سپر اسٹورز کی مقبولیت سے روایتی مارکیٹوں کی سرگرمیاں 50 فیصد گھٹ گئیں

عام بازاروں پرفرمزکی توجہ محدود، سپر، ڈپارٹمنٹل اسٹورز، مارٹس کوسہولتیں، تشہیری اخراجات بھی اداکرتی ہیں، دکاندار

کمپنیوں کی بدلتی پالیسی کا بھی تھوک وخوردہ مارکیٹوں کی کاروباری سرگرمیاں محدود کرنے میں کردار اہم۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

DUSHANBE:
ملک میں سپر، ڈپارٹمنٹل اسٹورز، سپرمارٹس ومارکیٹوں کے قیام کے بڑھتے ہوئے رحجان کے باعث برسہا برس سے قائم روایتی تھوک وخوردہ مارکیٹوں کے بیوپاریوں و دکانداروں کی کاروباری سرگرمیاں 50 فیصد تک محدود ہوگئی ہیں۔

تھوک وخوردہ مارکیٹوں کے دکانداروں نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ روزمرہ استعمال کی اشیا تیار کرنے والی مقامی وکثیرالقومی کمپنیوں کی تبدیل ہوتی ہوئی پالیسی بھی تھوک وخوردہ مارکیٹوں کی کاروباری سرگرمیاں محدود کرنے میں اہم کردار کررہی ہے، مقامی وکثیرالقومی کمپنیوں نے اب تھوک وخوردہ مارکیٹوں پر اپنی توجہ انتہائی محدود کردیا ہے اور یہ کمپنیاں ان سپر، ڈپارٹمنٹل اسٹورز، سپرمارٹس ومارکیٹوں کو تھوک وخوردہ مارکیٹوں کے دکانداروں کی نسبت طویل مدت کی کریڈٹ پر مال سپلائی کرنے کے علاوہ اپنے پراڈکٹس رکھنے کے لیے شیلف کی مینوفیکچرنگ کے علاوہ پراڈکٹس کی ایڈورٹائزنگ اخراجات کی بھی ادائیگیاں کرتی ہیں۔

ایک بڑے ریٹیلر نے بتایا کہ کمپنیوں کی جانب سے ان سپر اسٹورز اور مارٹس کوہم سے کم اور رعایتی قیمتوں پر مصنوعات کی بلک سپلائی کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے تھوک وخوردہ مارکیٹوں کے دکانداروں کا ان سپرمارٹس سے مسابقت مشکل ہوگئی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ فی الوقت صرف کراچی کے مختلف علاقوںمیں تقریبا 350 سے زائدسپراسٹورز، ڈپارٹمنٹل اسٹورز، سپرمارٹس اور سپرمارکیٹیں قائم ہیں جبکہ یوٹیلٹی اسٹورز اور سینٹرل اسٹورڈپارٹمنٹ اورصنعتی علاقوں میں مختلف کمپنیوں کی فیئرپرائس شاپش اس کے علاوہ ہیں۔ روایتی تھوک خوردہ مارکیٹوں میں تقریبا50 ہزار تھوک وخوردہ فروشوں کی دکانیں قائم ہیں۔


اس ضمن میں آل پاکستان انجمن تاجران کے رہنما رفیق جدون نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ کراچی میں چند سپراسٹور، مارٹس نے شہرکے50 ہزار سے زائد تھوک وخوردہ فروشوں کی50 فیصد سے زائد کاروبار پر اپنا قبضہ جمالیا ہے جس کی وجہ سے ان دکانداروں میں گزشتہ ایک سال سے زبردست اضطراب پایا جارہا ہے اور اب تک ان دکانوں میں کام کرنے والے ہزاروں سیلزمینوں کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

رفیق جدون نے بتایا کہ شہر میں پھیلنے والے سپراسٹوروں، مارٹس اور ڈپارٹمنٹل اسٹوروں کی وجہ سے ہرشعبے کے تھوک وخوردہ مارکیٹوں کے بیوپاریوں کو اپنے روزمرہ اخراجات نکالنا بھی مشکل ہوگیا ہے اور بیشتر دکانداروں نے اپنے ذخائر کومحدود رکھ کرمحدود اشیا کی تجارت کرنے لگے ہیں جبکہ فروخت کا حجم انتہائی کم ہونے اورعدم فروخت کی وجہ سے بیشتر پراڈکٹس زائد المیعاد ہوگئی ہیں۔

رفیق جدون نے بتایا کہ پاکستان میں سپر و ڈپارٹمنٹل اسٹورز اور مارٹس سیکٹر میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری سے اس بات کا خدشہ ہوگیا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں روایتی تھوک وخوردہ مارکیٹوں کے دکانداروں کا 100 فیصد معاشی قتل کرتے ہوئے ان کاوجود ختم ہوجائے گا اور ان دکانوں میں طویل عرصے سے کام کرنے والے مزید لاکھوں سیلزمین بے روزگار ہوجائیں گے۔ پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ روایتی تھوک وخوردہ مارکیٹوں کا وجود برقرار رکھنے اور ان دکانداروں کا معاشی قتل روکنے کے لیے قبل ازوقت اقدامات بروئے کار لائیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ملک کے دیگر بڑے شہروں کی طرح کراچی میں محلوں کی سطح پر چھوٹی بڑی نوعیت کی دکانوں کی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں۔
Load Next Story