کوئی قانون برا نہیں ہوتا بلدیاتی نظام 2012 بہترین تھا پیر مظہر
ڈاکٹر عشرت العباد نے پی پی اور ایم کیوایم کا اتحاد برقرار رکھنے میں پل کا کردار ادا کیاجو کہ اب ٹوٹتا دکھائی دے رہا ہے
صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے کہا ہے کہ قانون کوئی برا نہیں ہوتا، بلدیاتی نظام 2012 بھی یقیناً بہترین تھا لیکن جب اس قانون کو ساتھ لے کر چلنے والے ہی ساتھ چھوڑ گئے اور ہمارے مخالفین نے بھی اس قانون پر سیاست شروع کر دی تو ہمارے پاس اسے واپس لینے کے سوا کوئی چارا نہیں تھا۔
سندھ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئیا نہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عشرت العباد نے پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحاد کو برقرار رکھنے میں پل کا کردار ادا کیا، جو کہ اب ٹوٹتا دکھائی دے رہا ہے، اگر یہ پل برقرار رہے گا تو دونوں پارٹیوں کے لیے مفید ہوگا۔ کانووکیشن سے سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نذیر اے مغل، ڈپٹی کمشنر جامشوروآغا سہیل پٹھان،جامعہ کے رجسٹرار محمد نواز ناریجو و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ پیر مظہر سے سوال کیا گیا کہ ایم کیو ایم کا اپوزیشن میں جانا ملی بھگت ہے تو انھوں نے صرف اتنا کہا کہ اسمبلی میں ہمارے غصے اور ایک دوسرے کے ساتھ رویے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے بند اسکولوں سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کے احکام پر پیر مظہر نے کہا کہ سندھ میں اساتذہ کی کمی ہے، اگر سپریم کورٹ کہیں سے اساتذہ لے آئے تو اسکول کھول دیتے ہیں، اسکولز اساتذہ سے ہی چلتے ہیں، جس کے لیے حکومت سندھ نے 19 ہزار اساتذہ بھرتی کیے ہیں جس کے بعد کافی اسکولز کھل جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ سندھ یونیورسٹی قدیم جامعہ ہے، جس کے خلاف ہمیشہ سازشیں کی گئیں، ہم میں اتحاد نہیں جس کی وجہ سے ہم ناکام اور دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ علم انسان کی تیسری آنکھ ہوتی ہے جو انسان کو شعور دیتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہماری والدہ ٹیچر تھیں اور اگر وہ ہمیں نہ پڑھاتیں تو ہم پیروں کے بچے مزاروں پر بیٹھ کر مریدوں کو لوٹ رہے ہوتے۔ انھوں نے مادر علمی سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات کو مبارکباد دی اور امید ظاہر کی کہ وہ ملک و قوم کا نام روشن کریں گے۔ کانووکیشن میں 22 طلباء و طالبات کو گولڈ، ڈیڑھ سو میں سلور میڈل جبکہ 11 سو فارغ التحصیل طلبا و طالبات کو ڈگریاں دی گئیں۔
ماسٹرز میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والوں میں زرینہ چانگ، حنا حنیف، محمد عبداﷲ اویس، فائزہ میمن، ذوالفقار علی کھوڑو، الاہی بخش اُجن، نسرین لاکھو، صدف سیلرو، سکندر لغاری، ثمینہ شیخ، مشتاق علی ملاح، عظمیٰ راجپوت، غلام مصطفیٰ خاکی، صبا پرویز آرائیں، عرفان علی لوند، شہنیلا عروج شیخ، قندیل عرف کومل، لتا کماری، سائرہ سومرو، نسرین لاکھو، سکندر علی لغاری، حرا سلیم اور حنا جمیل شامل ہیں جبکہ بیچلرز میں انعم جونیجو، امبرین پٹھان، محمد علی سرہیو، شازیہ سموں، حمیرہ ہکڑو، اقصا اعجاز، انمول گل آغا، ماریہ شیخ نے بھی گولڈ میڈل حاصل کیے، کانووکیشن میں سندھ یونیورسٹی نے پہلی بار یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے پر ڈی آئی جی ثناء اللہ عباسی، ڈپٹی کمشنر جامشورو اور کچھ پروفیسرز کو گولڈ میڈلز بھی دیے گئے۔
سندھ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئیا نہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عشرت العباد نے پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحاد کو برقرار رکھنے میں پل کا کردار ادا کیا، جو کہ اب ٹوٹتا دکھائی دے رہا ہے، اگر یہ پل برقرار رہے گا تو دونوں پارٹیوں کے لیے مفید ہوگا۔ کانووکیشن سے سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نذیر اے مغل، ڈپٹی کمشنر جامشوروآغا سہیل پٹھان،جامعہ کے رجسٹرار محمد نواز ناریجو و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ پیر مظہر سے سوال کیا گیا کہ ایم کیو ایم کا اپوزیشن میں جانا ملی بھگت ہے تو انھوں نے صرف اتنا کہا کہ اسمبلی میں ہمارے غصے اور ایک دوسرے کے ساتھ رویے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے بند اسکولوں سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کے احکام پر پیر مظہر نے کہا کہ سندھ میں اساتذہ کی کمی ہے، اگر سپریم کورٹ کہیں سے اساتذہ لے آئے تو اسکول کھول دیتے ہیں، اسکولز اساتذہ سے ہی چلتے ہیں، جس کے لیے حکومت سندھ نے 19 ہزار اساتذہ بھرتی کیے ہیں جس کے بعد کافی اسکولز کھل جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ سندھ یونیورسٹی قدیم جامعہ ہے، جس کے خلاف ہمیشہ سازشیں کی گئیں، ہم میں اتحاد نہیں جس کی وجہ سے ہم ناکام اور دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ علم انسان کی تیسری آنکھ ہوتی ہے جو انسان کو شعور دیتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہماری والدہ ٹیچر تھیں اور اگر وہ ہمیں نہ پڑھاتیں تو ہم پیروں کے بچے مزاروں پر بیٹھ کر مریدوں کو لوٹ رہے ہوتے۔ انھوں نے مادر علمی سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات کو مبارکباد دی اور امید ظاہر کی کہ وہ ملک و قوم کا نام روشن کریں گے۔ کانووکیشن میں 22 طلباء و طالبات کو گولڈ، ڈیڑھ سو میں سلور میڈل جبکہ 11 سو فارغ التحصیل طلبا و طالبات کو ڈگریاں دی گئیں۔
ماسٹرز میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والوں میں زرینہ چانگ، حنا حنیف، محمد عبداﷲ اویس، فائزہ میمن، ذوالفقار علی کھوڑو، الاہی بخش اُجن، نسرین لاکھو، صدف سیلرو، سکندر لغاری، ثمینہ شیخ، مشتاق علی ملاح، عظمیٰ راجپوت، غلام مصطفیٰ خاکی، صبا پرویز آرائیں، عرفان علی لوند، شہنیلا عروج شیخ، قندیل عرف کومل، لتا کماری، سائرہ سومرو، نسرین لاکھو، سکندر علی لغاری، حرا سلیم اور حنا جمیل شامل ہیں جبکہ بیچلرز میں انعم جونیجو، امبرین پٹھان، محمد علی سرہیو، شازیہ سموں، حمیرہ ہکڑو، اقصا اعجاز، انمول گل آغا، ماریہ شیخ نے بھی گولڈ میڈل حاصل کیے، کانووکیشن میں سندھ یونیورسٹی نے پہلی بار یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے پر ڈی آئی جی ثناء اللہ عباسی، ڈپٹی کمشنر جامشورو اور کچھ پروفیسرز کو گولڈ میڈلز بھی دیے گئے۔