مردم شماری میں مختلف نقائص ہیں عالمی مبصرین کا انکشاف

تشہیری مہم ناکافی تھی، فارم 786 کے ذریعے اداروں کے ساتھ معلومات شیئر کرنے سے رازداری کو نقصان پہنچا، مبصرین کی رپورٹ

فوج کے فارم 786 سے متعلق آگاہ کر دیا تھا اعتراض نہیں بنتا، مبصرین نے کئی چیزیں قیاس کر لیں، سربراہ ادارہ شماریات آصف باجوہ۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR:
مردم شماری 2017 کے عمل کے دوران مختلف نقائص کا انکشاف ہوا ہے اور عالمی مبصرین نے کہا ہے کہ مردم شماری کے اعداد و شمار کو اداروں کے ساتھ شئیرکرنے سے اعداد و شمار کی رازداری کو نقصان پہنچا۔

مردم شماری کے عمل کی نگرانی پر مامور عالمی مبصرین کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق مردم شماری کے عمل کے آغازسے قبل تشہیری مہم ناکافی تھی اور مردم شماری کے ضلعی اور تحصیل دفاتر میں چند دفاتر اور بینرز آویزاں کیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق شمارکنندگان نے مذہب،قومیت توانائی کے استعمال، پانی ،گھریلو سہولتوں اور خواندگی کے بارے میں سوالات پر قیاس آرائی سے کام کیا یاجواب سے متعلق ہدایات دیں۔

مبصرین کی رپورٹ کے مطابق شمارکنندگان نے معذوری اورخواجہ سرا ہونے سے متعلق محدودمعلومات پرنتائج اخذ کرلیے۔ رپورٹ کے مطابق مبصرین نے تفصیلی اوردیرپا تشہیری مہم کی ضرورت پر زور دیا ہے اگر ایسا ہوتا تو موصول ہونے والی شکایات میں کمی لائی جا سکتی تھی،مبصرین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ شمارکنندگا ن کو معاوضے کی ادائیگی میں تاخیرکی گئی۔


رپورٹ کے مطابق مردم شماری کے عمل میںفوج کی شمولیت کی بین الاقوامی سطح پرحمایت نہیں کی جاتی ،فوج کی جانب سے فارم 786 ایک مساوی مردم شماری کے مترادف ہے اوریہ بین الاقوامی سطح پرقابل قبول نہیں ہے۔

مبصرین کی جانب سے کہاگیاہے کہ اگرمردم شماری کوقومی قانون سازی اورمردم شماری کے بنیادی اصولوں بشمول عالمی معیار کے مطابق کرنا ہے تومذکورہ بالا تمام مسائل کا فوری طورپرازالہ ضروری ہے۔ اس حوالے سے جب مردم شماری کے بارے میں ادارہ شماریات کے سربراہ آصف باجوہ سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیاگیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عالمی مبصرین کو آزادانہ ماحول دیا ہے جوڈیٹا بھی مرتب کیا گیا ہے وہ مدعاعلیہان سے ملنے والے جوابات پرمبنی ہے، اگرجوابات قیاس آرائی یا ذاتی رائے پرمرتب کیے جاتے تو خواجہ سراؤں کی تعداد 10 ہزارنہ ہوتی۔

آصف باجوہ کا مزید کہنا تھا کہ مبصرین کو بتایا تھا کہ 1998کی مردم شماری میں بھی فوج کا فارم 786استعمال کیا گیا تھا اوراس کوعالمی اداروں نے تسلیم کیا تھا تو اب اس پراعتراض کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی، مبصرین نے کئی چیزیں قیاس کرلی ہیں۔
Load Next Story