آئینی جمہوریت یا عوامی جمہوریت
ہماری جمہوریت چند افراد کے پاس گروی ہے
بہت بدل گیا ہے پاکستان! اسے اور بھی بدلنا ہوگا،اب اس کے پاس بدلنے میں تیزی دکھانے کے علاوہ اورکوئی چارہ بھی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سمت کا تعین ماضی میں نہ تھا۔ ہماری بدنصیبی یہ تھی کہ سوائے مشرقی پاکستان کے باقی پاکستان سیاسی بلوغت کے اعتبار سے پسماندہ تھا۔
مشرقی پاکستان اس ملک کی سمت تعین کرنے کے لیے بہت اہم تھا۔ وہاں کی قیادت امریکا نواز نہ تھی، جب کہ یہاں حکمران واسٹیبلشمنٹ ہمنوا تھے امریکا کا راگ آلاپنے کے لیے۔ پھرکیا ہوا بھٹو کی حکومت گرانے میں CIA کا ہاتھ تھا اور ضیاء الحق کا بھی۔ مشرقی پاکستان سے دوریاں بڑھتی گئیں ہم ان کو اقتدار میں شراکت دینے پر رضامند نہ تھے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی وہ نکتہ تھا جہاں سے ہمارا بگاڑ شروع ہوا۔ بھٹوکو اقتدارکس نے دلایا عوام نے تو دلایا لیکن امریکا کا بھی اس میں عمل دخل تھا۔ بینظیرکو جب اسٹیبلشمنٹ تنگ کرتی تھی تو وہ سیدھا امریکی ایمبسی سے رابطہ کرتی تھیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر خود بے تاج بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ آخری بار جب وطن کو لوٹیں تو دبئی میں جنرل مشرف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس میں ثالثی ہوئی وہ کونڈ لیزا رائس اور امریکا کے وزیر خارجہ نے کروائی۔
جنرل مشرف خود بھی اقتدار میں امریکا کی آشیرواد سے رہے۔ پھر اسامہ بن لادن نے نیو یارک کے ٹریڈ ٹاور گرادیے، لاٹری جنرل مشرف کی کھلی۔ جنرل ضیاء الحق کو کھلم کھلا امریکا لایا اور بھلا ہوا سویت یونین کا جو افغانستان میں گھس آیا۔ جنرل ضیاء الحق کی لاٹری کھل گئی۔ مشرقی پاکستان کو ہم سے جانا تھا۔ جب بھٹو ایوب کے ساتھ تھے تو ایک دہمکی آویز فون 1963ء میں حسین شہید سہروردی کو آیا کہ سدھر جاؤ۔ سہروردی بیروت کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔
یقیناً یہ اتفاق ہی تھا لیکن جنرل ایوب کے لیے جو خطرناک حریف اس کی شکل میں موجود تھا وہ ٹل گیا اور پھر 1967ء میں اگر تلا کیس میں شیخ مجیب کے روپ میں تو پھر خود بھٹو کے روپ میں حریف اترے۔ ایوب گئے تو بھٹو نے پھر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یاری پکی کرلی۔
ہمیں امریکا اس لیے عزیز تھا کہ ہمیں اپنے لوگوں سے ڈر تھا۔ جمہوریت اور وفاق سے ڈر تھا۔ امریکا اپنے لوگوں کو جمہوریت اور انسانی حقوق وآئین تو دیتا تھا لیکن جو برطانیہ کی کالونیاں تھیں اور ایسے ممالک جن کے جغرافیائی وعلاقائی اہمیت سرد جنگ کے پس منظر میں بہت زیادہ تھی، ان کو نہیں دینا چاہتا تھا، وہاں اسے آمریتیں بھاتی تھیں۔
اور پھر اس طرح یہ ملک سول و ملٹری تعلقات کے پینڈولم میں پھنس گیا۔ اس ملک کی تحیر خیز تاریخ جو ستر سال پر مبنی ہے اس میں اہم معرکا جو ہوا 1973ء کے آئین کا معرض وجود میں آنا ہے اور سب سے بڑی اس ملک کی بدنصیبی جو ہوئی (سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد) وہ تھا، جنرل ضیاء الحق کا اس آئین میں بگاڑ پیدا کرنا۔ جو کام پھر بھی معقول ہوا وہ یہ تھا کہ 1973ء کا آئین معطل کبھی بھی نہ ہوا صرف Abeyance میں چلا گیا یعنی اس کے کچھ نکات کو کچھ وقت کے لیے منقطع کردیا گیا۔
1970ء میں اس ملک کے (مغربی پاکستان) کی آبادی چھ کروڑ تھی 1975ء میں ساڑھے چھ کروڑ تھی 1980میں آٹھ کروڑ 1990ء میں گیارہ کروڑ 2005ء میں پندرہ کروڑ اور اب اکیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جتنا ہم لوگوں سے بھاگتے تھے اتنا ہی امریکا کی جھولی میں گرتے گئے اورکٹھ پتلی بن کے اس کی انگلیوں پے ناچتے رہے اورآج یہ ملک ان لوگوں سے اتنا بھرگیا ہے کہ ہم اب لوگوں سے دور بھاگ نہیں سکتے۔ اس پر گھمبیر خبر یہ کہ ان کروڑوں لوگوں میں سے زیادہ وہ ہیں کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ ان لوگوں کو اگر روزگار نہ ملا، انصاف نہ ملا، تو یہ لوگ اس ملک کے اندر اک بڑی خانہ جنگی کا سبب بنیں گے۔
جو اچھی خبر ہے وہ یہ ہے کہ ہم اب امریکا کے دم چھلے نہیں رہے۔ امریکا اب خود دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی نہیں رہا، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ کہ اب ہم امریکا سے ایک خود مختار ریاست کی حیثیت سے اچھے روابط بھی نہیں رکھ سکتے۔
لیکں جو بری خبر ہے وہ یہ کہ ہمارے امریکا سے دور جانے سے اب کون ہمارے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کا NRO کروائے گا؟ زرداری جیسے ہی جیل سے رہا ہوئے، سالوں نیویارک جا کر بیٹھ گئے اور بینظیر بھٹو بھی دبئی سے امریکا آتی جاتی رہیں۔ یہ وہاںسینیٹروں سے ملتے تھے، لابنگ کرتے تھے، نواز شریف اور زرداری خود وہاں کے الیکشن میں فنڈز وغیرہ پہنچاتے تھے اور اب ان سیاستدانوں کا راستہ بند ہوا، میاں صاحب کے لیے پریشانیاں بڑھ گئیں۔ ان کی دوستی سعودی عرب کے ساتھ بھی تھی تو قطر کے ساتھ بھی۔ جب قطرکی دوستیاں سعودی عرب سے ٹوٹیں تو خمیازہ میاں نوازشریف کو بھی بھگتنا پڑا۔
آج میاں صاحب کے پاس صرف عوام ہیں اور وہ بھی سینٹرل پنجاب کے عوام وہ اپنی طرف قانون کا گھیرا تنگ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور جی ٹی روڈ ان کو وزیراعظم تو بنا سکتا ہے اگر وہ قانونی طور پر اس کے مستحق ہوتے ہیں تو ...
ہماری جمہوریت چند افراد کے پاس گروی ہے اگر آپ پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے ہیں تو ایوان میں موقف ویسا ہی رکھنا ہے جو پارٹی کا ہے ورنہ آپ اسی آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اس نشست سے برخاست ہو سکتے ہیں۔ ایسی کوئی شق کسی بھی مہذب ملک کی جمہوریت میں نہیں ہے اور پارٹی کیا ہے؟ پارٹی ایک فرد کا نام ہے اور اس فرد کی آگے پھراس کے خاندان کا نام ہے۔ ابا گئے بیٹی پارٹی کی سربراہ بنے گی اور اگر نہیں تو پھرخود پارٹی بھی ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ دوسری طرف اگر ایک فرد کا پارٹی پر قبضہ نہ ہوا تو پھر ان کا اسمبلی میں ممبر اسٹیبلشمنٹ سے مل سکتا ہے جس طرح جنرل مشرف نے پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک بنوایا تھا اور یوں ظفر اللہ جمالی بڑی مشکل سے وزیر اعظم بنے تھے۔
آج پھرنئے امتحان درپیش ہیں۔ میاں صاحب پارٹی کے سربراہ اگر سینیٹ میں ترمیم شدہ بل کے پس منظر سے دیکھیں تو بن سکتے ہیں لیکن آئین اوراس کے بنیادی ڈھانچے کے تناظر سے دیکھیں تو نہیں بن سکتے۔ یقیناً یہ سب کچھ کورٹ میں چیلنج ہوگا۔
یہ بات بھی بہت خوش آیند ہے کہ میاں صاحب نیب کورٹ میں پیش ہونے کے لیے واپس آئے اور ان کے بچے بھی واپس آئیں گے، بیٹے اگر نہیں آئے تو بھی بیٹی کو اگر سیاست کرنی ہے تو ان کو عدالتوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
نیب میں فیصلہ میاں صاحب کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ وہ Plea bargain میں جا سکتے ہیں یہ نیب کے قانون کی وہ شق ہے جو آئین کے روح کے خلاف ہے۔ جس پر سپریم کورٹ نے بہت سے کیسز میں ریمارکس دیے ہیں۔
میاں صاحب کہتے ہیں آئین سپریم ہے اور اس طرح پارلیمنٹ بھی سپریم ہے۔ سپریم کورٹ کی وضع کی ہوئی آئین کی تشریح کہتی ہے کہ آئین سپریم ہے اور اس طرح مقننہ، پارلیمنٹ، عدالت برابر ہیں۔ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے اور اس ترمیم پر سپریم کورٹ کا Judicial Review بنتا ہے۔ کیونکہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم توکرسکتی ہے مگر آئین کی ترمیم کرنے کی آڑ میں نیا آئین نہیں بنا سکتی، ایسا آئین بنانے کا مینڈیٹ صرف 1970ء والے الیکشن میں جیتی ہوئی اسمبلی کے پاس تھا۔ آئین مخصوص حالات سے بنتے ہیں۔پاکستان کو تیزی سے بدلنا ہوگا ۔
تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست
مشرقی پاکستان اس ملک کی سمت تعین کرنے کے لیے بہت اہم تھا۔ وہاں کی قیادت امریکا نواز نہ تھی، جب کہ یہاں حکمران واسٹیبلشمنٹ ہمنوا تھے امریکا کا راگ آلاپنے کے لیے۔ پھرکیا ہوا بھٹو کی حکومت گرانے میں CIA کا ہاتھ تھا اور ضیاء الحق کا بھی۔ مشرقی پاکستان سے دوریاں بڑھتی گئیں ہم ان کو اقتدار میں شراکت دینے پر رضامند نہ تھے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی وہ نکتہ تھا جہاں سے ہمارا بگاڑ شروع ہوا۔ بھٹوکو اقتدارکس نے دلایا عوام نے تو دلایا لیکن امریکا کا بھی اس میں عمل دخل تھا۔ بینظیرکو جب اسٹیبلشمنٹ تنگ کرتی تھی تو وہ سیدھا امریکی ایمبسی سے رابطہ کرتی تھیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر خود بے تاج بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ آخری بار جب وطن کو لوٹیں تو دبئی میں جنرل مشرف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس میں ثالثی ہوئی وہ کونڈ لیزا رائس اور امریکا کے وزیر خارجہ نے کروائی۔
جنرل مشرف خود بھی اقتدار میں امریکا کی آشیرواد سے رہے۔ پھر اسامہ بن لادن نے نیو یارک کے ٹریڈ ٹاور گرادیے، لاٹری جنرل مشرف کی کھلی۔ جنرل ضیاء الحق کو کھلم کھلا امریکا لایا اور بھلا ہوا سویت یونین کا جو افغانستان میں گھس آیا۔ جنرل ضیاء الحق کی لاٹری کھل گئی۔ مشرقی پاکستان کو ہم سے جانا تھا۔ جب بھٹو ایوب کے ساتھ تھے تو ایک دہمکی آویز فون 1963ء میں حسین شہید سہروردی کو آیا کہ سدھر جاؤ۔ سہروردی بیروت کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔
یقیناً یہ اتفاق ہی تھا لیکن جنرل ایوب کے لیے جو خطرناک حریف اس کی شکل میں موجود تھا وہ ٹل گیا اور پھر 1967ء میں اگر تلا کیس میں شیخ مجیب کے روپ میں تو پھر خود بھٹو کے روپ میں حریف اترے۔ ایوب گئے تو بھٹو نے پھر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یاری پکی کرلی۔
ہمیں امریکا اس لیے عزیز تھا کہ ہمیں اپنے لوگوں سے ڈر تھا۔ جمہوریت اور وفاق سے ڈر تھا۔ امریکا اپنے لوگوں کو جمہوریت اور انسانی حقوق وآئین تو دیتا تھا لیکن جو برطانیہ کی کالونیاں تھیں اور ایسے ممالک جن کے جغرافیائی وعلاقائی اہمیت سرد جنگ کے پس منظر میں بہت زیادہ تھی، ان کو نہیں دینا چاہتا تھا، وہاں اسے آمریتیں بھاتی تھیں۔
اور پھر اس طرح یہ ملک سول و ملٹری تعلقات کے پینڈولم میں پھنس گیا۔ اس ملک کی تحیر خیز تاریخ جو ستر سال پر مبنی ہے اس میں اہم معرکا جو ہوا 1973ء کے آئین کا معرض وجود میں آنا ہے اور سب سے بڑی اس ملک کی بدنصیبی جو ہوئی (سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد) وہ تھا، جنرل ضیاء الحق کا اس آئین میں بگاڑ پیدا کرنا۔ جو کام پھر بھی معقول ہوا وہ یہ تھا کہ 1973ء کا آئین معطل کبھی بھی نہ ہوا صرف Abeyance میں چلا گیا یعنی اس کے کچھ نکات کو کچھ وقت کے لیے منقطع کردیا گیا۔
1970ء میں اس ملک کے (مغربی پاکستان) کی آبادی چھ کروڑ تھی 1975ء میں ساڑھے چھ کروڑ تھی 1980میں آٹھ کروڑ 1990ء میں گیارہ کروڑ 2005ء میں پندرہ کروڑ اور اب اکیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جتنا ہم لوگوں سے بھاگتے تھے اتنا ہی امریکا کی جھولی میں گرتے گئے اورکٹھ پتلی بن کے اس کی انگلیوں پے ناچتے رہے اورآج یہ ملک ان لوگوں سے اتنا بھرگیا ہے کہ ہم اب لوگوں سے دور بھاگ نہیں سکتے۔ اس پر گھمبیر خبر یہ کہ ان کروڑوں لوگوں میں سے زیادہ وہ ہیں کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ ان لوگوں کو اگر روزگار نہ ملا، انصاف نہ ملا، تو یہ لوگ اس ملک کے اندر اک بڑی خانہ جنگی کا سبب بنیں گے۔
جو اچھی خبر ہے وہ یہ ہے کہ ہم اب امریکا کے دم چھلے نہیں رہے۔ امریکا اب خود دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی نہیں رہا، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ کہ اب ہم امریکا سے ایک خود مختار ریاست کی حیثیت سے اچھے روابط بھی نہیں رکھ سکتے۔
لیکں جو بری خبر ہے وہ یہ کہ ہمارے امریکا سے دور جانے سے اب کون ہمارے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کا NRO کروائے گا؟ زرداری جیسے ہی جیل سے رہا ہوئے، سالوں نیویارک جا کر بیٹھ گئے اور بینظیر بھٹو بھی دبئی سے امریکا آتی جاتی رہیں۔ یہ وہاںسینیٹروں سے ملتے تھے، لابنگ کرتے تھے، نواز شریف اور زرداری خود وہاں کے الیکشن میں فنڈز وغیرہ پہنچاتے تھے اور اب ان سیاستدانوں کا راستہ بند ہوا، میاں صاحب کے لیے پریشانیاں بڑھ گئیں۔ ان کی دوستی سعودی عرب کے ساتھ بھی تھی تو قطر کے ساتھ بھی۔ جب قطرکی دوستیاں سعودی عرب سے ٹوٹیں تو خمیازہ میاں نوازشریف کو بھی بھگتنا پڑا۔
آج میاں صاحب کے پاس صرف عوام ہیں اور وہ بھی سینٹرل پنجاب کے عوام وہ اپنی طرف قانون کا گھیرا تنگ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور جی ٹی روڈ ان کو وزیراعظم تو بنا سکتا ہے اگر وہ قانونی طور پر اس کے مستحق ہوتے ہیں تو ...
ہماری جمہوریت چند افراد کے پاس گروی ہے اگر آپ پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے ہیں تو ایوان میں موقف ویسا ہی رکھنا ہے جو پارٹی کا ہے ورنہ آپ اسی آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اس نشست سے برخاست ہو سکتے ہیں۔ ایسی کوئی شق کسی بھی مہذب ملک کی جمہوریت میں نہیں ہے اور پارٹی کیا ہے؟ پارٹی ایک فرد کا نام ہے اور اس فرد کی آگے پھراس کے خاندان کا نام ہے۔ ابا گئے بیٹی پارٹی کی سربراہ بنے گی اور اگر نہیں تو پھرخود پارٹی بھی ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ دوسری طرف اگر ایک فرد کا پارٹی پر قبضہ نہ ہوا تو پھر ان کا اسمبلی میں ممبر اسٹیبلشمنٹ سے مل سکتا ہے جس طرح جنرل مشرف نے پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک بنوایا تھا اور یوں ظفر اللہ جمالی بڑی مشکل سے وزیر اعظم بنے تھے۔
آج پھرنئے امتحان درپیش ہیں۔ میاں صاحب پارٹی کے سربراہ اگر سینیٹ میں ترمیم شدہ بل کے پس منظر سے دیکھیں تو بن سکتے ہیں لیکن آئین اوراس کے بنیادی ڈھانچے کے تناظر سے دیکھیں تو نہیں بن سکتے۔ یقیناً یہ سب کچھ کورٹ میں چیلنج ہوگا۔
یہ بات بھی بہت خوش آیند ہے کہ میاں صاحب نیب کورٹ میں پیش ہونے کے لیے واپس آئے اور ان کے بچے بھی واپس آئیں گے، بیٹے اگر نہیں آئے تو بھی بیٹی کو اگر سیاست کرنی ہے تو ان کو عدالتوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
نیب میں فیصلہ میاں صاحب کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ وہ Plea bargain میں جا سکتے ہیں یہ نیب کے قانون کی وہ شق ہے جو آئین کے روح کے خلاف ہے۔ جس پر سپریم کورٹ نے بہت سے کیسز میں ریمارکس دیے ہیں۔
میاں صاحب کہتے ہیں آئین سپریم ہے اور اس طرح پارلیمنٹ بھی سپریم ہے۔ سپریم کورٹ کی وضع کی ہوئی آئین کی تشریح کہتی ہے کہ آئین سپریم ہے اور اس طرح مقننہ، پارلیمنٹ، عدالت برابر ہیں۔ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے اور اس ترمیم پر سپریم کورٹ کا Judicial Review بنتا ہے۔ کیونکہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم توکرسکتی ہے مگر آئین کی ترمیم کرنے کی آڑ میں نیا آئین نہیں بنا سکتی، ایسا آئین بنانے کا مینڈیٹ صرف 1970ء والے الیکشن میں جیتی ہوئی اسمبلی کے پاس تھا۔ آئین مخصوص حالات سے بنتے ہیں۔پاکستان کو تیزی سے بدلنا ہوگا ۔
تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست