سری لنکا کیخلاف سیریز میں تجربات کا آغاز

ٹیسٹ ٹیم کی تشکیل نو کا سفر آسان نہیں۔

ٹیسٹ فارمیٹ میں بڑی مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان کے سلیکٹرز تسلسل کے ساتھ تجربات کرتے رہتے ہیں۔ فوٹو: نیٹ

دورئہ ویسٹ انڈیز کے بعد ریٹائر ہونے والے کپتان مصباح الحق اور یونس خان کے بعد پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ ایک نئے دور میں داخل ہوچکی۔

سرفراز احمد کو دہرا چیلنج درپیش ہے۔ایک طرف انہیں طویل فارمیٹ میں پاکستان کے کامیاب ترین کپتان کا خلا پر کرنا،تو دوسری جانب 2 تجربہ کار کرکٹرز کے بغیر بیٹنگ کو مستحکم بنانے کی تدبیر بھی ڈھونڈنا ہے، طویل عرصے تک بیٹنگ لائن میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے دونوں سینئرز ایک ساتھ 67 ٹیسٹ میچز کھیلے جن میں سے پاکستان نے 25 جیتے،اتنے ہی ہارے، 17 ڈرا ہوئے، دونوں نے مجموعی طور پر 10889 رنز سکور کئے جن میں32 سنچریز اور 53 ففٹیز شامل تھیں، یونس خان پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین کا اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے۔

2ورلڈ کلاس کرکٹرز نے طویل عرصے پاکستانی کرکٹ کی خدمت کی لیکن کوئی کھلاڑی سدا میدانوں میں سرگرم نہیں رہتا، دونوں کی رخصتی کے بعد نوجوان کرکٹرز کے لیے موقع ہے کہ وہ پرفارمنس دکھاتے ہوئے ٹیم میں اپنی جگہ پکی کریں۔ انضمام الحق کی سربراہی میں سلیکشن کمیٹی بھی پیچھے مڑ کر دیکھنے کے بجائے مستقبل کا سوچ رہی ہے۔ سری لنکا کیخلاف 2ٹیسٹ میچز کی سیریز کے لیے مصباح الحق اور یونس خان کی غیر موجودگی میں محمد حفیظ اور احمد شہزاد جیسے تجربہ کار کرکٹرز کو بھی نظر انداز کردینے سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ ون ڈے کی طرح ٹیسٹ کرکٹ میں بھی نوجوانوں کے لیے اپنی صلاحیتیں منوانے کے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں۔

اس صورتحال میں 22 ون ڈے اور 4ٹی ٹوئنٹی میچز میں ملک کی نمائندگی کرنے والے حارث سہیل، ایک سال بعد ٹیم میں واپس آنے والے اوپنر سمیع اسلم، دورہ ویسٹ انڈیز میں صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیل کر دونوں اننگز میں 30رنز بنانے والے شان مسعود، دورہ ویسٹ انڈیز 2011ء میں 2ون ڈے میچز کھیلنے کے بعد مسلسل نظر انداز عثمان صلاح الدین کے لیے بہترین موقع ہے کہ اپنا انتخاب درست ثابت کرتے ہوئے ٹیم میں مستقل جگہ بنالیں۔

ٹیسٹ فارمیٹ میں بڑی مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان کے سلیکٹرز تسلسل کے ساتھ تجربات کرتے رہتے ہیں،اس کا ایک ثبوت تو یہی ہے کہ گزشتہ 5سال میں گرین کیپس نے 16جوڑیاں آزمائی ہیں، آخری 15ٹیسٹ میچز میں ہی 6پیئرز کو اننگز آغاز کرنے کا موقع دیا گیا،شان مسعود اور سمیع اسلم پر مشتمل نئی جوڑی نے سری لنکا کیخلاف ابوظبی ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ان دونوں نوجوان کرکٹرز نے ملک کی نمائندگی کا اعزاز پایا،ڈراپ ہونے کا صدمہ برداشت کرنے کے بعد کم بیک کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مصباح الحق اور یونس خان کا خلا پرکرنا آسان کام نہیں، نئے ٹیلنٹ سے ابھی بڑی توقعات وابستہ بھی نہیں کرنا چاہئیں،اس صورتحال میں سلیکٹرز کا فرض ہے کہ کھلاڑیوں کے سر پر اخراج کی تلوار لٹکانے کے بجائے انہیں تسلسل کے ساتھ مواقع دیں تاکہ ان کا کھیل نکھر کر سامنے آسکے، اس میں کوئی شق نہیں کہ بڑا کرکٹر بننے کے لیے خداداد صلاحیتوں کا ہونا بہت ضروری ہے لیکن کھیل نکھارنے کے لیے میدان میں اترنا اور غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ مصباح الحق اور یونس خان باصلاحیت ہونے کے ساتھ ذہنی طور پر بھی مضبوط تھے، حارث سہیل سمیت ان کا متبادل سمجھے جانے والے کرکٹرز کو اعتماد دینا کوچ اور کپتان کی ذمہ داری ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ بیٹنگ میں نوجوان کندھوں پر انحصار کرنے والی سلیکشن کمیٹی کی وہاب ریاض کے ساتھ محبت ختم نہیں ہوئی، چیمپئنز ٹرافی کے پہلے ہی میچ میں بھارت کے ہاتھوں پٹائی کے دوران انجرڈ ہونے والے پیسر بعد میں ایک میچ بھی نہیں کھیل پائے لیکن انہیں ایک کروڑ روپے حاصل کرنے والے کرکٹرز کی فہرست میں شامل کروانے والوں نے یواے ای میں سیریز کے لیے بھی منتخب کرلیا۔

محمد عامر، حسن علی، محمد عباس اور ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کی بنیاد پر منتخب ہونے والے میر حمزہ کی موجودگی میں ان کی ضرورت نہیں تھی، کنڈیشنز کے بارے میں غلط فہمی کا شکار پاکستان ٹیم مینجمنٹ کے غلط فیصلے نے بھی ثابت کردیا کہ یواے ای میں سپن کا شعبہ مضبوط بنانے کی ضرورت تھی، پاکستان امارات میں سلوبولرز کی جوڑی کے ساتھ میدان میں اترتے ہوئے حریفوں کی ناک میں دم کرتا رہا ہے، سعید اجمل اور عبدالرحمان کے بعد یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر مل کر تباہی مچاتے رہے ہیں۔

اس بار تجربہ کار لیگ سپنر کی معاونت کے لیے محمد اصغر یا بلال آصف کو پلیئنگ الیون میں جگہ دی جاسکتی تھی لیکن ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے نہ صرف کہ 3پیسرز کھلانے کو ترجیح دی بلکہ اس فیصلے کا دفاع بھی کرتے نظر آئے، ابوظبی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں یاسر شاہ نے مجموعی 154.5اوورز میں سے 57کروائے اور 3 وکٹیں حاصل کیں، پارٹ ٹائم بولرز حارث سہیل، شان مسعود اور اسد شفیق سے 26اوورز کرواتے ہوئے کام چلانے کی کوشش کی، اس دوران صرف ایک وکٹ ہاتھ آئی۔

سری لنکا کی دوسری اننگز میں پچ پر توڑ پھوڑ ہونے پر یاسر شاہ کا ساتھ دینے کے لیے کوئی ریگولر بولر نہیں ہوگا،سرفراز احمد کو اس لئے چھوٹ دی جاسکتی ہے کہ وہ بطور کپتان پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں اور زیادہ تر ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے فیصلوں کے زیر اثر ہوں گے لیکن تھنک ٹینک کو سوچنا ہوگا کہ ڈیڈ پچز کے لیے مشہور یواے ای کی سخت گرمی میں پیسرز کتنی جان مار سکتے ہیں،بہرحال پاکستان ٹیم ابھی درست کمبی نیشن کی متلاشی اور تجرباتی دور سے گزر رہی ہے،اس سفر میں غلطیاں بھی ہوں گی،شائقین کے دل بھی ٹوٹیں گے،تاہم تعمیر نو کے اس عمل میں افراتفری کاعالم پیدا ہوگیا تو کپتان سرفراز احمد کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔


اچھی بات ہے کہ وکٹ کیپر بیٹسمین کا پہلی سیریز میں کسی بڑی ٹیم سے واسطہ نہیں پڑا،آئی لینڈرز خود اسی طرح کے مسائل کا شکار ہیں،اس لئے دونوں ٹیموںکو سیکھنے کے اچھے مواقع ملیں گے۔دنیش چندی مل نے ابوظبی میں کپتان کی ذمہ دارانہ اننگ کھیلی ۔سرفراز احمد سے بھی بلند توقعات وابستہ ہوں گی۔ پاکستان کو دبئی کے ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میں 2015ء میں 3 ون ڈے کھیلنے والے سپننگ آل راؤنڈر بلال آصف یا قومی ٹیم کیساتھ دورہ آسٹریلیا کرنے کے باوجود کوئی میچ نہیں کھیل پانے والے سپنر محمداصغر میں سے کسی ایک کو موقع دے کریواے ای کی کنڈیشنز کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے حکمت عملی بنانا ہوگی۔

دوسری طرف پی سی بی کی غلط پلاننگ کی وجہ سے قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ مسلسل فٹبال بنا ہوا ہے، ڈومیسٹک ایونٹ پہلے اگست میں 2 شہروں فیصل آباد اور ملتان، بعد ازاں ستمبر میں صرف فیصل آباد میں کروانے کا شیڈول جاری کیا گیا، بیرون ملک کاؤنٹی اور لیگ کھیلنے میں مصروف قومی کرکٹرز بھی واپس بلائے گئے،تاہم بعد میں صرف فٹنس ٹیسٹ لے کر بات ختم کرتے ہوئے بتایا گیا کہ قومی ٹوئنٹی 20 اب دوبارہ شیڈول کیا جائے گا۔ گزشتہ روز ایونٹ 7سے 23نومبر تک ملتان اور فیصل آباد میں کروانے کا اعلان کردیا گیا،سنٹرل کنٹریکٹ کے حامل تمام کرکٹرز کو بھی شرکت کا پابند کیا گیا ہے۔

پی سی بی کے مطابق انہیں بنگلہ دیش پریمیئر لیگ اور جنوبی افریقی گلوبل ٹی ٹوئنٹی میں شمولیت کے لیے این او سی بھی اس شرط پر جاری کئے جائیں گے کہ وہ لازمی طور پر ڈومیسٹک ٹورنامنٹ کا حصہ بنیں گے۔ذرائع کے مطابق کرکٹرز سے کہا جائے گا کہ 7سے 17نومبر تک شیڈول ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میںلازمی طور پر شرکت کریں۔اس کے بعد وہ غیر ملکی لیگز میں شمولیت کے لیے جاسکتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں لیگز کا شیڈول قومی ایونٹ سے متصادم ہونے کی وجہ سے کھلاڑی اپنے کنٹریکٹس کی پاسداری کس طرح کر پائیں گے؟ دو کشتیوں کا سوار بننے کے بجائے غیر ملکی لیگز میں شرکت سے انکار کیا تو جواب میں متاثرہ ملکوں کے بورڈ پی ایس ایل کے لیے اپنے کرکٹرز کو این اوسی نہیں دیں گے، ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ ہارون رشید کا وسیع تجربہ بار بار بیکار ثابت ہورہا ہے،بڑے فیصلے کرکے بار بار تبدیل کرنے سے بورڈکی ساکھ خراب ہورہی ہے،کھلاڑیوں کے تحفظات الگ ہوں گے۔

دریں اثناء پاکستان کی ویمنز کرکٹ میں بھی تبدیلیوں کی لہر چل پڑی ہے، رواں سال انگلینڈ میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں قومی ٹیم ساتوں میچز میں شکست سے دوچار ہوئی تھی جس کے بعد کپتان ثناء میر پر شدید تنقید کی جا رہی تھی، پلیئرز اور انتظامیہ کے درمیان تنازعات کو ٹیم کی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دیا جارہا تھا، کوچ صبیح اظہر نے بھی اپنی رپورٹ میں ثناء میر اور دیگر سینئر کرکٹرز پر ملبہ ڈالا جس کے بعد تبدیلیوں کی خبریں گردش میں رہیں، قومی ویمنز ٹیم 31 اکتوبر سے 14 نومبر تک یو اے ای میں اپنی ہوم سیریز کے دوران نیوزی لینڈ کے خلاف 3 ون ڈے اور 4 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی جس کے لیے پی سی بی نے اچانک اور عجیب وغریب فیصلہ کرتے ہوئے مکی آرتھر کے دوست نیوزی لینڈ کے مارک نکولز کو کوچ تعینات کردیا،حیران کن طور پر نئے کوچ کا تقرر کرنے کے لیے کوئی کارروائی میڈیا کے نظروں میں نہیں آئی۔

طریقہ کار کے مطابق اشتہار دینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ نیوزی لینڈ کے میڈیا میں رپورٹس شائع ہونے پر پاکستان میں یہ اطلاع زیر بحث آئی، بعد ازاں چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے ایک ویب سائیٹ کے پوچھنے پر مارک نکولز کو کوچ مقرر کئے جانے کی تصدیق کردی، ایک دن بعد پی سی بی نے پریس ریلیز بھی جاری کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی جس میں بتایا گیا کہ مارک نکولز کا تقرر آزمائشی طور پر صرف ایک سیریز کے لیے کیا گیا ہے،وہ 2اکتوبر کو لاہور پہنچ کر ٹریننگ کیمپ میں ذمہ داریاں سنبھالیں گے،تاہم نیوزی لینڈ کی میڈیا رپورٹس میں آزمائشی طور پرتقرری کا ذکر نہیں ہے۔

دریں اثناء ثناء میر نے نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز سے قبل تربیتی کیمپ میں شرکت سے انکار کر دیا، ساتھی پلیئرز کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا کہ موجودہ سیٹ اپ کھلاڑیوں کو عزت نہیں دیتا، ویمنز کرکٹ کی بہتری کے لیے اقدامات نہ کئے جانے تک وہ ٹیم میں شامل نہیں ہوں گی۔انہوں نے لکھا ''جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ مجھے آپ سب کے ساتھ ٹریننگ کیمپ اور فٹنس ٹیسٹ دینے کے لیے طلب کیا گیا ہے، میرے لیے یہ سال بہت مشکل رہا اور آپ میں سے بھی کچھ پلیئرز مختلف وجوہات کی بناء پر ٹیم سے اندر باہر ہوتی رہیں، میں یہ سب آپ کو اپنی طرف سے لکھ رہی ہوں، میں کیمپ میں شریک نہیں ہوں گی اور نہ ہی ٹیم کے ساتھ دورے پر جاؤں گی جب تک کہ ویمنز کرکٹ کے کچھ پیچیدہ معاملات حل نہیں ہو جاتے۔ پہلے یہ فیصلہ اس وجہ سے نہیں لے سکی کیونکہ ہم کوالیفائرز اور بعد ازاں ورلڈ کپ میںمصروف رہے۔''

اس بیان بازی سے اڑنے والی دھول ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ ہفتہ کو ایک اوردھماکہ ہوگیا۔ ثناء میر کو قومی ویمنز ٹیم کی قیادت سے فارغ کردیا گیا، بطور کھلاڑی سلیکشن کے لیے دستیاب ہوں گی، بسمعہ معروف کو ٹی ٹوئنٹی کے بعد ون ڈے میں بھی کپتان مقرر کردیا گیا ہے، سلیکشن کمیٹی بھی تحلیل کردی گئی، ٹیم منیجر کے لیے نیا نام سامنے لایا جائے گا۔

ویمنز ونگ کی سربراہ شمسہ ہاشمی کو بھی عہدے سے ہٹادیا گیا، نئی جنرل منیجر کا تقرر ہونے تک عائشہ اشعر عبوری طور پر یہ ذمہ داریاں سنبھالیں گی،شاید کچھ تبدیلیاں ناگزیر بھی ہونگی لیکن پاکستان کی ویمنز کرکٹ کا اصل مسئلہ ٹیلنٹ اور فٹنس کی کمی ہے، ملک میں خواتین کرکٹ زیادہ نہیں ہوتی،اگر کوئی کھیلنا چاہے تو سہولیات نہیں،ملک میں کتنے میدان ہونگے جو صرف خواتین کرکٹرز کے لیے مختص ہیں،پی سی بی کو انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

 
Load Next Story