تماشا میرے آگے
امریکا بھارت کا ہمنوا بھی رہا اور کشمیر کے مسئلے پر امریکا نے کبھی بھی پاکستان کی حمایت نہ کی
دنیا میں ان دنوں جو کچھ سیاسی طور پر ہو رہا ہے وہ ایک تماشے سے کم نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ جب اقتدار پر براجمان ہوئے تو انھوں نے اپنی دھاک دنیا اور خصوصی طور پر مسلم دنیا پر بٹھانے کے لیے سفری قوانین میں جو کچھ کیا ان کی عدلیہ نے اس کی بساط لپیٹ دی اور عدلیہ نے کئی بار ٹرمپ کو پسپا کیا۔ مگر پاکستان میں جو کچھ ہوا وہ بھی کسی بڑے تماشے سے کم نہیں، یعنی جن شقوں نے وزیراعظم نواز شریف کو کرسی وزیراعظم چھوڑنے پر مجبور کیا ان کے احباب اور پارٹی کے محبان نے ان شقوں کو ہی تہس نہس کردیا۔
یہ تو اچھا ہوا کہ انھوں نے صرف ان شقوں پر ہی حملہ کیا، اگر وہ پورے دستور پر ہی حملہ آور ہوجاتے تو جانے کیا ہوتا۔ کیونکہ اہم معاملات پر تو کورم پورا نہ ہونے کی ہی آواز بلند ہوتی رہتی ہے مگر وزیراعظم کی وفاداری کے تابعداری کی نمائش کے لیے ہر فرد پیش پیش تھا اور ان شقوں کو لہولہان کردیا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ وزیراعظم جلد ہی واپس آجائیں گے اور خاقان عباسی جلد رخصت ہوجائیں گے۔ مگر لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستان میں جو گیا وہ واپس نہ آیا۔ کیسے اور کیوں یہ وقت ہی بتائے گا۔
فی الحال نئے وزیراعظم خاقان عباسی ایک نئی مضبوط اور مربوط خارجہ پالیسی منظم کرنے آئے ہیں۔ مگر امریکا جاکر اور اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد ان کا سارا وقت امریکی نائب صدر کے ساتھ ہی گزرا۔ اب یہ اب امریکی نائب صدر پر ہے کہ وہ کس انداز میں شاہد خاقان عباسی کی گفتگو کو ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے پیش کریں گے۔ بہرصورت کوئی انداز کیوں نہ ہو، امریکی دانشوروں نے پاکستان کا ایک رخ ذہن میں جمع کر رکھا ہے وہ اسی انداز سے پیش کرتے ہیں، وہ ہے ڈو مور (Do More)۔ بس ان کی کہی کرتے جاؤ بصورت دیگر ڈرون حملے ہوں گے اور اگر اس کے باوجود پاکستانی حکمراں من مانی کرتے رہے تو یہ حملے جو پوشیدہ الفاظ میں ہیں، اہم افراد کو چھوڑ کر اہم تنصیبات پر بھی ممکن ہوسکتے ہیں۔
اب اتنے سوال و جواب کے بعد حالات پرسکون ہوگئے اور مزید پرسکون ہوتے جائیں گے، کیونکہ امریکا نے بھارت سے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجنے کو کہا تھا تو اس نے نہ کردی۔ یہ کہلاتی ہے آزاد خارجہ پالیسی، جب کہ افغانستان میں اشتراکی انقلاب کو تہہ و بالا کرنے کے لیے پاکستان اور پوری مسلم امہ کو امریکا نے استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں کلاشنکوف کلچر اور دہشت گردی نے جنم لیا۔ جس کو ضرب عضب سے ختم کرنا پڑا۔ جب کہ اس جنگ نے تورا بورا کی شکل میں افغان عسکریت پسندوں کو ختم کیا، ورنہ جنرل پرویز مشرف کو افغان سفیر ملا ضعیف کو امریکا کے حوالے نہ کرنا پڑتا۔ کیونکہ پاکستان سے امریکا کے کئی اقسام کے اتحاد ہیں، اس لیے پاکستان کے حکمرانوں میں یہ جرأت کہاں کہ اس کی درخواست کو رد کرسکیں۔
حالانکہ عالمی فورم پر امریکا بھارت کا ہمنوا بھی رہا اور کشمیر کے مسئلے پر امریکا نے کبھی بھی پاکستان کی حمایت نہ کی۔ ان تمام حقائق کے باوجود بھارت نے امریکا کی زبانی کلامی حمایت تو کی مگر عملی تائید نہ کی۔ حالانکہ روس اور بھارت میں اب وہ تعاون جاتا رہا جو جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے دور میں تھا، بلکہ بھارت کی صورتحال تو اس قدر بدل چکی ہے کہ مہاتما گاندھی کے قاتل ''گوڈسے'' کے نام کے بھارت میں مندر بن رہے ہیں، لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ بھارتی افواج افغانستان روانہ کرسکے تاکہ وہ طالبان سے جنگ کرے۔ تمام خرابیوں کے باوجود بھارتی اسمبلی قومی مفاد کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ جو بنیادی اینٹیں پنڈت نہرو نے نصب کی تھیں وہ آج بھی باقی ہیں، مگر اپنے اوپر یہ حرف نہ آنے دیا کہ بھارت کرائے کی فوج رکھتا ہے۔
مگر اس کی اس حکمت عملی سے امریکا کا رویہ پاکستان کی طرف سے خودبخود نرم ہوجائے گا۔ اس میں پاکستان کی ڈپلومیسی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ رہ گیا یہ کہ پاکستان طورخم کے راستے امریکی فوجی سپلائی بند کرسکتا ہے، تو یہ عمل امریکا سے جنگ کے مترادف ہوگا۔ تو اس قسم کے تصورات بعیداز قیاس ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی سیاسی زندگی امریکی حکمرانوں کے تابع ہے، جو این آر او نافذ العمل ہے یہ امریکی سرپرستی میں کیا گیا، لہٰذا جب پاکستان میں حکومتیں امریکا کے خلاف باتیں کرتی ہیں تو یہ حقیقت نہیں ہوتی بلکہ مزید مراعات کی طلب گار ہوتی ہیں۔ البتہ شمالی کوریا یا ایران سے کوئی بات ہو تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کہ دنیا میں کچھ الٹ پلٹ ہونے کو ہے۔
کم جان انگ نے جس قسم کے اقدامات کیے اس نے کم ال سنگ کو دنیا میں دوبارہ یاد کرا دیا جس نے امریکی فوجوں کو پسپا کردیا تھا اور جنگ بندی پر مجبور کیا، دوسری طرف ایران نے بیلسٹک میزائل کے تجربات کر کے تل ابیب کے حاکموں کو ہراساں کردیا، جس سے امریکا کو تشویش لاحق ہوگئی۔ امریکا یہ سمجھا تھا کہ اپنے ہوائی اور بحری بیڑے کو حرکت دے کر شمالی کوریا کو خوفزدہ کردے گا، بلکہ اس کا ردعمل ایسا تھا کہ خود امریکا انگشت بدنداں رہ گیا۔ ٹرمپ کوئی نیا تماشا نہ کرسکے، اب میز پر آنے کا سوچ رہے ہیں۔ مانا کہ 1953ء کو برس ہا برس بیت گئے، مگر ابھی بھی روس اور چین میں وہ لوگ زندہ ہیں جو رضاکار کے طور پر کوریا گئے تھے اور جنگ میں شامل تھے۔
لہٰذا ابھی جو ڈونلڈ ٹرمپ نے بینکاری کے توسط سے پابندی لگائی ہے اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جنگ کا خوف جاتا رہا اور کوریا کے جوابی حملے سے امریکی بالادستی کا خاتمہ ہوجائے گا اور روس چین امریکی بینکاری کی پابندی نہ کرسکیں گے، کیونکہ روس کے تعلقات امریکا سے قریب تر نہ رہے۔ شام کی جنگ کے اثرات اب بھی امریکا کے لیے ایک زبردست یاد ہے، جو برسوں اس کو یاد رہے گی۔ یہ جنوبی ایشیا ہی ہے جہاں کے حکمراں امریکا نواز ہیں اور خود کو وہ عوامی حاکم کہتے ہیں۔ اگر عوامی حاکم ہوتے تو ڈیل کے تحت این آر او پر سوار ہوکر نہیں بلکہ عوامی تحریک سے پاکستان آتے۔ عوام نام نہاد جمہوری حکمرانوں کی تائید نہیں کر رہے، اگر مارشل لا لگادیا جائے تو 100 آدمی بھی ان لیڈروں کے ساتھ نہ نکلیں گے۔
یہ مراعات یافتہ لوگوں کا ٹولہ ہے جو حکمرانوں کے ساتھ ہے۔ سابق وزیراعظم خود کو نظریاتی سمجھ رہے ہیں۔ کہاں مزاحمتی نظریہ اور کہاں ضیا الحق کے فرمانبردار، جنھوں نے طلبا، مزدور اور کسان تنظیموں کو پابند سلاسل کر رکھا ہے اور خود کو عوامی رہبر سمجھ رہے ہیں۔ درحقیقت اسمبلیوں کے تنخواہ دار عوامی عہدہ چھوڑ بیٹھے ہیں اور اثاثوں کے طلب گار ہیں، ورنہ قلمکار کی تحریر پر 17½ فیصد ٹیکس؟ اشیائے صرف کا برا حال، صرف ملک ان لوگوں کے رہنے کے قابل رہ گیا ہے کہ جن کی کم ازکم آمدنی ایک لاکھ روپے ماہانہ ہو اور رہائش کے لیے اپنا مکان ہو۔ اور وزیراعظم عوامی لشکر کی باتیں کرتے ہیں۔ مجیب الرحمن کو ہم لوگوں نے نشتر پارک میں تقریر کروائی تھی، اسٹیج پر نیشنل عوامی پارٹی کراچی کے صدر انیس ہاشمی نے شیخ مجیب کو استقبالیہ خطبہ دیا تھا اور این ایس ایف اور ترقی پسند عوام فرش نشین تھے اور مقررین میں کراچی عوامی لیگ کے صدر ترمذی بھی موجود تھے۔ شیخ مجیب کبھی بھی پاکستان سے الگ نہیں ہونا چاہتے تھے، شیخ مجیب ابتدا سے لیڈر تھے، طالب علمی کے زمانے سے، لہٰذا ایسا موازنہ کرنا مناسب نہیں۔ نسل پرستی پر تحریک چلانا مناسب نہیں، یہ محض ایک تماشا ہے۔ عوام کو اس انداز میں گمراہ کرنا مناسب نہیں۔
درحقیقت پاکستان سے عوامی لیڈر جاچکے کیونکہ طلبا یونین ہی لیڈر پیدا کرتی تھیں وہ اب پابند سلاسل ہیں اور پھر بھی حکومتیں خود کو جمہوری کہلاتی ہیں اور لوگ یہاں تک کہ قلمکار بھی فوجی حاکم کے پروردہ کو جمہور کی آواز کہتے ہیں۔ باطل اس قدر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ لوگ حق و باطل کے معرکے کے باوجود شیوۂ حسینی عملاً بھلا چکے ہیں۔
یہ تو اچھا ہوا کہ انھوں نے صرف ان شقوں پر ہی حملہ کیا، اگر وہ پورے دستور پر ہی حملہ آور ہوجاتے تو جانے کیا ہوتا۔ کیونکہ اہم معاملات پر تو کورم پورا نہ ہونے کی ہی آواز بلند ہوتی رہتی ہے مگر وزیراعظم کی وفاداری کے تابعداری کی نمائش کے لیے ہر فرد پیش پیش تھا اور ان شقوں کو لہولہان کردیا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ وزیراعظم جلد ہی واپس آجائیں گے اور خاقان عباسی جلد رخصت ہوجائیں گے۔ مگر لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستان میں جو گیا وہ واپس نہ آیا۔ کیسے اور کیوں یہ وقت ہی بتائے گا۔
فی الحال نئے وزیراعظم خاقان عباسی ایک نئی مضبوط اور مربوط خارجہ پالیسی منظم کرنے آئے ہیں۔ مگر امریکا جاکر اور اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد ان کا سارا وقت امریکی نائب صدر کے ساتھ ہی گزرا۔ اب یہ اب امریکی نائب صدر پر ہے کہ وہ کس انداز میں شاہد خاقان عباسی کی گفتگو کو ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے پیش کریں گے۔ بہرصورت کوئی انداز کیوں نہ ہو، امریکی دانشوروں نے پاکستان کا ایک رخ ذہن میں جمع کر رکھا ہے وہ اسی انداز سے پیش کرتے ہیں، وہ ہے ڈو مور (Do More)۔ بس ان کی کہی کرتے جاؤ بصورت دیگر ڈرون حملے ہوں گے اور اگر اس کے باوجود پاکستانی حکمراں من مانی کرتے رہے تو یہ حملے جو پوشیدہ الفاظ میں ہیں، اہم افراد کو چھوڑ کر اہم تنصیبات پر بھی ممکن ہوسکتے ہیں۔
اب اتنے سوال و جواب کے بعد حالات پرسکون ہوگئے اور مزید پرسکون ہوتے جائیں گے، کیونکہ امریکا نے بھارت سے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجنے کو کہا تھا تو اس نے نہ کردی۔ یہ کہلاتی ہے آزاد خارجہ پالیسی، جب کہ افغانستان میں اشتراکی انقلاب کو تہہ و بالا کرنے کے لیے پاکستان اور پوری مسلم امہ کو امریکا نے استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں کلاشنکوف کلچر اور دہشت گردی نے جنم لیا۔ جس کو ضرب عضب سے ختم کرنا پڑا۔ جب کہ اس جنگ نے تورا بورا کی شکل میں افغان عسکریت پسندوں کو ختم کیا، ورنہ جنرل پرویز مشرف کو افغان سفیر ملا ضعیف کو امریکا کے حوالے نہ کرنا پڑتا۔ کیونکہ پاکستان سے امریکا کے کئی اقسام کے اتحاد ہیں، اس لیے پاکستان کے حکمرانوں میں یہ جرأت کہاں کہ اس کی درخواست کو رد کرسکیں۔
حالانکہ عالمی فورم پر امریکا بھارت کا ہمنوا بھی رہا اور کشمیر کے مسئلے پر امریکا نے کبھی بھی پاکستان کی حمایت نہ کی۔ ان تمام حقائق کے باوجود بھارت نے امریکا کی زبانی کلامی حمایت تو کی مگر عملی تائید نہ کی۔ حالانکہ روس اور بھارت میں اب وہ تعاون جاتا رہا جو جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے دور میں تھا، بلکہ بھارت کی صورتحال تو اس قدر بدل چکی ہے کہ مہاتما گاندھی کے قاتل ''گوڈسے'' کے نام کے بھارت میں مندر بن رہے ہیں، لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ بھارتی افواج افغانستان روانہ کرسکے تاکہ وہ طالبان سے جنگ کرے۔ تمام خرابیوں کے باوجود بھارتی اسمبلی قومی مفاد کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ جو بنیادی اینٹیں پنڈت نہرو نے نصب کی تھیں وہ آج بھی باقی ہیں، مگر اپنے اوپر یہ حرف نہ آنے دیا کہ بھارت کرائے کی فوج رکھتا ہے۔
مگر اس کی اس حکمت عملی سے امریکا کا رویہ پاکستان کی طرف سے خودبخود نرم ہوجائے گا۔ اس میں پاکستان کی ڈپلومیسی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ رہ گیا یہ کہ پاکستان طورخم کے راستے امریکی فوجی سپلائی بند کرسکتا ہے، تو یہ عمل امریکا سے جنگ کے مترادف ہوگا۔ تو اس قسم کے تصورات بعیداز قیاس ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی سیاسی زندگی امریکی حکمرانوں کے تابع ہے، جو این آر او نافذ العمل ہے یہ امریکی سرپرستی میں کیا گیا، لہٰذا جب پاکستان میں حکومتیں امریکا کے خلاف باتیں کرتی ہیں تو یہ حقیقت نہیں ہوتی بلکہ مزید مراعات کی طلب گار ہوتی ہیں۔ البتہ شمالی کوریا یا ایران سے کوئی بات ہو تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کہ دنیا میں کچھ الٹ پلٹ ہونے کو ہے۔
کم جان انگ نے جس قسم کے اقدامات کیے اس نے کم ال سنگ کو دنیا میں دوبارہ یاد کرا دیا جس نے امریکی فوجوں کو پسپا کردیا تھا اور جنگ بندی پر مجبور کیا، دوسری طرف ایران نے بیلسٹک میزائل کے تجربات کر کے تل ابیب کے حاکموں کو ہراساں کردیا، جس سے امریکا کو تشویش لاحق ہوگئی۔ امریکا یہ سمجھا تھا کہ اپنے ہوائی اور بحری بیڑے کو حرکت دے کر شمالی کوریا کو خوفزدہ کردے گا، بلکہ اس کا ردعمل ایسا تھا کہ خود امریکا انگشت بدنداں رہ گیا۔ ٹرمپ کوئی نیا تماشا نہ کرسکے، اب میز پر آنے کا سوچ رہے ہیں۔ مانا کہ 1953ء کو برس ہا برس بیت گئے، مگر ابھی بھی روس اور چین میں وہ لوگ زندہ ہیں جو رضاکار کے طور پر کوریا گئے تھے اور جنگ میں شامل تھے۔
لہٰذا ابھی جو ڈونلڈ ٹرمپ نے بینکاری کے توسط سے پابندی لگائی ہے اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جنگ کا خوف جاتا رہا اور کوریا کے جوابی حملے سے امریکی بالادستی کا خاتمہ ہوجائے گا اور روس چین امریکی بینکاری کی پابندی نہ کرسکیں گے، کیونکہ روس کے تعلقات امریکا سے قریب تر نہ رہے۔ شام کی جنگ کے اثرات اب بھی امریکا کے لیے ایک زبردست یاد ہے، جو برسوں اس کو یاد رہے گی۔ یہ جنوبی ایشیا ہی ہے جہاں کے حکمراں امریکا نواز ہیں اور خود کو وہ عوامی حاکم کہتے ہیں۔ اگر عوامی حاکم ہوتے تو ڈیل کے تحت این آر او پر سوار ہوکر نہیں بلکہ عوامی تحریک سے پاکستان آتے۔ عوام نام نہاد جمہوری حکمرانوں کی تائید نہیں کر رہے، اگر مارشل لا لگادیا جائے تو 100 آدمی بھی ان لیڈروں کے ساتھ نہ نکلیں گے۔
یہ مراعات یافتہ لوگوں کا ٹولہ ہے جو حکمرانوں کے ساتھ ہے۔ سابق وزیراعظم خود کو نظریاتی سمجھ رہے ہیں۔ کہاں مزاحمتی نظریہ اور کہاں ضیا الحق کے فرمانبردار، جنھوں نے طلبا، مزدور اور کسان تنظیموں کو پابند سلاسل کر رکھا ہے اور خود کو عوامی رہبر سمجھ رہے ہیں۔ درحقیقت اسمبلیوں کے تنخواہ دار عوامی عہدہ چھوڑ بیٹھے ہیں اور اثاثوں کے طلب گار ہیں، ورنہ قلمکار کی تحریر پر 17½ فیصد ٹیکس؟ اشیائے صرف کا برا حال، صرف ملک ان لوگوں کے رہنے کے قابل رہ گیا ہے کہ جن کی کم ازکم آمدنی ایک لاکھ روپے ماہانہ ہو اور رہائش کے لیے اپنا مکان ہو۔ اور وزیراعظم عوامی لشکر کی باتیں کرتے ہیں۔ مجیب الرحمن کو ہم لوگوں نے نشتر پارک میں تقریر کروائی تھی، اسٹیج پر نیشنل عوامی پارٹی کراچی کے صدر انیس ہاشمی نے شیخ مجیب کو استقبالیہ خطبہ دیا تھا اور این ایس ایف اور ترقی پسند عوام فرش نشین تھے اور مقررین میں کراچی عوامی لیگ کے صدر ترمذی بھی موجود تھے۔ شیخ مجیب کبھی بھی پاکستان سے الگ نہیں ہونا چاہتے تھے، شیخ مجیب ابتدا سے لیڈر تھے، طالب علمی کے زمانے سے، لہٰذا ایسا موازنہ کرنا مناسب نہیں۔ نسل پرستی پر تحریک چلانا مناسب نہیں، یہ محض ایک تماشا ہے۔ عوام کو اس انداز میں گمراہ کرنا مناسب نہیں۔
درحقیقت پاکستان سے عوامی لیڈر جاچکے کیونکہ طلبا یونین ہی لیڈر پیدا کرتی تھیں وہ اب پابند سلاسل ہیں اور پھر بھی حکومتیں خود کو جمہوری کہلاتی ہیں اور لوگ یہاں تک کہ قلمکار بھی فوجی حاکم کے پروردہ کو جمہور کی آواز کہتے ہیں۔ باطل اس قدر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ لوگ حق و باطل کے معرکے کے باوجود شیوۂ حسینی عملاً بھلا چکے ہیں۔