میٹرو بس میٹرو ٹرین اور انڈر گراؤنڈ

میٹرو منصوبے سے ارد گرد کی آبادیوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان کو دور کرنے کی تدبیر کی جائے۔

ghalib1947@gmail.com

لاہور کے شہریوں کو میٹرو بس اور میٹرو ٹرین کا تحفہ ایک ہی روز ملا۔ میاں شہباز شریف اپنی دھن کے پکے تھے اور آصف ہاشمی عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار۔ میٹرو بس ایک معجزہ ہے۔ شروع میں اس کے نقش واضح نہیں تھے، بس ایک بورڈ جگہ جگہ نصب تھا، آج کی زحمت، کل کی رحمت۔ایک سال گزرگیا۔ کرینیں، بلڈوزور، سڑک اکھاڑنے اور بنانے والے انجن اور مزدوروں کا ایک انبوہ کثیر۔

مجھے کئی بار شک ہوا کہ یہ منصوبہ برسوں میں بھی مکمل نہیں ہو پائے گا، کیونکہ جب کچھ شکل نظر آنے لگتی تھی تو دوبارہ اس کی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو جاتی تھی، منٹوں کے سفر گھنٹو ںمیں طے ہو رہے تھے اور بعض اوقات ٹریفک اس طرح پھنستی کہ خدا کی پناہ۔ مگر آفرین ہے میاں شہباز شریف کے غیر متزلزل ارادوں کی کہ مایوسی اور تھکن یا اضمحلال ان کے نزدیک تک نہ پھٹک پائے، دن اور رات، دھوپ اور بارش کی تمیز کیے بغیر کام جاری رہا۔ خادم اعلیٰ اس کام کی نگرانی خود کر رہے تھے، اب تو معلوم ہوا کہ اس بس کمپنی کے سربراہ خواجہ حسان ہیں مگر ایک سال تک صرف خادم اعلی ہی سڑک کی تعمیر و مرمت کی نگرانی میں مصروف نظر آئے، یوں لگتا تھا، میاں شہباز نے کوئی خواب دیکھا ہے اور ہر قیمت پر اس کی تکمیل چاہتے ہیں۔

میاں شہباز انقلابی واقع ہوئے ہیں، انقلابی ہونے کے لیے غریب اور بے نوا ہونا ضروری نہیں، میاں افتخار بھی انقلابی تھے اور بہت بڑے لینڈ لارڈ۔ میاں شہباز شریف عام آدمی کے مسائل اور دکھ درد سن کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں ۔ وہ اندر سے ایک سادہ منش انسان ہیں۔ یقین جانیں جب میں اسی کے عشرے میں ان سے کسی سڑک کے کنارے ملتا تھا تو شرما کے رہ جاتا کیونکہ میں کسی کے ساتھ بڑی گاڑی میں سوار ہوتا اور میاں شہباز چھوٹی خیبر چلا رہے ہوتے۔ ایک بار وہ مجید نظامی صاحب کے گھر گئے، مجھے بھی وہاں بلا لیا گیا اور نظامی صاحب کی اجازت سے مجھے وہ اپنی خیبر میں بٹھا کر ماڈل ٹائون لے گئے جہاں وزیر اعظم نواز شریف بھی موجود تھے، ان دنوں امریکا نے عراق پر چڑھائی کر دی تھی اور ماڈل ٹائون میں اس پر پالیسی طے کرنے کے لیے کوئی مشاورتی اجلاس منعقد ہونا تھا۔

اس کے علاوہ بھی میں ان کے ساتھ خیبر سوزوکی میں کئی مرتبہ سفر کر چکا تھا۔ میاں شہباز کو میں نے کبھی قیمتی سوٹ میں نہیں دیکھا۔ زیادہ تر ان کا لباس بالکل سادہ ہوتا ہے اور خوراک تو بڑی ہی سادہ، اس قدر سادہ کہ میں ان کے ساتھ کھانے میں شرکت سے گھبراتا تھا کہ پتہ نہیں کھانے کو کیا ملے۔ مگر اب انھوں نے جو بس چلائی ہے اس کو دیکھنے کے لیے میں گاڑی روک لیتا ہوں۔ میاں شہباز نے عام آدمی کی عیاشی کرا دی، اسے ایک احساس تفاخر عطا کر دیا۔ امیر اور غریب کو پہلو بہ پہلو بٹھا دیا۔ کہتے ہیں جس دن اس بس کا افتتاح ہوا، وہ تقریب دیدنی تھی، اس تقریب کو کامیاب بنانے کے لیے کوئی کسر باقی نہ رہنے دی گئی، ایک ایک شخص کو چار پانچ لوگوں نے فون کیا، ڈی جی پی آر، میڈیا ایڈوائزر، سیکریٹری مواصلات اور پھر آخر میں چیف منسٹر کے اعلی تریں افسر۔


میں نے ہر ایک سے معذرت کی کہ بیمار ہوں نہیں آ پائوں گا۔ مجھے آخر میں خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں1122 ایمبولینس میں نہ بلا لیا جائے۔ میاں شہباز چاہتے تھے کہ خوشی کے اس تاریخی موقع پر ہر کوئی ان کے ساتھ شامل ہو، ان کو کھل کر داد دی جائے۔ یہ ایک معجزہ تھا جس کی تکمیل ہو رہی تھی۔ ایک خواب تھا جس کی تعبیر سامنے تھی اور آنکھوں میں آنسو بھی تھے، لبوں پر مسکراہٹ بھی کھیل رہی تھی۔ خادم اعلیٰ اپنے مشن میں سرخرو ہو گئے تھے۔ میاں شہباز شریف جس کام میں ہاتھ ڈالیں وہ کر کے چھوڑتے ہیں۔ ڈینگی کا چیلنج بھی انھوں نے قبول کیا اور میں نے انھی کالموں میں ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ میٹرو بس کے منصوبے پر مجھے شکوک و شبہات تھے، میں نے جلدی میں کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے گریز کیا، مگر اب یہ منصوبہ چل نکلا ہے، دوست اور دشمن ہر کوئی اس کی کامیابی پر انگشت بہ دنداں ہے۔

ہر زبان طعن بند ہو گئی ہے، اس کے اخراجات پر بھی کسی کو کوئی بڑا اعتراض نہیں اور اور ایسا بھی نہیں ہوا کہ یہ منصوبہ لٹک گیا ہو اور میاں شہباز بھی منہ چھپائے پھر رہے ہوں، یہ منصوبہ ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچا اور میاں شہباز ایک چمکتے دمکتے اور شاداں و فرحاں چہرے کے ساتھ لاہور کے عوام کے سامنے سرخرو ٹھہرے ہیں۔ بس کے روٹ پر لٹن روڈ سے لوئر مال تک ایک طویل فلائی اوور اپنی جگہ پر قابل ذکر کارنامہ ہے۔ محلے کی پلیاں کئی حکومتوں کے دور میں نہیں بنتیں، مگر یہاں کئی میل لمبا فلائی اوور کھڑا کر دیا گیا۔ بات عزم کی ہے، ارادے کی ہے، نیک نیتی کی ہے، اخلاص کی ہے اور، ہر کہ خدمت کرد، او مخدوم شد، کے فلسفے کی ہے۔ میاں شہباز شریف اس فلسفے میں پی ایچ ڈی کی قابلیت رکھتے ہیں۔ وہ جعلی اور نمائشی منصوبے بنانے کے قائل نہیں، کھوکھلے نعرے نہیں لگاتے، ٹھوس بات کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل بھی کر دکھاتے ہیں۔ میٹرو منصوبہ ان کے اسی شفاف کردار کا آئینہ دار ہے۔ ان کے لیے ڈھیروں مبارکباد !!

یہاں مجھے آصف ہاشمی کو بھی خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے وسائل کے بغیر میٹرو ٹرین چلا دی، وہ شاہدرہ کے عوام کو لاہور کے شہریوں کے برابر لانے کی تڑپ رکھنے والے انسان ہیں لیکن وہ کسی با اختیار منصب پر سر فراز نہیں۔ پھر بھی انھوں نے جو وعدہ کر رکھا تھا، اسے پورا کر دکھایا، شاہدرہ سے کوٹ لکھپت تک شٹل ٹرین چلا دی، یہ روٹ وفاقی حکومت کی توجہ چاہتا ہے مگر جہاں عمومی طور پر ریلوے کا برا حال ہے، وہاں اس منصوبے پر کس کا دھیان جا سکتا ہے، آصف ہاشمی بھی عام آدمی کے دکھوں کے ساتھی ہیں، شاہدرہ ان کا حلقہ انتخاب بھی ہے، ہر کوئی اپنے حلقے کی خدمت بڑھ چڑھ کر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آصف ہاشمی نے بڑی ہی خاموشی سے اپنے حلقے کی کچی آبادیوں کے مکینوں کے لیے مالکانہ حقوق کا اعلان کر دیا۔

وہ خاموشی سے خدمت کرنے کی عادت رکھتے ہیں، ان کے بارے میں ہر کسی سے اچھے کلمات ہی سننے کو ملے، مگر پانچ برسوں میں، میں کوشش اور خواہش کے باوجود ان کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکا، حالانکہ روزانہ، اسپتال جانے کے لیے ان کے دروازے کے سامنے سے گزرتا ہوں۔ اخباروں میں ان کی چھوٹی چھوٹی خبروں سے ان کی مصروفیات کا اندازہ ہوتا رہتا ہے۔میٹرو بس بھی چل نکلی، میٹرو ٹرین کا افتتاح بھی ہو گیا مگر لاہور جیسے میگا سٹی کا تقاضا ہے کہ یہاں انڈر گرائونڈ ریلوے سسٹم چلے۔ چوہدری پرویز الہی کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کا منصوبہ تھا جسے ترک کر دیا گیا لیکن اس منصوبے کو رو بہ عمل آنا چاہیے، لاہور اور کراچی میں انڈر گراؤنڈ کا منصوبہ ایوب خان کے دنوں سے سننے میں آ رہا ہے۔

اب تو یہ دونوں شہر کئی ملکوں کی آبادی اور حجم سے بڑھ کر ہیں، اس لیے آنے والی حکومتوں کو ان شہروں کی ٹریفک کے مسائل کی سنگینی کو کم کرنے پر اولین توجہ دینا ہو گی۔ آخر میں مجھے چیف منسٹر سے ایک التجا کرنی ہے کہ میٹرو منصوبے سے ارد گرد کی آبادیوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان کو دور کرنے کی تدبیر کی جائے، اور ٹریک کے ساتھ جو ادھورے کام پڑے ہیں، ان کو جلد مکمل کیا جائے تا کہ میٹرو بس کے ساتھ ساتھ عام ٹریفک بھی رواں دواں ہو سکے۔ میں نے ان کے سیکریٹری ندیم حسن آصف سے وعدہ لیا تھا کہ یہ نہ ہو کہ بس تو چل پڑے مگر نا مکمل کاموں کی وجہ سے ہم لوگ بے بس ہو جائیں، انھوں نے پکا وعدہ کیا تھا کہ ہر کام شیڈول کے مطابق ہو گا، میں چاہتا ہوں کہ نگران حکومت آنے سے پہلے ادھورے کام مکمل ہو جائیں ورنہ مخلوق خدا، رل جائے گی۔
Load Next Story