تم کسی سے نہ کہنا…
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بسا اوقات اپنے ہی راز کی تشہیر دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنا دیتی ہے
DHAKA:
... میری بہن نے بھری محفل میں سب کے سامنے میری سبکی کروا دی-
... بھائی جان نے میرے دوستوں کے سامنے ایسی بات کر کے میری ناک کٹوا دی-
... دوست نے میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے، میں نے جو بات اسے اپنا جان کر کہی تھی وہ اس نے سب کو بتا دی-
... چچا جان نے میرے ماضی کی بات کر کے میرے سسرال میں میری بے عزتی کروا دی، وغیرہ وغیرہ-
یہ سب فقرے ہم سب اس وقت بولتے ہیں جب ہم سے متعلقہ کوئی شخص، دوسرے لوگوں کی موجودگی میں، کوئی ایسی بات کہہ دے جواس سے پہلے کسی کو معلوم نہ ہو- کوئی ایسی رازکی بات جو ہم نے اسے خود بتائی ہواور یہ تاکید کی ہو کہ اس کی تشہیر نہ کرنا، اسے اپنے آپ تک رکھنا!ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جو بوجھ ہم سہار نہیں سکتے اسے دوسروں کے سر تھوپ کر ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ اسے سہار لیں گے؟
ہم سب کی عادت ہے کہ ہم بہت سی باتوں کے اختتام پر اپنے مخاطب سے یہ فقرہ کہتے ہیں، ''تمہیں تو میں نے اپنا ہمدرد؍ دوست؍ بھائی؍بہن سمجھ کر بتا دیا ہے لیکن تم کسی سے نہ کہنا!!'' ہمارا وہ راز، وہ بات، جس کا کھل جانا سب سے زیادہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے، اس بات کو، جس راز کو ہم خود تک محدود نہ رکھ سکے اسے دوسروں کو بتا کر ان سے رازداری کی توقع کرنا... بے وقوفوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے-
راز صرف تب تک راز ہے جب تک وہ صرف آپ کے پاس ہے- راز ایک ایسی امانت ہے جس کو ہر کوئی دیانتداری سے نہیں سنبھال سکتا، راز کا بوجھ دماغ پر پڑنے والے ہربوجھ سے بڑھ کر ہے- ہر انسان کی برداشت اور تحمل کا ایک مقرر پیمانہ ہے، ہم بہت سے حالات اور مصائب کو اپنی ذات پر تنہا جھیل لیتے ہیں، ان کا بہادری سے سامنا کرتے اور ان کا حل تلاشنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی حیثیت سے ان سے نمٹ بھی لیتے ہیں- مگر بعض مصائب انسان کی قوت برداشت سے بڑھ کر ہوتے ہیں، ا گرچہ شنید ہے کہ اللہ تعالی کسی کو اس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا مگر ممکن ہے کہ ہم ایک ہی وقت میں دو مختلف مسائل سے نمٹتے ہوئے کمزور پڑ جائیں، ہمیں کوئی حل نظر نہ آئے اور اس صورت حال میں ہم اپنے اردگرد کوئی سہارا، کوئی مددگار، کوئی مشیر اور ہمدرد تلاشتے ہیں-
قریبی رشتہ دار، معتمد دوست، اپنے بہن بھائی یا والدین ہی ہمیں اپنے ایسے ہمدرد نظر آتے ہیں کہ ہم ان سے اپنا مسئلہ شئیر کریں، کوئی حل مل جائے... ہمدردی کے دو بول اور کچھ نہیں تو اپنے دماغ پر تنہا جھیلنے کا بوجھ ہی بٹ جائے- ہمیں اس وقت مایوسی ہوتی ہے جب ہم اپنے اس راز کو کسی تیسرے، چوتھے یا پانچویں شخص سے سنتے ہیں، وہ ہم سے تصدیق کرنا چاہتا ہے کہ کیا یہ سچ ہے... اور ہم اس سے سوال کرتے ہیں کہ اسے کس نے بتایا- معلوم ہوتا ہے کہ اسے زید نے بتایا تھا، جسے اسلم نے اور اسلم کو ارشد نے...اور ارشد کو جانے ہمارے با اعتماد دوست نے خود بتایا تھا یا بیچ میں ایک دو اور لوگ بھی ملوث ہوں گے!!
ہمارا راز... ہم خود نہیں سنبھال سکے، جنھیں اس کے راز نہ رہنے سے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے، ہم جن کی عزت نفس اور انا بھی متاثر ہو سکتی ہے- ہم اس کے بہترین امین ہو سکتے ہیں کیونکہ اسے سنبھال کر رکھنے میں ہمارا فائدہ ہے، وہ رازدوسروں کے لیے دلچسپ اور چٹخارے دار خبر ہے جسے وہ ایک دوسرے کو بتا کر ہنستے ہیں- ممکن ہے کہ ہماری پریشانی کا سن کر وہ پریشان بھی ہوتے ہوں مگر اس کا کیا فائدہ، ہمارے راز کی تشہیر تو ہو گئی- ہم بہت سے لوگوں کو ملتے ہوئے دل میں شرمساری محسوس کرتے ہیں اور بالخصوص ہمارے اس اہم رازکی خبر گھوم پھر کر اس شخص تک پہنچ جائے جس کے بارے میں وہ ساری بات تھی-
وقت اور حالات ہمیشہ کروٹیں لیتے اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں، سگے بہن بھائی، شوہر، بچے، دوست، ماتحت، باس، استاد، ملازم، ہمسائے، عم زاد، دیگر اہم خونی رشتے اور انسانی رشتے... حتی کہ دشمن بھی ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے- سال ہا سال کے برتاؤ کے ساتھ کچھ رشتے کمزور ہوتے ہیں اور کچھ مضبوط، کسی وجہ سے دوست دشمن اور دشمن دوست بن جاتے ہیں، ہمسایہ ہمیشہ ایک ہی نہیں رہتا، دوست فقط ہمارے دوست نہیں ہوتے ان کے اور بھی دوست ہوتے ہیں- ان سب کی بہترین مماثلت ہم سورج چڑھنے سے لے کر ڈھلنے تک اس کے سایوں کی پوزیشن کی تبدیلی کو کہہ سکتے ہیں، دن کے چند گھنٹوںمیں ہم اپنے اور دیگر چیزوں کے سایوں کو ہئیت اور سمت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ، اسی طرح ہمارے یہ سب تعلق اور رشتے ہیں-
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بسا اوقات اپنے ہی راز کی تشہیر دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنا دیتی ہے... قریبی رشتہ داروں کو دور اور دور کے رشتہ داروں کو قریب لے آتی ہے- ہم ایک راز کی امانت دے کر، بہت سے لوگوں کے اصلی چہرے دیکھ لیتے ہیں، دوست اور رشتہ دار کے خلوص کا مطلب سمجھ میں آ جاتا ہے- یہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اس سارے میں اصل غلطی ہماری ہی تھی-
ہاں ایک اور اہم راز کی بات... ہم بہت سے راز خود ہی ایسے لوگوں کو بتاتے ہیں جن کی عادت ہی مکھی کی طرح ہوتی ہے- ادھر سے اڑ کر ادھر، اپنے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر وہاں کے بیماری کے جراثیم اکٹھے کرتی ہے اور انھیں ہراس جگہ پھیلاتی ہے جہاں جا کر اس کے بعد بیٹھتی ہے- یہ کچھ جاسوسی جیسا کام ہوتا ہے، جاسوسوں کے ذریعے معلومات اور اپنے خفیہ رازوں کو اپنے طریقے سے پھیلانا- دوسرے لوگ ہمارے بارے میں کیا قیافے لگاتے ہیں، انھیں اس کا موقع دینے سے کہیں بہتر ہے کہ آپ اپنی طرف کے نقطہء نظر کو خود پھیلائیں اور اس کام کے لیے ہم اپنے سب سے زیادہ معتمد دوست اور رشتہ دار کا سہارا لیتے ہیں- اس کا ہم سے تعلق اور ہمارا اس پر اعتماد لوگوں پر روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے اور انھیں یہ یقین دلانے کے لیے فالتو محنت نہیں کرنا پڑتی کہ اس کی بات میں کتنی سچائی ہے، کیونکہ ہمارے اور اس کے قلبی تعلق سے سب آشنا ہیں اور جانتے ہیں کہ اس کے پاس کتنے اندر کی خبریں ہیں-
ہم سب نے ایسے رازداروں کو آزما رکھا ہے... لیکن ایک پتے کی بات ہم اکثر بھول جاتے ہیں، ایک ایسا راز دار، جس سے ہم چاہے جو بھی کہہ دیں، وہ ہمارے راز کو راز رکھتا ہے- ہم اس سے نہ بھی کہیں تو وہ جانتا ہے کہ ہم اس سے کیا کہنا چاہتے ہیں، مگر وہ ایک اچھا سامع ہے، اس ہماری بات، ہماری خواہش، ہمارے دکھ، ہماری پریشانیاں ، ہمارے درد، مجبوریاں، گلے اور شکوے ہمارے منہ سے سننے کا شوق ہے- وہ چاہتا ہے کہ ہم اس سے باتیں کریں، خود بول کر اپنے مسائل بتائیں اور اس سے مدد مانگیں، اس سے طلب کریں اس کے سامنے گڑگڑائیں... زمین کے قریب ہونٹوں سے سرگوشی نکلتی ہے تو وہ آسمانوں پر سنتا ہے، دل میں دکھ سے تڑپ پیدا ہوتی ہے تو وہ جانتا ہے- اسے کوئی راز کہنے کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اسے آخر میں یہ نہیں کہنا پڑتا، '' تم کسی سے نہ کہنا!''
وہ ستار العیوب ہے... وہ تو کہے بنا بھی سب جانتا ہے اور ہمارے جیسے گستاخ سے گستاخ کو بھی اس کے راز کی کہیں تشہیر کر کے شرمندہ نہیں کرتا- ہمارے وہ گناہ جو ہم راتوں کی تاریکیوں میں بھی کریں تو اسے دیکھنے کے لیے کسی انفراریڈ کیمرے کی ضرورت نہیں ہوتی- ایسے ایسے گناہ کہ جن کی سیاہی اگر ہمارے چہروں پر نظر آنے لگے تو ہم خود کو بھی آئینے میں نہ دیکھ سکیں، مگر وہ سب ڈھانپتا ہے- ہمارے گناہوں سے خود بھی چشم پوشی کرتا ہے اور ان پر ایسا پردہ ڈالتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی نظر نہیں آتے، تا وقتیکہ ہم اس کی مقرر کردہ حدوں کو توڑ دیں، تب وہ ہماری رسی کو کھینچتا ہے جو اس نے دراز کر رکھی ہوتی ہے- ہمارا راز وہ تب بھی فاش نہیں کرتا، کسی نہ کسی طریقے سے ہمیں ڈراتا ہے... ہمیں افشائے راز کے خوف میں مبتلا کرتا ہے، مگر دنیا کے سامنے ہم پھر بھی اسی چہرے کے ساتھ ملتے ہیں کیونکہ جب ہم اپنے گناہوں پر دل سے تائب ہوتے ہیں تو وہ ہمیں سچے دل سے معاف کرتا ہے-
خود سے عہد کریں کہ اپنے راز کو اگر واقعی راز رکھنا ہے تو اسے اپنے ستارالعیوب کے سوا کسی سے نہ کہیں، اسی سے مدد مانگیں ، اسی سے مسائل کے حل کی توقع کریں اور اسی سے ہر امید وابستہ کریں، یقین کریں، وہ خود پر اعتماد کرنے والے کو کبھی مایوس نہیں کرتا!!
... میری بہن نے بھری محفل میں سب کے سامنے میری سبکی کروا دی-
... بھائی جان نے میرے دوستوں کے سامنے ایسی بات کر کے میری ناک کٹوا دی-
... دوست نے میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے، میں نے جو بات اسے اپنا جان کر کہی تھی وہ اس نے سب کو بتا دی-
... چچا جان نے میرے ماضی کی بات کر کے میرے سسرال میں میری بے عزتی کروا دی، وغیرہ وغیرہ-
یہ سب فقرے ہم سب اس وقت بولتے ہیں جب ہم سے متعلقہ کوئی شخص، دوسرے لوگوں کی موجودگی میں، کوئی ایسی بات کہہ دے جواس سے پہلے کسی کو معلوم نہ ہو- کوئی ایسی رازکی بات جو ہم نے اسے خود بتائی ہواور یہ تاکید کی ہو کہ اس کی تشہیر نہ کرنا، اسے اپنے آپ تک رکھنا!ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جو بوجھ ہم سہار نہیں سکتے اسے دوسروں کے سر تھوپ کر ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ اسے سہار لیں گے؟
ہم سب کی عادت ہے کہ ہم بہت سی باتوں کے اختتام پر اپنے مخاطب سے یہ فقرہ کہتے ہیں، ''تمہیں تو میں نے اپنا ہمدرد؍ دوست؍ بھائی؍بہن سمجھ کر بتا دیا ہے لیکن تم کسی سے نہ کہنا!!'' ہمارا وہ راز، وہ بات، جس کا کھل جانا سب سے زیادہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے، اس بات کو، جس راز کو ہم خود تک محدود نہ رکھ سکے اسے دوسروں کو بتا کر ان سے رازداری کی توقع کرنا... بے وقوفوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے-
راز صرف تب تک راز ہے جب تک وہ صرف آپ کے پاس ہے- راز ایک ایسی امانت ہے جس کو ہر کوئی دیانتداری سے نہیں سنبھال سکتا، راز کا بوجھ دماغ پر پڑنے والے ہربوجھ سے بڑھ کر ہے- ہر انسان کی برداشت اور تحمل کا ایک مقرر پیمانہ ہے، ہم بہت سے حالات اور مصائب کو اپنی ذات پر تنہا جھیل لیتے ہیں، ان کا بہادری سے سامنا کرتے اور ان کا حل تلاشنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی حیثیت سے ان سے نمٹ بھی لیتے ہیں- مگر بعض مصائب انسان کی قوت برداشت سے بڑھ کر ہوتے ہیں، ا گرچہ شنید ہے کہ اللہ تعالی کسی کو اس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا مگر ممکن ہے کہ ہم ایک ہی وقت میں دو مختلف مسائل سے نمٹتے ہوئے کمزور پڑ جائیں، ہمیں کوئی حل نظر نہ آئے اور اس صورت حال میں ہم اپنے اردگرد کوئی سہارا، کوئی مددگار، کوئی مشیر اور ہمدرد تلاشتے ہیں-
قریبی رشتہ دار، معتمد دوست، اپنے بہن بھائی یا والدین ہی ہمیں اپنے ایسے ہمدرد نظر آتے ہیں کہ ہم ان سے اپنا مسئلہ شئیر کریں، کوئی حل مل جائے... ہمدردی کے دو بول اور کچھ نہیں تو اپنے دماغ پر تنہا جھیلنے کا بوجھ ہی بٹ جائے- ہمیں اس وقت مایوسی ہوتی ہے جب ہم اپنے اس راز کو کسی تیسرے، چوتھے یا پانچویں شخص سے سنتے ہیں، وہ ہم سے تصدیق کرنا چاہتا ہے کہ کیا یہ سچ ہے... اور ہم اس سے سوال کرتے ہیں کہ اسے کس نے بتایا- معلوم ہوتا ہے کہ اسے زید نے بتایا تھا، جسے اسلم نے اور اسلم کو ارشد نے...اور ارشد کو جانے ہمارے با اعتماد دوست نے خود بتایا تھا یا بیچ میں ایک دو اور لوگ بھی ملوث ہوں گے!!
ہمارا راز... ہم خود نہیں سنبھال سکے، جنھیں اس کے راز نہ رہنے سے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے، ہم جن کی عزت نفس اور انا بھی متاثر ہو سکتی ہے- ہم اس کے بہترین امین ہو سکتے ہیں کیونکہ اسے سنبھال کر رکھنے میں ہمارا فائدہ ہے، وہ رازدوسروں کے لیے دلچسپ اور چٹخارے دار خبر ہے جسے وہ ایک دوسرے کو بتا کر ہنستے ہیں- ممکن ہے کہ ہماری پریشانی کا سن کر وہ پریشان بھی ہوتے ہوں مگر اس کا کیا فائدہ، ہمارے راز کی تشہیر تو ہو گئی- ہم بہت سے لوگوں کو ملتے ہوئے دل میں شرمساری محسوس کرتے ہیں اور بالخصوص ہمارے اس اہم رازکی خبر گھوم پھر کر اس شخص تک پہنچ جائے جس کے بارے میں وہ ساری بات تھی-
وقت اور حالات ہمیشہ کروٹیں لیتے اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں، سگے بہن بھائی، شوہر، بچے، دوست، ماتحت، باس، استاد، ملازم، ہمسائے، عم زاد، دیگر اہم خونی رشتے اور انسانی رشتے... حتی کہ دشمن بھی ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے- سال ہا سال کے برتاؤ کے ساتھ کچھ رشتے کمزور ہوتے ہیں اور کچھ مضبوط، کسی وجہ سے دوست دشمن اور دشمن دوست بن جاتے ہیں، ہمسایہ ہمیشہ ایک ہی نہیں رہتا، دوست فقط ہمارے دوست نہیں ہوتے ان کے اور بھی دوست ہوتے ہیں- ان سب کی بہترین مماثلت ہم سورج چڑھنے سے لے کر ڈھلنے تک اس کے سایوں کی پوزیشن کی تبدیلی کو کہہ سکتے ہیں، دن کے چند گھنٹوںمیں ہم اپنے اور دیگر چیزوں کے سایوں کو ہئیت اور سمت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ، اسی طرح ہمارے یہ سب تعلق اور رشتے ہیں-
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بسا اوقات اپنے ہی راز کی تشہیر دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنا دیتی ہے... قریبی رشتہ داروں کو دور اور دور کے رشتہ داروں کو قریب لے آتی ہے- ہم ایک راز کی امانت دے کر، بہت سے لوگوں کے اصلی چہرے دیکھ لیتے ہیں، دوست اور رشتہ دار کے خلوص کا مطلب سمجھ میں آ جاتا ہے- یہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اس سارے میں اصل غلطی ہماری ہی تھی-
ہاں ایک اور اہم راز کی بات... ہم بہت سے راز خود ہی ایسے لوگوں کو بتاتے ہیں جن کی عادت ہی مکھی کی طرح ہوتی ہے- ادھر سے اڑ کر ادھر، اپنے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر وہاں کے بیماری کے جراثیم اکٹھے کرتی ہے اور انھیں ہراس جگہ پھیلاتی ہے جہاں جا کر اس کے بعد بیٹھتی ہے- یہ کچھ جاسوسی جیسا کام ہوتا ہے، جاسوسوں کے ذریعے معلومات اور اپنے خفیہ رازوں کو اپنے طریقے سے پھیلانا- دوسرے لوگ ہمارے بارے میں کیا قیافے لگاتے ہیں، انھیں اس کا موقع دینے سے کہیں بہتر ہے کہ آپ اپنی طرف کے نقطہء نظر کو خود پھیلائیں اور اس کام کے لیے ہم اپنے سب سے زیادہ معتمد دوست اور رشتہ دار کا سہارا لیتے ہیں- اس کا ہم سے تعلق اور ہمارا اس پر اعتماد لوگوں پر روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے اور انھیں یہ یقین دلانے کے لیے فالتو محنت نہیں کرنا پڑتی کہ اس کی بات میں کتنی سچائی ہے، کیونکہ ہمارے اور اس کے قلبی تعلق سے سب آشنا ہیں اور جانتے ہیں کہ اس کے پاس کتنے اندر کی خبریں ہیں-
ہم سب نے ایسے رازداروں کو آزما رکھا ہے... لیکن ایک پتے کی بات ہم اکثر بھول جاتے ہیں، ایک ایسا راز دار، جس سے ہم چاہے جو بھی کہہ دیں، وہ ہمارے راز کو راز رکھتا ہے- ہم اس سے نہ بھی کہیں تو وہ جانتا ہے کہ ہم اس سے کیا کہنا چاہتے ہیں، مگر وہ ایک اچھا سامع ہے، اس ہماری بات، ہماری خواہش، ہمارے دکھ، ہماری پریشانیاں ، ہمارے درد، مجبوریاں، گلے اور شکوے ہمارے منہ سے سننے کا شوق ہے- وہ چاہتا ہے کہ ہم اس سے باتیں کریں، خود بول کر اپنے مسائل بتائیں اور اس سے مدد مانگیں، اس سے طلب کریں اس کے سامنے گڑگڑائیں... زمین کے قریب ہونٹوں سے سرگوشی نکلتی ہے تو وہ آسمانوں پر سنتا ہے، دل میں دکھ سے تڑپ پیدا ہوتی ہے تو وہ جانتا ہے- اسے کوئی راز کہنے کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اسے آخر میں یہ نہیں کہنا پڑتا، '' تم کسی سے نہ کہنا!''
وہ ستار العیوب ہے... وہ تو کہے بنا بھی سب جانتا ہے اور ہمارے جیسے گستاخ سے گستاخ کو بھی اس کے راز کی کہیں تشہیر کر کے شرمندہ نہیں کرتا- ہمارے وہ گناہ جو ہم راتوں کی تاریکیوں میں بھی کریں تو اسے دیکھنے کے لیے کسی انفراریڈ کیمرے کی ضرورت نہیں ہوتی- ایسے ایسے گناہ کہ جن کی سیاہی اگر ہمارے چہروں پر نظر آنے لگے تو ہم خود کو بھی آئینے میں نہ دیکھ سکیں، مگر وہ سب ڈھانپتا ہے- ہمارے گناہوں سے خود بھی چشم پوشی کرتا ہے اور ان پر ایسا پردہ ڈالتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی نظر نہیں آتے، تا وقتیکہ ہم اس کی مقرر کردہ حدوں کو توڑ دیں، تب وہ ہماری رسی کو کھینچتا ہے جو اس نے دراز کر رکھی ہوتی ہے- ہمارا راز وہ تب بھی فاش نہیں کرتا، کسی نہ کسی طریقے سے ہمیں ڈراتا ہے... ہمیں افشائے راز کے خوف میں مبتلا کرتا ہے، مگر دنیا کے سامنے ہم پھر بھی اسی چہرے کے ساتھ ملتے ہیں کیونکہ جب ہم اپنے گناہوں پر دل سے تائب ہوتے ہیں تو وہ ہمیں سچے دل سے معاف کرتا ہے-
خود سے عہد کریں کہ اپنے راز کو اگر واقعی راز رکھنا ہے تو اسے اپنے ستارالعیوب کے سوا کسی سے نہ کہیں، اسی سے مدد مانگیں ، اسی سے مسائل کے حل کی توقع کریں اور اسی سے ہر امید وابستہ کریں، یقین کریں، وہ خود پر اعتماد کرنے والے کو کبھی مایوس نہیں کرتا!!