ٹرک ڈرائیور گلابن
پاکستان اور سندھ کی عورت کے لیے یہ ایک بہت لمبا سفر ہے جس میں اسے قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے
یہ خبر کہ سعودی عرب میں جون 2018 تک خواتین کو کار چلانے کی اجازت مل جائے گی، ساری دنیا میں تہلکہ مچا گئی۔ اس پر طرح طرح کے تبصرے ہورہے ہیں۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں اس پر خامہ فرسائی کی۔ ابھی یہ کالم شایع بھی نہیں ہوا تھا کہ سندھ کے سب سے پسماندہ علاقے تھر سے ایک دلچسپ باتصویر خبر آگئی۔
یہ ان عورتوں کی تصویریں تھیں جو بڑے بڑے ڈمپر ٹرکوں کو چلارہی ہیں۔ اس پیش قدمی کے لیے ہمیں سندھ اینگرو کول مائیننگ کمپنی کو داد دینی چاہیے جنہوں نے اب سے کچھ پہلے یہ فیصلہ کیا کہ وہ تھر کی جفاکش اور محنت مزدوری کرنے والی عورتوں کو ڈمپر ٹرک چلانے کی تربیت دے گی۔ اس طرح وہ سندھی سماج کو آگے بڑھائے گی اور سندھی عورت کو ایک ایسے شعبے میں کام کرنے کی تربیت دے گی جس کے بارے میں اس سے پہلے کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
اینگرو نے ایک سال کے تربیتی پروگرام کا اعلان کیا۔ یہ تربیتی پروگرام 20 سے 35 برس کی عمر والی خواتین کے لیے تھا۔ اشتہار میں کہا گیا تھا کہ تربیت کے دوران انھیں 15 ہزار روپے مہینے دیا جائے گا اور ان کی رہائش کا انتظام اینگرو کی ذمے داری ہوگی۔ ہم سب ہی علاقے کے ریت رواج سے واقف ہیں اس لیے کہا گیا کہ ہر خاتون کا ایک مرد رشتے دار بھی ان کے ساتھ آسکے گا۔ یہ ایسا خواب تھا جس نے صرف تھرپارکر میں ہی نہیں، دوسرے علاقوں میں بھی ہلچل مچادی۔
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ جب ہمارے تھر کی درجنوں خواتین اپنی ایک برس کی تربیت مکمل کرکے اپنے ٹرکوں کو چلاتی ہوئی کوئلے کی ان کانوں تک پہنچیں گی جہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں، اسی سال اور مہینے میں سعودی عرب کی خوش حال اور مال دار خواتین کو سلطنت کی طرف سے کار چلانے کی اجازت ملے گی۔
ہم ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان آسودہ حال خواتین کو کن شرائط کے تحت کار چلانے کی اجازت ملے گی لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ جب ہماری تھری عورتیں اپنے ڈمپر ٹرک لے کر کوئلے کی کانوں تک پہنچیں گی تو انھیں ہر مہینے 40 ہزار روپے تنخواہ ملے گی۔ وہ عورتیں جنہوں نے کبھی 400 روپے بھی نہیں کمائے تھے۔ یہ رقم ان کے یہاں کتنی خوشحالی لائے گی اور وہ اپنے علاقے کی کس قدر اہم افراد میں شمار کی جائیں گی، اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔
پاکستان کے مختلف حصوں اور بطور خاص دیہی علاقوں میں آج بھی عورتوں کے باہر نکلنے اور کام کرنے کے بارے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ وہ کھیتوں میں کام کریں یا اینٹ بھٹوں پر لیکن وہ دیوقامت ٹرکوں کو مردوں کی طرح چلائیں، یہ اکثر مردوں کی مردانگی کے لیے ایک چیلنج ہے۔
پاکستان اور سندھ کی عورت کے لیے یہ ایک بہت لمبا سفر ہے جس میں اسے قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہمارے ماضی میں ایسی بہت سی عورتیں رہی ہیں جنہوں نے اس سفر میں پہلا قدم اٹھایا تھا۔ ان ہی میں سے ایک باہمت خاتون لیلاوتی تھیں جو اب سے 102 برس پہلے حیدرآباد کے محلے ہیرا آباد میں پیدا ہوئیں اور جن کا ابھی حال میں انتقال ہوا ہے۔ آخر عمر کو پہنچتے پہنچتے وہ دادی لیلاوتی کہی جاتی تھیں۔ وہ ایک وطن پرست اور روشن خیال انسان تھیں۔ بہت سی دوسری تعلیم یافتہ عورتوں کی طرح وہ بھی یہی سمجھتی تھیں کہ سندھی سماج کی ترقی کے لیے لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم بنیادی شرط ہے۔
1947 میں بٹوارا ہوا اور ان کے خاندان کے متعدد افراد نے ہندوستان کی راہ لی تو سب کا خیال تھا کہ وہ بھی ترکِ وطن کرکے ہندوستان چلی جائیں گی، لیکن لیلاوتی کا کہنا تھا کہ سندھ ان کی جنم بھومی ہے اور اسے چھوڑ کر وہ کہیں نہیں جائیں گی۔ وہ اپنے مزاج میں صوفی تھیں اور سادھو واسوانی کی چیلی تھیں۔ ان کا سارا خاندان تعلیم یافتہ تھا۔ راگ راگنی سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ برسوں کے ریاض کے بعد وہ ایک اسکول میں میوزک ٹیچر ہوئیں، ان کی خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں تعلیم حاصل کریں۔
حیدرآباد سے ان کا تبادلہ میرپورخاص ہوا تو انھوں نے وہاں بھی زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ کراچی آئیں تو ریڈیو پاکستان سے راگ راگنیاں سنانے لگیں۔ راگوں سے ان کی محبت نے انھیں شاہ لطیف کے کلام سے وابستہ کردیا اور اپنے بھائی تیرتھ داس ہوت چند کی انھوں نے بہت رہنمائی کی، جو 1960 میں شاہ کی شاعری پر کام کررہے تھے۔ 1951 میں ان کی شادی ڈاکٹر تلسی داس ہرچندانی سے ہوئی۔ عموماً شادی عورت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے لیکن ڈاکٹر ہرچندانی اپنی بیگم کے اس شوق کی راہ میں آڑے نہ آئے۔
دادی لیلا وتی نے عورتوں کے لیے کئی سینٹر بنائے، ایک تنظیم 'ناری سبھا' کے نام سے قائم کی، اس کے علاوہ مذہب اور مسلک کی تفریق کے بغیر سندھ میں عورتوں کی سماجی ترقی کے لیے دن رات کام کیا۔ سندھ کے فیوڈل اور قبائلی سرداروں کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم کو آگے بڑھانے کی جدوجہد پر دادی لیلا وتی کو جان سے ماردینے کی دھمکیاں بھی ملیں لیکن انھوں نے ان باتوں کی پروا نہ کی۔ صوبے کے بیشتر سیاسی، سماجی اور ادبی حلقے ان کا احترام کرتے تھے۔
1985 میں وہ سندھ اسمبلی کی ممبر بنیں۔ رکن اسمبلی ہونے کی وجہ سے یہ ان کے لیے آسان ہوگیا کہ وہ سندھ کے دور دراز علاقوں میں سرکاری اسکول کھلوائیں اور وہ اسکول جو بند ہوگئے تھے، ان میں ایک بار پھر سے پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ انھوں نے سندھی عورت کی ترقی کے لیے جو کام آغاز کیا تھا، وہ آج بھی جاری ہے اور یہ ان جیسی عورتوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ تھرپارکر اور ننگر پارکر جیسے پچھڑے ہوئے علاقے کی عورتیں ڈمپر ٹرک ڈرائیور کی تربیت لے رہی ہیں۔ وہ ملکی معیشت کی ترقی اور اپنے خاندان کی خوش حالی کا وسیلہ بنیں گی۔
ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے بھی یورپ کی عورتوں کے لیے بہت سی حد بندیاں توڑ دی تھیں۔ وہاں بھی عورتیں ایمبولینس گاڑیاں، راشن پہنچانے والے ٹرک اور محاذ جنگ سے زخمیوں کو بڑے اسپتالوں میں پہنچانے کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ جنگ کی خوفناک صورت حال ایک طرف رہی، 30 کی دہائی سے سوویت یونین اور اشتراکی بلاک کے دوسرے تمام ملکوں میں وہاں کی عورتوں نے کمر توڑ مشقت کی۔ ٹرین ڈرائیور ہونا، ہائی وے پر بار برداری کے ٹرک چلانا اور تعمیراتی کاموں میں حصہ لینا، ان کے لیے روزمرہ کی بات ہوگئی تھی۔
اس دور کا سوویت ادب پڑھیے یا بلغاریہ، ہنگری، مشرقی جرمنی، پولینڈ اور مشرقی یورپ کے دوسرے ملکوں کے رسائل اور ناولوں پر نظر کیجیے، ان ناولوں اور کہانیوں کی ہیروئین مغربی یورپ، امریکا اور خود ہمارے برصغیر کی اکثر ہیروئینوں سے قطعاً مختلف ہے۔ ہماری گھاٹنیں، مچھیرنیں، تغاری اٹھانے،کھیتوں اور کار خانوں میں کام کرنے والیوں کی ایک دوسری ہی تصویر ہماری نگاہوں کے سامنے ابھرتی ہے۔ سندھ کی دادی لیلاوتی ہوں، آج کی تھری ٹرک ڈرائیور گلابن ہو یا ڈاکٹر رشید جہاں، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی اور منٹو کے قلم سے وجود میں آنے والی ہیروئنیں، یہ سب زندگی کے کار زار میں اپنا اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔
برصغیر کی وہ خواتین جنہوں نے لڑکیوں کے لیے چھوٹے اور بڑے اسکول قائم کیے، طعنہ و دشنام جن کا مقدر ہوا، لڑکیوں کو تعلیم دینے کی کوششوں میں جنھیں آوارہ اور بدچلن کہا گیا اور بہت سے علاقوں میں ان کا سماجی طور پر بائیکاٹ ہوا۔ یہ ان ہی کی کاوشوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے کہ 1947 میں صغرا فاطمہ نے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا۔
پاکستان بننے کے بعد گرلز گائیڈ بنیں، بیگم رعنا لیاقت علی خان کے قائم کیے ہوئے انڈسٹریل ہوم سے کتنی ہی عورتیں اور لڑکیاں باہُنر ہوئیں اور انھوں نے عزت سے روزی کمائی، اپنے گھر والوں کی دست گیری کی۔ نرس بنیں، ڈاکٹر بن کر انسانوں کا دکھ درد بانٹا، اسکول میں پڑھانے والیوں کی کیا بات کی جائے کہ انھوں نے کیا شاندار نسلوں کی پرورش کی۔ آج ہماری لڑکیاں مسافر برداراور لڑاکا طیارے اڑاتی ہیں۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ان کی کارکردگی قابل رشک ہے، انجینئرنگ کے مختلف شعبوں میں وہ پیش پیش ہیں۔ رشیدۃ النسا، رقیہ سخاوت حسین اور سلمیٰ زمن سے لے کر دادی لیلاوتی اور تھر کی گلابن تک سب ہی نے کمال کیا ہے۔
یہ ان عورتوں کی تصویریں تھیں جو بڑے بڑے ڈمپر ٹرکوں کو چلارہی ہیں۔ اس پیش قدمی کے لیے ہمیں سندھ اینگرو کول مائیننگ کمپنی کو داد دینی چاہیے جنہوں نے اب سے کچھ پہلے یہ فیصلہ کیا کہ وہ تھر کی جفاکش اور محنت مزدوری کرنے والی عورتوں کو ڈمپر ٹرک چلانے کی تربیت دے گی۔ اس طرح وہ سندھی سماج کو آگے بڑھائے گی اور سندھی عورت کو ایک ایسے شعبے میں کام کرنے کی تربیت دے گی جس کے بارے میں اس سے پہلے کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
اینگرو نے ایک سال کے تربیتی پروگرام کا اعلان کیا۔ یہ تربیتی پروگرام 20 سے 35 برس کی عمر والی خواتین کے لیے تھا۔ اشتہار میں کہا گیا تھا کہ تربیت کے دوران انھیں 15 ہزار روپے مہینے دیا جائے گا اور ان کی رہائش کا انتظام اینگرو کی ذمے داری ہوگی۔ ہم سب ہی علاقے کے ریت رواج سے واقف ہیں اس لیے کہا گیا کہ ہر خاتون کا ایک مرد رشتے دار بھی ان کے ساتھ آسکے گا۔ یہ ایسا خواب تھا جس نے صرف تھرپارکر میں ہی نہیں، دوسرے علاقوں میں بھی ہلچل مچادی۔
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ جب ہمارے تھر کی درجنوں خواتین اپنی ایک برس کی تربیت مکمل کرکے اپنے ٹرکوں کو چلاتی ہوئی کوئلے کی ان کانوں تک پہنچیں گی جہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں، اسی سال اور مہینے میں سعودی عرب کی خوش حال اور مال دار خواتین کو سلطنت کی طرف سے کار چلانے کی اجازت ملے گی۔
ہم ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان آسودہ حال خواتین کو کن شرائط کے تحت کار چلانے کی اجازت ملے گی لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ جب ہماری تھری عورتیں اپنے ڈمپر ٹرک لے کر کوئلے کی کانوں تک پہنچیں گی تو انھیں ہر مہینے 40 ہزار روپے تنخواہ ملے گی۔ وہ عورتیں جنہوں نے کبھی 400 روپے بھی نہیں کمائے تھے۔ یہ رقم ان کے یہاں کتنی خوشحالی لائے گی اور وہ اپنے علاقے کی کس قدر اہم افراد میں شمار کی جائیں گی، اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔
پاکستان کے مختلف حصوں اور بطور خاص دیہی علاقوں میں آج بھی عورتوں کے باہر نکلنے اور کام کرنے کے بارے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ وہ کھیتوں میں کام کریں یا اینٹ بھٹوں پر لیکن وہ دیوقامت ٹرکوں کو مردوں کی طرح چلائیں، یہ اکثر مردوں کی مردانگی کے لیے ایک چیلنج ہے۔
پاکستان اور سندھ کی عورت کے لیے یہ ایک بہت لمبا سفر ہے جس میں اسے قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہمارے ماضی میں ایسی بہت سی عورتیں رہی ہیں جنہوں نے اس سفر میں پہلا قدم اٹھایا تھا۔ ان ہی میں سے ایک باہمت خاتون لیلاوتی تھیں جو اب سے 102 برس پہلے حیدرآباد کے محلے ہیرا آباد میں پیدا ہوئیں اور جن کا ابھی حال میں انتقال ہوا ہے۔ آخر عمر کو پہنچتے پہنچتے وہ دادی لیلاوتی کہی جاتی تھیں۔ وہ ایک وطن پرست اور روشن خیال انسان تھیں۔ بہت سی دوسری تعلیم یافتہ عورتوں کی طرح وہ بھی یہی سمجھتی تھیں کہ سندھی سماج کی ترقی کے لیے لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم بنیادی شرط ہے۔
1947 میں بٹوارا ہوا اور ان کے خاندان کے متعدد افراد نے ہندوستان کی راہ لی تو سب کا خیال تھا کہ وہ بھی ترکِ وطن کرکے ہندوستان چلی جائیں گی، لیکن لیلاوتی کا کہنا تھا کہ سندھ ان کی جنم بھومی ہے اور اسے چھوڑ کر وہ کہیں نہیں جائیں گی۔ وہ اپنے مزاج میں صوفی تھیں اور سادھو واسوانی کی چیلی تھیں۔ ان کا سارا خاندان تعلیم یافتہ تھا۔ راگ راگنی سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ برسوں کے ریاض کے بعد وہ ایک اسکول میں میوزک ٹیچر ہوئیں، ان کی خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں تعلیم حاصل کریں۔
حیدرآباد سے ان کا تبادلہ میرپورخاص ہوا تو انھوں نے وہاں بھی زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ کراچی آئیں تو ریڈیو پاکستان سے راگ راگنیاں سنانے لگیں۔ راگوں سے ان کی محبت نے انھیں شاہ لطیف کے کلام سے وابستہ کردیا اور اپنے بھائی تیرتھ داس ہوت چند کی انھوں نے بہت رہنمائی کی، جو 1960 میں شاہ کی شاعری پر کام کررہے تھے۔ 1951 میں ان کی شادی ڈاکٹر تلسی داس ہرچندانی سے ہوئی۔ عموماً شادی عورت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے لیکن ڈاکٹر ہرچندانی اپنی بیگم کے اس شوق کی راہ میں آڑے نہ آئے۔
دادی لیلا وتی نے عورتوں کے لیے کئی سینٹر بنائے، ایک تنظیم 'ناری سبھا' کے نام سے قائم کی، اس کے علاوہ مذہب اور مسلک کی تفریق کے بغیر سندھ میں عورتوں کی سماجی ترقی کے لیے دن رات کام کیا۔ سندھ کے فیوڈل اور قبائلی سرداروں کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم کو آگے بڑھانے کی جدوجہد پر دادی لیلا وتی کو جان سے ماردینے کی دھمکیاں بھی ملیں لیکن انھوں نے ان باتوں کی پروا نہ کی۔ صوبے کے بیشتر سیاسی، سماجی اور ادبی حلقے ان کا احترام کرتے تھے۔
1985 میں وہ سندھ اسمبلی کی ممبر بنیں۔ رکن اسمبلی ہونے کی وجہ سے یہ ان کے لیے آسان ہوگیا کہ وہ سندھ کے دور دراز علاقوں میں سرکاری اسکول کھلوائیں اور وہ اسکول جو بند ہوگئے تھے، ان میں ایک بار پھر سے پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ انھوں نے سندھی عورت کی ترقی کے لیے جو کام آغاز کیا تھا، وہ آج بھی جاری ہے اور یہ ان جیسی عورتوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ تھرپارکر اور ننگر پارکر جیسے پچھڑے ہوئے علاقے کی عورتیں ڈمپر ٹرک ڈرائیور کی تربیت لے رہی ہیں۔ وہ ملکی معیشت کی ترقی اور اپنے خاندان کی خوش حالی کا وسیلہ بنیں گی۔
ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے بھی یورپ کی عورتوں کے لیے بہت سی حد بندیاں توڑ دی تھیں۔ وہاں بھی عورتیں ایمبولینس گاڑیاں، راشن پہنچانے والے ٹرک اور محاذ جنگ سے زخمیوں کو بڑے اسپتالوں میں پہنچانے کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ جنگ کی خوفناک صورت حال ایک طرف رہی، 30 کی دہائی سے سوویت یونین اور اشتراکی بلاک کے دوسرے تمام ملکوں میں وہاں کی عورتوں نے کمر توڑ مشقت کی۔ ٹرین ڈرائیور ہونا، ہائی وے پر بار برداری کے ٹرک چلانا اور تعمیراتی کاموں میں حصہ لینا، ان کے لیے روزمرہ کی بات ہوگئی تھی۔
اس دور کا سوویت ادب پڑھیے یا بلغاریہ، ہنگری، مشرقی جرمنی، پولینڈ اور مشرقی یورپ کے دوسرے ملکوں کے رسائل اور ناولوں پر نظر کیجیے، ان ناولوں اور کہانیوں کی ہیروئین مغربی یورپ، امریکا اور خود ہمارے برصغیر کی اکثر ہیروئینوں سے قطعاً مختلف ہے۔ ہماری گھاٹنیں، مچھیرنیں، تغاری اٹھانے،کھیتوں اور کار خانوں میں کام کرنے والیوں کی ایک دوسری ہی تصویر ہماری نگاہوں کے سامنے ابھرتی ہے۔ سندھ کی دادی لیلاوتی ہوں، آج کی تھری ٹرک ڈرائیور گلابن ہو یا ڈاکٹر رشید جہاں، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی اور منٹو کے قلم سے وجود میں آنے والی ہیروئنیں، یہ سب زندگی کے کار زار میں اپنا اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔
برصغیر کی وہ خواتین جنہوں نے لڑکیوں کے لیے چھوٹے اور بڑے اسکول قائم کیے، طعنہ و دشنام جن کا مقدر ہوا، لڑکیوں کو تعلیم دینے کی کوششوں میں جنھیں آوارہ اور بدچلن کہا گیا اور بہت سے علاقوں میں ان کا سماجی طور پر بائیکاٹ ہوا۔ یہ ان ہی کی کاوشوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے کہ 1947 میں صغرا فاطمہ نے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا۔
پاکستان بننے کے بعد گرلز گائیڈ بنیں، بیگم رعنا لیاقت علی خان کے قائم کیے ہوئے انڈسٹریل ہوم سے کتنی ہی عورتیں اور لڑکیاں باہُنر ہوئیں اور انھوں نے عزت سے روزی کمائی، اپنے گھر والوں کی دست گیری کی۔ نرس بنیں، ڈاکٹر بن کر انسانوں کا دکھ درد بانٹا، اسکول میں پڑھانے والیوں کی کیا بات کی جائے کہ انھوں نے کیا شاندار نسلوں کی پرورش کی۔ آج ہماری لڑکیاں مسافر برداراور لڑاکا طیارے اڑاتی ہیں۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ان کی کارکردگی قابل رشک ہے، انجینئرنگ کے مختلف شعبوں میں وہ پیش پیش ہیں۔ رشیدۃ النسا، رقیہ سخاوت حسین اور سلمیٰ زمن سے لے کر دادی لیلاوتی اور تھر کی گلابن تک سب ہی نے کمال کیا ہے۔