شہر بانو سید

شہر بانو 2014ء میں آٹھ ہزار فٹ بلند چوٹی سر کرنے کے بعد مائونٹ ایورسٹ سر کرنے کی کوشش کریں گی۔

شیر بانو سید ملک کی کئی فلک بوس چوٹیاں سر کرچکی ہیں۔ فوٹو: فائل

دنیا میں صنف نازک کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے طویل جدوجہد کرنا پڑی، شرق وغرب سے لے کر شمال وجنوب تک، کوئی معاشرہ یہ دعوا نہیں کر سکتا کہ اس کے یہاں ہمیشہ سے خواتین کو اپنے حقوق حاصل رہے ہیں۔

انسانی تاریخ نے وہ بد ترین دور بھی دیکھا، جب وقت پیدایش ہی اس سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔۔۔ اور اسے اس دنیا میں آتے ہی فنا کے گھاٹ اتارا جانے لگا۔ یہ انسانیت سوزی کی وہ انتہا تھی جس پر عرش والے نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا میں بھیجا، جنہوں نے جہالت کی تاریکیوں میں جو چراغ روشن کیے، خواتین کے حقوق ان اجالوں میں سر فہرست تھے۔

صنف نازک کو نہ صرف پوری آزادی سے جینے کا حق دیا گیا، بلکہ اس کے تمام حقوق سے متعلق خصوصی تاکید بھی کر دی گئی، لیکن بد قسمتی سے آج چودہ سو سالوں کے بعد بھی ہمارے ہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی خبریں آتی ہیں، تعلیم سے محرومی، کاری قرار دے کر قتل کرنا، میراث سے محروم رکھنا، قرآن سے شادی اور تنازعات نمٹانے کی خاطر اسے بہ طور تلافی استعمال کرنا آج بھی روا ہے اور پھر اس جہالت کو جواز دینے کی خاطر اس پر دلیلیں قائم کی جاتی ہیں، جب کہ شہروں میں بھی بہت سے معاملات میں اسے صرف لڑکی ہونے کی وجہ سے دبایا جاتا ہے، اس کی حق تلفی کی جاتی ہے، یہاں تک کہ اس کی زندگی کا اہم فیصلہ کرتے وقت بھی اس کی رضا مندی کا خیال نہیں رکھا جاتا، ایسے معاشرے میں خواتین کو اپنے حقوق کے لیے سخت جدوجہد کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ پس ماندگی کے شکار لوگوں کو آمادہ یا مجبور کر سکیں کہ وہ صنف نازک کو ان کے تمام جائز حقوق دیں۔

ایسا ہی ایک نام شہر بانو سید کا ہے جو یوں تو دستاویزی فلمیں بناتی ہیں، لیکن جب انہوں نے اپنی دستاویزی فلموں میں خواتین کو موضوع بنایا تو انہیں خیال آیا کہ اس کی عکس بندی کچھ اس طرح کی جائے کہ انفرادیت کے ساتھ اپنا مقصد حاصل ہو، چناں چہ انہیں گلگت بلتستان کے ایک گاؤں شمشال کی خواتین کے توسط سے کوہ پیمائی کا خیال سوجھا، کہ خواتین اگر شمشال میں موجود بلند وبالا برفانی چوٹیوں کو سر کریں تو اس سے اس طرح ایک پنتھ دو کاج ہو جائیں گے اور دستاویزی فلم کے لیے فطرت کے حسین مناظر کی عکس بندی کے ساتھ پاکستانی خواتین کی جدوجہد بھی اس میں شامل ہو جائے گی، لہٰذا انہوں نے شمشال سے تعلق رکھنے والی سات خواتین کے ساتھ مل کر چھ ہزار میٹر (20 ہزار فٹ) بلندی کی حامل تین چوٹیاں سر کر ڈالیں، یوں ان کے کام کے دو آتشہ ہونے کا مقصد بہ حسن وخوبی حاصل ہوا۔

برف پوش چوٹیوں کو سر کرتے لمحے ہی انہوں نے اپنی ٹیم کا نام پی ڈبلیو ای (Pakistan Women Expedition) رکھ دیا۔ ان کے ساتھ یہ معرکہ سر کرنے والی ساتوں خواتین فرزانہ فیصل، شکیلہ، مہ جبین،حمیدہ اور حفیظہ بانو کا تعلق شمشال ماؤنٹینئرنگ اسکول سے ہے، جن کی شرکت اور معاونت سے یہ مہم سر کی گئی۔

شہر بانو کہتی ہیں کہ ہمارے یہاں کوہ پیمائی کے حوالے سے اس قدر مواد موجود نہیں، اس لیے ہم نے اس تشنگی کو دور کرنے کے لیے اس پر یہ دستاویزی فلم بنائی، تاکہ اپنے ملک کے ان دل فریب مقامات کی عکس بندی کر سکیں، اس طرح ہماری دستاویزی فلم میں کوہ پیمائی کے ساتھ ساتھ خواتین کی جدوجہد کو بھی جگہ مل گئی۔

اس سے قبل شمشال ماؤنٹینئرنگ اسکول کی ہی جانب سے جنوری 2011ء میں منگلیگسر کی چوٹی سر کی جا چکی ہے، تاہم شہر بانو سید کی زیر قیادت مہم کے دوران چھے دن میں منگلیگر سر کے علاوہ دیگر دو چوٹیاں بھی سر کی گئیں اور باقاعدہ ان مقامات کی عکس بندی بھی کی گئی۔ اس مہم کے دوران آٹھ خواتین کی معاونت کے لیے چار پیشہ ور کوہ پیما مرد حضرات سجاد مہدی، عبدل، عید محمد اور دلبر خان ساتھ تھے، جو بیس کیمپ سے چوٹی تک ان کے ہم راہ رہے۔ البتہ تیسری چوٹی (قوزسر) سر کرتے سمے صرف خواتین ہی پہاڑ کے آخری سرے تک گئیں اور مرد حضرات کیمپ میں موجود رہے، جن سے ان خواتین کا بہ ذریعہ واکی ٹاکی رابطہ رہا۔


شہر بانو سید کی قیادت میں ان خواتین نے 26 ستمبر 2012ء کو پہلی چوٹی والیو Walyo (6035 میٹر بلند) سر کی، 29 ستمبر کو دوسری چوٹی منگلیگسر (6050میٹر بلند)، جب کہ یکم اکتوبر کو تیسری چوٹی قوزسر (5950 میٹر بلند) سر کی۔ خطرناک ڈھلان اور پھسلن کے باوجود تیسری چوٹی تک جانے کے لیے خواتین نے صرف اپنے زور بازو پر بھروسا کیا اور بالآخر کام یابی حاصل کی۔

برف کی چادر اوڑھی ان چٹانوں کی کوچہ نوردی کے حوالے سے شہر بانو اپنی اس کاوش کا سہرا اپنی ساتھی خواتین کے سر رکھتی ہیں، کہ وہ ان کے بغیر شاید یہ کام یابی حاصل نہیں کر سکتی تھیں، کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مسلسل سفر اور موسم کی شدت نے انہیں نڈھال کر دیا، ایسے میں دیگر ارکان نے نہ صرف پوری پوری مدد کی بلکہ حوصلہ افزائی میں بھی کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی، وہ چوں کہ پیچھے تھیں اس لیے اکثر ان ہی کے بنائے ہوئے راستوں کے ذریعے آگے بڑھتیں، جس سے ان کا سفر خاصا آسان ہوا، منگلیگسر میں ایک مقام پر دیگر لڑکیاں اتنے آگے نکل گئیں کہ نظر بھی نہیں آرہی تھیں۔ لہٰذا انہیں آگے پہنچ کر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے ان کا انتظار کرنا پڑا۔ اس ہی طرح ایک دفعہ میں قدرت کے ان حسین مناظر کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کے قابل بھی نہ تھی تو انہوں نے ہی میری مدد کی۔

شہر بانو سید اپنی اس مہم کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ ہمارے کام کا مقصد خواتین کی محرومی ختم کرنا تھا اور لوگوں کو بتانا تھا کہ جب اتنے پس ماندہ علاقوں کی خواتین اتنی باہمت ہیں تو پھر شہروں کی خواتین کا حوصلہ تو ان سے بھی کہیں زیادہ بلند ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ان کے علاقے کے مسائل کو بھی نمایاں کرنا تھا، جو دور جدید کی تمام سہولیات سے محروم ہے، دوسری طرف موسمی تغیرات کی بنا پر بننے والی عطا آباد جھیل کے باعث ان کی وسیع زرعی اراضی تباہ ہوئی، ان کے معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنے والی آلو کی اہم فصل کو شدید نقصان پہنچا۔ ہم اپنی اس مہم کے ذریعے ہم ان خوب صورت علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینا چاہتے ہیں، تاکہ وہاں کے لوگوں کے معاشی حالات بہتر ہوں، کیوں کہ اب ان کی معیشت کا دارومدار سیاحت پر ہی ہے۔

آسمان سے باتیں کرتے ان پہاڑوں پر ستمبر کے آخری دنوں میں بھی درجہ حرارت منفی 20 ڈگری تھا تاہم بقول شہر بانو کے کہ موسم نے ہمارا اچھا خاصا ساتھ دیا، ورنہ ان فلک بوس پہاڑوں پر بادلوں کی موجودگی معمول کا حصہ ہے اور اگر اس دوران ابر آجاتے تو انہیں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، البتہ ایک دن تیز برفانی ہوائیں ان کا خیمہ قیمتی سامان سمیت ہی اڑا کر لے گئیں اور ان کے ساتھیوں کو پھر پہاڑ کے نشیب سے اسے ڈھونڈ کر لانا پڑا۔ برفانی وادی میں ایک کیمپ ہی جائے پناہ ہوتا ہے، اس کے بغیر اوپر اتنی بلندی پر موجود رہنا ممکن نہیں رہتا۔

شہر بانو اپنے آیندہ عزائم کی بابت کہتی ہیں کہ اب ان کی منزل سات ہزار فٹ کی بلندی ہے، جو وہ اس ہی گرمیوں کے موسم میں سر کریں گی، اس کے بعد 2014ء میں آٹھ ہزار فٹ بلند چوٹی سر کرنے کے بعد مائونٹ ایورسٹ سر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس مہم کے دوران انہیں پیشہ ور مرد کوہ پیمائوں کا تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ اگر اس طرح کی کوئی مہم مکمل طور پر خواتین سر کرنا چاہیں تو پھر یقینا انہیں کسی یورپی خاتون کوہ پیما کا تعاون لینا پڑے گا، کیوں کہ ہمارے یہاں خواتین میں ابھی اس سطح پر مہارت کی خاصی کمی ہے۔

شہر بانو کے علاوہ اس گروپ کی باقی سب ارکان کا تعلق شمالی علاقہ جات سے ہے، اور یہ لوگ بڑی تعداد میں سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہیں، لہٰذا انہیں اس مہم کے لیے گھروالوں کا مکمل تعاون حاصل رہا

کوہ پیمائی سستی نہیں!

کوہ پیمائی ایک خاصا منہگا شوق ہے۔ اس پر آنے والے اخراجات کا انحصار سر کی جانے والی چوٹی کی بلندی پر ہوتا ہے، چھے ہزار میٹر کی بلندی سر کرنے کے لیے پانچ سے چھے لاکھ، سات ہزار میٹر کے لیے بارہ سے پندرہ لاکھ اور آٹھ ہزار میٹر کو سر کرنے کے لیے پچیس سے چالیس لاکھ تک کا تخمینا لگایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے پاکستان جیسے ملک میں کوئی عام شہری تو اتنے اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ حکومتی یا نجی سطح پر اس کی معاونت نہ کی جائے۔
Load Next Story