اگلی حکومت کا وزیر خزانہ
جس شخص کو وزارت خزانہ کا تڑکا لگا کے وزارت عظمیٰ کے طلب گاروں میں شامل کیا جانے والا ہے وہ بندہ کس قماش کا ہے۔
عبوری وزیر اعظم کون ہوگا؟ یہ بات جاننے سے زیادہ میری دلچسپی اس میں ہے کہ اگلی حکومت میں وزیر خزانہ کون ہوگا،ہمارے تازہ وزیر خزانہ سلیم مانڈوی والا ہیں اور کیسی مزے کی بات ہے کہ ان کا دور آنے والے عبوری دور سے بھی کم ہوگا۔ حفیظ شیخ کو باہمی وبین الاقوامی ترجیحات کے بارے میں اتفاق نہ ہونے پر اور خالی دیگ میں سے کسی معاشی منتر کے ذریعے مطلوبہ مال برآمد نہ کرنے کی وجہ سے الگ ہونا پڑا۔عبوری وزیر اعظم کے بارے میں افواہیں اس وقت تک اڑتی رہیں گی جب تک قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف اتفاق رائے کی دو فٹ لمبی ٹوپی سے دو سو سیاسی جماعتوں کو بیک وقت خوش کردینے والا عبوری وزیر اعظم برآمد نہیں کرلیتے۔ وہ حفیظ شیخ یقینا نہیں ہوگا، لیکن ایک بات طے ہے کہ حفیظ شیخ نے آیندہ کسی بھی مناسب وقت پر وزارت عظمیٰ کو گلے لگانے کے لیے اپنا نام جانشینوں کی فہرست میں درج کروا لیا ہے۔ سلیم مانڈوی والا کا نام بھی اب اسی فہرست میں سمجھیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں جسے بھی وزارت خزانہ کا تڑکا لگا ہے وہ وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں سب سے آگے رہا ہے، ہمارے پہلے وزیر اعظم، قائد ملت لیاقت علی خان متحدہ ہندوستان میں وزیر خزانہ تھے۔ چوہدری محمد علی بھی وزارت خزانہ سے سفر کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔ نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ تھے۔ وہ وہاں کے وزیر اعلیٰ بنے اور پھر وزیر اعظم ۔ شوکت عزیز نے بھی وزارت خزانہ سے ہی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر چھلانگ لگائی تھی۔
اور تو اور مخدوم شہاب الدین جو بے نظیربھٹو کے دور حکومت میں ایک بار اتفاقیہ وزیر خزانہ بن گئے تھے وہ بھی تقریباً اسی منزل تک پہنچ گئے تھے کہ ایفیڈرین والے کیس نے نیچے سے کرسی کھینچ لی اور راجہ اشرف کی تقدیر نے کرنٹ مارا تو سارا منظر بدل گیا۔ اب عبوری انتظام کے لیے جن سیاسی لوگوں کے نام سامنے آرہے ہیں ان میں اسحٰق ڈار اور حفیظ شیخ بھی شامل تصور کیے جاتے ہیں۔ دونوں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ یہ بھی امکان ہے کہ یہ تان ایک اور وزیر خزانہ شوکت ترین پر جا ٹوٹے۔میرے اس کیس کو ہمارے پڑوسی ملک سے بھی تقویت ملتی ہے۔ وہاں کے وزیر اعظم من موہن سنگھ بھی پہلے وزیر خزانہ ہی تھے۔
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں آنے والے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے وزیر خزانہ میں کیوں دلچسپی رکھتا ہوں۔ دراصل کچھ نام ایسے ہیں کہ جن کا سوچ کر ہی میرے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ پہلے وزارت خزانہ اور پھر وزارت عظمیٰ تک کا سفر۔ اف۔۔۔۔۔میرے اللہ! مجھے میرے ملک اور میرے ملک کے معصوم بچوں کو ان کے کپڑے لتّے سمیت اپنی پناہ میں رکھنا۔
امریکی سروے اگر درست تھا تو پھر جو حکومت اس ملک میں بننے والی ہے اس کا وزیر خزانہ بھی متوقع طور پر ایک ایسا شخص ہوگا جو خزانے کے بارے میں بس اتنا ہی جانتا ہے کہ وہ بھرا ہوا ہے یا نہیں۔ اس بات کی اطلاع ایک بار اس نے نقارے پر چوٹ لگا کے سارے دنیا کو دے دی تھی کہ ہمارا خزانہ خالی ہے۔ یہ 2008کا ذکر ہے جب آج کی اپوزیشن اور حکومت نے مل کے حکومت کی تھی اور 42 دن تک لڈیاں اور جھومر ڈالے تھے۔ خزانہ خالی ہونے کی اس معرکۃ الآراء بریکنگ نیوز نے تب ہماری اکانومی کی کمر بریک کرکے رکھ دی تھی۔ پھر 42 روز کی وزارت خزانہ کے کھونے کے بعد سنبھلنے میں 42 ہفتے لگ گئے۔
صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کی پوزیشن قدرے بہتر دیکھ کے ملک کے کاروباری حلقوں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے۔ پی ٹی آئی کا شور شرابہ جن دنوں زوروں پر تھا اس وقت بھی اسی قسم کی پریشانی عام ہورہی تھی۔ کاروباری لوگ سوچ رہے تھے کہ تیس اور نوے دنوں میں ملک کی کایا پلٹ دینے کے نعرے لگانے والے جس قسم کی کچی پکی اور بچگانہ باتیں کر رہے ہیں وہ تو اس سے بھی کم دنوں میں ملک کی لٹیا ڈبونے کو کافی ہیں۔
وزارت خزانہ ایک ایسی اہم اور نازک وزارت ہے کہ کسی بھی ملک کے مستقبل کا رخ متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ کوئی سمجھدار اور متوازن شخص اس کا سربراہ نہ ہو تو سارا معاملہ جوں کا توں رہتا ہے۔ایسے میں بیوروکریسی کے اہلکار مکھی پر مکھی مارتے تمام معاملات کو حسب سابق چلاتے رہتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہی ہورہا ہے، بینکرز اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اگر ملک کے وزیر خزانہ بنتے رہے تو ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ سچی بات یہ ہے کہ محبوب الحق کے بعد ہمارے ملک کو کبھی کوئی ڈھنگ کا اکاؤنٹنٹ وزارت خزانہ کے لیے دستیاب ہی نہیں ہوا۔ آگے بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ جو لوگ اکانومی کے چیمپئن کے طور پر دوڑ میں شامل ہیں ان کی باتیں سن کر خوف آتا ہے۔ سب لوگ پیسہ اکٹھا کرنے، لوگوں کو رگڑا لگانے اور زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ اس بات کا ارادہ کوئی ظاہر نہیں کرتا کہ ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا اور صنعت کو زندہ رہنے کا موقع مہیا کیا جائے گا۔
ٹیکس کی چوری کو روکنا مسئلے کا حل نہیں۔ یہ فقط مسئلے کا ایک پہلو ہے ۔ اس چوری کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ وصولی کا نظام کس قسم کا ہے۔ سسٹم میں اگر عوام کی توہین ہوگی تو ٹیکس کون دینا پسند کرے گا، بے عزتی ہو تو لوگ کاروبار ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکس کی شرح غیرمنصفانہ ہو تو بھی انجام برا ہوتا ہے۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ کے اس موقف سے کاروباری طبقہ خوش ہے کہ وہ دھیرے دھیرے ٹیکس کی شرح پانچ فیصد تک لانا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو ٹیکس کی وصولی کئی گنا بڑھ سکتی ہے اور کاروباری سرگرمیاں حیران کن رفتار سے جاری و ساری ہوجائیں گی۔
لیکن دوسری طرف انھی کی جماعت کے لوگ ''میں رگڑا لگادوں گا''، ''اسٹاک مارکیٹ کے کچھ بندوں کو تو میں چھوڑوں گا نہیں'' اس ٹائپ کی باتیں کریں گے تو یہی سمجھا جائے گا کہ پی ٹی آئی کی طرح ان کے پاس بھی سنجیدگی اور معقولیت پسندگی کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کے ممکنہ وزیر خزانہ ویلتھ ٹیکس کی لٹھ اٹھائے پھر رہے ہیں۔ وہ اسے پھر سے نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں حالانکہ پوری دنیا میں اسے ایک غیرمنصفانہ ترین ٹیکس سمجھا جاتا ہے۔ اقتصادی ماہرین اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور نظام زکوٰۃ کے نفاذ کے بعد تو یہ یوں بھی ناجائز ہے۔ کاروباری حلقوں میں تشویش کی بات یہی ہے کہ اگر ایسی سوچ کے حامل لوگ اقتدار میں آگئے تو وہ معیشت کی رہی سہی جان نکال دینے کے لیے جانے اور بھی کیا کچھ الٹا سیدھا کرگزریں گے۔
اگر یہی تاثر عام رہا تو وہ سیاسی جماعت خواہ مسلم لیگ نون ہو، پی ٹی آئی ہو یا پاکستان پیپلز پارٹی، ملک کا کاروباری طبقہ اس کا ساتھ دینے سے گریز کرے گا۔ بہتر یہی ہے کہ حقیقی جمہوری ملکوں کی طرح ہماری سیاسی جماعتیں بھی نہ صرف اپنی پالیسی اچھی طرح واضح کریں بلکہ اپنی اقتصادی ٹیم کا بھی اعلان کریں۔ اس سے یہ دیکھنے میں آسانی ہوگی کہ ان میں کتنی سنجیدگی اور صلاحیت موجود ہے اور ان کی نیت کیسی ہے۔ آخر عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ جس شخص کو وزارت خزانہ کا تڑکا لگا کے وزارت عظمیٰ کے طلب گاروں میں شامل کیا جانے والا ہے وہ بندہ کس قماش کا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں جسے بھی وزارت خزانہ کا تڑکا لگا ہے وہ وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں سب سے آگے رہا ہے، ہمارے پہلے وزیر اعظم، قائد ملت لیاقت علی خان متحدہ ہندوستان میں وزیر خزانہ تھے۔ چوہدری محمد علی بھی وزارت خزانہ سے سفر کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔ نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ تھے۔ وہ وہاں کے وزیر اعلیٰ بنے اور پھر وزیر اعظم ۔ شوکت عزیز نے بھی وزارت خزانہ سے ہی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر چھلانگ لگائی تھی۔
اور تو اور مخدوم شہاب الدین جو بے نظیربھٹو کے دور حکومت میں ایک بار اتفاقیہ وزیر خزانہ بن گئے تھے وہ بھی تقریباً اسی منزل تک پہنچ گئے تھے کہ ایفیڈرین والے کیس نے نیچے سے کرسی کھینچ لی اور راجہ اشرف کی تقدیر نے کرنٹ مارا تو سارا منظر بدل گیا۔ اب عبوری انتظام کے لیے جن سیاسی لوگوں کے نام سامنے آرہے ہیں ان میں اسحٰق ڈار اور حفیظ شیخ بھی شامل تصور کیے جاتے ہیں۔ دونوں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ یہ بھی امکان ہے کہ یہ تان ایک اور وزیر خزانہ شوکت ترین پر جا ٹوٹے۔میرے اس کیس کو ہمارے پڑوسی ملک سے بھی تقویت ملتی ہے۔ وہاں کے وزیر اعظم من موہن سنگھ بھی پہلے وزیر خزانہ ہی تھے۔
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں آنے والے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے وزیر خزانہ میں کیوں دلچسپی رکھتا ہوں۔ دراصل کچھ نام ایسے ہیں کہ جن کا سوچ کر ہی میرے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ پہلے وزارت خزانہ اور پھر وزارت عظمیٰ تک کا سفر۔ اف۔۔۔۔۔میرے اللہ! مجھے میرے ملک اور میرے ملک کے معصوم بچوں کو ان کے کپڑے لتّے سمیت اپنی پناہ میں رکھنا۔
امریکی سروے اگر درست تھا تو پھر جو حکومت اس ملک میں بننے والی ہے اس کا وزیر خزانہ بھی متوقع طور پر ایک ایسا شخص ہوگا جو خزانے کے بارے میں بس اتنا ہی جانتا ہے کہ وہ بھرا ہوا ہے یا نہیں۔ اس بات کی اطلاع ایک بار اس نے نقارے پر چوٹ لگا کے سارے دنیا کو دے دی تھی کہ ہمارا خزانہ خالی ہے۔ یہ 2008کا ذکر ہے جب آج کی اپوزیشن اور حکومت نے مل کے حکومت کی تھی اور 42 دن تک لڈیاں اور جھومر ڈالے تھے۔ خزانہ خالی ہونے کی اس معرکۃ الآراء بریکنگ نیوز نے تب ہماری اکانومی کی کمر بریک کرکے رکھ دی تھی۔ پھر 42 روز کی وزارت خزانہ کے کھونے کے بعد سنبھلنے میں 42 ہفتے لگ گئے۔
صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کی پوزیشن قدرے بہتر دیکھ کے ملک کے کاروباری حلقوں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے۔ پی ٹی آئی کا شور شرابہ جن دنوں زوروں پر تھا اس وقت بھی اسی قسم کی پریشانی عام ہورہی تھی۔ کاروباری لوگ سوچ رہے تھے کہ تیس اور نوے دنوں میں ملک کی کایا پلٹ دینے کے نعرے لگانے والے جس قسم کی کچی پکی اور بچگانہ باتیں کر رہے ہیں وہ تو اس سے بھی کم دنوں میں ملک کی لٹیا ڈبونے کو کافی ہیں۔
وزارت خزانہ ایک ایسی اہم اور نازک وزارت ہے کہ کسی بھی ملک کے مستقبل کا رخ متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ کوئی سمجھدار اور متوازن شخص اس کا سربراہ نہ ہو تو سارا معاملہ جوں کا توں رہتا ہے۔ایسے میں بیوروکریسی کے اہلکار مکھی پر مکھی مارتے تمام معاملات کو حسب سابق چلاتے رہتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہی ہورہا ہے، بینکرز اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اگر ملک کے وزیر خزانہ بنتے رہے تو ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ سچی بات یہ ہے کہ محبوب الحق کے بعد ہمارے ملک کو کبھی کوئی ڈھنگ کا اکاؤنٹنٹ وزارت خزانہ کے لیے دستیاب ہی نہیں ہوا۔ آگے بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ جو لوگ اکانومی کے چیمپئن کے طور پر دوڑ میں شامل ہیں ان کی باتیں سن کر خوف آتا ہے۔ سب لوگ پیسہ اکٹھا کرنے، لوگوں کو رگڑا لگانے اور زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ اس بات کا ارادہ کوئی ظاہر نہیں کرتا کہ ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا اور صنعت کو زندہ رہنے کا موقع مہیا کیا جائے گا۔
ٹیکس کی چوری کو روکنا مسئلے کا حل نہیں۔ یہ فقط مسئلے کا ایک پہلو ہے ۔ اس چوری کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ وصولی کا نظام کس قسم کا ہے۔ سسٹم میں اگر عوام کی توہین ہوگی تو ٹیکس کون دینا پسند کرے گا، بے عزتی ہو تو لوگ کاروبار ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکس کی شرح غیرمنصفانہ ہو تو بھی انجام برا ہوتا ہے۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ کے اس موقف سے کاروباری طبقہ خوش ہے کہ وہ دھیرے دھیرے ٹیکس کی شرح پانچ فیصد تک لانا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو ٹیکس کی وصولی کئی گنا بڑھ سکتی ہے اور کاروباری سرگرمیاں حیران کن رفتار سے جاری و ساری ہوجائیں گی۔
لیکن دوسری طرف انھی کی جماعت کے لوگ ''میں رگڑا لگادوں گا''، ''اسٹاک مارکیٹ کے کچھ بندوں کو تو میں چھوڑوں گا نہیں'' اس ٹائپ کی باتیں کریں گے تو یہی سمجھا جائے گا کہ پی ٹی آئی کی طرح ان کے پاس بھی سنجیدگی اور معقولیت پسندگی کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کے ممکنہ وزیر خزانہ ویلتھ ٹیکس کی لٹھ اٹھائے پھر رہے ہیں۔ وہ اسے پھر سے نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں حالانکہ پوری دنیا میں اسے ایک غیرمنصفانہ ترین ٹیکس سمجھا جاتا ہے۔ اقتصادی ماہرین اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور نظام زکوٰۃ کے نفاذ کے بعد تو یہ یوں بھی ناجائز ہے۔ کاروباری حلقوں میں تشویش کی بات یہی ہے کہ اگر ایسی سوچ کے حامل لوگ اقتدار میں آگئے تو وہ معیشت کی رہی سہی جان نکال دینے کے لیے جانے اور بھی کیا کچھ الٹا سیدھا کرگزریں گے۔
اگر یہی تاثر عام رہا تو وہ سیاسی جماعت خواہ مسلم لیگ نون ہو، پی ٹی آئی ہو یا پاکستان پیپلز پارٹی، ملک کا کاروباری طبقہ اس کا ساتھ دینے سے گریز کرے گا۔ بہتر یہی ہے کہ حقیقی جمہوری ملکوں کی طرح ہماری سیاسی جماعتیں بھی نہ صرف اپنی پالیسی اچھی طرح واضح کریں بلکہ اپنی اقتصادی ٹیم کا بھی اعلان کریں۔ اس سے یہ دیکھنے میں آسانی ہوگی کہ ان میں کتنی سنجیدگی اور صلاحیت موجود ہے اور ان کی نیت کیسی ہے۔ آخر عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ جس شخص کو وزارت خزانہ کا تڑکا لگا کے وزارت عظمیٰ کے طلب گاروں میں شامل کیا جانے والا ہے وہ بندہ کس قماش کا ہے۔