مسئلہ گھر کی صفائی کا
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ انتہا پسندی کے عفریت کو قابو پانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
KARACHI:
چین میں دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں کے سربراہوں کے اجلاس میں دہشت گرد تنظیموںکے ٹھکانوں کے خاتمے کی قرارداد کی منظوری کے بعد پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہائی کے قریب تھا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے یہ بیان دے کر کہ ہمیں اپنے گھرکی صفائی کرنی چاہیے بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی۔
وزیر اعظم خاقان عباسی نے اپنے وزیر خارجہ کے بیان کی توثیق کرکے دوست ملک چین سمیت عالمی برادری کو یہ پیغام دیا کہ ملک کی موجودہ قیادت حقائق کو بخوبی سمجھتی ہے اور ایسے اقدامات کرنے کا عزم رکھتی ہے کہ عالمی برادری کے تحفظات ختم ہوجائیں اور پاکستان کو تنہا کرنے والی قوتوں کے عزائم ناکام ہوجائیں، مگر سابق وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کو موجودہ حکومت کی خارجہ امور میں حکمت عملی پسند نہیں آئی۔ انھوں نے فوراًیہ بیان دیا کہ خواجہ آصف کے اس بیان کے بعد دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی چوہدری نثارعلی خان کے ہم نوا بن گئے۔ انھوں نے زوردار بیانات میں وزیرخارجہ کے اس بیان کو ملک دشمنی قرار دیا۔ اب چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں جارحانہ تقریر کرتے ہوئے اس مفروضے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وزارت خارجہ نے بریکس تنظیم میں شامل ممالک چین، روس، برازیل اور جنوبی افریقہ کو کنونس کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ ڈرون حملے پر امریکا سے احتجاج کیوں نہیں کیا، بس انھوں نے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کے اس بیان کی تائید نہیں کی کہ وزیر اعظم خاقان عباسی کو امریکی نائب صدر سے مذاکرات سے انکار کردینا چاہیے تھا ۔
چوہدری نثار علی خان جب قائد حزب اختلاف تھے تو انھوں نے بیت اﷲ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر قومی اسمبلی میں امریکا پر تنقید کی تھی۔ بیت ﷲ محسود خودکش حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا اور پیپلزپارٹی کی سابق سربراہ بے نظیر بھٹو پر خودکش حملوں سمیت بہت سی دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی ملوث تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ 80ء کی دہائی میں جب جنرل ضیاء الحق نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افغانستان کی ترقی پسند حکومت کا تختہ الٹنے کے پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی تھی تو پاکستان میں انتہاپسند مذہبی تنظیموں کی کمین گاہیں قائم ہوئی تھیں مگر افغانستان میں ڈاکٹر نجیب ﷲ کی حکومت کے خاتمے اور افغانستان سے امریکا کی واپسی کے بعد بھی دنیا بھر کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے اسلامی جنگجوؤں افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود رہے۔
نائن الیون کے بعد پکڑے جانے والے دہشت گردوں کا تعلق کسی نہ کسی طرح پاکستان سے ظاہر ہوا، یوں دشمنوں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ پرویز مشرف حکومت کے دور میں بہت سے غیر ملکی اور مقامی دہشت گرد پکڑے گئے مگر مشرف کی دوغلی پالیسی کی بناء پر کابل میں لڑی جانے والے جنگ پشاور اور کوئٹہ کے راستے کراچی تک پہنچ گئی۔ ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کی دریافت سے پوری دنیا میں پاکستان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
سوات پر ملا فضل ﷲ کے قبضے، وہاں سے طالبان کا قبضہ ختم کرنے کے لیے فوج کے آپریشن اور پھر آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پورے ملک میں آپریشن سے نہ صرف ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا امیج بہت بہتر ہوا۔
اس خطے میں گزشتہ پانچ برسوں کے درمیان جیولوجیکل تبدیلیاں رونما ہوئیں، پاکستان اور چین اربوں ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والے اقتصادی راہ داری کے منصوبے پر متفق ہوئے اور اس منصوبے کے تحت گوادر سڑک کے ذریعے چین سے منسلک ہورہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت چاروں صوبوں میں صنعتی زون قائم ہونگے۔ چین ان صنعتی زون کے قیام کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ چین نے افغانستان کو ریل کے ذریعے سینٹرل ایشیائی ممالک اور ایران سے منسلک کردیا ہے مگر چین کا سرحدی صوبہ سنگیانگ مذہبی انتہاپسند تنظیموں کی شورش کا مرکز ہے۔
چین نے اگرچہ پاکستان کی درخواست پر مولانا مسعود اظہر کے ایشو پر سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد کو تین دفعہ ویٹو کیا مگر چینی حکومت کا مذہبی انتہاپسند تنظیموں کے حوالے سے موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ چین کو اپنے پڑوسی ملک برما کے معاملے پر بھی تشویش ہے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ پہلے ہی پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ چین اور یورپی ممالک عمومی طور پر امریکا کی اس پالیسی سے انحراف نہیں کرتے۔
پاکستان کے دوست اسلامی ممالک سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں ہمیشہ سے امریکا کی ہمنوا رہی ہیں۔ اس مجموعی معروضی صورتحال میں جذباتی نعرے لگا کر اقلیتی انتہاپسند حلقوں میں تو مقبولیت حاصل کی جاسکتی ہے لیکن ملک کے حقیقی مفادات کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ انتہا پسندی کے عفریت کو قابو پانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
انتہاپسند مذہبی تنظیموں کی مالیاتی پائپ لائن پوری طرح منقطع نہیں ہوئی مگر مذہبی انتہاپسندی پر مبنی مائنڈ سیٹ کی تبدیلی اور جمہوری نظام کے استحکام اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے شعور پیدا کرنے والے غیر سرکاری تنظیمیں (N.G.Os) ختم ہونے لگیں جس کا فائدہ انتہا پسند قوتوں کو پہنچا۔
گزشتہ سال کوئٹہ کے سول اسپتال پر خودکش حملے میں وکلاء کی ایک نسل شہید ہوگئی تو سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ملک میں موجود کالعدم تنظیموں کا تدارک ہونا چاہیے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی رپورٹ پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ اب داعش کے اشہتار کا معاملہ بھی تشویش ناک ہے۔ اس صورتحال میں خواجہ آصف کی ''گھرکی صفائی '' کا مؤقف درست ہے۔
وزیر اعظم خاقان عباسی نے بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اب مذہبی انتہاپسند تنظیموں کی کمین گاہوں کا خاتمہ کر کے اپنے ملک میں سکون قائم کرسکتے ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بلند کرسکتے ہیں ۔ یوں پاکستان میں امن کے دشمن تنہائی کا شکار ہونگے۔
چین میں دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں کے سربراہوں کے اجلاس میں دہشت گرد تنظیموںکے ٹھکانوں کے خاتمے کی قرارداد کی منظوری کے بعد پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہائی کے قریب تھا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے یہ بیان دے کر کہ ہمیں اپنے گھرکی صفائی کرنی چاہیے بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی۔
وزیر اعظم خاقان عباسی نے اپنے وزیر خارجہ کے بیان کی توثیق کرکے دوست ملک چین سمیت عالمی برادری کو یہ پیغام دیا کہ ملک کی موجودہ قیادت حقائق کو بخوبی سمجھتی ہے اور ایسے اقدامات کرنے کا عزم رکھتی ہے کہ عالمی برادری کے تحفظات ختم ہوجائیں اور پاکستان کو تنہا کرنے والی قوتوں کے عزائم ناکام ہوجائیں، مگر سابق وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کو موجودہ حکومت کی خارجہ امور میں حکمت عملی پسند نہیں آئی۔ انھوں نے فوراًیہ بیان دیا کہ خواجہ آصف کے اس بیان کے بعد دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی چوہدری نثارعلی خان کے ہم نوا بن گئے۔ انھوں نے زوردار بیانات میں وزیرخارجہ کے اس بیان کو ملک دشمنی قرار دیا۔ اب چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں جارحانہ تقریر کرتے ہوئے اس مفروضے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وزارت خارجہ نے بریکس تنظیم میں شامل ممالک چین، روس، برازیل اور جنوبی افریقہ کو کنونس کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ ڈرون حملے پر امریکا سے احتجاج کیوں نہیں کیا، بس انھوں نے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کے اس بیان کی تائید نہیں کی کہ وزیر اعظم خاقان عباسی کو امریکی نائب صدر سے مذاکرات سے انکار کردینا چاہیے تھا ۔
چوہدری نثار علی خان جب قائد حزب اختلاف تھے تو انھوں نے بیت اﷲ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر قومی اسمبلی میں امریکا پر تنقید کی تھی۔ بیت ﷲ محسود خودکش حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا اور پیپلزپارٹی کی سابق سربراہ بے نظیر بھٹو پر خودکش حملوں سمیت بہت سی دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی ملوث تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ 80ء کی دہائی میں جب جنرل ضیاء الحق نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افغانستان کی ترقی پسند حکومت کا تختہ الٹنے کے پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی تھی تو پاکستان میں انتہاپسند مذہبی تنظیموں کی کمین گاہیں قائم ہوئی تھیں مگر افغانستان میں ڈاکٹر نجیب ﷲ کی حکومت کے خاتمے اور افغانستان سے امریکا کی واپسی کے بعد بھی دنیا بھر کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے اسلامی جنگجوؤں افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود رہے۔
نائن الیون کے بعد پکڑے جانے والے دہشت گردوں کا تعلق کسی نہ کسی طرح پاکستان سے ظاہر ہوا، یوں دشمنوں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ پرویز مشرف حکومت کے دور میں بہت سے غیر ملکی اور مقامی دہشت گرد پکڑے گئے مگر مشرف کی دوغلی پالیسی کی بناء پر کابل میں لڑی جانے والے جنگ پشاور اور کوئٹہ کے راستے کراچی تک پہنچ گئی۔ ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کی دریافت سے پوری دنیا میں پاکستان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
سوات پر ملا فضل ﷲ کے قبضے، وہاں سے طالبان کا قبضہ ختم کرنے کے لیے فوج کے آپریشن اور پھر آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پورے ملک میں آپریشن سے نہ صرف ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا امیج بہت بہتر ہوا۔
اس خطے میں گزشتہ پانچ برسوں کے درمیان جیولوجیکل تبدیلیاں رونما ہوئیں، پاکستان اور چین اربوں ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والے اقتصادی راہ داری کے منصوبے پر متفق ہوئے اور اس منصوبے کے تحت گوادر سڑک کے ذریعے چین سے منسلک ہورہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت چاروں صوبوں میں صنعتی زون قائم ہونگے۔ چین ان صنعتی زون کے قیام کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ چین نے افغانستان کو ریل کے ذریعے سینٹرل ایشیائی ممالک اور ایران سے منسلک کردیا ہے مگر چین کا سرحدی صوبہ سنگیانگ مذہبی انتہاپسند تنظیموں کی شورش کا مرکز ہے۔
چین نے اگرچہ پاکستان کی درخواست پر مولانا مسعود اظہر کے ایشو پر سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد کو تین دفعہ ویٹو کیا مگر چینی حکومت کا مذہبی انتہاپسند تنظیموں کے حوالے سے موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ چین کو اپنے پڑوسی ملک برما کے معاملے پر بھی تشویش ہے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ پہلے ہی پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ چین اور یورپی ممالک عمومی طور پر امریکا کی اس پالیسی سے انحراف نہیں کرتے۔
پاکستان کے دوست اسلامی ممالک سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں ہمیشہ سے امریکا کی ہمنوا رہی ہیں۔ اس مجموعی معروضی صورتحال میں جذباتی نعرے لگا کر اقلیتی انتہاپسند حلقوں میں تو مقبولیت حاصل کی جاسکتی ہے لیکن ملک کے حقیقی مفادات کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ انتہا پسندی کے عفریت کو قابو پانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
انتہاپسند مذہبی تنظیموں کی مالیاتی پائپ لائن پوری طرح منقطع نہیں ہوئی مگر مذہبی انتہاپسندی پر مبنی مائنڈ سیٹ کی تبدیلی اور جمہوری نظام کے استحکام اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے شعور پیدا کرنے والے غیر سرکاری تنظیمیں (N.G.Os) ختم ہونے لگیں جس کا فائدہ انتہا پسند قوتوں کو پہنچا۔
گزشتہ سال کوئٹہ کے سول اسپتال پر خودکش حملے میں وکلاء کی ایک نسل شہید ہوگئی تو سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ملک میں موجود کالعدم تنظیموں کا تدارک ہونا چاہیے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی رپورٹ پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ اب داعش کے اشہتار کا معاملہ بھی تشویش ناک ہے۔ اس صورتحال میں خواجہ آصف کی ''گھرکی صفائی '' کا مؤقف درست ہے۔
وزیر اعظم خاقان عباسی نے بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اب مذہبی انتہاپسند تنظیموں کی کمین گاہوں کا خاتمہ کر کے اپنے ملک میں سکون قائم کرسکتے ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بلند کرسکتے ہیں ۔ یوں پاکستان میں امن کے دشمن تنہائی کا شکار ہونگے۔