مجھے ہے حْکمِ اذاں…
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی صورتحال کے گھمبیر ہونے کی تصدیق کی ہے
شمال مغربی میانمار (برما) میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑنے اور فوج کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے بعد متاثرہ پناہ گزینوں کے پڑوسی ملک بنگلادیش پہنچنے کا سلسلہ جاری ہے اور اقوام متحدہ کا ادارہ ان کی تعداد 3 لاکھ تک پہنچنے کی توقع کر رہا ہے، جو ایک قسم کا انتباہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو ہنگامی بنیادوں پر خوراک کی فراہمی کے لیے وسائل کی کمی سنگین مسئلہ بن سکتی ہے۔
بنگلادیش کے سرحدی علاقے کاکسس بازار میں امدادی کارروایوں میں مصروف اقوام متحدہ کے رضاکاروں نے جو اعداد و شمار فراہم کیے ہیں ان کے مطابق وہاں بڑے پیمانے پر ہونے والی قتل وغارتگری کے بعد اب تک کوئی 46 ہزار روہنگیا پناہ گزین بنگلادیش پہنچ چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج کے شروع کردہ بے رحمانہ اور ظالمانہ آپریشن نے انھیں پناہ کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اقوام متحدہ کے حکام کا اندازہ ہے کہ پناہ گزینوں کی تعداد سوا لاکھ سے تین لاکھ کے درمیان ہوسکتی ہے، عالمی خوراک پروگرام کے بنگلہ دیشی ترجمان دیپاین بھٹہ اچاریہ بھی ان سے متفق ہیں جن کا کہنا ہے کہ پناہ گزین جان بچا کر نکلے ہیں اور لٹی پٹی حالت میں خالی ہاتھ یہاں پہنچے ہیں، ان کے پاس کھانے پینے کا اتنا سامان بھی نہیں کہ وہ مہینہ بھر گزارہ کرلیں، وہ بھوکے اور سخت خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔
دریں اثناء میانمار کا کہنا ہے کہ وہ ان مسلم کش فسادات کے ردعمل کے طور پر سلامتی کونسل کی طرف سے اس کی ممکنہ مذمت سے بچنے کے لیے چین اور روس سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی لیڈرآنگ سان سوچی نے ''دہشت گردوں'' پر الزام لگایا کہ وہ شمال مغربی صوبے راکھائن میں قتل وغارتگری کی کہانیاں بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں، تاہم اپنے بیان میں انھوں نے پناہ کی تلاش میں ملک چھوڑنے والے روہنگیا مسلمانوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
میانمارکے قومی سلامتی کے مشیر تھانگ تن نے دارالحکومت نیپتا میں ایک نیوزکانفرنس میں کہا کہ ان کا ملک چین اور روس کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کو اس بحران کے حوالے سے کوئی قرارداد منظور نہ کرنے دیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہم کچھ دوسرے دوست ممالک سے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ یہ معاملہ سلامتی کونسل میں نہ لے جائیں۔ ان کے بقول ''چین ہمارا دوست ہے اور روس کے ساتھ بھی ہمارے اسی طرح کے دوستانہ تعلقات ہیں، اس لیے اس معاملے کا آگے تک جانا ممکن نہیں ہے۔''
سوچی نے ترکی کے صدر طیب اردوان سے بھی فون پر بات کی جو عالمی رہنماؤں پر نسل کشی کے خطرے میں گھرے ہوئے گیارہ لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اْدھر ڈھاکہ میں سرکاری ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ میانمار کچھ دنوں سے بنگلادیش سے ملنے والے اپنے سرحدی علاقے میں بارودی سرنگیں بچھا رہا ہے جس کا مقصد بظاہر ریاستی دہشتگردی سے بچنے کے لیے روہنگیا پناہ گزینوں کو بنگلادیش میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ ذرایع نے مزید بتایا کہ بنگلادیش نے سرحد کے اس قدر قریب بارودی سرنگیں بچھانے پر باقاعدہ احتجاج بھی کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی صورتحال کے گھمبیر ہونے کی تصدیق کی ہے جس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرکینتھ روتھ نے کہا ہے کہ صورتحال اس وقت تک ابتر ہی رہے گی جب تک کوئی برما سے نہیں کہے گا کہ بس کرو، بہت ہوگیا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مظلوم روہنگیا مسلمانوں سے ہمدردی و یکجہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے، اب تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بھی صدائے احتجاج بلند ہوتی صاف سنائی دے رہی ہے۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مجالس قائمہ برائے انسانی حقوق کے سربراہوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ میانمارکی حکمراں جماعت کی سربراہ اور ملک کی ڈی فیکٹو لیڈر، آنگ سان سوچی کو دیا جانے والا صدارتی میڈل واپس لیا جائے کیونکہ وہ اپنے ملک میں روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کو روکنے تو کجا اس کی مذمت کرنے میں بھی ناکام رہی ہیں۔
انھوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ بنگلادیش میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے نہ صرف فوری طور پر خصوصی فنڈ قائم کیا جائے بلکہ میانمار سے سفارتی تعلقات معطل اور اس کے سامان کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ او آئی سی اور اقوام متحدہ سے رابطہ کرکے مسئلے کا فوری حل تلاش کیا جائے۔
ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق قائمہ کمیٹی کی چیئر پرسن نسرین جلیل نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں حالیہ کچھ دنوں کے دوران جو تیزی آئی ہے اس کے پیش نظر پاکستان کو چاہیے کہ وہ مالدیپ کی تقلید کرتے ہوئے میانمار سے تجارت فوری طور پر بند کردے۔ انھوں نے کہا کہ بنگلادیش اس بہانے پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے کہ وہ اس کا اقتصادی بوجھ نہیں اٹھا سکتا، لہذا اسلامی ملکوں کو ان کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے۔ نسرین جلیل کی رائے میں روہنگیا مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کے پیش نظر حکومت پاکستان کو ایک واضح پالیسی بنانی اور اس پر پارلیمان کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرپرسن بابر نواز نے بتایا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار حکومت کے مظالم کے حوالے سے سفارتکاروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ میانمار سے روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کی بڑے پمانے پر نقل مکانی کے باوجود وہاں خصوصاً فساد زدہ صوبے راکھائن میں خونریزی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، بنگلادیش اور میانمار کی سرحد پر دریائے نائف کے آخری سرے پر سمندر میں پناہ گزینوں کی 3 سے 4 کشتیوں کے ڈوبنے کی بھی اطلاعات ہیں، اب تک کئی بچوں کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں۔
برطانوی میڈیا کیمطابق بنگلادیش پہنچنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے سلامتی کونسل کو خط لکھ کر راکھائن کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر تشدد کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو یہ بڑے انسانی بحران میں تبدیل ہوسکتا ہے، ان کے بقول موجودہ صورتحال خطے کو عدم استحکام سے بھی دوچارکرسکتا ہے ۔
اقوام متحدہ میں روسی سفیر نے بتایا ہے کہ میانمارکی صورتحال پر غورکرنے کے لیے 15 رکنی سلامتی کونسل کا جو خفیہ اجلاس پچھلے ہفتے ہوا تھا اس کے بھیجے ہوئے سگنل کیمطابق عالمی ادارہ کشیدگی میں فوری کمی چاہتا ہے، اس پر بھارت کا یہ ردعمل سامنے آیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر میانمارکی لیڈر آنگ سان سوچی کے موقف کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ان کے میانمار کے حالیہ دورے کے موقعے پر دونوں کی ملاقات بھی ہوئی، مودی نے کہا وہ میانمار کے سیکیورٹی تحفظات کو سجھتے ہیں اور سوچی نے اپنے موقف کی حمایت کرنے پر بھارت کا شکریہ ادا کیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، وفاقی کابینہ نے اپنے اجلاس میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر قراردادِ مذمت منظور کی ہے اور اقوام متحدہ سے مسلمانوں کی نسل کشی رکوانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن جس چیزکو بڑی شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے وہ اسلامی ملکوں کی تنظیم خصوصاً عرب ممالک کی بے حسی اور بے عملی ہے، صرف ترکی واحد مسلمان ملک ہے جو پہلے دن سے اپنے روہنگیا بھائیوں کے لیے آواز ہی نہیں اٹھا رہا، ان کی مقدور بھر مدد بھی کررہا ہے اور صدر طیب اردوان عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الہ الا للہ
بنگلادیش کے سرحدی علاقے کاکسس بازار میں امدادی کارروایوں میں مصروف اقوام متحدہ کے رضاکاروں نے جو اعداد و شمار فراہم کیے ہیں ان کے مطابق وہاں بڑے پیمانے پر ہونے والی قتل وغارتگری کے بعد اب تک کوئی 46 ہزار روہنگیا پناہ گزین بنگلادیش پہنچ چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج کے شروع کردہ بے رحمانہ اور ظالمانہ آپریشن نے انھیں پناہ کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اقوام متحدہ کے حکام کا اندازہ ہے کہ پناہ گزینوں کی تعداد سوا لاکھ سے تین لاکھ کے درمیان ہوسکتی ہے، عالمی خوراک پروگرام کے بنگلہ دیشی ترجمان دیپاین بھٹہ اچاریہ بھی ان سے متفق ہیں جن کا کہنا ہے کہ پناہ گزین جان بچا کر نکلے ہیں اور لٹی پٹی حالت میں خالی ہاتھ یہاں پہنچے ہیں، ان کے پاس کھانے پینے کا اتنا سامان بھی نہیں کہ وہ مہینہ بھر گزارہ کرلیں، وہ بھوکے اور سخت خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔
دریں اثناء میانمار کا کہنا ہے کہ وہ ان مسلم کش فسادات کے ردعمل کے طور پر سلامتی کونسل کی طرف سے اس کی ممکنہ مذمت سے بچنے کے لیے چین اور روس سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی لیڈرآنگ سان سوچی نے ''دہشت گردوں'' پر الزام لگایا کہ وہ شمال مغربی صوبے راکھائن میں قتل وغارتگری کی کہانیاں بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں، تاہم اپنے بیان میں انھوں نے پناہ کی تلاش میں ملک چھوڑنے والے روہنگیا مسلمانوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
میانمارکے قومی سلامتی کے مشیر تھانگ تن نے دارالحکومت نیپتا میں ایک نیوزکانفرنس میں کہا کہ ان کا ملک چین اور روس کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کو اس بحران کے حوالے سے کوئی قرارداد منظور نہ کرنے دیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہم کچھ دوسرے دوست ممالک سے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ یہ معاملہ سلامتی کونسل میں نہ لے جائیں۔ ان کے بقول ''چین ہمارا دوست ہے اور روس کے ساتھ بھی ہمارے اسی طرح کے دوستانہ تعلقات ہیں، اس لیے اس معاملے کا آگے تک جانا ممکن نہیں ہے۔''
سوچی نے ترکی کے صدر طیب اردوان سے بھی فون پر بات کی جو عالمی رہنماؤں پر نسل کشی کے خطرے میں گھرے ہوئے گیارہ لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اْدھر ڈھاکہ میں سرکاری ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ میانمار کچھ دنوں سے بنگلادیش سے ملنے والے اپنے سرحدی علاقے میں بارودی سرنگیں بچھا رہا ہے جس کا مقصد بظاہر ریاستی دہشتگردی سے بچنے کے لیے روہنگیا پناہ گزینوں کو بنگلادیش میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ ذرایع نے مزید بتایا کہ بنگلادیش نے سرحد کے اس قدر قریب بارودی سرنگیں بچھانے پر باقاعدہ احتجاج بھی کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی صورتحال کے گھمبیر ہونے کی تصدیق کی ہے جس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرکینتھ روتھ نے کہا ہے کہ صورتحال اس وقت تک ابتر ہی رہے گی جب تک کوئی برما سے نہیں کہے گا کہ بس کرو، بہت ہوگیا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مظلوم روہنگیا مسلمانوں سے ہمدردی و یکجہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے، اب تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بھی صدائے احتجاج بلند ہوتی صاف سنائی دے رہی ہے۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مجالس قائمہ برائے انسانی حقوق کے سربراہوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ میانمارکی حکمراں جماعت کی سربراہ اور ملک کی ڈی فیکٹو لیڈر، آنگ سان سوچی کو دیا جانے والا صدارتی میڈل واپس لیا جائے کیونکہ وہ اپنے ملک میں روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کو روکنے تو کجا اس کی مذمت کرنے میں بھی ناکام رہی ہیں۔
انھوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ بنگلادیش میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے نہ صرف فوری طور پر خصوصی فنڈ قائم کیا جائے بلکہ میانمار سے سفارتی تعلقات معطل اور اس کے سامان کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ او آئی سی اور اقوام متحدہ سے رابطہ کرکے مسئلے کا فوری حل تلاش کیا جائے۔
ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق قائمہ کمیٹی کی چیئر پرسن نسرین جلیل نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں حالیہ کچھ دنوں کے دوران جو تیزی آئی ہے اس کے پیش نظر پاکستان کو چاہیے کہ وہ مالدیپ کی تقلید کرتے ہوئے میانمار سے تجارت فوری طور پر بند کردے۔ انھوں نے کہا کہ بنگلادیش اس بہانے پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے کہ وہ اس کا اقتصادی بوجھ نہیں اٹھا سکتا، لہذا اسلامی ملکوں کو ان کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے۔ نسرین جلیل کی رائے میں روہنگیا مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کے پیش نظر حکومت پاکستان کو ایک واضح پالیسی بنانی اور اس پر پارلیمان کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرپرسن بابر نواز نے بتایا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار حکومت کے مظالم کے حوالے سے سفارتکاروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ میانمار سے روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کی بڑے پمانے پر نقل مکانی کے باوجود وہاں خصوصاً فساد زدہ صوبے راکھائن میں خونریزی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، بنگلادیش اور میانمار کی سرحد پر دریائے نائف کے آخری سرے پر سمندر میں پناہ گزینوں کی 3 سے 4 کشتیوں کے ڈوبنے کی بھی اطلاعات ہیں، اب تک کئی بچوں کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں۔
برطانوی میڈیا کیمطابق بنگلادیش پہنچنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے سلامتی کونسل کو خط لکھ کر راکھائن کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر تشدد کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو یہ بڑے انسانی بحران میں تبدیل ہوسکتا ہے، ان کے بقول موجودہ صورتحال خطے کو عدم استحکام سے بھی دوچارکرسکتا ہے ۔
اقوام متحدہ میں روسی سفیر نے بتایا ہے کہ میانمارکی صورتحال پر غورکرنے کے لیے 15 رکنی سلامتی کونسل کا جو خفیہ اجلاس پچھلے ہفتے ہوا تھا اس کے بھیجے ہوئے سگنل کیمطابق عالمی ادارہ کشیدگی میں فوری کمی چاہتا ہے، اس پر بھارت کا یہ ردعمل سامنے آیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر میانمارکی لیڈر آنگ سان سوچی کے موقف کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ان کے میانمار کے حالیہ دورے کے موقعے پر دونوں کی ملاقات بھی ہوئی، مودی نے کہا وہ میانمار کے سیکیورٹی تحفظات کو سجھتے ہیں اور سوچی نے اپنے موقف کی حمایت کرنے پر بھارت کا شکریہ ادا کیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، وفاقی کابینہ نے اپنے اجلاس میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر قراردادِ مذمت منظور کی ہے اور اقوام متحدہ سے مسلمانوں کی نسل کشی رکوانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن جس چیزکو بڑی شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے وہ اسلامی ملکوں کی تنظیم خصوصاً عرب ممالک کی بے حسی اور بے عملی ہے، صرف ترکی واحد مسلمان ملک ہے جو پہلے دن سے اپنے روہنگیا بھائیوں کے لیے آواز ہی نہیں اٹھا رہا، ان کی مقدور بھر مدد بھی کررہا ہے اور صدر طیب اردوان عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الہ الا للہ