دوشِ نبیؐ سے پوچھیے عظمت حسین ؓ کی

آپؓ نے اپنے لہو سے کتابِ زیست کے اوراق کو وہ تابانی بخشی

جس کے مطالعے سے مظلوم انسان جینے کا سبق سیکھتے رہیں گے ۔ فوٹو: فائل

محرم کا چاند اپنے جلو میں نالہ و شیون، آہ و زاری اور سسکیوں سے معمور ہزارہا یادیں لے کر طلوع ہوتا ہے۔ محرم کے ساتھ اس رفیع الشان اور بے مثال ہستی کا تذکرۂ جلیلہ جڑا ہوا ہے جس کے نام کے ساتھ عشق و محبت، عزمیت و استقامت، غیرت و حمیت، شوکت و سطوت، جلال و جمال، فقر و استغنا، شجاعت و بسالت، حریت و فکر قلب و نظر، زہد و اتقاء، لطافت رکوع و سجود، ذوقِ ایثار و قربانی، شوقِ شہادت و شہامت، منتہائے کمال عبادت، ذکر جلال ِ کبریا اور حُب قرآن و ایمان کی آبرو وابستہ ہے۔

یہ وہ عظیم و شحیم ہستی ہے جسے اہل دل و نگاہ و وفا '' حسین ؓ '' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جس کا نام نامی زبان پر آتا ہے تو جبینِ ماحول سے سجدے ٹپک ٹپک جاتے ہیں۔ نجوم و کہکشاں فرطِ عقیدت سے جھکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ کرۂ ارض ستاروں سے ہم آغوش ہونے کے لیے بے تاب ہو تا ہے۔ یہ مظاہر ِ فطرت کس کے لیے اور کس لیے اہتمام ِ عقیدت کرتے ہیں۔ یقیناً یہ اظہارِ عقیدت حضور ؐ کے نورِ عین حسین ؓ کے لیے ہے۔ ایسا کیوں ہے ۔۔۔۔ ؟ اس لیے کہ اس کائنات رنگ و بُو میں اور کون ہے جو ہجوم غم میں بھی میں بھی مسکرا کر اپنے لختِ جسم و جاں بارگاہِ خداوندی میں بہ صد خلوص و رضا تیروں برستے مینہ میں پیش کرتا ہے۔ وہ کون ہے جو صراطِ حق کی بقا کے لیے معصومیت ِ اصغر اور شباب ِ علی اکبر سر ِمقتلِ وفا پیش کر رہا ہے۔

اس عالم گیتی پناہ میں وہ کون ہے جو ریگ زارِ کربلا کی تزئین کے لیے اپنا خون طشتری وفا میں سجا کر بارگاہِ کبریا میں پیش کر رہا ہے۔ یہ کون پیکر عزیمت و استقامت ہستی ہے جو جبین کائنات کی زیبائش بڑھانے کے لیے روز ِ روشن کو صبح رنگیں کی نوید عطا کر رہی ہے۔ ہاں ہاں ! یہ حسین ؓ ہے جو قصرِ ملوکیت کو لرزہ براندام کرکے اس کی ہر اینٹ کو پیغام ِ آئین حق سے ہم کنار کرنا چاہتا ہے۔ یہ حسین ؓ ہے جس نے دین محمد ؐ کی آبرو کے تحفّظ کے لیے اپنے مہہ و مہر یدبیضا میں سجا کر بارگاہِ خداوندی میں پیش کر دیے۔

شوخی لالہ رنگیں ہے کہیں خونِ شفق
اس قدر عام ہوئی سرخی رودادِ حسینؓ

اے لخت ِ دل و زہراؓ ! تو نے یزیدیت کی بکھیری ہوئی بجلیوں کو اپنے خون مقدس کی برسات سے ہمیشہ کے لیے بجھا کر لالہ و گل کی روشیں آویزں کردیں۔ اے حسینؓ تو نے اپنے لہو سے کتاب زیست کے اوراق کو وہ تابانی بخشی جس کے مطالعے سے شہریارِ خلوص و ایثار مر مر کے جینے کا سبق سیکھتے رہیں گے۔ تو نے اپنے ابتہاج ِ قلب کو قربان کر کے زمانے کو دولت طمانیت عطا کر دی۔ تو نے اپنے کاروانِ گل و لالہ کی نکہت افشانیوں سے نسلِ آدمیت کے مشام ِ جاں معطر کر دیے۔


حسین ؓ ! تیرے قابل ِ فخر کردار سے دامن تاریخ پر یہ حقیقت رقم کر دی گئی ہے کہ دین محمد ؐ میں ملوکیت حرام ہے۔ اے حسین ؓ ! تو نے بادہ ہائے عشق و حکمت سے کشت ِ حق کو ایسی سیرابی عطا کی جس کے باعث موجِ آب حیات رواں رہے گی۔ اے حسین ؓ ! تیری رفعت کردار پر اہل زمن بساط و دیدہ و دل بچھا کر بہ صورت سوغات عرش والوں کے حضور پیش کرتے رہیں گے۔

اے شہزادۂ دشت کربلا تیرے تصور ِ جمیل سے دلوں کو متاعِ سوز و گداز مرحمت ہوتی ہے۔ اے حسین ؓ ! تیرے لہو کا ہر قطرہ جلوۂ تقدیس کبریائی میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اے حسین ؓ ! تو نے سوز و قرات قرآن سے سنجیدگی ِ کوہ دمن میں گداز آفریں تلاطم بپا کر دیا۔ تیرے مجاہدانہ کردار سے نمرودانِ وقت کی جبینوں پر پسینے پھوٹتے رہیں گے۔ اے پیکر صبر و رضا ! تو نے اپنے خون ِ سے جسد ِ اسلام کو نیا ولولہ اور سطوت آگیں طنطنہ عطا کیا۔ اے حسین ؓابنِ حیدر ؓ ایک بار چشم التفات ہو کہ آج پھر نسلِ انسانی زنجیر قیصریت میں پا بجولاں جکڑی نظر آتی ہے۔

رگ و پے سے بے حیایاں ڈول رہی ہیں غیرتیں دم توڑ رہی ہیں۔ ناموسِ اسلام پر ڈاکا زنی کے لیے ذریّتِ شمر ذی الجوشن بے رحم ہاتھوں میں تیغ ِ ستم لیے پر تول رہی ہے۔ اے تاج دارِ نینوا ! ایک بار پھر نگاہِ لطف و کرم عطا ہو کہ ثروت کون و مکاں کی خیرات عطا کرنے والے بازارِ حیات میں خود نیلام ہوتے جا رہے ہیں۔ ارباب ِ جفا ذکر تقدیس اسلام کا پھر مذاق اڑاتے نطر آتے ہیں۔ تیشہ الحاد سے شیشہ ہائے تقدس چُور چُور ہوتے جارہے ہیں۔ حالات اس قدر ناموافق ہیں کہ صبا بھی آتی ہے تو رخِ برگ گلاب کو جھلسا دیتی ہے۔ پرستاران بُتانِ وہم و گماں اہل حقائق و معارف پر طعنہ زن اور حملہ آور ہو چکے ہیں۔

غضب تو یہ ہے کہ چمنستانِ اسلام کے پھول بھی اپنی آستینوں میں کانٹے لیے محو ِ خرام ہیں۔ اے حسین ؓ ! اپنی چشم فیض رساں پھر جلوہ گر کریں فکر یزیدیت کے علم بردار ہاتھوں میں تصویرِ خزاں لیے فخر و مباہات اور غرور و تمکنت سے آبروئے بہار چھین لینے کے در پے ہے۔ فقیہِ شہر خلعت تقدس کو تار تار کر کے شاداں و فرحاں جاں سپارِ ملوکیت بنتا جا رہا ہے۔ کجلاہانِ وقت کے خدشۂ جور سے چشم انسانیت کی پلکوں پر آنسو تیرتے نظر آتے ہیں۔ مزاج سماج میں نہ گفتار دلبرانہ، نہ جذب ِ قلندرانہ کی جھلک نظر آتی ہے ۔

گلیم بُوذر ؓ و دلقِ اویس اور چادرِ زہرا کے سوداگر بے باکانہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ ناموس آل اطہار لرزاں و ترساں بے روائی کے عالم میں کنج عزلت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ حوا کی بیٹیوں کی عفت مآبی کو ہوس کا تختہ مشق بنا کر اس سے اظہار صبر و شکیبائی کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ اے حسین ؓ ! تیرے نانا جان ﷺ کی زلف عنبریں کا واسطہ، تجھے اس آغوشِ مصطفی ؐ کا واسطہ جو تیرے لیے اس طرح بے قرار رہا کرتی تھی جس طرح پھول کی آغوش میں نکہت بے قرار رہا کرتی ہے۔ تجھے اپنے غیور باپ ؓ صاحب نان ِ جویں کے فقر و استغنا کا واسطہ، تجھے مخدومہ کائنات ؓ کی ردائے تطہیر کا واسطہ ایک بار پھر دشتِ کربلا سے اٹھ کے آ اور ہمیں جذبۂ حریت عطا کر جو راکھ کے ڈھیر سے شعلۂ جوالہ پیدا کردے، جو خونِ مسلم میں ذوق ِ شہادت کی لہر پیدا کر دے۔ اب ہم سے مقہور انسانوں کے بے گورو کفن لاشے تڑپتے نہیں دیکھے جاتے، ہم سے اب یزیدانِ عصرِ نو کے ہاتھوں حرمت دین ِ محمد ؐ پامال ہوتے نہیں دیکھی جاتی، اب ہم سے نمائندگانِ شکوہ خسروی کی خوشامد نہیں ہوتی۔

اے حسینؓ! نگاہ التفات ہو۔
Load Next Story