سانحۂ ماڈل ٹاؤن شہباز شریف اور مریم نواز
آج جو لیڈر اپوزیشن میں ہیں کل کلاں وہ بھی حکومت میں آسکتے ہیں اُسوقت کیا وہ چاہیں گے
ماڈل ٹاؤن کے ہلاک شدگان کے قتل میں وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو ملوث کرنا نہ صرف غلط اور غیر قانونی ہے بلکہ اس سے ایک خطرناک رسم کی بنیاد پڑے گی۔ پھر ہر وزیرِاعلیٰ کے خلاف قتل کے پرچے درج ہوںگے، ہر پارٹی سربراہ کے خلاف قتل کی ایف آئی آر کٹے گی، ججوں اور جرنیلوں کے خلاف پرچے کرائے جائیں گے۔
امن وامان کے لیے کراچی، بلوچستان اور کئی دیگر علاقوں میں فوج بھی فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ فوجی جوانوں کی فائرنگ سے بھی بعض اوقات ہلاکتیں ہوجاتی ہیں کیا اُن ہلاکتوں کے پرچے آرمی چیف کے خلاف ہوںگے؟ دھرنوں کے سفر میں علامہ طاہرالقادری صاحب اور عمران خان صاحب کے ورکروں کے ہاتھوں بھی کچھ ہلاکتیں ہوئیں پھر اُن کے پرچے علامہ صاحب اور خان صاحب کے خلاف ہوں گے۔
مگرکیا یہ سب کچھ شریف فیملی کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی سازش کا حصہ ہے یا شہباز شریف کو دباؤ میں رکھنے کے لیے ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے؟ لیکن اگر شہباز شریف کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی سازش ہورہی ہے تو اس کے منصوبہ ساز ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں جو ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہوگا۔ اس ملک میں جس سیاستدان نے سب سے زیادہ میرٹ اور انصاف کا بول بالا کیا وہ شہباز شریف ہے۔ کسی سول اور فوجی حکمران نے شفافیّت اور انصاف پسندی کا اتنا خیال نہیں رکھا جتنا شہباز شریف نے رکھا ہے۔
وزیرِاعلیٰ پنجاب سے راقم کو ذاتی طور پر کئی شکوے اور شکایتیں ہیں کہ کیرئیر کے اہم ترین موقع پر جائز حق سے محروم رکھا گیا، مگر انصاف اور دیانتداری کا تقاضا ہے کہ ان کی خوبیوں کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے۔ برسوں پہلے راقم کی تعیناتی لاہور میں ایس پی سٹی کے طور پر ہو ئی تو شہباز صاحب سے ہرروز ملاقات ہونے لگی۔ وہ اُسوقت لاہور کی کرائم کنٹرول کمیٹی کے سربراہ تھے، جسکی ہر روز صبح سات بجے لاہور کے الحمراء ہال میں میٹنگ ہوتی تھی۔
لاہور میں اُسوقت ایس پی سٹی، ایس پی کینٹ اور ان کے اوپر ایک ایس ایس پی ہوتا تھا ، بس یہی ٹیم لاہور میں جرائم کی روک تھام اور امن و امان قائم رکھنے کی ذمّے دار ہوتی تھی۔ یہ ساری ٹیم صبح سات بجے کرائم کنٹرول کمیٹی کی میٹنگ میں شریک ہوتی تھی۔ سابق گورنر میاں اظہر وغیرہ اس کے ممبر ہوتے تھے۔
پولیس افسر رات کو پٹرولنگ بھی کرتے ہیں۔ دو تین بجے تک پٹرولنگ کرنا اور پھر علی الصبح تیار ہو کر سات بجے الحمراء پہنچنا بڑا مشکل تھا، اس لیے پہنچنے میں ہر روز تاخیر ہو جاتی ، شہباز شریف صاحب سفید رنگ کی ایک چھوٹی سے کار (سوزوکی سوفٹ) پر آتے تھے۔ میں ہر روز الحمراء پہنچتے ہی سب سے پہلے سوزوکی دیکھنے کے لیے نظر دوڑاتا اور دعا کرتا کہ کارنظر نہ آئے یعنی شہباز صاحب مجھ سے پہلے نہ پہنچ چکے ہوں (ویسے بھی ہمارے ہاں صدرِ مجلس عمو مََا لیٹ آتے ہیں) مگر ان کے لیٹ آنے کی ہماری خواہش کبھی پوری نہ ہوسکی۔
الحمرا پہنچتے ہی سفید سوزوکی نظر آجاتی تو میں میٹنگ روم کی طرف دوڑنا شروع کر دیتا، شہباز صاحب بڑے چیں بچیں ہوتے اور غصّے کا اظہار بھی کرتے ایس ایس پی اسرار احمد صاحب مجھ سے بھی پانچ سات منٹ لیٹ پہنچتے تھے۔ اُن چند مہینوں میں پہلی بار انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ محنت، جنون، سادگی اور سادہ دلی ان کی شخصیّت کے نمایاں پہلوتھے۔ عوام کے جان و مال کے تحفّظ کے لیے وہ سختی کے قائل تھے اور جرائم کو آہنی ہاتھوں سے کچلنے پر یقین رکھتے تھے۔ راقم شروع دن سے ہی اس پالیسی پر گامزن تھا۔ راقم کے ساتھ شہباز صاحب کے تعلقات میں کبھی گرمجوشی بھی آتی اور کبھی سردمہری اور تناؤ بھی رہتا۔
1997 میں وہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بن گئے تو انھوں نے لاہور پولیس کے سربراہ طارق سلیم ڈوگر کو چند مہینوں بعد ہٹا دیا اور کسی نئے افسر کی تلاش شروع کر دی۔اس سلسلے میں انھوں نے مجھے بلایا اور کہا ''میں کسی effective پولیس افسر کی تلاش میں ہوں کیوں نہ آپ کو ایس ایس پی لاہور لگا دیا جائے''؟ میں نے بوجوہ معذرت کی اورکہا '' سر! میں کچھ اور افسروں کے نام تجویز کر تا ہوں''۔ میں نے چند نام لکھ کر بھی دیے، ایک ہفتے کے بعد ان کے سیکریٹری کا فون آیا کہ چیف منسٹر صاحب نے کئی افسروں کے انٹرویو کیے ہیں، ایک نے معذرت کی ہے باقی انھیں پسند نہیں آئے۔
آئی جی صاحب (جہانزیب برکی) بھی آپ کے نام پر زور دے رہے ہیں اور چیف منسٹر صاحب بھی یہی چاہتے ہیں اس لیے آپ انکار نہ کریں اور آکر لاہور پولیس کو کمانڈ کریں۔ مذاکرات میں کچھ دن لگ گئے، جسمیں میں نے اپنی ٹیم خود بنانے کی اجازت مانگی جو انھوں نے بڑے کھلے دل سے دے دی۔ جسکے بعد میں نے لاہور پولیس کی کمان سنبھا ل لی اور پھر وزیرِ اعلیٰ صاحب سے تقریبََا ہر دوسرے روز کسی نہ کسی میٹنگ میں ملاقات ہونے لگی۔ وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے شہباز شریف صاحب نے میرٹ کو سر بلند کر کے مجھ سمیت سب کو حیران کر دیا۔
میں نے لاہور میں تعیّنات کئی بدنام افسروں کو نکال دیا، کئی افسر حکومتی پارٹی کے بڑے قریبی سمجھے جاتے تھے انھیں نکالنے کے لیے مجھے وزیرِاعلیٰ کے پاس جاکر بات کرنا پڑی، انھوں نے صرف یہ پوچھا کہ Are you convinced that they are corrupt and ill reputed? (کیا آپ مطمئن ہیں کہ وہ کرپٹ اور بدنام ہیں) میں نے کہا ''سر ! پوری تحقیق کے بعد میں آپ کو بتارہا ہوں''۔ انھوں نے فوراً کہا ''Never support any corrupt officer (میں کسی کرپٹ افسر کو کبھی سپورٹ نہیں کرونگا)۔
مجھے پنجاب پولیس یا پنجاب سے نکلے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں لیکن میںآج بھی تسلیم کرتا ہوں کہ شہباز شریف نے اپنے اس دعوے کو ثابت کرکے دکھادیا اور کبھی کسی بدنام افسر کی حمایت نہیں کی، کسی وزیر یا ایم پی اے نے سفارش کی تومسترد کردی، انھوں نے 1997سے 99تک نہ صرف بدنام افسروں کو فیلڈ پوسٹنگ نہیں دی بلکہ دیانتدار افسروں کو پوری طرح تحفظ دیا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کئی ضلعوں کے تمام ممبران اکٹھے ہوکر ضلعے کے ڈی سی یا ایس ایس پی کو تبدیل کرانے کے لیے آئے، چیف منسٹر نے اپنے ذرایع سے افسر کے بارے میں معلوم کیا، اگر افسر دیانتدار ہوتا تھا تو وزیرِاعلیٰ ضلعے کے تمام ممبروں کو چلتا کرتے تھے اور ایماندار افسروں کو Protectکرتے تھے۔ لاہور پولیس کے سربراہ کے طور پرمیں خود اسطرح کے کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں۔
لاہور سے تجاوزات ہٹانے کا وقت آیا تو وزیرِاعلیٰ نے خاندان کی مشترکہ سفارش رد کردی اور اپنے قریب ترین عزیز کے پٹرول پمپ بھی بلڈوزروں سے مسمار کرادیے اورکسی کے ساتھ زیادتی کرنے پر اپنے داماد کو ہتھکڑیاں لگوادیں۔ شہباز شریف سیاست میں رہتے ہوئے ممبرانِ اسمبلی کے دباؤ کو خاطر میں نہیں لایا، سیاسی مداخلت سب سے پہلے اُس نے ختم کی اور میرٹ اور انصاف کا علم بلند کیا۔ اس کا نام عمل، ایکشن، تحّرک، فعالیّت اور ڈویلپمنٹ کا استعارہ بن چکا ہے۔ وہ سیاست سے نکل گیا تو سیاست میں کیا رہ جائے گا؟چھان بُورا، شِیدے مِیدے، کرائم اور کرپشن کے سرپرست جنھیں گالی دینا اور ملعون کرنا آسان ہوگا۔
مجھے ذاتی طور پر سانحۂ ماڈل ٹاؤن پر بہت دکھ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں بپھرے ہوئے جلوسوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فورس استعمال کی جاتی ہے، اس میں کبھی دونوں طرف سے اور کبھی ایک جانب سے ہلاکتیں بھی ہوجاتی ہیں لیکن ہلاکتوں کی صورت میں وزیر تو کجا پولیس، فوج یا دیگر فورسز کے خلاف بھی فوجداری مقدمے درج نہیں ہوتے، صرف محکمانہ انکوائری ہوتی ہے اور انکوائری کی سفارشات کے مطابق محکمے کے سینئر افسران کارروائی کرتے ہیں، اگر ہنگاموں میں پولیس یا فوجی ملازمین کے ہاتھوں ہلاکتوں پر سیاسی یا عسکری قیادت کے خلاف پرچے ہونے لگیں تو ریاست کا نظام ٹھپ ہوجائیگا۔
آج جو لیڈر اپوزیشن میں ہیں کل کلاں وہ بھی حکومت میں آسکتے ہیں اُسوقت کیا وہ چاہیں گے کہ ہر ہنگامے کا مقدمہ ان کے خلاف درج ہو؟۔ باقر نجفی رپورٹ میں بھی وزیرِاعلیٰ کو ہلاکتوں کا ذمیّ دار ہرگز نہیں ٹھہرایا گیا، پولیس افسروں کو بھی نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا گیا ہے کہ پولیس نے پروفیشنلزم کا مظاہرہ نہیں کیا، کسی کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کی سفارش نہیں کی گئی۔
میں دیانتداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ پورے ملک میں سب سے زیادہ جذبے اور جنون سے کام کرنے والامحنتی اور انتھک لیڈرشہباز شریف ہے، مشرّف نے حکومت پر قبضہ کر لیا تو پنجاب میں اعلیٰ سطح اجلاسوں کی صدارت کرنے والے جنرل صاحبان شرکاء سے کہا کرتے تھے ''دیکھیںہمارا کام اور کارکردگی شہباز شریف سے کم نہیں ہونی چاہیے'' اب ترقی یافتہ ممالک بھی بڑے بڑے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شہباز شریف کے جنون اور رفتار کاحوالہ دیتے ہیں، اس کے خلاف حال ہی میں کرپشن کا ایک ہی الزام لگا اور وہ بھی جھوٹا ثابت ہوا ہے۔ اگر ملک بھر میں حکومتی اور اپوزیشن کے تمام سیاستدانوں کی ریٹنگ اور گریڈنگ کیجائے تو غیرجانبدار منصف سب سے زیادہ نمبر شہباز شریف کو ہی دیگا۔
اب کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں اوریہ درست ہے کہ جب تک فیصلہ سازی صرف شہباز شریف کے پاس رہی پنجاب میں میرٹ اور انصاف کی حکمرانی قائم رہی، مگر اب کچھ شراکت دار بھی پیدا ہوگئے ہیں جس سے میرٹ کا معیار گرا ہے اور گورننس خراب ہوئی ہے، اسے پھر سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے مخالف اینکرز بھی اپنے چینلوں پر دہائی دے رہے ہیں کہ آیندہ الیکشن میں بھی مسلم لیگ (ن)کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں، ایسی صورت میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے سب سے موزوں امیدوار شہباز شریف ہیں۔ مریم نواز بلاشبہ بہادر ماں باپ کی بہادر بیٹی ہے اُس نے مشکل حالات میں الیکشن جیت کر اپنا نام بڑے لیڈروں کی صف میں شامل کرالیا ہے۔ مگر ابھی اسے تربیّت اور تجربات کے کئی مراحل سے گزرنا ہوگا۔
امن وامان کے لیے کراچی، بلوچستان اور کئی دیگر علاقوں میں فوج بھی فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ فوجی جوانوں کی فائرنگ سے بھی بعض اوقات ہلاکتیں ہوجاتی ہیں کیا اُن ہلاکتوں کے پرچے آرمی چیف کے خلاف ہوںگے؟ دھرنوں کے سفر میں علامہ طاہرالقادری صاحب اور عمران خان صاحب کے ورکروں کے ہاتھوں بھی کچھ ہلاکتیں ہوئیں پھر اُن کے پرچے علامہ صاحب اور خان صاحب کے خلاف ہوں گے۔
مگرکیا یہ سب کچھ شریف فیملی کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی سازش کا حصہ ہے یا شہباز شریف کو دباؤ میں رکھنے کے لیے ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے؟ لیکن اگر شہباز شریف کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی سازش ہورہی ہے تو اس کے منصوبہ ساز ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں جو ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہوگا۔ اس ملک میں جس سیاستدان نے سب سے زیادہ میرٹ اور انصاف کا بول بالا کیا وہ شہباز شریف ہے۔ کسی سول اور فوجی حکمران نے شفافیّت اور انصاف پسندی کا اتنا خیال نہیں رکھا جتنا شہباز شریف نے رکھا ہے۔
وزیرِاعلیٰ پنجاب سے راقم کو ذاتی طور پر کئی شکوے اور شکایتیں ہیں کہ کیرئیر کے اہم ترین موقع پر جائز حق سے محروم رکھا گیا، مگر انصاف اور دیانتداری کا تقاضا ہے کہ ان کی خوبیوں کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے۔ برسوں پہلے راقم کی تعیناتی لاہور میں ایس پی سٹی کے طور پر ہو ئی تو شہباز صاحب سے ہرروز ملاقات ہونے لگی۔ وہ اُسوقت لاہور کی کرائم کنٹرول کمیٹی کے سربراہ تھے، جسکی ہر روز صبح سات بجے لاہور کے الحمراء ہال میں میٹنگ ہوتی تھی۔
لاہور میں اُسوقت ایس پی سٹی، ایس پی کینٹ اور ان کے اوپر ایک ایس ایس پی ہوتا تھا ، بس یہی ٹیم لاہور میں جرائم کی روک تھام اور امن و امان قائم رکھنے کی ذمّے دار ہوتی تھی۔ یہ ساری ٹیم صبح سات بجے کرائم کنٹرول کمیٹی کی میٹنگ میں شریک ہوتی تھی۔ سابق گورنر میاں اظہر وغیرہ اس کے ممبر ہوتے تھے۔
پولیس افسر رات کو پٹرولنگ بھی کرتے ہیں۔ دو تین بجے تک پٹرولنگ کرنا اور پھر علی الصبح تیار ہو کر سات بجے الحمراء پہنچنا بڑا مشکل تھا، اس لیے پہنچنے میں ہر روز تاخیر ہو جاتی ، شہباز شریف صاحب سفید رنگ کی ایک چھوٹی سے کار (سوزوکی سوفٹ) پر آتے تھے۔ میں ہر روز الحمراء پہنچتے ہی سب سے پہلے سوزوکی دیکھنے کے لیے نظر دوڑاتا اور دعا کرتا کہ کارنظر نہ آئے یعنی شہباز صاحب مجھ سے پہلے نہ پہنچ چکے ہوں (ویسے بھی ہمارے ہاں صدرِ مجلس عمو مََا لیٹ آتے ہیں) مگر ان کے لیٹ آنے کی ہماری خواہش کبھی پوری نہ ہوسکی۔
الحمرا پہنچتے ہی سفید سوزوکی نظر آجاتی تو میں میٹنگ روم کی طرف دوڑنا شروع کر دیتا، شہباز صاحب بڑے چیں بچیں ہوتے اور غصّے کا اظہار بھی کرتے ایس ایس پی اسرار احمد صاحب مجھ سے بھی پانچ سات منٹ لیٹ پہنچتے تھے۔ اُن چند مہینوں میں پہلی بار انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ محنت، جنون، سادگی اور سادہ دلی ان کی شخصیّت کے نمایاں پہلوتھے۔ عوام کے جان و مال کے تحفّظ کے لیے وہ سختی کے قائل تھے اور جرائم کو آہنی ہاتھوں سے کچلنے پر یقین رکھتے تھے۔ راقم شروع دن سے ہی اس پالیسی پر گامزن تھا۔ راقم کے ساتھ شہباز صاحب کے تعلقات میں کبھی گرمجوشی بھی آتی اور کبھی سردمہری اور تناؤ بھی رہتا۔
1997 میں وہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بن گئے تو انھوں نے لاہور پولیس کے سربراہ طارق سلیم ڈوگر کو چند مہینوں بعد ہٹا دیا اور کسی نئے افسر کی تلاش شروع کر دی۔اس سلسلے میں انھوں نے مجھے بلایا اور کہا ''میں کسی effective پولیس افسر کی تلاش میں ہوں کیوں نہ آپ کو ایس ایس پی لاہور لگا دیا جائے''؟ میں نے بوجوہ معذرت کی اورکہا '' سر! میں کچھ اور افسروں کے نام تجویز کر تا ہوں''۔ میں نے چند نام لکھ کر بھی دیے، ایک ہفتے کے بعد ان کے سیکریٹری کا فون آیا کہ چیف منسٹر صاحب نے کئی افسروں کے انٹرویو کیے ہیں، ایک نے معذرت کی ہے باقی انھیں پسند نہیں آئے۔
آئی جی صاحب (جہانزیب برکی) بھی آپ کے نام پر زور دے رہے ہیں اور چیف منسٹر صاحب بھی یہی چاہتے ہیں اس لیے آپ انکار نہ کریں اور آکر لاہور پولیس کو کمانڈ کریں۔ مذاکرات میں کچھ دن لگ گئے، جسمیں میں نے اپنی ٹیم خود بنانے کی اجازت مانگی جو انھوں نے بڑے کھلے دل سے دے دی۔ جسکے بعد میں نے لاہور پولیس کی کمان سنبھا ل لی اور پھر وزیرِ اعلیٰ صاحب سے تقریبََا ہر دوسرے روز کسی نہ کسی میٹنگ میں ملاقات ہونے لگی۔ وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے شہباز شریف صاحب نے میرٹ کو سر بلند کر کے مجھ سمیت سب کو حیران کر دیا۔
میں نے لاہور میں تعیّنات کئی بدنام افسروں کو نکال دیا، کئی افسر حکومتی پارٹی کے بڑے قریبی سمجھے جاتے تھے انھیں نکالنے کے لیے مجھے وزیرِاعلیٰ کے پاس جاکر بات کرنا پڑی، انھوں نے صرف یہ پوچھا کہ Are you convinced that they are corrupt and ill reputed? (کیا آپ مطمئن ہیں کہ وہ کرپٹ اور بدنام ہیں) میں نے کہا ''سر ! پوری تحقیق کے بعد میں آپ کو بتارہا ہوں''۔ انھوں نے فوراً کہا ''Never support any corrupt officer (میں کسی کرپٹ افسر کو کبھی سپورٹ نہیں کرونگا)۔
مجھے پنجاب پولیس یا پنجاب سے نکلے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں لیکن میںآج بھی تسلیم کرتا ہوں کہ شہباز شریف نے اپنے اس دعوے کو ثابت کرکے دکھادیا اور کبھی کسی بدنام افسر کی حمایت نہیں کی، کسی وزیر یا ایم پی اے نے سفارش کی تومسترد کردی، انھوں نے 1997سے 99تک نہ صرف بدنام افسروں کو فیلڈ پوسٹنگ نہیں دی بلکہ دیانتدار افسروں کو پوری طرح تحفظ دیا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کئی ضلعوں کے تمام ممبران اکٹھے ہوکر ضلعے کے ڈی سی یا ایس ایس پی کو تبدیل کرانے کے لیے آئے، چیف منسٹر نے اپنے ذرایع سے افسر کے بارے میں معلوم کیا، اگر افسر دیانتدار ہوتا تھا تو وزیرِاعلیٰ ضلعے کے تمام ممبروں کو چلتا کرتے تھے اور ایماندار افسروں کو Protectکرتے تھے۔ لاہور پولیس کے سربراہ کے طور پرمیں خود اسطرح کے کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں۔
لاہور سے تجاوزات ہٹانے کا وقت آیا تو وزیرِاعلیٰ نے خاندان کی مشترکہ سفارش رد کردی اور اپنے قریب ترین عزیز کے پٹرول پمپ بھی بلڈوزروں سے مسمار کرادیے اورکسی کے ساتھ زیادتی کرنے پر اپنے داماد کو ہتھکڑیاں لگوادیں۔ شہباز شریف سیاست میں رہتے ہوئے ممبرانِ اسمبلی کے دباؤ کو خاطر میں نہیں لایا، سیاسی مداخلت سب سے پہلے اُس نے ختم کی اور میرٹ اور انصاف کا علم بلند کیا۔ اس کا نام عمل، ایکشن، تحّرک، فعالیّت اور ڈویلپمنٹ کا استعارہ بن چکا ہے۔ وہ سیاست سے نکل گیا تو سیاست میں کیا رہ جائے گا؟چھان بُورا، شِیدے مِیدے، کرائم اور کرپشن کے سرپرست جنھیں گالی دینا اور ملعون کرنا آسان ہوگا۔
مجھے ذاتی طور پر سانحۂ ماڈل ٹاؤن پر بہت دکھ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں بپھرے ہوئے جلوسوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فورس استعمال کی جاتی ہے، اس میں کبھی دونوں طرف سے اور کبھی ایک جانب سے ہلاکتیں بھی ہوجاتی ہیں لیکن ہلاکتوں کی صورت میں وزیر تو کجا پولیس، فوج یا دیگر فورسز کے خلاف بھی فوجداری مقدمے درج نہیں ہوتے، صرف محکمانہ انکوائری ہوتی ہے اور انکوائری کی سفارشات کے مطابق محکمے کے سینئر افسران کارروائی کرتے ہیں، اگر ہنگاموں میں پولیس یا فوجی ملازمین کے ہاتھوں ہلاکتوں پر سیاسی یا عسکری قیادت کے خلاف پرچے ہونے لگیں تو ریاست کا نظام ٹھپ ہوجائیگا۔
آج جو لیڈر اپوزیشن میں ہیں کل کلاں وہ بھی حکومت میں آسکتے ہیں اُسوقت کیا وہ چاہیں گے کہ ہر ہنگامے کا مقدمہ ان کے خلاف درج ہو؟۔ باقر نجفی رپورٹ میں بھی وزیرِاعلیٰ کو ہلاکتوں کا ذمیّ دار ہرگز نہیں ٹھہرایا گیا، پولیس افسروں کو بھی نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا گیا ہے کہ پولیس نے پروفیشنلزم کا مظاہرہ نہیں کیا، کسی کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کی سفارش نہیں کی گئی۔
میں دیانتداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ پورے ملک میں سب سے زیادہ جذبے اور جنون سے کام کرنے والامحنتی اور انتھک لیڈرشہباز شریف ہے، مشرّف نے حکومت پر قبضہ کر لیا تو پنجاب میں اعلیٰ سطح اجلاسوں کی صدارت کرنے والے جنرل صاحبان شرکاء سے کہا کرتے تھے ''دیکھیںہمارا کام اور کارکردگی شہباز شریف سے کم نہیں ہونی چاہیے'' اب ترقی یافتہ ممالک بھی بڑے بڑے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شہباز شریف کے جنون اور رفتار کاحوالہ دیتے ہیں، اس کے خلاف حال ہی میں کرپشن کا ایک ہی الزام لگا اور وہ بھی جھوٹا ثابت ہوا ہے۔ اگر ملک بھر میں حکومتی اور اپوزیشن کے تمام سیاستدانوں کی ریٹنگ اور گریڈنگ کیجائے تو غیرجانبدار منصف سب سے زیادہ نمبر شہباز شریف کو ہی دیگا۔
اب کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں اوریہ درست ہے کہ جب تک فیصلہ سازی صرف شہباز شریف کے پاس رہی پنجاب میں میرٹ اور انصاف کی حکمرانی قائم رہی، مگر اب کچھ شراکت دار بھی پیدا ہوگئے ہیں جس سے میرٹ کا معیار گرا ہے اور گورننس خراب ہوئی ہے، اسے پھر سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے مخالف اینکرز بھی اپنے چینلوں پر دہائی دے رہے ہیں کہ آیندہ الیکشن میں بھی مسلم لیگ (ن)کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں، ایسی صورت میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے سب سے موزوں امیدوار شہباز شریف ہیں۔ مریم نواز بلاشبہ بہادر ماں باپ کی بہادر بیٹی ہے اُس نے مشکل حالات میں الیکشن جیت کر اپنا نام بڑے لیڈروں کی صف میں شامل کرالیا ہے۔ مگر ابھی اسے تربیّت اور تجربات کے کئی مراحل سے گزرنا ہوگا۔