آسٹریلیا کے سفر پر
کہا جاتا ہے کہ اس خطّے میں انسانی آبادی آج سے اڑتالیس ہزار سال پہلے بھی موجود تھی
کئی ملکوں کے ماہرین سے سن رکھا تھا کہ آسٹریلیا کا TVET سیکٹر بہت توانا ہے اور کئی ترقّی یافتہ ممالک آسٹریلیا کے ووکیشنل کوالیفیکیشن فریم ورک سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہمارے دوست جاوید چوہدری نے بھی اپنے کچھ کالموں میں آسٹریلیا کے سسٹم اور ان کے ادارے TAFE کا ذکر کیا تھا لہٰذا ہمیں ان کے سسٹم کا مطالعہ کرنے اور اس سے استفادہ کرنے میں بے حد دلچسپی تھی۔
مئی کے اوائل میں آسٹریلیا کی پاکستان میں ہائی کمشنر مس مارگریٹ ایڈمسن کا خط موصول ہوا کہ آسٹریلیا کے تیسرے بڑے شہر برزبن کی کوئینز لینڈ یونیورسٹی پاکستان سے ٹیکنیکل اور ووکیشنل سیکٹر کے پندرہ افراد کے لیے تین ہفتے تک میزبانی کا ارادہ رکھتی ہے، ان تین ہفتوں میں ان کے لیے اسٹڈی کورس ترتیب دیا جارہا ہے۔ ہم نے یونیورسٹی کے اس فیصلے کو مستحسن قرار دیا اور تمام صوبوں کے TVET ماہرین کے نام تجویز کردیے، پرائیوٹ سیکٹر سے چند لوگ آسٹریلین ہائی کمیشن نے خود شامل کیے اور اٹھارہ رکنی وفد مرتّب ہوگیا۔
راقم نے ہائی کمیشن کو بتا دیا کہ میرا تین ہفتے تک ملک سے باہر رہنا ممکن نہیں ہے، اس پر انھوں نے وفد کے دو سینئر ارکان (راقم اور کے پی کی سیکریٹری انڈسٹریز مسز فرح حامد) کے لیے ایک ہفتے کا اور باقی ارکان کے لیے تین ہفتے کا پروگرام ترتیب دیا۔ جولائی کے پہلے ہفتے میں آسٹریلیا کے ڈپٹی ہائی کمشنر راقم سے ملنے آئے تو انھوں نے بتایا کہ وزیرِاعظم پاکستان جولائی کے آخر میں آسٹریلیا جائیں گے اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان کئی مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہوںگے۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل سیکٹر میں باہمی تعاون پر بات چلی تو انھوں نے اس کی اہمیّت سے اتفاق کرتے ہوئے اس سے متعلّق بھی مفاہمتی یاداشت پر دستخط کرنے کا بھی عندیہ دیا۔
آسٹریلیا میں پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطہ ہوا تو ڈپٹی ہائی کمشنز ڈاکٹر محمدخالد اعجازنے بڑے پرجوش انداز میں TVETکی اہمیّت کا تذکرہ کیا اور ہائی کمیشن کی طرف سے پورے تعاون کا یقین دلایا۔آسٹریلیا جانے سے پہلے قارئین کو اس دور دراز خطّے کا تعارف کرانا ضروری ہے۔
آسٹریلیا دنیا کا واحد ملک ہے جو برّ ِاعظم (continent) بھی کہلاتا ہے، آسٹریلیا لاطینی زبان سے نکلا ہوا لفظ ہے جو دنیا کے جنوبی حصّے میں واقع ایک خیالی برّ ِاعظم کے بارے میں بولا جاتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس خطّے میں انسانی آبادی آج سے اڑتالیس ہزار سال پہلے بھی موجود تھی زیادہ تر جنوب مشرقی ایشیا کے لوگ دریاؤں کو عبور کرکے وہاں پہنچے تھے۔
یورپی مہم جوؤں نے سترھویں صدی میں اس دور دراز برّ ِاعظم کے آثار تلاش کرلیے تھے۔ مگر سب سے پہلے 1606 میں اس سرزمین پر ولندیزیوں نے قدم رکھے ، اسی لیے اسے کافی عرصے تک نیو ہالینڈ بھی کہا جاتا رہا۔ آسٹریلوی ساحل کو سب سے پہلے چھونے والے جہاز ڈائفکن کو ہالینڈ کے جہازران ولیم جیفزون لے کر گئے، سب سے پہلے انھی کا سامنا یہاں کے قدیم باشندوں ابورجینز سے ہوا۔
ولندیزیوں نے اس نئی دریافت شدہ سرزمین پر مستقل قبضہ کرنے یا اسے اپنی کالونی بنانے کا فیصلہ نہ کیا۔ایک برطانوی جہاز ران ولیم ڈیمپئر 1688 میں نیو ہالینڈ کے شمال مغربی ساحل پر اُترا۔ 1770میں ایک اور برطانوی باشندے جیمز کک نے مشرقی ساحل پر اُتر کر اسے سلطنتِ برطانیہ کا حصہ قرار دے دیا۔
برطانوی حکومت نے سب سے پہلے 1783 میں کیپٹن فلپ کی قیادت میں بحری جہازوں کا پورا فلیٹ بھیجا، جس نے 26جنوری 1786 کو سڈنی کے ساحل پر کیمپ قائم کیا۔ یہی دن آسٹریلیا کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 1803 میں تسمانیہ کے نام سے برٹش کالونی قائم کرلی گئی۔ برطانوی حکومت نے 1820 میں مغربی آسٹریلیا کو باقاعدہ اپنا حصّہ قرار دے دیا اس کے بعد جنوبی آسٹریلیا پر 1826 میں وکٹوریہ پر 1851 میں اور کوئینز لینڈ پر 1859میں قبضہ کیا گیا۔ شمالی آسٹریلیا کو 1911میں برطانوی راج میں شامل کرلیا گیا۔
انگریزوں کی آمد سے پہلے آسٹریلیا کے original باشندوں ابورجینزکی آبادی سات سے دس لاکھ تک تھی۔ انیسویں صدی کے آخر تک چھ کالونیوں میں لوکل گورنمنٹ کے ذریعے حکومتی نظام چلایا جاتا رہا اور باقی حصّے کو سلطنتِ برطانیہ کی کالونی کے طور پر لندن سے کنٹرول کیا جاتا رہا۔ یکم جنوری 1901 کو تمام کالونیوں کو یکجا کرکے سلطنتِ برطانیہ کے ماتحت،کامن ویلتھ آف آسٹریلیا کا قیام عمل میں لایا گیا۔
بڑے عرصے تک برطانیہ میں سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سزا کے طور پر آسٹریلیا بھیجا جاتا رہا اس لحاظ سے دور دراز خطّہ ہونے کے ناتے اسے کالا پانی کی حیثیّت بھی حاصل رہی ہے ۔ آسٹریلیا کا دارلحکومت کسے بنایا جائے اس سلسلے میں دونوں بڑے شہروں یعنی سڈنی اور میلبورن میں چپقلش چلتی رہی، جس کے نتیجے میں فیصلہ ایک نئے شہر کینبرا کے حق میں ہوا اور انتہائی منصوبہ بندی کے تحت نیا شہر کینبرا آباد کیا گیا(یاد رہے کہ ہمارا دارلحکومت اسلام آباد کینبرا کی طرز پر بنایا گیا ہے)۔
ملکہ برطانیہ آسٹریلیا کی بھی ملکہ سمجھی جاتی ہیں اور آسٹریلیا کا گورنر جنرل اور آسٹریلوی ریاستوں کے گورنر ملکہ ہی کے نمایندے سمجھے جاتے ہیں، مگر ان کا کردار صرف آئینی نوعیت کا ہے، حکومت کا سربراہ منتخب وزیرِ اعظم ہوتا ہے۔ دونوں عالمی جنگوں میں آسٹریلیا نے اتحادیوں کا بھرپور ساتھ دیابلکہ آسٹریلیا ہی کا شہر برِزبن (جہاں ہمارا قیام رہا) اتحادی افواج کے کمانڈر اِن چیف جنرل ڈگلس میکارتھر کا ہیڈکوارٹر بھی رہا ہے ۔
آسٹریلیا دنیاکے امیر ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے،اس وقت اس کی آبادی سوا دو کروڑ ہے۔ اس کے ذرایع آمدنی میں معدنیات، ٹیلی کمیونیکیشن، بینکنگ اور مینوفیکچرنگ شامل ہیں،اس کے علاوہ یہ ملک قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے اور گندم اور کھالوں کے علاوہ لوہا، سونا، کوئلہ اور گیس برآمد کرتا ہے، اس کے علاوہ بھی اس کے ذرایع آمدن بہت ہیں، ملک کی جی ڈی پی کا70%حصّہ ٹُورِزم ،غیر ملکی طلباء ، سروسز اور اکاؤنٹس کا ہے۔ عوام کی اوسط دولت کے لحاظ سے آسٹریلیا دنیا میں دوسرے نمبر پر اور فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں per capita income (فی کس آمدنی) US$ 60229ہے۔
2016ء میں اقوامِ متحدہ کی رینکنگ میں ھیومن ڈویلپمنٹ انڈکس میں آسٹریلیا دنیا میں دوسرے نمبر پر آیا۔ ایک سروے کے مطابق میلبورن دنیا میں رہائش کے لحاظ سے سب سے بہترین شہر (the most livable city) قرار دیا گیا ہے۔ سڈنی اور پرتھ پانچویں اور چھٹے نمبر پر آتے ہیں۔آسٹریلیا کی 75%آبادی کی زبان انگریزی ہے۔ مگر لہجہ اور تلفّظ انگریزوں سے ذرا مختلف ہے۔
2008-9میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو کساد بازاری (Recession)کا سامنا کرنا پڑا مگر آسٹریلیا اس سے بھی متاثر نہ ہوا۔آسٹریلیا میں مستقل آباد ہونے والے غیر ملکیوں کی تعداد برطانوی اور آئرش باشندوں کی ہے ان کے بعد چینی اور ویت نامی بھی خاصی تعداد میں ہیں، زیادہ تر غیرملکی، ہنر مند (skilled) ہیں۔ آسٹریلیا کا رقبہ آبادی کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے، ایک مربّع کلومیٹر میں اوسطاًتین افراد رہائش پذیر ہیں ۔ اس طرح یہاں دنیا بھر میں آبادی کا تناسب سب سے کم ہے۔
آسٹریلیا میں 40% کے قریب عیسائی، تین فیصد مسلمان اور ایک فیصد کے قریب ہندو ہیں۔1688 میں انگریزوں کی آمد سے قبل آسٹریلیا کے قدیم باشندے ابورجین کہلاتے تھے ، اُن کا اب بھی اپنا الگ مذہب ہے مگر وہ بیچارے سماجی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں۔ آسٹریلیا میں مرد کی اوسط عمر 79سال اور عورت کی 84سال ہے۔ جلد کے کینسر کی بیماری عام ہے۔ آسٹریلیا کی بالغ آبادی کا دوتہائی 63%موٹاپے کا شکار ہے۔
آسٹریلیا میں سینتیس سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔ یورپ کے کئی ترقی یافتہ ممالک کیطرح آسٹریلیا میں بھی بارہویں گریڈ میں اعلیٰ نمبرلینے والے ہی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکتے ہیں دوسروں کو ٹیکنیکل اور ووکیشنل اداروں میں بھیجا جاتا ہے، جہاں وہ مختلف ھنر سیکھتے ہیں۔ 25سال سے 60سال تک کے باشندوں میں 58%افراد نے کوئی نہ کوئی ھنر(Skill) سیکھ رکھا ہے۔فنّی ھنر سکھانے والا سب سے بڑا ادار ہ TAFEکہلاتا ہے۔
14جولائی کی صبح ہم اسلام آباد سے آسٹریلیا کے لیے روانہ ہوئے دبئی سے پرواز تبدیل کی اور قریباً چھبّیس گھنٹے کے بعد علی الصّبح برزبن پہنچے۔ ایئرپورٹ پر یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹرہائے نے ریسیو کیا اور ہمیں بیس منٹ میں اپارٹمنٹس تک پہنچا دیا۔ اپارٹمنٹ ایک کشادہ بیڈروم اور باتھ کے علاوہ ٹی وی لاؤنج اور کچن پر مشتمل تھا ۔ سہولتوں کے لحاظ سے یہ رہائش کسی بھی فوراسٹار ہوٹل سے بہتر تھی۔ ہوٹل کے کانفرنس روم میں ڈاکٹر ہائے نے وفد کو یونیورسٹی میں لیڈر شپ کے شعبے کی ماہر ڈاکٹر لومینس لُو کے حوالے کیا اور پھر باقی عرصہ ہم لوگ ڈاکٹر لُو کی تحویل میں رہے۔
طویل سفر اور تھکاوٹ کے باعث رجسٹریشن اور تعارفی نشست کے فوراً بعد سب لوگ کمروں میں جاگھسے اور وقتِ مقررہ پر شام کو لابی میں جمع ہوئے۔ میزبانوں نے پہلی شام پاکستانی وفد کے مزاج اور معدے کا خیال رکھتے ہوئے برزبن جیسے دور دراز شہر میں بھی کام ودھن کے لیے پاکستانی کھانوں کا اہتمام کیا تھا۔ عشائیے کے لیے ریسٹورنٹ کے سامنے پہنچے تو پاکستان کا نام پڑھکر سب کے چہرے کھل اُٹھّے۔ ریسٹورنٹ کے پاکستانی مینیجر نے بھی کھلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور کچن میں موجود سب کچھ میز پر چُن دیا۔
مئی کے اوائل میں آسٹریلیا کی پاکستان میں ہائی کمشنر مس مارگریٹ ایڈمسن کا خط موصول ہوا کہ آسٹریلیا کے تیسرے بڑے شہر برزبن کی کوئینز لینڈ یونیورسٹی پاکستان سے ٹیکنیکل اور ووکیشنل سیکٹر کے پندرہ افراد کے لیے تین ہفتے تک میزبانی کا ارادہ رکھتی ہے، ان تین ہفتوں میں ان کے لیے اسٹڈی کورس ترتیب دیا جارہا ہے۔ ہم نے یونیورسٹی کے اس فیصلے کو مستحسن قرار دیا اور تمام صوبوں کے TVET ماہرین کے نام تجویز کردیے، پرائیوٹ سیکٹر سے چند لوگ آسٹریلین ہائی کمیشن نے خود شامل کیے اور اٹھارہ رکنی وفد مرتّب ہوگیا۔
راقم نے ہائی کمیشن کو بتا دیا کہ میرا تین ہفتے تک ملک سے باہر رہنا ممکن نہیں ہے، اس پر انھوں نے وفد کے دو سینئر ارکان (راقم اور کے پی کی سیکریٹری انڈسٹریز مسز فرح حامد) کے لیے ایک ہفتے کا اور باقی ارکان کے لیے تین ہفتے کا پروگرام ترتیب دیا۔ جولائی کے پہلے ہفتے میں آسٹریلیا کے ڈپٹی ہائی کمشنر راقم سے ملنے آئے تو انھوں نے بتایا کہ وزیرِاعظم پاکستان جولائی کے آخر میں آسٹریلیا جائیں گے اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان کئی مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہوںگے۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل سیکٹر میں باہمی تعاون پر بات چلی تو انھوں نے اس کی اہمیّت سے اتفاق کرتے ہوئے اس سے متعلّق بھی مفاہمتی یاداشت پر دستخط کرنے کا بھی عندیہ دیا۔
آسٹریلیا میں پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطہ ہوا تو ڈپٹی ہائی کمشنز ڈاکٹر محمدخالد اعجازنے بڑے پرجوش انداز میں TVETکی اہمیّت کا تذکرہ کیا اور ہائی کمیشن کی طرف سے پورے تعاون کا یقین دلایا۔آسٹریلیا جانے سے پہلے قارئین کو اس دور دراز خطّے کا تعارف کرانا ضروری ہے۔
آسٹریلیا دنیا کا واحد ملک ہے جو برّ ِاعظم (continent) بھی کہلاتا ہے، آسٹریلیا لاطینی زبان سے نکلا ہوا لفظ ہے جو دنیا کے جنوبی حصّے میں واقع ایک خیالی برّ ِاعظم کے بارے میں بولا جاتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس خطّے میں انسانی آبادی آج سے اڑتالیس ہزار سال پہلے بھی موجود تھی زیادہ تر جنوب مشرقی ایشیا کے لوگ دریاؤں کو عبور کرکے وہاں پہنچے تھے۔
یورپی مہم جوؤں نے سترھویں صدی میں اس دور دراز برّ ِاعظم کے آثار تلاش کرلیے تھے۔ مگر سب سے پہلے 1606 میں اس سرزمین پر ولندیزیوں نے قدم رکھے ، اسی لیے اسے کافی عرصے تک نیو ہالینڈ بھی کہا جاتا رہا۔ آسٹریلوی ساحل کو سب سے پہلے چھونے والے جہاز ڈائفکن کو ہالینڈ کے جہازران ولیم جیفزون لے کر گئے، سب سے پہلے انھی کا سامنا یہاں کے قدیم باشندوں ابورجینز سے ہوا۔
ولندیزیوں نے اس نئی دریافت شدہ سرزمین پر مستقل قبضہ کرنے یا اسے اپنی کالونی بنانے کا فیصلہ نہ کیا۔ایک برطانوی جہاز ران ولیم ڈیمپئر 1688 میں نیو ہالینڈ کے شمال مغربی ساحل پر اُترا۔ 1770میں ایک اور برطانوی باشندے جیمز کک نے مشرقی ساحل پر اُتر کر اسے سلطنتِ برطانیہ کا حصہ قرار دے دیا۔
برطانوی حکومت نے سب سے پہلے 1783 میں کیپٹن فلپ کی قیادت میں بحری جہازوں کا پورا فلیٹ بھیجا، جس نے 26جنوری 1786 کو سڈنی کے ساحل پر کیمپ قائم کیا۔ یہی دن آسٹریلیا کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 1803 میں تسمانیہ کے نام سے برٹش کالونی قائم کرلی گئی۔ برطانوی حکومت نے 1820 میں مغربی آسٹریلیا کو باقاعدہ اپنا حصّہ قرار دے دیا اس کے بعد جنوبی آسٹریلیا پر 1826 میں وکٹوریہ پر 1851 میں اور کوئینز لینڈ پر 1859میں قبضہ کیا گیا۔ شمالی آسٹریلیا کو 1911میں برطانوی راج میں شامل کرلیا گیا۔
انگریزوں کی آمد سے پہلے آسٹریلیا کے original باشندوں ابورجینزکی آبادی سات سے دس لاکھ تک تھی۔ انیسویں صدی کے آخر تک چھ کالونیوں میں لوکل گورنمنٹ کے ذریعے حکومتی نظام چلایا جاتا رہا اور باقی حصّے کو سلطنتِ برطانیہ کی کالونی کے طور پر لندن سے کنٹرول کیا جاتا رہا۔ یکم جنوری 1901 کو تمام کالونیوں کو یکجا کرکے سلطنتِ برطانیہ کے ماتحت،کامن ویلتھ آف آسٹریلیا کا قیام عمل میں لایا گیا۔
بڑے عرصے تک برطانیہ میں سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سزا کے طور پر آسٹریلیا بھیجا جاتا رہا اس لحاظ سے دور دراز خطّہ ہونے کے ناتے اسے کالا پانی کی حیثیّت بھی حاصل رہی ہے ۔ آسٹریلیا کا دارلحکومت کسے بنایا جائے اس سلسلے میں دونوں بڑے شہروں یعنی سڈنی اور میلبورن میں چپقلش چلتی رہی، جس کے نتیجے میں فیصلہ ایک نئے شہر کینبرا کے حق میں ہوا اور انتہائی منصوبہ بندی کے تحت نیا شہر کینبرا آباد کیا گیا(یاد رہے کہ ہمارا دارلحکومت اسلام آباد کینبرا کی طرز پر بنایا گیا ہے)۔
ملکہ برطانیہ آسٹریلیا کی بھی ملکہ سمجھی جاتی ہیں اور آسٹریلیا کا گورنر جنرل اور آسٹریلوی ریاستوں کے گورنر ملکہ ہی کے نمایندے سمجھے جاتے ہیں، مگر ان کا کردار صرف آئینی نوعیت کا ہے، حکومت کا سربراہ منتخب وزیرِ اعظم ہوتا ہے۔ دونوں عالمی جنگوں میں آسٹریلیا نے اتحادیوں کا بھرپور ساتھ دیابلکہ آسٹریلیا ہی کا شہر برِزبن (جہاں ہمارا قیام رہا) اتحادی افواج کے کمانڈر اِن چیف جنرل ڈگلس میکارتھر کا ہیڈکوارٹر بھی رہا ہے ۔
آسٹریلیا دنیاکے امیر ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے،اس وقت اس کی آبادی سوا دو کروڑ ہے۔ اس کے ذرایع آمدنی میں معدنیات، ٹیلی کمیونیکیشن، بینکنگ اور مینوفیکچرنگ شامل ہیں،اس کے علاوہ یہ ملک قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے اور گندم اور کھالوں کے علاوہ لوہا، سونا، کوئلہ اور گیس برآمد کرتا ہے، اس کے علاوہ بھی اس کے ذرایع آمدن بہت ہیں، ملک کی جی ڈی پی کا70%حصّہ ٹُورِزم ،غیر ملکی طلباء ، سروسز اور اکاؤنٹس کا ہے۔ عوام کی اوسط دولت کے لحاظ سے آسٹریلیا دنیا میں دوسرے نمبر پر اور فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں per capita income (فی کس آمدنی) US$ 60229ہے۔
2016ء میں اقوامِ متحدہ کی رینکنگ میں ھیومن ڈویلپمنٹ انڈکس میں آسٹریلیا دنیا میں دوسرے نمبر پر آیا۔ ایک سروے کے مطابق میلبورن دنیا میں رہائش کے لحاظ سے سب سے بہترین شہر (the most livable city) قرار دیا گیا ہے۔ سڈنی اور پرتھ پانچویں اور چھٹے نمبر پر آتے ہیں۔آسٹریلیا کی 75%آبادی کی زبان انگریزی ہے۔ مگر لہجہ اور تلفّظ انگریزوں سے ذرا مختلف ہے۔
2008-9میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو کساد بازاری (Recession)کا سامنا کرنا پڑا مگر آسٹریلیا اس سے بھی متاثر نہ ہوا۔آسٹریلیا میں مستقل آباد ہونے والے غیر ملکیوں کی تعداد برطانوی اور آئرش باشندوں کی ہے ان کے بعد چینی اور ویت نامی بھی خاصی تعداد میں ہیں، زیادہ تر غیرملکی، ہنر مند (skilled) ہیں۔ آسٹریلیا کا رقبہ آبادی کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے، ایک مربّع کلومیٹر میں اوسطاًتین افراد رہائش پذیر ہیں ۔ اس طرح یہاں دنیا بھر میں آبادی کا تناسب سب سے کم ہے۔
آسٹریلیا میں 40% کے قریب عیسائی، تین فیصد مسلمان اور ایک فیصد کے قریب ہندو ہیں۔1688 میں انگریزوں کی آمد سے قبل آسٹریلیا کے قدیم باشندے ابورجین کہلاتے تھے ، اُن کا اب بھی اپنا الگ مذہب ہے مگر وہ بیچارے سماجی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں۔ آسٹریلیا میں مرد کی اوسط عمر 79سال اور عورت کی 84سال ہے۔ جلد کے کینسر کی بیماری عام ہے۔ آسٹریلیا کی بالغ آبادی کا دوتہائی 63%موٹاپے کا شکار ہے۔
آسٹریلیا میں سینتیس سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔ یورپ کے کئی ترقی یافتہ ممالک کیطرح آسٹریلیا میں بھی بارہویں گریڈ میں اعلیٰ نمبرلینے والے ہی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکتے ہیں دوسروں کو ٹیکنیکل اور ووکیشنل اداروں میں بھیجا جاتا ہے، جہاں وہ مختلف ھنر سیکھتے ہیں۔ 25سال سے 60سال تک کے باشندوں میں 58%افراد نے کوئی نہ کوئی ھنر(Skill) سیکھ رکھا ہے۔فنّی ھنر سکھانے والا سب سے بڑا ادار ہ TAFEکہلاتا ہے۔
14جولائی کی صبح ہم اسلام آباد سے آسٹریلیا کے لیے روانہ ہوئے دبئی سے پرواز تبدیل کی اور قریباً چھبّیس گھنٹے کے بعد علی الصّبح برزبن پہنچے۔ ایئرپورٹ پر یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹرہائے نے ریسیو کیا اور ہمیں بیس منٹ میں اپارٹمنٹس تک پہنچا دیا۔ اپارٹمنٹ ایک کشادہ بیڈروم اور باتھ کے علاوہ ٹی وی لاؤنج اور کچن پر مشتمل تھا ۔ سہولتوں کے لحاظ سے یہ رہائش کسی بھی فوراسٹار ہوٹل سے بہتر تھی۔ ہوٹل کے کانفرنس روم میں ڈاکٹر ہائے نے وفد کو یونیورسٹی میں لیڈر شپ کے شعبے کی ماہر ڈاکٹر لومینس لُو کے حوالے کیا اور پھر باقی عرصہ ہم لوگ ڈاکٹر لُو کی تحویل میں رہے۔
طویل سفر اور تھکاوٹ کے باعث رجسٹریشن اور تعارفی نشست کے فوراً بعد سب لوگ کمروں میں جاگھسے اور وقتِ مقررہ پر شام کو لابی میں جمع ہوئے۔ میزبانوں نے پہلی شام پاکستانی وفد کے مزاج اور معدے کا خیال رکھتے ہوئے برزبن جیسے دور دراز شہر میں بھی کام ودھن کے لیے پاکستانی کھانوں کا اہتمام کیا تھا۔ عشائیے کے لیے ریسٹورنٹ کے سامنے پہنچے تو پاکستان کا نام پڑھکر سب کے چہرے کھل اُٹھّے۔ ریسٹورنٹ کے پاکستانی مینیجر نے بھی کھلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور کچن میں موجود سب کچھ میز پر چُن دیا۔