آزادی
ہم عورت کو اسلام کا درس تو دیتے ہیں لیکن اکثریت اسے دین کی طرف سے مقرر کردہ حقِ وراثت نہیں دیتی۔
DI KHAN:
آزادی جہاں ہمیں بہت سے حقوق عطا کرتی ہے، وہیں کچھ فرائض کی ادائیگی کا پابند بھی بناتی ہے۔ تعلیم یافتہ معاشروں میں سوچ کی وسعت اور شخصی آزادی کو خاصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ہم کس قدر تعلیم یافتہ ہیں؟ اس کا اظہار ہمارے رویوں سے بخوبی ہوسکتا ہے جو ہم دوسروں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ نجانے کیوں خوش گمانی ہم سے روٹھ گئی اور اکثر اوقات حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے بدگمانی، منفی سوچ اور تنگ نظری ہماری عقل پر پردہ ڈال دیتی ہیں اور ہم خود ہی کو منصف تصور کرتے ہوئے اپنی ہی عدالت میں دوسروں کے مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی مقام کا تعین کرتے ہیں جہاں ہمیں اپنے سوا سب مجرم نظر آتے ہیں۔ سماجی میڈیا نے دنیا کو ایک گاؤں بنا دیا لیکن اس کے فائدوں کے ساتھ ساتھ منفی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ماہرہ خان دنیا کے آزاد ترین ملک میں ہوتے بھی خود کو قید محسوس کررہی ہو گی۔
ہم بنیادی طور پر ایک تنگ نظر اور متشدد معاشرے کے باسی ہیں جن میں عدم برداشت دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ یہاں ماہرہ خان اکیلی نہیں جس نے سماجی میڈیا کے ان نام نہاد مبصرین کے نشتر سہے بلکہ حوا کی ایسی بہت سی گمنام بیٹیاں ہیں جو دقیانوسی سوچ کی بھینٹ چڑھی ہیں۔ منافقت حد درجہ کو چھورہی ہے اور انتہا پسندوں کے دو گرہ جنم لے چکے ہیں: ایک طرف تو ہمیں تنگ نظر انتہا پسندوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف لبرل انتہا پسند بھی کسی معتدل سوچ کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔
ذاتی زندگی میں آزادی ماہرہ خان کا بنیادی حق ہے جس میں مداخلت کرنا اور اسے سوشل میڈیا پر اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنانے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہم جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ اس قدر بے وقوف بھی ہیں کہ بن مانگے مفت کے مشورے دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو سستے مبصرین کثرت سے دستیاب ہیں جو بالخصوص کسی عورت ذات کو اخلاقیات کا سبق ایسے پڑھا رہے ہیں ہوتے ہیں جیسے وہ ان کا اہم ترین فریضہ ہے۔
یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی کہ شوبز سے وابستہ لوگوں کا لائف اسٹائل عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے، اس کے باوجود اہل وطن ماہرہ خان کو ایک عام عورت کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک گلوبل ولیج کا حصہ ہیں جس میں رہتے ہوئے ہماری فلم انڈسٹری کو انگریزی اور ہندی فلموں کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی دوسرے ممالک کی فلموں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایسے میں ہم اپنے اداکاروں سے یہ مطالبہ تو کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلائیں لیکن انہیں آزادی اور مقام دینے کو تیار نہیں۔ ہم فلموں میں مختصر لباس کی اجازت تو دے سکتے ہیں لیکن عام زندگی میں انہیں برقعہ پہنوانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ماہرہ خان کی تصاویر اس ملک میں لی گئی ہیں جہاں کوئی کسی کے لباس پر اعتراض نہیں کرتا۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں برقعہ پہننے والے عورت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مختلف سطح پر بعض عورتوں کو ملازمت کےلیے محض اس لیے موزوں تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ برقعہ پہنتی ہیں۔ ہمارے ہاں لبرل انتہا پسندی کو بھی ایک فیشن کی حثیت حاصل ہو چکی ہے۔ کسی بھی برقعہ پوش خاتون یا داڑھی رکھنے والے شخص پر تنقید کرکے آپ کسی بھی وقت اپنے روشن خیال ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مرد اور عورت کو یکساں حقوق و شخصی آزادی حاصل ہو تو ہمیں منافقانہ طرز عمل بدلنا ہو گا۔ آزادی محض مخصوص لباس زیب تن کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ دوسروں کی سوچ اور طرز عمل کے احترام کا نام بھی ہے۔ ہمیں کسی سے متفق ہونے کی ضرورت نہیں، لیکن ان کی آزادی تسلیم کرتے ہوئے ان کی رائے کا احترام کرنا چاہیے تاکہ مہذب معاشروں کی طرح برداشت کے کلچر کو فروغ دیا جاسکے۔
عورت شوبز سے تعلق رکھنے والی ماہرہ خان ہو یا ایک برقعہ پوش، اسے آزادی دینا ہو گی۔ دقیانوس، تنگ نظر اور انتہا پسند سوچ رکھنے والے چاہے کہیں بھی ہوں، ان کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ آخر کب تک ہم عورت کو اپنی ملکیت سمجھتے رہیں گے۔ دراصل مرد کبھی نہیں چاہتا کہ عورت با اختیار ہوجائے۔ شوہر بن کر بیوی کو، باپ ہوتے ہوئے بیٹی کو، بھائی کی حیثیت سے بہن کو، ہمیں عورت کو اس کا مقام دلانا ہوگا۔
زندگی میں کوئی شعبہ نہیں جہاں ہم نے عورت کو تذلیل کا نشانہ نہ بنایا ہو اور اس کے اختیار اور آزادی کو محدود کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ ہم عورت کو اسلام کا درس تو دیتے ہیں لیکن اکثریت اسے دین کی طرف سے مقرر کردہ حق وراثت نہیں دیتی۔
وقت آگیا ہے کہ ہم مرد و عورت کےلیے یکساں حقوق کی بات کریں۔ معاشرہ کیسا ہونا چاہیے اور اخلاقیات کیا ہونی چاہئیں؟ یہ طے کرلیا جائے تو بہتر ہے؛ اور پھر اس کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے۔ مرد کچھ بھی کرتا رہے، باعزت ہی رہتا ہے اور عورت کے مقام اور آزادی کی بات کی جائے تو مرد کی سوئی ہوئی غیرت جاگ جاتی ہے۔ آج کے دور کی عورت آزاد اور با اختیار ہے؛ اور وہ کسی کی ملکیت نہیں کہ سوشل میڈیا پر اس کے متعلق غیر ذمہ دارانہ اور ذلت آمیز تبصرے کیے جائیں۔
کاش! ایسی قانون سازی کی جاسکے کہ جس کی مدد سے سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو محدود کیا جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آزادی جہاں ہمیں بہت سے حقوق عطا کرتی ہے، وہیں کچھ فرائض کی ادائیگی کا پابند بھی بناتی ہے۔ تعلیم یافتہ معاشروں میں سوچ کی وسعت اور شخصی آزادی کو خاصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ہم کس قدر تعلیم یافتہ ہیں؟ اس کا اظہار ہمارے رویوں سے بخوبی ہوسکتا ہے جو ہم دوسروں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ نجانے کیوں خوش گمانی ہم سے روٹھ گئی اور اکثر اوقات حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے بدگمانی، منفی سوچ اور تنگ نظری ہماری عقل پر پردہ ڈال دیتی ہیں اور ہم خود ہی کو منصف تصور کرتے ہوئے اپنی ہی عدالت میں دوسروں کے مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی مقام کا تعین کرتے ہیں جہاں ہمیں اپنے سوا سب مجرم نظر آتے ہیں۔ سماجی میڈیا نے دنیا کو ایک گاؤں بنا دیا لیکن اس کے فائدوں کے ساتھ ساتھ منفی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ماہرہ خان دنیا کے آزاد ترین ملک میں ہوتے بھی خود کو قید محسوس کررہی ہو گی۔
ہم بنیادی طور پر ایک تنگ نظر اور متشدد معاشرے کے باسی ہیں جن میں عدم برداشت دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ یہاں ماہرہ خان اکیلی نہیں جس نے سماجی میڈیا کے ان نام نہاد مبصرین کے نشتر سہے بلکہ حوا کی ایسی بہت سی گمنام بیٹیاں ہیں جو دقیانوسی سوچ کی بھینٹ چڑھی ہیں۔ منافقت حد درجہ کو چھورہی ہے اور انتہا پسندوں کے دو گرہ جنم لے چکے ہیں: ایک طرف تو ہمیں تنگ نظر انتہا پسندوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف لبرل انتہا پسند بھی کسی معتدل سوچ کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔
ذاتی زندگی میں آزادی ماہرہ خان کا بنیادی حق ہے جس میں مداخلت کرنا اور اسے سوشل میڈیا پر اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنانے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہم جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ اس قدر بے وقوف بھی ہیں کہ بن مانگے مفت کے مشورے دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو سستے مبصرین کثرت سے دستیاب ہیں جو بالخصوص کسی عورت ذات کو اخلاقیات کا سبق ایسے پڑھا رہے ہیں ہوتے ہیں جیسے وہ ان کا اہم ترین فریضہ ہے۔
یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی کہ شوبز سے وابستہ لوگوں کا لائف اسٹائل عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے، اس کے باوجود اہل وطن ماہرہ خان کو ایک عام عورت کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک گلوبل ولیج کا حصہ ہیں جس میں رہتے ہوئے ہماری فلم انڈسٹری کو انگریزی اور ہندی فلموں کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی دوسرے ممالک کی فلموں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایسے میں ہم اپنے اداکاروں سے یہ مطالبہ تو کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلائیں لیکن انہیں آزادی اور مقام دینے کو تیار نہیں۔ ہم فلموں میں مختصر لباس کی اجازت تو دے سکتے ہیں لیکن عام زندگی میں انہیں برقعہ پہنوانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ماہرہ خان کی تصاویر اس ملک میں لی گئی ہیں جہاں کوئی کسی کے لباس پر اعتراض نہیں کرتا۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں برقعہ پہننے والے عورت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مختلف سطح پر بعض عورتوں کو ملازمت کےلیے محض اس لیے موزوں تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ برقعہ پہنتی ہیں۔ ہمارے ہاں لبرل انتہا پسندی کو بھی ایک فیشن کی حثیت حاصل ہو چکی ہے۔ کسی بھی برقعہ پوش خاتون یا داڑھی رکھنے والے شخص پر تنقید کرکے آپ کسی بھی وقت اپنے روشن خیال ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مرد اور عورت کو یکساں حقوق و شخصی آزادی حاصل ہو تو ہمیں منافقانہ طرز عمل بدلنا ہو گا۔ آزادی محض مخصوص لباس زیب تن کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ دوسروں کی سوچ اور طرز عمل کے احترام کا نام بھی ہے۔ ہمیں کسی سے متفق ہونے کی ضرورت نہیں، لیکن ان کی آزادی تسلیم کرتے ہوئے ان کی رائے کا احترام کرنا چاہیے تاکہ مہذب معاشروں کی طرح برداشت کے کلچر کو فروغ دیا جاسکے۔
عورت شوبز سے تعلق رکھنے والی ماہرہ خان ہو یا ایک برقعہ پوش، اسے آزادی دینا ہو گی۔ دقیانوس، تنگ نظر اور انتہا پسند سوچ رکھنے والے چاہے کہیں بھی ہوں، ان کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ آخر کب تک ہم عورت کو اپنی ملکیت سمجھتے رہیں گے۔ دراصل مرد کبھی نہیں چاہتا کہ عورت با اختیار ہوجائے۔ شوہر بن کر بیوی کو، باپ ہوتے ہوئے بیٹی کو، بھائی کی حیثیت سے بہن کو، ہمیں عورت کو اس کا مقام دلانا ہوگا۔
زندگی میں کوئی شعبہ نہیں جہاں ہم نے عورت کو تذلیل کا نشانہ نہ بنایا ہو اور اس کے اختیار اور آزادی کو محدود کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ ہم عورت کو اسلام کا درس تو دیتے ہیں لیکن اکثریت اسے دین کی طرف سے مقرر کردہ حق وراثت نہیں دیتی۔
وقت آگیا ہے کہ ہم مرد و عورت کےلیے یکساں حقوق کی بات کریں۔ معاشرہ کیسا ہونا چاہیے اور اخلاقیات کیا ہونی چاہئیں؟ یہ طے کرلیا جائے تو بہتر ہے؛ اور پھر اس کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے۔ مرد کچھ بھی کرتا رہے، باعزت ہی رہتا ہے اور عورت کے مقام اور آزادی کی بات کی جائے تو مرد کی سوئی ہوئی غیرت جاگ جاتی ہے۔ آج کے دور کی عورت آزاد اور با اختیار ہے؛ اور وہ کسی کی ملکیت نہیں کہ سوشل میڈیا پر اس کے متعلق غیر ذمہ دارانہ اور ذلت آمیز تبصرے کیے جائیں۔
کاش! ایسی قانون سازی کی جاسکے کہ جس کی مدد سے سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو محدود کیا جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔