ساؤتھ ایشیاء کے کروڑوں بد نصیب قیدی

خطے میں قید اٹھارہ سے تیس سال کی عمرکے کروڑوں نوجوان قیدی نصابی حد تک تو یہاں سے کچھ واقفیت رکھتے ہیں

NEW DELHI:
جرائم پیشہ افرد کے لیے دنیا بھر میں ہزاروں جیلیں موجود ہیں، جہاں اپنے جرائم کی سزا پوری کرنے کے بعد انھیں آزادی مل جاتی ہے مگر ساؤتھ ایشیاء کے آٹھ ممالک میں رہنے والے کروڑوں افراد نے نہ توکوئی جرم کیا ہے اور نہ ہی ان پر کسی مجرمانہ سرگرمی کا الزام ہے، اس کے باوجود وہ لگ بھگ آدھی صدی سے اپنے اپنے ممالک میں قیدیوں کی سی زندگی بسرکرنے پر مجبورہیں۔

دکھ کی بات تویہ ہے کہ مستقبل میں بھی انھیں اس قید سے رہائی کا کوئی امکان د کھائی نہیں دے رہا۔ ان قیدیوں میں چند ہزار ہی ایسے ہوں گے جن پر دہشتگردی، انتہا پسندی اور تنگ نظری کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے مگر زیادہ تر ایسے ہیں جن پر غریب، محنت کش، تاجر، طالب علم ،ادیب وشاعر، دانشور اور عام آدمی کے علاوہ کوئی بھی الزام عائد نہیں ہو سکتا، لیکن وہ اپنی شناخت، پاسپورٹ اور ویزے کے باوجود پڑوسی ممالک میں آسانی سے آ جا نہیں سکتے۔

تقسیم کے بعد ساؤتھ ایشیاء کے دیگر ممالک کو نقصان پہنچا یا فائدہ ہوا اس کے بارے میں تو وہی بہتر جانتے ہیں مگر ہمارے ملک کے باسیوں کو سب سے زیادہ نقصان یوں پہنچا کہ دہلی، ممبئی اور کولکتہ ہی نہیں بلکہ سری لنکا، بھوٹان، نیپال اور بنگلہ دیش جانے کے لیے بھی جب وہ عازم سفر ہوتے ہیں تو راستے میں بھارت کی قدرتی دیوار ضرور آجاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ دیوار قدرتی کے بجائے نفرت، جنگ اور بے اعتمادی کی دیوار میں تبدیل ہو تی چلی جا رہی ہے اوراس خطے کے باسی بہت ساری مشترکہ اقدار کے باوجود ایک دوسرے کے قریب ہونے کے بجائے خود سے ہزاروں میل دور ممالک کے باسیوں کے زیادہ قریب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

ہند وپاک کے درمیان پائے جانے والے مسائل اور سرحدوں پر جاری مسلسل تناؤکو کم کرنے کے لیے ٹریک ٹو ڈپلو میسی کے تحت تجارتی اور ثقافتی حلقوں کے درمیان گفت و شنید ہو ئی بھی تو بد قسمتی سے کوئی نا کوئی ایسا خوفناک واقعہ ضرور رونما ہوا جس کی وجہ سے دونوں اطراف سے امن و آشتی کے لیے کام کرنے والوں کو دو قدم آ گے بڑھنے کے بعدچار قدم مزیدپیچھے ہٹنا پڑا اور ساؤتھ ایشیا ء جو دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے جنت کی سی کشش کا حامل ہے یہاں کے باسیوں کی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی ان کی پہنچ سے دور ہوتا چلا گیا۔

اس خوب صورت خطے میں نہ صرف ہزاروں سال پرانی تہذیب و ثقافت اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہے بلکہ یہاں مختلف مذاہب کے افراد بھی آباد ہیںجن میں کئی ثقافتی اور لسانی رشتوں کے ساتھ صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا اٹوٹ رشتہ اور ورثہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس ورثے کی تلاش میں اگر تاریخ کے طالب علم تحقیق کی جستجو لے کر اپنے گھروں سے نکلتے ہیں تو ا ن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ بھارت کو چھوئے بغیر اس کی سرحدوں کے ساتھ آباد دوسرے ممالک تک پہنچ سکیں اور نہ ہی سمندر ی راستے کی سہولتیں پائی جاتی ہیں کہ سفر کے دوران فطرت کی خوب صورتی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ اپنی خواہشات پوری کر سکیں۔


اس خطے میں رہنے والے بوڑھے قیدیوں کو تو اچھے دنوں کا انتظار کرتے کرتے زندگی کی قید سے ہی رہائی مل گئی، مگر تقسیم کے بعد پروان چڑھنے والی دوسری اورتیسری نسل کو اس قید سے آزادی کا اب تک کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔

خطے میں قید اٹھارہ سے تیس سال کی عمرکے کروڑوں نوجوان قیدی نصابی حد تک تو یہاں سے کچھ واقفیت رکھتے ہیں مگر ایک دوسرے سے ملنے کے لیے حکومتی سطح پر ان کے وفود کا تبادلہ کیا گیا اور نہ ہی ان کے لیے حصول تعلیم و فن کا کوئی منصوبہ بنایا گیا۔

1980ء میں بنگلہ دیش کے صدر ضیا ء الرحمن نے ان قیدیوں کو اپنے اپنے پنجروں سے آزاد کرنے اور ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے ایک تنظیم کا خواب دیکھا جس کے لیے پانچ سال تک گفت و شنید اور مذاکرات جاری رہے۔بالآخر 1985ء میں ان کا یہ خواب ''سارک'' نامی تنظیم کی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوا جس میںابتدائی طور پر ساؤتھ ایشاء کے سات ممالک بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ، نیپال، سری لنکا، بھارت اور پاکستان شریک ہوئے مگر 2007ء میں افغانستان کو بھی اس تنظیم میں شامل کر لیا گیا۔

ساؤتھ ایشیاء میں ''سارک'' جیسی تنظیم کے قیام کے کافی برسوں بعدتک اس خطے کے نوجوان قیدی یہ سوچتے رہے کہ ''یورپی'' یونین کی طرح ایک دوسرے کے ملک میں رہنے سہنے اور کام کاج کی آزادی نہ سہی اس تنظیم کے تحت آمد و رفت کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جب جی چاہے وہ لاہور سے ریل پر بیٹھ کر کولکتہ کے راستے بنگلہ دیش اور چنائی کے راستے مختصر سمندری سفر طے کرتے ہوئے سری لنکا تو جا سکیں گے لیکن ان کی امیدیں جو ''سارک '' کی کانفرنسوں میں تعطل کی وجہ سے مایوسی کا شکار تھیں اُس وقت نا امیدی میںتبدیل ہو گئیں جب پاکستان اور چین کے درمیان ہونیوالے اقتصادی معاہدوں کی مخالفت اور سرحدی کشیدگی کا بہانہ بنا کربھارت نے اسلام آباد میں ہونے والی ''سارک'' کی انیسویں کانفرنس کو سبوتاژکر دیا۔

ساؤتھ ایشیاء کے دوسرے قیدیوں کو تو چھوڑیے مگر پاکستان کے کروڑوں نوجوان قیدی اس صورت حال میں تعلیمی، ثقافتی اور سیاحتی شوق کی تکمیل کے لیے آخر کہاں جائیں؟ ان کے لیے ایران ہی سب سے قریب اور سستا ملک ثابت ہو سکتا ہے، مگر دل میںجب وہاں جانے کی خواہش انگڑائی لیتی ہے توایران کی سرحد پر ہونے والے دہشتگردی کے واقعات اپنی خونخوار پرچھائیوں کے ساتھ سامنے آجاتے ہیں۔ افغانستان جاتے ہوئے بھی وہ ہزاربارسوچتے ہیں کہ مکمل ذہنی آزادی کے ساتھ وہاں داخلہ کیسے ممکن ہے اور اگر اُس برادر اسلامی ملک میں داخل ہو بھی گئے تو کون سے ثقافتی، تعلیمی اور سماجی مراکز سے استفادہ کرسکیں گے۔

لے دے کے ایک چین ہی رہ جاتا ہے جہاں ہنزہ اور گلگت کے بظاہر پر امن راستے سے داخل تو ہوا جا سکتا ہے، مگر چینی زبان سے دوری کی وجہ سے ان کے اس شوق پر بھی پانی پھر جاتا ہے۔ ہمارے خیال میںساؤتھ ایشیا ء کے کروڑوں نوجوان قیدیوں کی آزادی، ایک دوسرے سے ملاقات اور اس خطے کی ترقی کے لیے جہاں ''سارک '' کو فعال بنانے کی ضرورت ہے وہاں اس خطے میں آباد ممالک کے راستے کی سب سے بڑی دیوار کو توڑنا بھی ضروری ہے جو جنگ سے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے ہی توڑی جاسکتی ہے۔
Load Next Story