جیت کس کی
وفاقی حکومت کی کارکردگی کے مقابلے میں پنجاب میں شہباز حکومت بدرجہا بہتر اور قابل تعریف ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ لاہور کے ضمنی انتخاب میں جیت مسلم لیگ ن کی نہیں، جمہوریت کی ہوئی ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اکثریت نے عدلیہ پر اظہار اعتماد کیا ہے اور عمران خان نے ن لیگ کے ووٹروں کو کہا ہے کہ اگر ان کے گھر میں چوری ہو تو چور زندہ باد کا نعرہ لگائیں، جب کہ پی پی کی حیرت انگیز کامیابی کا خواب دیکھنے والے فیصل میر اور کرپشن کے خلاف مہم چلانے والے امیر جماعت اسلامی کے امیدوار اپنی ضمانت بھی ضبط کرا بیٹھے اور کامیابی اس نااہل وزیراعظم کی پارٹی کو ملی جو اس حلقے کے باعث ملک کا تین بار وزیراعظم بنا اور اپنے آخری اقتدار کے سوا چار سال میں کبھی حلقہ این اے 120 میں آیا اور اتنی طویل مدت میں نواز شریف نے حلقے کے لوگوں سے کبھی ملنے کی زحمت کی، نہ اپنے حلقہ انتخاب کے بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دی اور حلقے میں تعمیری کام تب اچانک اور تیز ہوئے جب این اے 120 کا رکن قومی اسمبلی سپریم کورٹ سے نااہل قرار پایا اور وزارت عظمیٰ سے بھی گیا۔
اتفاق تھا کہ حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کی مسلم لیگی امیدوار اپنے آپریشن کے باعث اسپتال داخل رہیں اور مریم نواز کے سوا پورا شریف خاندان ملک ہی میں موجود نہیں تھا، مگر پھر بھی ن لیگی امیدوار عوام میں آئے بغیر جیت گئیں، مگر انھیں اپنے شوہر کے مقابلے میں 30 ہزار ووٹ کم ملے اور پی ٹی آئی کی امیدوار کو پہلے سے تقریباً چار ہزار ووٹ کم پڑے، مگر اس ہار کو ان کی کامیابی اور کلثوم نواز کی کامیابی کو مسلم لیگ ن کی غیر مقبولیت اور ہار کہا جارہا ہے، کیونکہ اپنی وفاقی اور صوبائی حکومت کے ہوتے ہوئے بمشکل کم مارجن سے کامیابی قابل فخر کارکردگی واقعی نہیں ہے۔
این اے 120 لاہور وہ تاریخی حلقہ ہے جہاں دو بار پیپلزپارٹی اور چھ بار مسلم لیگ ن کامیاب ہوتی رہی اور نواز شریف کے امیدوار نہ ہونے کے باوجود بھی اس حلقے سے ن لیگ کے امیدوار کامیاب ہوئے اور تیس سال سے یہ حلقہ نواز شریف کا آبائی حلقہ رہا ہے، جس سے کلثوم نواز کا تعلق اتنا ہے کہ وہ موہنی روڈ کے پہلوان گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور بیگم نواز شریف بننے کے بعد وہ ماڈل ٹاؤن میں رہیں اور غریبوں اور آرائیں برادری کے اکثریتی ووٹوں کے اس حلقے نے نواز شریف سے مایوسی کے باوجود مسلم لیگ ن کا ہمیشہ ساتھ دیا اور اس حلقے کا مذہبی ووٹ بھی مسلم لیگ ن کو ملتا رہا اور اپنے حلقے کو نظر انداز مسلسل کرنے کے باوجود نواز شریف اس حلقے کو اپنی جاگیر سمجھ بیٹھے اور کبھی اپنے حلقے میں آنا گوارا نہیں کیا۔
البتہ نااہلی کے بعد اپنی چار روزہ ریلی کا اختتام انھوں نے داتا دربار پر آکر کیا، کیونکہ انھیں اپنا بھولا ہوا یہ حلقہ یاد آگیا جو مسلم لیگ ن کی عزت کا سوال بن گیا، مگر پھر بھی حلقہ والوں نے ن لیگ کو 61 ہزار ووٹ دے کر کامیاب ضرور کرادیا ، حلقے کے عوام کا یہ بڑا احسان نواز شریف پر قرض رہے گا۔
لاہور میں آرائیں برادری کی اکثریت ہے جہاں 1988 میں الیکشن مسلم لیگ کے 9 اور پی پی کے صرف دو امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور اکثریت آرائیں امیدواروں کی تھی، نواز شریف نے آرائیں برادری کے رکن قومی اسمبلی پرویز ملک کو وزیر تجارت بنوا دیا جس سے انھیں آرائی برادری کی حمایت بھی مل گئی۔ اگر نواز شریف ایسا نہ کرتے تو انھیں مشکلات سے دوچار ہونا پڑ سکتا تھا کیونکہ آرائیوں کے ووٹ پی ٹی آئی کو دلوانے میں آرائیں برادری کے چوہدری سرور اور میاں محمود الرشید نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
اقتدار ملنے سے قبل مظلوم اور عوام کے غم میں گھلے جانے والے افراد حکمران بننے کے بعد اپنے رشتے داروں اور خوشامدیوں ہی کو یاد رہتے ہیں اور وہ اپنے دیرینہ ساتھیوں اور کارکنوں کو بھول جاتے ہیں۔ پاناما کے برے وقت میں غلط مشوروں سے بچنے کے لیے سمجھدار اور مخلص ساتھیوں کے مشوروں پر توجہ دینی چاہیے۔
حلقہ این اے 120 پرانے لاہور پر مشتمل ہے جہاں وسیع سڑکیں، خوبصورتی، پارک وغیرہ نئے لاہور کے پوش علاقوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر اور علاقے کی اہمیت داتا دربار ہے، جو حکمران بھولے ہوئے تھے اور الیکشن کے دنوں میں ہی انھیں اپنا حلقہ یاد آجاتا ہے مگر حالیہ ضمنی انتخاب این اے 120 میں انھیں اپنی غلطیوں کا علم ہوگیا ہوگا کہ وہ اگر غلط فیصلے نہ کرتے تو حلقہ 120 کی پوزیشن ان کے حق میں ہوتی اور مذہبی ووٹ سے وہ محروم نہ ہوتے۔
سوا چار سال میں عوام کو کوئی ریلیف نہ دینے والے حکمران عوام کو جھوٹے آسروں سے بہلاتے رہے، ساڑھے چار سال میں وہ بجلی اور پٹرول مہنگا کراتے رہے مگر لوڈ شیڈنگ آدھی بھی نہ ہوسکی اور ہر صوبہ اکتوبر آجانے کے بعد مہنگی بجلی سے بھی محروم ہے اور اب حکومت نے بجلی 3 روپے یونٹ مزید مہنگی کردی ہے۔
وفاقی حکومت کی کارکردگی کے مقابلے میں پنجاب میں شہباز حکومت بدرجہا بہتر اور قابل تعریف ہے۔ شہباز شریف وزیراعلیٰ نہ ہوتے تو ن لیگ کو اپنی مقبولیت کا پتا چل جاتا جن کی ملک میں نہ ہوتے ہوئے بھی پنجاب پر گرفت مضبوط ہے اور شہباز فیملی پر کرپشن کے سنگین الزامات بھی نہیں ہیں اور شہباز شریف زیادہ اہل اور اچھی حکومت چلانے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔
ن لیگ کی کامیابی عمران خان کی جذباتی سیاست کی مرہون منت ہے جنھوں نے این اے 120 میں ن لیگ کا مقابلہ پی ٹی آئی کی بجائے عدلیہ سے اس طرح کرایا جیسے ن لیگ کے مدمقابل عدلیہ ہو۔ کرپشن اور ناقص کارکردگی پر تو نواز شریف واقعی نا اہلی کے مستحق تھے مگر لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ عدالتوں کے مفرور نہیں بلکہ انھوں نے عدالتی فیصلے کی بھی تعمیل کی، جے آئی ٹی میں بھی پیش ہوئے، استثنیٰ حاصل ہوتے ہوئے بھی چھپے نہیں، ان کے ساتھ پاناما میں وزیراعظم ہوتے ہوئے جو ہوتا رہا عوام دیکھتے رہے، نواز شریف اقامہ پر نااہل قرار پائے۔ اب عوام حقائق دیکھتے ہیں اور اس وجہ سے نواز شریف عوام کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور عوام نے ن لیگ کو جتوادیا مگر جیت مشکل سے ہوئی۔
اتفاق تھا کہ حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کی مسلم لیگی امیدوار اپنے آپریشن کے باعث اسپتال داخل رہیں اور مریم نواز کے سوا پورا شریف خاندان ملک ہی میں موجود نہیں تھا، مگر پھر بھی ن لیگی امیدوار عوام میں آئے بغیر جیت گئیں، مگر انھیں اپنے شوہر کے مقابلے میں 30 ہزار ووٹ کم ملے اور پی ٹی آئی کی امیدوار کو پہلے سے تقریباً چار ہزار ووٹ کم پڑے، مگر اس ہار کو ان کی کامیابی اور کلثوم نواز کی کامیابی کو مسلم لیگ ن کی غیر مقبولیت اور ہار کہا جارہا ہے، کیونکہ اپنی وفاقی اور صوبائی حکومت کے ہوتے ہوئے بمشکل کم مارجن سے کامیابی قابل فخر کارکردگی واقعی نہیں ہے۔
این اے 120 لاہور وہ تاریخی حلقہ ہے جہاں دو بار پیپلزپارٹی اور چھ بار مسلم لیگ ن کامیاب ہوتی رہی اور نواز شریف کے امیدوار نہ ہونے کے باوجود بھی اس حلقے سے ن لیگ کے امیدوار کامیاب ہوئے اور تیس سال سے یہ حلقہ نواز شریف کا آبائی حلقہ رہا ہے، جس سے کلثوم نواز کا تعلق اتنا ہے کہ وہ موہنی روڈ کے پہلوان گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور بیگم نواز شریف بننے کے بعد وہ ماڈل ٹاؤن میں رہیں اور غریبوں اور آرائیں برادری کے اکثریتی ووٹوں کے اس حلقے نے نواز شریف سے مایوسی کے باوجود مسلم لیگ ن کا ہمیشہ ساتھ دیا اور اس حلقے کا مذہبی ووٹ بھی مسلم لیگ ن کو ملتا رہا اور اپنے حلقے کو نظر انداز مسلسل کرنے کے باوجود نواز شریف اس حلقے کو اپنی جاگیر سمجھ بیٹھے اور کبھی اپنے حلقے میں آنا گوارا نہیں کیا۔
البتہ نااہلی کے بعد اپنی چار روزہ ریلی کا اختتام انھوں نے داتا دربار پر آکر کیا، کیونکہ انھیں اپنا بھولا ہوا یہ حلقہ یاد آگیا جو مسلم لیگ ن کی عزت کا سوال بن گیا، مگر پھر بھی حلقہ والوں نے ن لیگ کو 61 ہزار ووٹ دے کر کامیاب ضرور کرادیا ، حلقے کے عوام کا یہ بڑا احسان نواز شریف پر قرض رہے گا۔
لاہور میں آرائیں برادری کی اکثریت ہے جہاں 1988 میں الیکشن مسلم لیگ کے 9 اور پی پی کے صرف دو امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور اکثریت آرائیں امیدواروں کی تھی، نواز شریف نے آرائیں برادری کے رکن قومی اسمبلی پرویز ملک کو وزیر تجارت بنوا دیا جس سے انھیں آرائی برادری کی حمایت بھی مل گئی۔ اگر نواز شریف ایسا نہ کرتے تو انھیں مشکلات سے دوچار ہونا پڑ سکتا تھا کیونکہ آرائیوں کے ووٹ پی ٹی آئی کو دلوانے میں آرائیں برادری کے چوہدری سرور اور میاں محمود الرشید نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
اقتدار ملنے سے قبل مظلوم اور عوام کے غم میں گھلے جانے والے افراد حکمران بننے کے بعد اپنے رشتے داروں اور خوشامدیوں ہی کو یاد رہتے ہیں اور وہ اپنے دیرینہ ساتھیوں اور کارکنوں کو بھول جاتے ہیں۔ پاناما کے برے وقت میں غلط مشوروں سے بچنے کے لیے سمجھدار اور مخلص ساتھیوں کے مشوروں پر توجہ دینی چاہیے۔
حلقہ این اے 120 پرانے لاہور پر مشتمل ہے جہاں وسیع سڑکیں، خوبصورتی، پارک وغیرہ نئے لاہور کے پوش علاقوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر اور علاقے کی اہمیت داتا دربار ہے، جو حکمران بھولے ہوئے تھے اور الیکشن کے دنوں میں ہی انھیں اپنا حلقہ یاد آجاتا ہے مگر حالیہ ضمنی انتخاب این اے 120 میں انھیں اپنی غلطیوں کا علم ہوگیا ہوگا کہ وہ اگر غلط فیصلے نہ کرتے تو حلقہ 120 کی پوزیشن ان کے حق میں ہوتی اور مذہبی ووٹ سے وہ محروم نہ ہوتے۔
سوا چار سال میں عوام کو کوئی ریلیف نہ دینے والے حکمران عوام کو جھوٹے آسروں سے بہلاتے رہے، ساڑھے چار سال میں وہ بجلی اور پٹرول مہنگا کراتے رہے مگر لوڈ شیڈنگ آدھی بھی نہ ہوسکی اور ہر صوبہ اکتوبر آجانے کے بعد مہنگی بجلی سے بھی محروم ہے اور اب حکومت نے بجلی 3 روپے یونٹ مزید مہنگی کردی ہے۔
وفاقی حکومت کی کارکردگی کے مقابلے میں پنجاب میں شہباز حکومت بدرجہا بہتر اور قابل تعریف ہے۔ شہباز شریف وزیراعلیٰ نہ ہوتے تو ن لیگ کو اپنی مقبولیت کا پتا چل جاتا جن کی ملک میں نہ ہوتے ہوئے بھی پنجاب پر گرفت مضبوط ہے اور شہباز فیملی پر کرپشن کے سنگین الزامات بھی نہیں ہیں اور شہباز شریف زیادہ اہل اور اچھی حکومت چلانے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔
ن لیگ کی کامیابی عمران خان کی جذباتی سیاست کی مرہون منت ہے جنھوں نے این اے 120 میں ن لیگ کا مقابلہ پی ٹی آئی کی بجائے عدلیہ سے اس طرح کرایا جیسے ن لیگ کے مدمقابل عدلیہ ہو۔ کرپشن اور ناقص کارکردگی پر تو نواز شریف واقعی نا اہلی کے مستحق تھے مگر لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ عدالتوں کے مفرور نہیں بلکہ انھوں نے عدالتی فیصلے کی بھی تعمیل کی، جے آئی ٹی میں بھی پیش ہوئے، استثنیٰ حاصل ہوتے ہوئے بھی چھپے نہیں، ان کے ساتھ پاناما میں وزیراعظم ہوتے ہوئے جو ہوتا رہا عوام دیکھتے رہے، نواز شریف اقامہ پر نااہل قرار پائے۔ اب عوام حقائق دیکھتے ہیں اور اس وجہ سے نواز شریف عوام کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور عوام نے ن لیگ کو جتوادیا مگر جیت مشکل سے ہوئی۔