انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تدریس سے استعفا دے دیا لیاقت علی جتوئی

سیاست سے ریٹائر ہو کر دوستوں اور سیاحت میں وقت بِتاؤں گا، سابق وزیراعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی سے ایک بیٹھک

سیاسی مصروفیات کتاب لکھنے کی خواہش میں اڑے آتی ہیں، ایک دن بھی وزیراعلیٰ ہاؤس میں نہیں ٹھیرا، لیاقت جتوئی۔ فوٹو: فائل

یوں تو وہ سوالات کا جواب بالکل دو ٹوک انداز میں دیتے ہیں، جس میں کبھی تلخی ہوتی ہے، تو کبھی بزلہ سنجی کا مظاہرہ۔۔۔ کہیں وہ المیوں کی نشان دہی کرتے ہیں، تو کہیں اُن کا انداز شکایت لیے ہوئے ہوتا ہے۔۔۔ کہیں لہجے میں برہمی سی محسوس ہوتی ہے، تو کبھی چہرے پر تبسم بکھر جاتی ہے۔ کسی استفسار پر ہمیں اپنے مہمان کے نہایت کم گو ہونے کا احساس ہوا، تو اگلے ہی کسی سوال پر ان کی بے باک اور کاٹ دار گفتار سے یہ تاثر بکھر کر رہ گیا۔۔۔

یہ سابق وزیراعلیٰ سندھ لیاقت علی جتوئی ہیں، جن سے ہمارا سلسلۂ کلام جُڑا، تو انہوں نے انکسارانہ انداز اختیار کرتے ہوئے خود کو ضلع دادو کا ایک سیاسی کارکن قرار دیا۔ اُن کے آباؤ اجداد بٹوارے سے قبل ہی کارزار سیاست میں سرگرم تھے، لیاقت علی جتوئی نے بتایا کہ انہوں نے پہلی بار 1977ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لیا اور فتح یاب ہوئے، ساتھ ہی وہ موجودہ پیپلز پارٹی سے اختلاف کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی آج کی 'زرداری لیگ' سے بہت بہتر تھی۔ بے نظیر بھٹو ایک سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں، اس لیے سیاسی اختلاف کے باوجود اُن سے بہت عزت واحترام کا تعلق قائم رہا۔

1977ء کا تذکرہ ہوا، تو ہم نے اُس برس کی سیاسی گرما گرمی کے بارے میں دریافت کرنا چاہا، جس پر گویا ہوئے کہ اس ملک میں تو سیاسی ماحول ہر وقت ہی گرم رہتا ہے۔' موضوع سخن اُن کی انتخابی سیاست تھا۔۔۔ سو اس بار اُن کے لہجے میں قدرے درشتی سی آنے لگی، 2008 اور 2013ء میں انتخابی شکست کو وہ دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'بیلٹ پیپر تلف کیے گئے اور مہریں لگائی گئیں۔' اپنے صاحب زادے کی ہار کو بھی اسی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں، کہ اس ملک میں اسی طرح''سلطنتیں'' قائم ہو جاتی ہیں، ایک نواز شریف کی سلطنت جو ختم ہوئی، دوسری آصف زرداری کی سلطنت ہے، جس کے خلاف وہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ قبل ازیں وہ 1985ء، 1990ء اور 1997ء میں صوبائی اسمبلی پہنچے اور 2002ء میں قومی اسمبلی تک رسائی حاصل کی اور وفاقی وزیر بھی رہے۔

1977ء کے چناؤ کے بعد فوجی آمریت قائم ہوگئی تھی، اس لیے انہیں پہلی بار پارلیمان میں بیٹھنے کا موقع دوسری انتخابی فتح کے بعد 1985ء میں مل سکا۔ اُس غیر جماعتی مقننہ میں وہ کسی بھی گروہ سے وابستگی کی تردید کرتے ہیں۔ 'غیر جماعتی اسمبلی میں بیٹھنے کا تجربہ کیسا رہا، اس کے بعد جماعتی اسمبلیوں میں بھی بیٹھے، وہ دونوں کے محسوسات کو یک ساں ہی بتاتے ہیں کہ 'ہر دو صورتوں میں سیاسی کام ہی کرنا ہوتا ہے۔' لیاقت جتوئی کا خیال ہے کہ بے نظیر کے دنیا سے جانے کے بعد آصف زرداری کو ہم دردی کا ووٹ ملا، انہوں نے اپنی اہلیہ کی سیاست پر قبضہ کر لیا۔ کہتے ہیں کہ 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی، جب تک سپریم کورٹ کی طرف سے نیا الیکشن کمیشن نہیں بنتا تب تک شفاف چناؤ ممکن نہیں، جس کے لیے وہ احتجاج کریں گے۔

لیاقت جتوئی 1997ء میں اپنی وزارت اعلیٰ کے دور کو امن وامان اور شفافیت کے لحاظ سے بہترین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج بھی آپ عوام سے پوچھ سکتے ہیں، جب بھی کوئی گڑبڑ ہوتی تھی، تو میں خود جا کر لوگوں سے بات کرتا تھا۔ 1990ء میں جب فائنانس کی وزارت سنبھالی تو سندھ کا خسارہ آٹھ ارب روپے تھا، اور جب تین سال بعد وزارت ختم ہوئی تو 16ا رب روپے زائد تھے۔

لیاقت جتوئی کہتے ہیں کہ وہ ایک رات بھی وزیراعلیٰ ہاؤس میں نہیں رہے۔ ایک انچ زمین کسی کو نہیں بانٹی، اب تو 10، 15 ہزار ایکڑ زمین الاٹ کر دی جاتی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ 'نواز شریف اپنا فرنٹ مین لانا چاہتے تھے، اس لیے انہیں یہ سب اچھا نہیں لگا۔ میں نے نواز شریف سے کہا کہ میں لوگوں کی توقعات پر تو پورا اترا ہوں، لیکن آپ کی امیدوں پر نہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو مرکز میں عہدہ دیں گے، میں نے کہا کہ میں وزیراعلیٰ ہوں، مرکز میں کوئی عہدہ قبول نہیں کروں گا۔'

سابق صدر آصف زرداری کے حوالے سے بہت زیادہ سخت انداز اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نواز شریف کی طرح اِن کے اثاثوں کا بھی احتساب کیا جانا چاہیے۔ میرے پاس کوئی چینی یا آٹے کی مل نہیں، حالاںکہ تقسیم ہند سے قبل ہمارے پاس چھے ہزار ایکڑ زمین تھی۔ لیاقت جتوئی کہتے ہیں کہ ہمارے ملک سے غریبوں کے کھربوں ڈالر باہر چلے گئے، عالم یہ ہے کہ گیارہ آدمیوں کی تین میٹنگوں میں 25 لاکھ روپے کی مٹھائی اور دو لاکھ کے پکوڑے 'خرچ' ہو جاتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف سے دوریوں اور قربتوں کے سوال پر لیاقت جتوئی نے کہا کہ انہوں نے بے وفائی کی، میں نے اُن سے پوچھا کہ 'آپ نے میری حکومت کیوں ختم کی؟ حکیم سعید کو میں نے تو نہیں مروایا۔ آپ مجھے وقت دیتے، میں قاتل پکڑ کر دکھاتا۔ لیاقت جتوئی کہتے ہیں اس قتل میں ایم کیو ایم ملوث نہیں تھی، بعد میں عدالت نے بھی یہی فیصلہ دیا۔ میں نے قاتل پکڑنے کے لیے وقت مانگا تھا، لیکن اُن کا اپنا ایک منصوبہ تھا، جس کے تحت انہوں نے میں میری سیاسی جمہوری حکومت معطل کی۔ اب وہ کس منہ سے جمہوریت کا رونا روتے ہی کہ جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اتر رہی ہے۔'

نواز شریف سے دوسری بار ملاپ پر وہ کہتے ہیں کہ 'یہ سوچ کر ملے تھے کہ شاید اُن کی سوچ میں تبدیلی آئی ہوگی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ میرے گاؤں آئے تھے، میں نے شیرازی برادران، عبدالحکیم بلوچ، اکبر بھنگوار، سلطان خاور، حمیدہ کھوڑو وغیرہ سمیت 40 شخصیات نواز لیگ میں شامل کرائیں، لیکن انہوں نے ہمیں ڈیڑھ سال تک ملاقات کے لیے وقت ہی نہیں دیا۔ لیاقت جتوئی کا خیال ہے کہ سندھ 75 فی صد ریوینیو دیتا ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے۔ سندھ کے بغیر وفاقی حکومت نامکمل ہے۔

گفتگو کا موضوع اتحادی حکومت ہوا، تو ہم نے چاہا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ ساجھے داری سے متعلق اظہار فرمائیں؟ کہتے ہیں کہ ہم ان کی جائز مدد کرتے اور جو درست نہیں لگتی تھی، اُسے منع کر دیتے۔ ہم نے 'ناجائز' مطالبات کی وضاحت چاہی، تو کہا کہ وہ مقدمات ختم کرانا چاہتے تھے، میں نے انہیں صاف بتا دیا تھا کہ سنگین مقدمات ختم نہیں کروں گا، چاہے آپ مجھے ہٹا دیں۔ لندن میں دو دفعہ الطاف حسین سے بھی ملے، انہیں بھی یہی بتایا کہ ہم مل جل کر کام کر رہے ہیں، لیکن ناجائز بات ماننے کی توقع نہ رکھیں۔ بطور سابق اتحادی کے لیاقت جتوئی کو لگتا ہے کہ اگر نہیں صحیح راہ نمائی دی جائے اور بتا دیا جائے کہ ہم یہ کر سکتے ہیں اور یہ ہمارے لیے ممکن نہیں، تو وہ سمجھ جاتے ہیں۔ لیاقت جتوئی سندھ میں ہم آہنگی کے لیے ایم کیو ایم کے وزرا کو اندرون سندھ ساتھ لے کر جاتے تھے، اسی طرح وہاں سے تعلق رکھنے والے وزرا کو شہری علاقوں میں ہم راہ لاتے، اُن کا خیال ہے کہ صوبائی حکومت معطل کرنے کے لیے 1998ء میں ایم کیو ایم کو حکومت سے الگ کرایا گیا۔

لیاقت جتوئی 1990ء میں پہلی بار صوبائی وزیر فائنانس اور ایکسائز بنے، اس دوران جون 1992ء میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن ہوا اور 1997ء کی حکومت میں وہ اِن کے اتحادی ہوئے؟ اس تضاد کے بارے میں جاننا چاہا، تو انہوں نے کہا کہ ''میرا خیال ہے کہ آپریشن تو کوئی نہیں ہوا تھا۔ 'حقیقی' ضرور بنی، جناح پور بنانے کی سازش کا انکشاف بھی ہوا، لیکن کوئی آپریشن وغیرہ علم میں نہیں۔'' کہتے ہیں آپریشن پیپلز پارٹی نے کیا، ہمارے زمانے میں کوئی آپریشن نہیں ہوا، نہ ہم نے کبھی کوئی پولیس، رینجرز اور فوج بھیجی۔

لیاقت جتوئی رواں برس اپریل میں پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن گئے، عمران خان سے اپنے اس سمبندھ پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 'اس ملک میں دو سلطنتیں قائم ہیں اور کوئی انتخاب نہیں۔ ہم نے کہا مسلم لیگ (ق) بھی تو ایک تیسرا اختیار تھا، اسے کیوں کر نہ اپنائے رکھا، تو بتایا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ سندھ میں مسلم لیگ (ق) اتنی مقبولیت حاصل کر سکے، جتنی کہ عمران خان کو حاصل ہے، اُن پر کوئی داغ نہیں، انہیں ایک مرتبہ موقع دیں، وہ ملک کے لیے امید کی کرن ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کے لیے احترام کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ والد کے زمانے سے اُن سے اچھے تعلقات ہیں۔

لیاقت جتوئی کو دوبارہ وزارت اعلیٰ کی خواہش نہیں، چاہتے ہیں کہ لوگوں کی مایوسی ختم ہو، مسائل، لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری اور غیر انسانی سلوک کا خاتمہ ہو۔ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے حلقے میں رشتے سے انکار پر لڑکی تانیہ خاصخیلی کے قتل پر کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کو اس پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔ عام لوگوں میں سیاست دانوں سے مایوسی کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے لیاقت جتوئی کہتے ہیں کہ پھر سیاست دانوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ آمر آگیا۔ سیاست دان اگر کام کریں، بدعنوانی نہ کریں، تو لوگ ان کا ساتھ دیتے ہیں۔

لیاقت جتوئی بتاتے ہیں کہ 5 جنوری 1949ء کو پیدا ہوئے، ڈسٹرکٹ کونسل ہائی اسکول نواب شاہ میں زیر تعلیم رہے، جہاں کے ہیڈ ماسٹر ایچ ایم خواجہ کی بہت اچھی شہرت تھی، پھر کیڈٹ کالج پٹارو میں پڑھے۔ اس کے بعد سیاسیات میں بی اے آنرز کے بعد سندھ یونیورسٹی میں لیکچرر اور پھر چیئرمین شعبہ بین الاقوامی تعلقات رہے۔ ڈھائی سال تدریس سے وابستہ رہنے کے بعد 1975-76ء ء میں انتخابات لڑنے کے لیے درس وتدریس سے استعفا دے دیا۔


لیاقت جتوئی سیاست میں آنے کے بہ جائے پڑھنا چاہتے تھے، اُن کا کینیڈا کی یونیورسٹی میں داخلہ بھی ہو گیا تھا، لیکن بڑے بیٹے ہونے کے ناتے والد نے خواہش کی کہ وہ میدان سیاست میں اُن کے بازو بنیں، اور یوں وہ باقاعدہ سیاست کے راہی ہو گئے۔

لیاقت جتوئی بتاتے ہیں کہ اُن کے والد عبدالحمید جتوئی عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل وغیرہ کے ساتھ رہے، پھر جی ایم سید کے ہم رکاب ہوئے، اس کے بعد پیپلزپارٹی کے ہم راہ بھی رہے، جب کہ 1977ء میں پیپلز پارٹی سے راہیں جدا ہوگئیں۔ لیاقت جتوئی کا خیال ہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو خوشامدیوں نے گھیر لیا۔ ان سے کچھ فیصلے بھی غلط ہوئے، جیسے انہیں 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی نہیں کرنی چاہیے تھی، ویسے بھی وہ جیت رہے تھے، لیکن دھاندلی کے سبب احتجاج ہوا اور مارشل لا لگا۔

دیگر مصروفیات کے تذکرے پر لیاقت جتوئی کہتے ہیں کہ گزشتہ دس سال جتنی سیاسی جدوجہد میری ہے اُتنی کسی اور کی نہیں۔ وہ عدالتوں میں مختلف مقدمات سے نبرد آزما رہے، تاہم انہیں اطمینان ہے کہ مخالفین کی زور آزمائی کے باوجود انہیں انصاف ملا۔

بطور وزیراعلیٰ کسی بھی قسم کی کٹھنائیوںکی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پین اور چشمہ جیب میں لے کر پونے نو بجے دفتر چلے جاتے تھے اور رات ساڑھے دس، گیارہ بجے گھر لوٹ آتے، جس کے بعد کتب ورسائل کی ورق گردانی کرتے یا کبھی فائلیں دیکھتے، کہتے ہیں مشکل صرف نواز شریف کی مداخلت تھی، جس کی وہ مزاحمت کرتے۔ ہم نے اس 'مداخلت' کی نوعیت جاننا چاہی، تو انہوں نے کہا کہ 'یہ ہم بعد میں بتائیں گے، ابھی تو وہ (نواز شریف) ویسے ہی پریشان ہیں!'

سیاسی سرگرمیوں کو اپنی مستقل مصروفیات بنانے والے لیاقت جتوئی اگلے انتخابات کے بعد سیاست سے باقاعدہ ریٹائرمنٹ کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے بعد دوستوں میں وقت بِتانا چاہتے ہیں، ساتھ ہی پرفضا مقامات نتھیا گلی، سوات وغیرہ کی سیاحت کے بھی خواہاں ہیں، وزیرستان بھی گھومیں گے اور وہاں کے لوگوں کو لیکچر دیں گے۔ ہم نے عرض کیا سیاست دانوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی ریٹائر نہیں ہوتا، تو کہا ہمارے ہاں تو جو کرسی پر بیٹھ جائے اسے بھی زبردستی اٹھانا پڑتا ہے، جب کہ اسے خود جانا چاہیے، اقتدار خدا کے ہاتھ میں ہے۔ میں نے اقتدار کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔

لیاقت جتوئی مختلف بڑے سیاست دانوں کے ساتھ رہے۔ قومی سیاست کے بہت سے اہم معاملات کے گواہ بھی ہیں، مگر بہت سی چیزوں پر بات کرنے سے اب بھی گریزاں رہتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ اگر اس حوالے سے کوئی کتاب لکھی جائے، تو بہت اچھا ہوگا۔ میں اپنے والد کو بھی کہتا رہا کیوں کہ ان کے تجربات اور یادداشتیں بھی قابل قدر تھیں، جنہیں شایع یا ریڈیو پر نشر ہونا چاہیے تھا، لیکن وہ بھی نہیں لکھ سکے اور میں بھی سیاسی مصروفیات کے سبب ابھی تک نہیں لکھ سکا۔'

کراچی کے مسئلے سے نبرد آزما ہو چکے، اب یہ کس طرح حل کریں گے؟ تو ازراہ مذاق کہنے لگے کہ اگر یہ آپ کو بتا دیں گے، تو آپ یہ ترکیب کسی اور کو دے دیں گے، پھر گویا ہوئے کہ موقع ملا تو وہ 15 دن میں ٹھیک کر دیں گے، ورنہ حکومت چھوڑ دیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب کو بلائیں اور معاملہ ختم کرائیں، لیکن کوئی یہ قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے نزدیک رینجرز کی موجودہ کارروائیاں 'نااہل حکومت' سے تو بہتر ہے، ورنہ آج گھر سے نکلنا محال ہوتا۔

میری 'پہلی شادی' 1975ء میں ہوئی!

رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے سوال پر سابق وزیراعلیٰ سندھ شگفتہ انداز میں کہتے ہیں کہیں آپ میری دوسری شادی تو نہیں کرانا چاہ رہے، پھر یوں گویا ہوئے کہ میری 'پہلی شادی' 1975ء میں ہوئی، اور بس وہی ایک شادی ہے، میں بہت خوش ہوں'' شریک حیات کا انتخاب اُن کی پسند سے ہوا، جو خاتون خانہ ہیں، تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد ہیں، سب بچوں کی شادیاں ہو چکیں۔ صاحب زادے نے سول ایوی ایشن میں ڈپلومہ کیا، لندن سے بی بی اے کیا، اس کے علاوہ وہ ضلع دادو کے ناظم رہے اور عام انتخابات میں بھی حصہ لیا۔ کہتے ہیں کہ ہماری خواتین کے سیاسی سرگرمیوں پر حصہ لینے پر کوئی قدغن نہیں۔ لیاقت جتوئی ماضی میں فلمیں بھی دیکھتے تھے، انگریزی فلمیں بھی دیکھیں، لیکن پرانی ہندوستانی فلموں کے دل دادہ ہیں، انداز، ترانہ اور آن نے کافی متاثر کیا، کلا کاروں میں دلیپ کمار، مدھو بالا اور نرگس، جب کہ محمد رفیع اور طلعت کا نام لیتے ہیں۔ یوں تو سندھی، اردو اور انگریزی تینوں زبانوں کی کتب پڑھیں، لیکن سیاسی مصروفیات کے سبب کتب بینی کا وقت نہیں ملتا۔ ادبی کتب سے متعلق جاننا چاہا، تو کہنے لگے 'آپ دیں گے، تو ہم پڑھ لیں گے۔' لیاقت جتوئی کا ماننا ہے کہ سیاسی نظریہ کوئی بھی ہو، اس میں اگر سچائی ہے، اور لوگوں کی بھلائی ہے، تو اس سے بہتر کوئی فکر نہیں۔

''پرویز مشرف نے دو بڑی غلطیاں کیں''

لیاقت جتوئی مسلم لیگ (ق) کی طرف سے بطور وفاقی وزیر صدر پرویز مشرف کی حکوت کا حصہ رہے، آج بھی اُن سے اپنے لگاؤ کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی تحریک انصاف کا حصہ ہونے کے ناتے مرکزی حکمت عملی کے پاس دار رہنے کا عندیہ بھی دیتے ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ پرویز مشرف کی حکومت آج کی سندھ اور وفاقی حکومت سے اچھی تھی، وفاقی حکومت کے پیسے استعمال ہو رہے تھے۔ پیٹرول، چینی، گندم اور موٹر سائیکل وغیرہ سستی تھیں۔ آج تک اُن کے خلاف کوئی بدعنوانی ثابت نہیں کی جا سکی۔ اعدادو شمار پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج لوکل گورنمنٹ کے لیے مختص ہونے والے پیسے استعمال نہیں کیے جا رہے۔ لیاقت جتوئی کا خیال ہے کہ پرویز مشرف سے دو غلطیاں ہوئیں، پہلی: چیف جسٹس سے تنازع اور دوسری: 'این آر آو'۔ جس کی انہوں نے مخالفت کی تھی۔ لیاقت جتوئی نہیں سمجھتے کہ برقی ذرایع اِبلاغ کو آزادی دینا پرویز مشرف کا غلط فعل تھا، بلکہ وہ اس اقدام کو اچھا خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آزاد ذرایع اِبلاغ سیاسی انتقام کی راہ میں رکاوٹ ہیں، فوراً خبر آنے سے اثر ہوتا ہے۔ لیاقت جتوئی ذرایع اِبلاغ کے سیاسی معاملات میں 'فریق' بننے کے خیال سے بھی اتفاق نہیں کرتے، کہتے ہیں کبھی خبروں میں کوتاہی ہو جاتی ہے، لیکن مجموعی طور پر اس کا کردار اطمینان بخش ہے۔

وادیٔ مہران کا تجربے کار سیاسی خانوادہ

سابق وزیراعلیٰ سندھ اور سابق وفاقی وزیر لیاقت علی جتوئی کے خاندانی پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے، تو اُن کے والد عبدالحمید خان جتوئی 1940ء کے زمانے میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ بٹوارے کے بعد رکن اسمبلی رہے، اور اُن چند ارکان میں شمار ہوئے، جنہوں نے ملک میں 'ون یونٹ' کی مخالفت کی۔ اس کے بعد وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں شامل رہے، تاہم انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف کیا اور قومی اسمبلی میں ان پر تنقید کی، بھٹو دور میں تین بار پابند سلاسل بھی ہوئے۔ سندھ نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم سے بھی سیاسی جدوجہد کی، جب کہ لیاقت علی جتوئی صوبائی وزیر اور وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز رہنے کے بعد مسلم لیگ (ق) کی طرف سے 2002ء میں وفاقی وزیر صنعت بنے، جب کہ 30 جون 2004ء تا 15 نومبر 2007ء ان کا منصب وفاقی وزیر پانی وبجلی رہا۔

وزارت اعلیٰ کے دور کے تغیرات

اگر ہم لیاقت علی جتوئی کی وزارت اعلیٰ کا دور (22 فروری 1997ء تا 30 اکتوبر 1998ء) دیکھیں، تو اس عرصے میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوئیں، اُن کی مرکزی حلیف جماعت مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیوایم)نے 26 جولائی 1997ء کو خود کو 'متحدہ قومی موومنٹ' میں تبدیل کیا۔ 26 اگست 1998ء کو اختلافات کے سبب متحدہ حکومت سندھ سے الگ ہوگئی۔ سندھ میں یہ منظر تھا، تو مرکزی سطح پر بھی کافی تغیرات آرہے تھے۔ 7 اکتوبر 1998ء کو آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کی تجویز دینے پر مستعفی ہونا پڑا اور جنرل پرویز مشرف کو کمان سونپی گئی، جب کہ 12 اکتوبر 1998ء کو جنرل ضیا الدین بٹ کو آئی ایس آئی چیف بنایا گیا، (جس کے پورے ایک برس بعد وزیراعظم نواز شریف نے ضیا الدین بٹ کو پرویز مشرف کی جگہ نیا آرمی چیف بنانے کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا) سندھ میں ایم کیو ایم 23 اکتوبر 1998ء کو دوبارہ حکومت کا حصہ بنی، جب کہ 28 اکتوبر کو نواز شریف نے 17 اکتوبر کو قتل ہونے والے حکیم محمد سعید کے قتل کا الزام ایم کیو ایم پر لگایا، جس پر وہ اگلے روز پھر حکومت سے الگ ہوگئے اور 30 اکتوبر 1998ء کو سندھ میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔
Load Next Story