سوچیں کہ معیشت جسے دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں گنے جانے کی خوشخریاں دی جاری تھیں اس معیشت میں جمود اور ترقی معکوس کی کتنی تشویش ناک خبریں آرہی ہیں، افواہوں کا بازر گرم ہے، کیا ملک دشمن قوتوں کو صاف میدان دیے جانے کی تیاریاں ہیں تاکہ مالیاتی اداروں کو باور کرایا جائے کہ پاکستان کی اکانومی ڈانوں ڈول ہونے لگی ہے، عالمی مالیاتی اداروں کواعتماد دلانے کی کوششوں کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔
سرحدوں کی نگہبانی پر پوری توجہ مرکوز ہے، مسلح افواج ملک کو کسی جارح دشمن کے لیے تر نوالہ نہیں بننے دیں گی، لیکن اسٹیک ہولڈرز پر بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں،ان کے کاندھوں پر جمہوریت کا نظام اقدار استوار ہے، خلیجی ریاستوںایران سمیت مشرق وسطیٰ میں برادر اور دوست ملکوں سے سفارت کارانہ مہارتوں کو کس قدر پذیرائی ملی، قوم اس کا حساب مانگتی ہے، عوام ریلیف اور امن واستحکام کے لیے بریک تھرو کے منتظر ہیں۔ ارباب سیاست اپنے قول سے کسی دانا کی اس بات کو غلط ثابت کردیں کہ ''جو ملک ہمیشہ سے خطرے کا متحمل ہو وہاں انتشار بھی تفریح بن جاتی ہے۔''
آیندہ انتخابات کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ ہورہی ہیں، فوری انتخابات اور قومی اسمبلی میں نئے قائد ایوان کے لیے تبدیلی کی کشمکش تیز ہے، تاہم ایک طرف اضطراب، تناؤ اور باہمی چپقلش کی اندوہ ناک داخلی صورتحال ہے جب کہ عالمی سطح پر ملک کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا اعصاب شکن منظر نامہ عوام کے لیے سوہان روح بن چکا ہے، اندرون خانہ سیاسی استحکام اور نظام کو دھچکے لگنے کی اطلاعات ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال سے جمہوری عمل کو استقامت حاصل ہونے کے بجائے نتیجہ خیز سیاسی مکالمے کی جگہ مین اسٹریم سیاست بند گلی اور تاریک سرنگ کی طرف نکل جانے کو بے تاب ہے، اداروں کے مابین ٹکراؤ کے خدشات پر میڈیا میں روز نئے پینڈورا باکس کھولے جارہے ہیں ، جس کی ڈفلی اس کا راگ لمحہ موجود کا چلن بنا ہوا ہے،اسے گردش افلاک نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ جمہوری عمل کو مروجہ اور مسلمہ پارلیمانی روایات کی زنجیر بنانے سے گریز کا شاخسانہ ہے ، لہٰذا بات اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی اور کشمکش کے بحران کو شدید کررہی ہے، ہوشمندی کے مظاہرے کا یہی موزوں وقت ہے۔
سیاسی سرکشی کسی کے مفاد میں نہیں، اندازہ کیجیے کہ انتخابی اصلاحات بل کی سینیٹ سے منظوری ملتی ہے، اسے قومی اسمبلی کی دوبارہ منظوری کے لیے جس دن بھیجا جاتا ہے اسی روز اسے ہائیکورٹ میں چیلنج جب کہ سپریم کورٹ بار معاملے پر اجلاس بلالیتی ہے ۔ اراکین اسمبلی کی ووٹنگ میں حصہ لینے اور نہ لینے پر سرزنش ہورہی ہے، اسی اثنا میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ایک بار پھرکہا ہے کہ اقتدار کی تکون میں پارلیمان سب سے کمزور ادارہ ہے، اگر پارلیمان کے دونوں ایوان اور صوبائی اسمبلیاں اپنا آئینی کردارادا کریں تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہوگی۔
ادھر سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ملک بھر میںلاپتہ ہونے والے افرادکی تعداد میں مسلسل اضافے پرگہری تشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ لاپتہ افراد ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ ملک بھرسے کئی ہزاروںلوگ لاپتہ ہیں، ورثاء ،خاندان ،کسمپرسی کی حالت میںہیںکوئی شنوائی نہیں، لوگ اٹھائے جاتے ہیں اور انھی اداروں کو تحقیقات کے لیے کہا جاتا ہے، لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا بعد میں تشدد شدہ لاشیں ملتی ہیں۔
مزید برآں سینیٹ قائمہ کمیٹی آبی وسائل نے حکومت کو بھارتی آبی جارحیت کے سدباب کے لیے عالمی سطح پرکوششوں کومزید تیز کرنیکی ہدایت کر دی مگر اس تناظر میں ہم اپنی قومی ہزیمت کا جائزہ لیں جو حالیہ دنوں میں عالمی عدالتوں میں ہوئیں ، دو بڑے کیسز کارکے اور ریکوڈک میں مادر وطن کو کروڑوں ڈالر کے جرمانے بھرنے کے عدالتی حکم ملے ، سیاچن کو بھارت اور پاکستان کے درمیان انا کی دلدل قراردیا گیا ہے۔
کلبھوشن کیس لٹک گیا ہے، کنٹرول لائن پر کشیدگی اور بھارتی ریشہ دوانیوں کے سدباب کی ضرورت ہے جب کہ اندرونی خلفشار ختم کرنے اور جمہوری عمل کی پیش رفت کے لیے پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز اپنے مفادات کا ارینجمنٹ بنائیں، فکر کریں کہ ٹرمپ کا اگلا قدم کیا ہوگا، خطے کی چالاکی کے ساتھ بالادستی کا تاج بھارت کے سر پر کیوں رکھے جانے کی امریکی ضد جاری ہے، افغانستان کی ڈیولپمنٹ کیا رنگ لانے والی ہے۔
سول سوسائٹی کے اندر سے ایک اضطراب اور بے یقینی کا غبار اٹھ رہا ہے، جرائم پیشہ مافیائیں قانون کی حکمرانی کو خواب وخیال بنانے پر تلی ہوئی ہے، اس جانب بھی فوری توجہ دی جانی چاہیے، مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، کہیں بھی چیک اینڈ بیلنس نہیں ، اداروں اور بیوروکریسی میں توازن کا داخلی میکنزم بھی نعیف و نزار سا لگتا ہے، بین الصوبائی خیر سگالی، جمہوری اسپرٹ، یکجہتی اور سیاسی کشادہ دلی کے فقدان نے ساری سیاست تماشہ گری کی نذر کردی ہے، ملک کی سیاسی بے بسی پر کچھ تو رحم کیا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسٹیک ہولڈرز آگے بڑھیں اور سوچیں کہ معیشت جسے دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں گنے جانے کی خوشخریاں دی جاری تھیں اس معیشت میں جمود اور ترقی معکوس کی کتنی تشویش ناک خبریں آرہی ہیں، افواہوں کا بازر گرم ہے، کیا ملک دشمن قوتوں کو صاف میدان دیے جانے کی تیاریاں ہیں تاکہ مالیاتی اداروں کو باور کرایا جائے کہ پاکستان کی اکانومی ڈانوں ڈول ہونے لگی ہے، عالمی مالیاتی اداروں کواعتماد دلانے کی کوششوں کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔
سرحدوں کی نگہبانی پر پوری توجہ مرکوز ہے، مسلح افواج ملک کو کسی جارح دشمن کے لیے تر نوالہ نہیں بننے دیں گی، لیکن اسٹیک ہولڈرز پر بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں،ان کے کاندھوں پر جمہوریت کا نظام اقدار استوار ہے، خلیجی ریاستوںایران سمیت مشرق وسطیٰ میں برادر اور دوست ملکوں سے سفارت کارانہ مہارتوں کو کس قدر پذیرائی ملی، قوم اس کا حساب مانگتی ہے، عوام ریلیف اور امن واستحکام کے لیے بریک تھرو کے منتظر ہیں۔ ارباب سیاست اپنے قول سے کسی دانا کی اس بات کو غلط ثابت کردیں کہ ''جو ملک ہمیشہ سے خطرے کا متحمل ہو وہاں انتشار بھی تفریح بن جاتی ہے۔''