وزارت دفاع نے کے الیکٹرک کی چائنیز کمپنی کو فروخت کی اجازت دیدی
ابراج گروپ پر واجب الادا ایک ارب ڈالر کا معاملہ تاحال حل طلب ہے۔
وزارت دفاع نے ابراج گروپ کے پاس موجود کے الیکٹرک کے 66.4 فیصد شیئرز کو چین کی شنگھائی الیکٹرک پاور کو فروخت کرنے کی سیکیورٹی کلیئرنس دے دی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع نے چین کی کمپنی کو کے الیکٹرک کی فروخت کی اجازت تو دیدی تاہم ابراج گروپ پر واجب الادا ایک ارب ڈالر کا معاملہ تاحال حل طلب ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے شنگھائی الیکٹرک پاور کو کے الیکٹرک کے 66.4 فیصد شیئرز کی فروخت کے لئے این او سی جاری کر دیا ہے۔
وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق چین کی کمپنی کو اس شرط پر کے الیکٹرک کے شیئرز کی خریداری کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اہم دفاعی تنصیبات کو بلا تعطل بجلی فراہم کرے گی۔
دوسری جانب پرائیویٹائزیشن کمیشن نے پاور ڈویژن سے کہا ہے کہ دفاعی تنصیبات کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے کے الیکٹرک کے شیئرز خریدنے والی نئی کمپنی سے نئے سرے سے معاہدہ کیا جائے۔ پرائیویٹائزیشن کمیشن نے ابراج گروپ سے بھی خریدو فروخت کا معاہدہ پیش کرنے کا کہا جو انہوں نے پیش نہیں کیا۔
پاور ڈویژن نے شنگھائی پاور سے کہا تھا کہ اگر وہ کے الیکٹرک کے شیئرز خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو پہلے وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے سیکیورٹی کلیئرنس حاصل کرے۔ یاد رہے کہ شنگھائی الیکٹرک پاور پہلے ہی پاکستان میں ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ چلا رہی ہے۔
وزارت دفاع کی جانب سے شنگھائی الیکٹرک پاور کو سیکیورٹی کلیئرنس ملنے کے بعد کے الیکٹرک کے شیئرز کی فروخت کی ڈیل فائنل ہونے میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں ابراج گروپ نے کے الیکٹرک کے 66.4 فیصد شیئرز آف شور کمپنی کے ای ایس پاور کے ذریعے چین کی شنگھائی پاور کو فروخت کئے تھے۔
دونوں غیر ملکی کمپنیوں کے درمیان کے الیکٹرک کے شیئرز کی فروخت کی ڈیل ایک ارب 77 کروڑ ڈالر میں طے ہوئی جو حکومت اور شیئرز فروخت کرنے والی کمپنی کے درمیان معاملات حل ہونے کے بعد طے پائی۔ طے پانے والی ڈیل میں سے ابراج گروپ کو ایک ارب 77 کروڑ ڈالر میں سے آدھا حصہ ملے گا کیونکہ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے پہلے خریدار گروپ الجومیہ گروپ نے بھی آف شور کمپنی کے ذریعے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یعنی ڈیل کے مطابق ابراج گروپ کو 78 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ملیں گے۔
یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے 2005 میں کے الیکٹرک (کے ای ایس سی) کے شیئرز کا بڑا حصہ الجومیہ گروپ کو فروخت کر دیا تھا۔ رواں برس مارچ تک ابراج اور شنگھائی گروپ کے درمیان ڈیل نہ ہونے کے باعث دونوں جماعتوں کو نئے سرے سے شیئرز کی خریدو فروخت کی منظوری لینی پڑی۔ ڈیل کی مقررہ مدت کی تاریخ ختم ہونے کے بعد شنگھائی گروپ نے رواں برس جون میں کے الیکٹرک کو خریدنے میں اپنی دلچسپی کا باقاعدہ اعلان کیا۔
ذرائع کے مطابق ابراج گروپ اس معاہدے کو جلد از جلد نمٹانا چاہتا تھا اور اس حوالے سے گروپ کے اعلیٰ حکام نے گزشتہ ماہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات بھی کی تھی۔
سیکرٹری پاور ڈویژن یوسف نسیم کھوکھر نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ہمارے لئے سب سے اہم مسئلہ بقایاجات کی وصولی کا ہے لیکن شیئرز کی منتقلی اب تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بقایاجات کا معاملہ شیئرز فروخت کرنے والی پارٹی کو ڈیل کے طے پانے سے پہلے پہلے مکمل کرنا ہو گا کیوں کہ اس ڈیل کو بین الصوبائی رابطے کی کمیٹی دیکھ رہی ہے اور ڈیل میں طے پانے والی تمام شرائط پوری ہونے کے بعد ہی اسے منظور کیا جائے گا۔
سوئی سدرن گیس کمپنی اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ (این ٹی ڈی سی) گیس، بجلی اور تاخیر سے ادائیگی کی مد میں ایک ارب 24 کروڑ روپے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن ابراج گروپ صرف حقیقی رقم ادا کرنے پر بضد ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ سود کی رقم ادا نہیں کرے گا۔
اس حوالے سے ابراج گروپ کا کہنا ہے کہ جب سے ڈیل میں طے پانے والی حقیقی رقم پر لگنے والے مارک اپ کا معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے اس معاملے کو ڈیل کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا لیکن پاور ڈویژن اور ایس ایس جی سی ابراج گروپ کا یہ موقف ماننے کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع نے چین کی کمپنی کو کے الیکٹرک کی فروخت کی اجازت تو دیدی تاہم ابراج گروپ پر واجب الادا ایک ارب ڈالر کا معاملہ تاحال حل طلب ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے شنگھائی الیکٹرک پاور کو کے الیکٹرک کے 66.4 فیصد شیئرز کی فروخت کے لئے این او سی جاری کر دیا ہے۔
وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق چین کی کمپنی کو اس شرط پر کے الیکٹرک کے شیئرز کی خریداری کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اہم دفاعی تنصیبات کو بلا تعطل بجلی فراہم کرے گی۔
دوسری جانب پرائیویٹائزیشن کمیشن نے پاور ڈویژن سے کہا ہے کہ دفاعی تنصیبات کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے کے الیکٹرک کے شیئرز خریدنے والی نئی کمپنی سے نئے سرے سے معاہدہ کیا جائے۔ پرائیویٹائزیشن کمیشن نے ابراج گروپ سے بھی خریدو فروخت کا معاہدہ پیش کرنے کا کہا جو انہوں نے پیش نہیں کیا۔
پاور ڈویژن نے شنگھائی پاور سے کہا تھا کہ اگر وہ کے الیکٹرک کے شیئرز خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو پہلے وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے سیکیورٹی کلیئرنس حاصل کرے۔ یاد رہے کہ شنگھائی الیکٹرک پاور پہلے ہی پاکستان میں ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ چلا رہی ہے۔
وزارت دفاع کی جانب سے شنگھائی الیکٹرک پاور کو سیکیورٹی کلیئرنس ملنے کے بعد کے الیکٹرک کے شیئرز کی فروخت کی ڈیل فائنل ہونے میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں ابراج گروپ نے کے الیکٹرک کے 66.4 فیصد شیئرز آف شور کمپنی کے ای ایس پاور کے ذریعے چین کی شنگھائی پاور کو فروخت کئے تھے۔
دونوں غیر ملکی کمپنیوں کے درمیان کے الیکٹرک کے شیئرز کی فروخت کی ڈیل ایک ارب 77 کروڑ ڈالر میں طے ہوئی جو حکومت اور شیئرز فروخت کرنے والی کمپنی کے درمیان معاملات حل ہونے کے بعد طے پائی۔ طے پانے والی ڈیل میں سے ابراج گروپ کو ایک ارب 77 کروڑ ڈالر میں سے آدھا حصہ ملے گا کیونکہ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے پہلے خریدار گروپ الجومیہ گروپ نے بھی آف شور کمپنی کے ذریعے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یعنی ڈیل کے مطابق ابراج گروپ کو 78 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ملیں گے۔
یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے 2005 میں کے الیکٹرک (کے ای ایس سی) کے شیئرز کا بڑا حصہ الجومیہ گروپ کو فروخت کر دیا تھا۔ رواں برس مارچ تک ابراج اور شنگھائی گروپ کے درمیان ڈیل نہ ہونے کے باعث دونوں جماعتوں کو نئے سرے سے شیئرز کی خریدو فروخت کی منظوری لینی پڑی۔ ڈیل کی مقررہ مدت کی تاریخ ختم ہونے کے بعد شنگھائی گروپ نے رواں برس جون میں کے الیکٹرک کو خریدنے میں اپنی دلچسپی کا باقاعدہ اعلان کیا۔
ذرائع کے مطابق ابراج گروپ اس معاہدے کو جلد از جلد نمٹانا چاہتا تھا اور اس حوالے سے گروپ کے اعلیٰ حکام نے گزشتہ ماہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات بھی کی تھی۔
سیکرٹری پاور ڈویژن یوسف نسیم کھوکھر نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ہمارے لئے سب سے اہم مسئلہ بقایاجات کی وصولی کا ہے لیکن شیئرز کی منتقلی اب تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بقایاجات کا معاملہ شیئرز فروخت کرنے والی پارٹی کو ڈیل کے طے پانے سے پہلے پہلے مکمل کرنا ہو گا کیوں کہ اس ڈیل کو بین الصوبائی رابطے کی کمیٹی دیکھ رہی ہے اور ڈیل میں طے پانے والی تمام شرائط پوری ہونے کے بعد ہی اسے منظور کیا جائے گا۔
سوئی سدرن گیس کمپنی اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ (این ٹی ڈی سی) گیس، بجلی اور تاخیر سے ادائیگی کی مد میں ایک ارب 24 کروڑ روپے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن ابراج گروپ صرف حقیقی رقم ادا کرنے پر بضد ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ سود کی رقم ادا نہیں کرے گا۔
اس حوالے سے ابراج گروپ کا کہنا ہے کہ جب سے ڈیل میں طے پانے والی حقیقی رقم پر لگنے والے مارک اپ کا معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے اس معاملے کو ڈیل کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا لیکن پاور ڈویژن اور ایس ایس جی سی ابراج گروپ کا یہ موقف ماننے کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔