امریکا میں کنسرٹ کے دوران فائرنگ سے 58 افراد ہلاک 515 زخمی

حملہ آور نے ہوٹل کی 32 ویں منزل سے نیچے جاری کنسرٹ میں شریک شائقین پر اندھا دھند فائرنگ کی

64 سالہ سفید فام حملہ آور نے پولیس کے آنے سے قبل ہوٹل کے کمرے میں خود کشی کرلی۔ فوٹو: رائٹرز

امریکی شہر میں میوزک کنسرٹ کے دوران فائرنگ سے 58 افراد ہلاک اور 515 زخمی ہوگئے۔

غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی ریاست نیواڈا کے شہر لاس ویگاس میں فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 58 تک پہنچ گئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 500 سے زائد بتائی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق حملہ 64 سالہ سفید فام امریکی شہری اسٹیفن پیڈوک نے کیا اور پولیس کے پہنچنے سے قبل ہی اس نے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی۔

پولیس کے مطابق حملہ آور نے منڈالے بے ریزورٹ کی 32 ویں منزل سے نیچے جاری کنسرٹ پر اندھادھند فائرنگ کی۔ حملہ آور نے ہوٹل کے کمرے میں موجود کھڑکیوں کے شیشے توڑے اور وہاں سے فائرنگ کی اور بعد ازاں خود کشی کرلی۔ امریکی سیکیورٹی حکام نے تاحال واقعے کو دہشت گردی قرار نہیں دیا ہے۔



امریکی پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور مقامی شہری تھا اور اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جارہی ہیں۔ برطانوی میڈیا نے اسٹیفن پیڈوک کی مبینہ تصویر بھی شائع کی ہے۔



امریکی پولیس نے حملہ آور کی ساتھی اور مطلوب خاتون ماریلو ڈینلے کی تصویر جاری کرکے عوام سے اس کی گرفتاری میں مدد دینے کی اپیل بھی کی ہے۔




سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خوفزدہ شائقین جان بچانے کے لیے کنسرٹ کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں جب کہ پیچھے سے فائرنگ اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی آوازیں آرہی ہیں۔

 



اس واقعے کو امریکی تاریخ میں فائرنگ کا بدترین واقعہ قرار دیا جارہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ہلاک و زخمی ہونے والوں کے لیے اظہار ہمدردی کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بدھ کے روز لاس ویگاس کا دورہ بھی کریں گے۔ اس کے علاوہ حملے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی یاد میں امریکا بھر میں قومی پرچم سرنگوں کردیا گیا ہے۔

شدت پسند تنظیم داعش نے مبینہ طور پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ داعش کی جانب سے اپنی ویب سائٹ اعماق پر جاری بیان میں کہا گیا کہ حملہ آور داعش کا سپاہی تھا جس نے چند ماہ قبل ہی اسلام قبول کیا تھا تاہم داعش کی جانب سے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ساتھ ہی بیان میں حملہ آور کا نام اور دیگر تفصیلات بھی نہیں بتائی گئیں۔ امریکی حکام بھی حملے کے محرکات جانے کے لیے تحقیقات میں مصروف ہیں۔

 



Load Next Story