کل ہو نہ ہو
ابھی تو موجودہ اسمبلیوں کے 16 مارچ 2013ء کو تحلیل ہونے میں تین ہفتے پڑے ہیں۔ کل کا کیا بھروسہ کل ہو نہ ہو۔
ہمارے اسکول کالج کے سالانہ امتحان کے دن قریب آتے تھے تو کچھ ساتھی امتحان کی تیاری کے لیے گوشہ نشین ہو جاتے۔کچھ پریشان حال دکھائی دیتے البتہ کئی ایک لاپروا نظر آتے۔ تیسری قسم وہ ہوتے جنھیں صرف اگلی کلاس میں نقل مار کے یا 33 فیصد نمبر لے کر پروموٹ ہونے میں دلچسپی ہوتی تھی۔ عملی زندگی میں آنے کے بعد ہم نے مذکورہ لاپروا ساتھیوں میں سے بہت سوں کو جھنڈے والی گاڑیوں میں پروٹوکول سمیت گھومتے پایا اور گوشہ نشین ہو جانے والوں کو انھی کے آگے پیچھے دوڑتے دیکھا۔ جس طرح دنیاوی رزق کے لیے عقل یا شکل غیر متعلق خوبیاں ہوتی ہیں، بشری صفات اور قابلیت کی کوئی شرط نہیں ہوتی کیونکہ ہما نامی پرندہ بھی نام و نسب پوچھ کر کسی کے سر پر نہیں بیٹھتا۔
اس تمہید کی شان نزول پنج سالہ امتحان یعنی سر پر کھڑا آیندہ جنرل الیکشن ہے جسے کچھ صاحبان اقتدار ''جل تو جلال تو آئی بلا ٹال تو'' کا منتر پڑھ کر التوا میں ڈالنے کے نت نئے لیکن خوفناک جتن کر رہے ہیں۔ بات اگر یوں ہے کہ ''ظلم کے خلاف جمہوریت بہترین انتقام ہے'' تو پھر حکمرانوں سے پاکستان کے اکثر عوام پوچھتے ہیں کہ ہم تو مظلوم ہیں، پھر انتقام ہمی سے کیوں لیا جا رہا ہے۔ ان بھولے بھالوں کو اتنا تو معلوم ہو گا کہ موجودہ حکومت بھی تو انھی کی محبت کا ثمر ہے اور اگر کوئی ٹھیٹھ پنجابی ہوتا تو شاید یہ کمنٹ دیتا کہ ''تے فیر ہور چوپو''۔
ہمارے بہت سے انتظامیہ کے دوست جنہوں نے نصف درجن سے زیادہ ماضی کے جنرل الیکشن بھگتائے ہیں بیان کرتے ہیں کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی وصول کرتے وقت اور ان پر اعتراضات کی سماعت کے دوران نہ تو ریٹرننگ افسروں اور نہ ہی معترضین نے اسکروٹنی میں اتنی سخت اور گہری دلچسپی لی جتنی 2013ء کے الیکشن میں متوقع ہے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے یہ عہدہ سنبھالتے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہے جسے وہ فرض اور عبادت سمجھ کر نبھانے کی کوشش کریں گے۔ امیدواروں کی اہلیت جانچنے اور نااہلیت کا جائزہ لینے کے لیے قوانین و ضوابط تو پہلے بھی موجود تھے جنھیں شاید ریٹرننگ افسروں نے بھی ایک بار اور وہ بھی سرسری پڑھا ہو گا لیکن اگلے الیکشن کے انعقاد سے کئی ماہ پہلے اب کے چھابڑی اور رہڑی والا بھی جانتا ہے کہ کن خوبیوں والا امیدوار الیکشن کے اندر جا سکتا ہے اور کن برائیوں کے باعث الیکشن سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ مختصراً یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ فخرو بھائی اور ان کی ٹیم Fair and Free الیکشن کرانے کا ارادہ بشمول ضروری اقدامات رکھتی ہے، اس بار ملک کے نمک حراموں کو جتنی شدید تشویش ہے اتنے ہی محب وطن پُر امید ہیں کہ اسکروٹنی کی چھلنی سے نکل کر کامیاب ہونے والے اسمبلیوں کے امیدوار کم از کم دیانت اور امانت کے پہلے ٹیسٹ میں تو سرخرو ہو چکے ہوں گے۔
اس بار اسمبلیوں کے امیدوار کو کاغذات نامزدگی کی منظوری سے پہلے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ (1) دہری شہریت کا حامل تو نہیں (2) گزشتہ تین سال سے سالانہ ٹیکس ریٹرن جو کہ ہر لحاظ سے مبنی بر حقیقت ہو داخل کرتا رہا ہے (3) اس نے اگر بینکوں سے قرض حاصل کیا تو کہیں نادہندہ تو نہیں (4) کسی عدالت کا سزا یافتہ تو نہیں (5) اگر اس کے پاس کوئی تعلیمی ڈگری ہے تو وہ منظور شدہ ادارے کی جاری کردہ ہے اور مزید کہ وہ جعلی تو نہیں (6) نیب کے ساتھ ساز باز کر کے پلی بارگین کے نتیجے میں ڈرائی کلین ہو کر نکلا ہوا تو نہیں (7) اگر اس نے قرض حاصل کیا تھا تو ملی بھگت سے بلا جواز معاف تو نہیں کروایا۔
آرٹیکل 63,62 اور دیگر شرائط پر عمل درآمد میں تعاون کے لیے الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک، نادرہ، ایف بی آر، نیب کو پابند کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہر محکمے اور ادارے کو متوقع امیدواروں سے متعلق ضروری معلومات کا ڈیٹا تیار رکھنے اور طلب کرنے پر فوری پیش کرنے کا حکم ہے۔
پارلیمنٹ ملک اور عوام کے لیے قانون سازی کرتی ہے تا کہ ملک مالی قانونی ا خلاقی تعلیمی تفریحی اور دیگر ضروریات و لوازمات سے لیس رہے۔ ملک کی اندرونی اور بیرونی حفاظت میں رخنہ اندازی نہ ہونے پائے اور عوام کی صحت و حفاظت کے ساتھ جان و مال خطرات سے محفوظ رہیں، اسی لیے پارلیمنٹ میں داخل ہونے والوں کی اپنی شخصیت کی چھان پھٹک کے لیے الیکشن سے قبل آرٹیکل 63,62 کی چھلنی رکھی گئی ہے تا کہ دیانت و امانت کے ترازو پر پورے اترنے والے با کردار نیک نام اور اہل لوگوں ہی کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور رہے۔ ظاہر ہے چور کو چوکیداری پر رکھنا نہ عوام اور نہ ہی حکمرانوں کے مفاد میں ہو سکتا ہے۔ اسی لیے جب پارلیمنٹ کے امیدوار اپنے اپنے کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثے ڈیکلیئر کریں گے تو لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا کر پہلے حیران اور پھر افسردہ ہو جائیں گے کہ ان کے علاقے کے امیدوار کو ناحق کرپٹ یا حرام خور کہہ کر بدنام کیا جاتا رہا، اس بے چارے کے پاس تو ذاتی کار یا مکان تک نہیں اور بینک بیلنس بھی پانچ ہندسوں سے کم ہے۔ اس بے چارے کی تو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام یا ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم اخوت کے ذریعے امداد کرنی چاہیے لیکن جب فخر الدین جی ابراہیم اس امیدوار کے ڈیکلیئر کردہ اثاثے پبلک سے فیڈ بیک یا اعتراض لینے کے لیے مشتہر کریں گے تو انکشاف ہو گا کہ موصوف نے اپنی تمام دولت اپنے بیوی بچوں کے نام منتقل کر دی ہوئی ہے، خود ہر دوسرے مہینے چند روز بیرون ملک تفریح اور فیملی کی شاپنگ کے لیے گزارتا ہے لیکن ذاتی ٹیکس ریٹرن بوجہ مفلوک الحالی داخل کرنے سے معذور ہے۔
کس نے کتنے قرضے معاف کرائے، کون بینکوں کا نادہندہ ہے۔ کس نے کتنی دولت اور پراپرٹی اندرون و بیرون ملک بیعنامی کھاتوں میں چھپا رکھی ہے، کس نے نیب سے کن شرائط پر پلی بارگین کیا، کس کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے اور کاروبار میں مشغول رہے۔ یہ اور بہت کچھ وقت آنے پر اگر الیکشن شیڈول کے مطابق ہوئے، چیف الیکشن کمشنر کو خدا نے صحت یاب رکھا اور پارلیمنٹ کے امیدواروں کے نامزدگی کے کاغذات ڈیکلیئرڈ اثاثے مشتہر ہوئے تو دیکھنے سننے اور پڑھنے کو ملے گا۔ ابھی سوچ کو اسی جگہ لگام دیتے ہیں۔ ابھی تو موجودہ اسمبلیوں کے 16 مارچ 2013ء کو تحلیل ہونے میں تین ہفتے پڑے ہیں۔ کل کا کیا بھروسہ کل ہو نہ ہو۔
اس تمہید کی شان نزول پنج سالہ امتحان یعنی سر پر کھڑا آیندہ جنرل الیکشن ہے جسے کچھ صاحبان اقتدار ''جل تو جلال تو آئی بلا ٹال تو'' کا منتر پڑھ کر التوا میں ڈالنے کے نت نئے لیکن خوفناک جتن کر رہے ہیں۔ بات اگر یوں ہے کہ ''ظلم کے خلاف جمہوریت بہترین انتقام ہے'' تو پھر حکمرانوں سے پاکستان کے اکثر عوام پوچھتے ہیں کہ ہم تو مظلوم ہیں، پھر انتقام ہمی سے کیوں لیا جا رہا ہے۔ ان بھولے بھالوں کو اتنا تو معلوم ہو گا کہ موجودہ حکومت بھی تو انھی کی محبت کا ثمر ہے اور اگر کوئی ٹھیٹھ پنجابی ہوتا تو شاید یہ کمنٹ دیتا کہ ''تے فیر ہور چوپو''۔
ہمارے بہت سے انتظامیہ کے دوست جنہوں نے نصف درجن سے زیادہ ماضی کے جنرل الیکشن بھگتائے ہیں بیان کرتے ہیں کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی وصول کرتے وقت اور ان پر اعتراضات کی سماعت کے دوران نہ تو ریٹرننگ افسروں اور نہ ہی معترضین نے اسکروٹنی میں اتنی سخت اور گہری دلچسپی لی جتنی 2013ء کے الیکشن میں متوقع ہے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے یہ عہدہ سنبھالتے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہے جسے وہ فرض اور عبادت سمجھ کر نبھانے کی کوشش کریں گے۔ امیدواروں کی اہلیت جانچنے اور نااہلیت کا جائزہ لینے کے لیے قوانین و ضوابط تو پہلے بھی موجود تھے جنھیں شاید ریٹرننگ افسروں نے بھی ایک بار اور وہ بھی سرسری پڑھا ہو گا لیکن اگلے الیکشن کے انعقاد سے کئی ماہ پہلے اب کے چھابڑی اور رہڑی والا بھی جانتا ہے کہ کن خوبیوں والا امیدوار الیکشن کے اندر جا سکتا ہے اور کن برائیوں کے باعث الیکشن سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ مختصراً یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ فخرو بھائی اور ان کی ٹیم Fair and Free الیکشن کرانے کا ارادہ بشمول ضروری اقدامات رکھتی ہے، اس بار ملک کے نمک حراموں کو جتنی شدید تشویش ہے اتنے ہی محب وطن پُر امید ہیں کہ اسکروٹنی کی چھلنی سے نکل کر کامیاب ہونے والے اسمبلیوں کے امیدوار کم از کم دیانت اور امانت کے پہلے ٹیسٹ میں تو سرخرو ہو چکے ہوں گے۔
اس بار اسمبلیوں کے امیدوار کو کاغذات نامزدگی کی منظوری سے پہلے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ (1) دہری شہریت کا حامل تو نہیں (2) گزشتہ تین سال سے سالانہ ٹیکس ریٹرن جو کہ ہر لحاظ سے مبنی بر حقیقت ہو داخل کرتا رہا ہے (3) اس نے اگر بینکوں سے قرض حاصل کیا تو کہیں نادہندہ تو نہیں (4) کسی عدالت کا سزا یافتہ تو نہیں (5) اگر اس کے پاس کوئی تعلیمی ڈگری ہے تو وہ منظور شدہ ادارے کی جاری کردہ ہے اور مزید کہ وہ جعلی تو نہیں (6) نیب کے ساتھ ساز باز کر کے پلی بارگین کے نتیجے میں ڈرائی کلین ہو کر نکلا ہوا تو نہیں (7) اگر اس نے قرض حاصل کیا تھا تو ملی بھگت سے بلا جواز معاف تو نہیں کروایا۔
آرٹیکل 63,62 اور دیگر شرائط پر عمل درآمد میں تعاون کے لیے الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک، نادرہ، ایف بی آر، نیب کو پابند کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہر محکمے اور ادارے کو متوقع امیدواروں سے متعلق ضروری معلومات کا ڈیٹا تیار رکھنے اور طلب کرنے پر فوری پیش کرنے کا حکم ہے۔
پارلیمنٹ ملک اور عوام کے لیے قانون سازی کرتی ہے تا کہ ملک مالی قانونی ا خلاقی تعلیمی تفریحی اور دیگر ضروریات و لوازمات سے لیس رہے۔ ملک کی اندرونی اور بیرونی حفاظت میں رخنہ اندازی نہ ہونے پائے اور عوام کی صحت و حفاظت کے ساتھ جان و مال خطرات سے محفوظ رہیں، اسی لیے پارلیمنٹ میں داخل ہونے والوں کی اپنی شخصیت کی چھان پھٹک کے لیے الیکشن سے قبل آرٹیکل 63,62 کی چھلنی رکھی گئی ہے تا کہ دیانت و امانت کے ترازو پر پورے اترنے والے با کردار نیک نام اور اہل لوگوں ہی کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور رہے۔ ظاہر ہے چور کو چوکیداری پر رکھنا نہ عوام اور نہ ہی حکمرانوں کے مفاد میں ہو سکتا ہے۔ اسی لیے جب پارلیمنٹ کے امیدوار اپنے اپنے کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثے ڈیکلیئر کریں گے تو لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا کر پہلے حیران اور پھر افسردہ ہو جائیں گے کہ ان کے علاقے کے امیدوار کو ناحق کرپٹ یا حرام خور کہہ کر بدنام کیا جاتا رہا، اس بے چارے کے پاس تو ذاتی کار یا مکان تک نہیں اور بینک بیلنس بھی پانچ ہندسوں سے کم ہے۔ اس بے چارے کی تو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام یا ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم اخوت کے ذریعے امداد کرنی چاہیے لیکن جب فخر الدین جی ابراہیم اس امیدوار کے ڈیکلیئر کردہ اثاثے پبلک سے فیڈ بیک یا اعتراض لینے کے لیے مشتہر کریں گے تو انکشاف ہو گا کہ موصوف نے اپنی تمام دولت اپنے بیوی بچوں کے نام منتقل کر دی ہوئی ہے، خود ہر دوسرے مہینے چند روز بیرون ملک تفریح اور فیملی کی شاپنگ کے لیے گزارتا ہے لیکن ذاتی ٹیکس ریٹرن بوجہ مفلوک الحالی داخل کرنے سے معذور ہے۔
کس نے کتنے قرضے معاف کرائے، کون بینکوں کا نادہندہ ہے۔ کس نے کتنی دولت اور پراپرٹی اندرون و بیرون ملک بیعنامی کھاتوں میں چھپا رکھی ہے، کس نے نیب سے کن شرائط پر پلی بارگین کیا، کس کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے اور کاروبار میں مشغول رہے۔ یہ اور بہت کچھ وقت آنے پر اگر الیکشن شیڈول کے مطابق ہوئے، چیف الیکشن کمشنر کو خدا نے صحت یاب رکھا اور پارلیمنٹ کے امیدواروں کے نامزدگی کے کاغذات ڈیکلیئرڈ اثاثے مشتہر ہوئے تو دیکھنے سننے اور پڑھنے کو ملے گا۔ ابھی سوچ کو اسی جگہ لگام دیتے ہیں۔ ابھی تو موجودہ اسمبلیوں کے 16 مارچ 2013ء کو تحلیل ہونے میں تین ہفتے پڑے ہیں۔ کل کا کیا بھروسہ کل ہو نہ ہو۔