حیاتیاتی گھڑی کی دریافت پر طب کا نوبل انعام برائے 2017
یہ نظام بہت پیچیدہ ہے جس میں بیک وقت کئی طرح کے جین، پروٹین، اینزائمز اور ہارمون وغیرہ براہِ راست شریک ہوتے ہیں
اس سال طب یا فعلیات (فزیالوجی/ میڈیسن) کا نوبل انعام تین امریکی سائنسدانوں کو مشترکہ طور پر دیا گیا ہے جنہوں نے حیاتیاتی گھڑی کا قدرتی نظام دریافت کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ نوبل انعام کی رقم ان تینوں ماہرین میں مساوی تقسیم کی جائے گی۔
ان میں سے جیفری سی ہال کا تعلق یونیورسٹی آف مین سے، مائیکل روباش کا تعلق برینڈیز یونیورسٹی میساچیوسٹس سے جبکہ مائیکل ڈبلیو ینگ کا تعلق راک فیلر یونیورسٹی نیویارک سے ہے۔
بتاتے چلیں کہ ''سرکاڈیئن ردم'' (Circadian Rhythm) یا قدرتی جسمانی گھڑی کہلانے والا نظام کم و بیش ہر جاندار میں موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ دن اور رات کے اوقات میں اندرونی طور پر خود بخود تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ناشتہ کرنے کے بعد ہم خود کو چاق و چوبند محسوس کرتے ہیں لیکن رات کا کھانا کھانے کے بعد ہمیں نیند آنے لگتی ہے۔ یہ سب کچھ اسی سرکاڈیئن ردم کے عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ حیاتیاتی گھڑی کا تعلق صرف ہمارے روزمرہ معمولات ہی سے نہیں بلکہ یہ ہماری عمومی صحت کےلیے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
البتہ یہ نظام بہت ہی پیچیدہ ہے جس میں بیک وقت کئی طرح کے جین، پروٹین، خامرے (اینزائمز) اور ہارمون وغیرہ براہِ راست شریک ہوتے ہیں جن کا طریقہ عمل سمجھنے میں ان تینوں سائنسدانوں نے نمایاں کام کیا اور اپنی تحقیقات کے ذریعے اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ اس سال یعنی 2017 کا نوبل انعام برائے طب ان ہی تحقیقی خدمات کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔
ان میں سے جیفری سی ہال کا تعلق یونیورسٹی آف مین سے، مائیکل روباش کا تعلق برینڈیز یونیورسٹی میساچیوسٹس سے جبکہ مائیکل ڈبلیو ینگ کا تعلق راک فیلر یونیورسٹی نیویارک سے ہے۔
بتاتے چلیں کہ ''سرکاڈیئن ردم'' (Circadian Rhythm) یا قدرتی جسمانی گھڑی کہلانے والا نظام کم و بیش ہر جاندار میں موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ دن اور رات کے اوقات میں اندرونی طور پر خود بخود تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ناشتہ کرنے کے بعد ہم خود کو چاق و چوبند محسوس کرتے ہیں لیکن رات کا کھانا کھانے کے بعد ہمیں نیند آنے لگتی ہے۔ یہ سب کچھ اسی سرکاڈیئن ردم کے عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ حیاتیاتی گھڑی کا تعلق صرف ہمارے روزمرہ معمولات ہی سے نہیں بلکہ یہ ہماری عمومی صحت کےلیے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
البتہ یہ نظام بہت ہی پیچیدہ ہے جس میں بیک وقت کئی طرح کے جین، پروٹین، خامرے (اینزائمز) اور ہارمون وغیرہ براہِ راست شریک ہوتے ہیں جن کا طریقہ عمل سمجھنے میں ان تینوں سائنسدانوں نے نمایاں کام کیا اور اپنی تحقیقات کے ذریعے اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ اس سال یعنی 2017 کا نوبل انعام برائے طب ان ہی تحقیقی خدمات کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔
طب/ فعلیات کے نوبل انعامات: دلچسپ معلومات
- 1901 سے 2017 تک اس شعبے میں 108 نوبل انعامات دیئے جاچکے ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران نو سال ایسے تھے جن میں کوئی نوبل انعام نہیں دیا گیا: 1915 سے 1918 تک، 1921، 1925، اور 1940 سے لے کر 1942 تک۔
- ان 117 سال میں کُل 214 افراد کو نوبل انعام برائے طب/ فعلیات دیا جاچکا ہے۔
- ان 214 نوبل انعام یافتگان برائے طب/ فعلیات میں صرف 12 خواتین شامل ہیں۔
- ان میں سے 39 نوبل انعامات برائے طب/ فعلیات ایک ایک سائنسدان کو (بلا شرکتِ غیرے)؛ 32 انعامات دو دو ماہرین کو مشترکہ طور پر؛ جبکہ اس زمرے کے 37 نوبل انعامات میں تین تین تحقیق کاروں کو حقدار قرار دیا گیا۔
- باربرا مکلنٹاک وہ واحد خاتون تھیں جنہیں متحرک جینیاتی اجزاء کی دریافت پر بلا شرکتِ غیرے 1983 کا نوبل انعام برائے طب/ فعلیات دیا گیا۔
- اسمبلی نے اصولی طور پر طے کیا ہوا ہے کہ کسی بھی نوبل انعام میں تین سے زیادہ افراد کو شریک قرار نہیں دیا جائے گا۔
- 2017 تک طب/ فعلیات کا نوبل انعام حاصل کرنے والوں کی اوسط عمر تقریباً 60 سال رہی ہے۔
- اس کٹیگری میں سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ سائنسدان فریڈرک گرانٹ بینٹنگ تھے جنہیں صرف 32 سال کی عمر میں 1923 کے نوبل انعام برائے طب/ فعلیات دیا گیا۔ انسولین کی دریافت پر انہیں اور جان جیمس رکارڈ میکلیوڈ کو مشترکہ طور پر نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔
- اسی شعبے کے معمر ترین نوبل انعام یافتہ ماہر پیٹن روس تھے جنہیں 87 سال کی عمر میں 1966 کے نوبل انعام برائے طب/ فعلیات کا نصف حصہ دیا گیا۔ انہوں نے رسولیاں پیدا کرنے والے وائرسوں پر تحقیق کی تھی۔ نوبل انعام کی رقم کا باقی نصف حصہ چارلس برینٹن ہگنز کو دیا گیا کیونکہ انہوں نے ہارمونز کے ذریعے پروسٹیٹ کینسر کے علاج پر اہم کام کیا تھا۔
- نوبل انعام صرف زندہ افراد کو دیا جاتا ہے یعنی اگر اس کےلئے کسی ایسے شخص کو نامزد نہیں کیا جاسکتا جو مرچکا ہو۔
- 1974 میں نوبل فاؤنڈیشن کے آئین میں تبدیلی کے ذریعے فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ سے کسی بھی شخص کو بعد از مرگ (مرنے کے بعد) نوبل انعام نہیں دیا جائے گا؛ لیکن اگر نوبل انعام کا اعلان ہونے کے بعد متعلقہ انعام یافتہ فرد کا انتقال ہوجائے تو وہ نوبل انعام اسی کے نام رہے گا۔ 1974 سے پہلے صرف 2 افراد کو بعد از مرگ نوبل انعام دیا گیا تھا لیکن اس سال کے بعد سے اب تک کسی کو مرنے کے بعد نوبل انعام نہیں دیا گیا ہے۔