جو عطا کرنے کا اہل نہیں
رشتے خون کے ہوں یا احساس کے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں
جس طرح موسموں میں تغیر پایا جاتا ہے، بالکل اسی طرح انسانی فطرت ہے، یہ فطرت یکسانیت سے اکتا جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بہت سی پرانی روایات ختم ہو جاتی ہیں اور نئی ترجیحات جنم لیتی ہیں۔ ہر وہ نئی روایت جو انسانی قدروں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے، زندگی کو بہتری کی طرف لے کر جاتی ہے۔ بصورت دیگر سماجی زندگی میں انتشار پھیل جاتا ہے۔ بے یقینی، انتشار و غلط فہمی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہیں۔ بے یقینی اور افواہیں، اشتہاری زندگی کا اہم جزو ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نفرتیں بڑھی ہیں۔
گزرے ہوئے وقتوں میں لوگوں کے اعصاب مضبوط ہوا کرتے تھے۔ منفی بات کا اثرکم لیتے تھے۔ جو سنتے، تصدیق کیے بغیر اس بات پر یقین نہیں کرتے تھے لہٰذا گمان سے بچے رہتے۔ علم، دکھاؤے یا مقابلے کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ مثبت سوچ اور فلاحی رویوں کو تشکیل دیتا، مگر آج صورتحال مختلف ہے۔ انسانی اعصاب حد درجہ متاثر ہیں۔ برداشت کم اور غصہ زیادہ ہے۔ انفرادی سوچ، خودستائشی رویے اور ذاتی مفاد نے دلوں میں نفاق کی دراڑیں ڈال دی ہیں۔
یقین اور محبت یہ دو رویے انسانی زندگی میں سکون اور اعتدال پیدا کرتے ہیں۔ آج کل یہ ناپید ہیں۔ شاہ لطیف نے اپنی شاعری کے توسط سے ان تمام منفی رویوں کی نفی کی ہے جو انسانی زندگی میں بے یقینی پیدا کرتے ہیں۔شاہ لطیف فرماتے ہیں:
شیرینی ہی شیرینی ہے' جو کچھ پریتم دے
دل سے گر چکھ لے' ذرا نہیں کڑواہٹ
رابطوں میں انتشارکی وجہ دہرا معیار اور زیادہ توقعات ہیں۔ بددلی سے کوئی رشتہ نہیں نبھایا جا سکتا ہے۔ جب تک دل اور روح شامل نہ ہوں، رشتے اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ جو دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا ہے، اس کے اپنے من میں کھوٹ ہے، اگر لہجے میں محبت کی چاشنی ہو تو پرائے بھی اپنے بن جاتے ہیں۔ رشتے خون کے ہوں یا احساس کے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ نیچا دکھانے کے مقابلے پروان چڑھتے ہیں اور نفرت کے گڑھے کھودے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ منفی رویے معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی محبت کے امرت سے منہ موڑ لیا گیا ہے۔ بقول شاہ لطیف کے:
تیر چڑھا چلے پر' ساجن مار نہ موہے
تیر لگے گا توہے' مجھ میں تو ہے ساجن
ایک تعلق کے ساتھ بہت سے رابطے جڑے ہوتے ہیں۔ احساس کا آئینہ ٹوٹتا ہے تو بہت سے ہاتھ زخمی ہوتے ہیں، ان کرچیوں کو سمیٹنے کی کوشش میں۔ مگر انسانی مزاج ہی عجب ہے۔ اذیت پسندی اس کی سرشت میں شامل ہے۔ تمام تر مسائل کا حل فقط محبت کرنے میں ہے۔ محبت کے بہت سارے سلسلے ہیں۔ محبت بھرے دل کے کان روشن ہوتے ہیں، لہٰذا غلط فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ محبت کی تاثیر شفاف بنانا ہے۔
برا کہے جب کوئی' خود میں رہ تو مگن
غیظ و غضب تو سائیں' دکھ کا ہیں کارن
وہ ہیں خالی دامن' جن کے من میں کینہ
(شاہ)
انسان نفرت کر کے کبھی خوش نہیں رہ سکتا، وہ محبت بانٹ کے سکھی رہتا ہے، مگر عطا کرنے کا عرفان ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ جو عطا کرنے کا اہل نہیں ہے وہ پانے کا بھی حقدار نہیں ہے۔ اس کی جیت عارضی ہے، جو جلد شکست کے دکھ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
من میں اندھیرا ہو تو باہر روشنی کی تلاش فضول ہے۔ روح کا پھول نہ مہکے تو باغ میں جانے کا کیا فائدہ؟ جو خوشی کا جواز ڈھونڈتے ہیں وہ زندگی کے خالص پن سے دور ہیں۔ اسے ہجوم سے کیا ملے گا جو تنہائی سے دوستی نہ کر پایا۔ محبت کا آغاز جو گھر سے نہیں کرتے، ان کے دروازے پر خوشحالی دستک دینا بھول جاتی ہے۔ قریبی رشتوں کو چھوڑ کر دنیا پر محبت نچھاور کرتے ہیں۔
پریتم آپ پلائیں تو پئیں بجھائیں پیاس
ورنہ چشمہ رحمت سے' آئے نہ قطرہ راس
(شاہ)
درحقیقت تمام تر انتشارکی وجہ چیزوں کا مدار سے ہٹنا ہے۔ جس میں محبت کا خالص پن بھی شامل ہے۔ محبت کے مزاج میں سمجھ نہ ہو تو وہ مسیحائی کی تاثیر نہیں رکھتی۔ خالق کائنات تک پہنچنے کا وسیلہ بھی وہ احساس بنتا ہے جو انسانیت کی روح سے جڑا ہوا ہے۔ شاہ کی سوچ عام بھلائی کے تصور سے وابستہ ہے۔ جس طرح مذہب کو ہر دور میں دنیاوی مفاد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، اسی طرح تصوف کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔ صوفی شاعری یا پیغام کی حقیقت کو سمجھے بنا اسے اجاگر نہیں کیا جاسکتا یا تصوف کو محض نظریہ بنا کے پیش کیا جائے جو عمل کی اہمیت سے غافل ہو۔ صوفی کے نزدیک محبت کا جو بھی رنگ ہے، جو بھی انداز ہے وہ انسانی شخصیت میں معنویت کے رنگ بھرتی ہے۔
وجود کی سمجھ کے زینے سے، ذہن کائنات کے لازوال کو جان پاتا ہے، پھر باقی زینے طے کرتا ہے۔ جس میں ایثار، صبر، حزن و ملال، کسر نفسی، عفو و درگزر و دیگر مثبت رویے شامل ہیں جو انسان کے اندر نرمی اور انسانیت سے ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔ ذات کی نفی کے بغیر وہ فاصلہ طے نہیں ہو پاتا، جو محبت کی منزل پر جا کے ختم ہوتا ہے۔ دنیاوی محبت غرض کی آمیزش لیے ہوتی ہے، مگر عشق حقیقی جستجو کا لامتناہی سمندر ہے۔ مجازی محبت کے بغیر عشق حقیقی کی تڑپ پیدا نہیں ہوتی۔ یہ تعلق کی ڈور ہے، جس میں زندگی تمام ترکائنات کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ یہ رابطے کا دائرہ ہے، جو اپنے محور پر قائم رہتا ہے۔ محبت عاجزی کی دین ہے۔
تن تندور کی مانند دہکے' مار ذرا سا چھینٹا
من میں عجز کی آگ جلا کر' اپنی جان جلا
اپنے اندر منزل منزل' آگے بڑھتا جا
کہے لطیف کہ پیار کی اگنی' اور کو مت دکھلا
کہیں یہ دکھلاوا' وصل کے آڑے آئے
گزرے ہوئے وقتوں میں لوگوں کے اعصاب مضبوط ہوا کرتے تھے۔ منفی بات کا اثرکم لیتے تھے۔ جو سنتے، تصدیق کیے بغیر اس بات پر یقین نہیں کرتے تھے لہٰذا گمان سے بچے رہتے۔ علم، دکھاؤے یا مقابلے کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ مثبت سوچ اور فلاحی رویوں کو تشکیل دیتا، مگر آج صورتحال مختلف ہے۔ انسانی اعصاب حد درجہ متاثر ہیں۔ برداشت کم اور غصہ زیادہ ہے۔ انفرادی سوچ، خودستائشی رویے اور ذاتی مفاد نے دلوں میں نفاق کی دراڑیں ڈال دی ہیں۔
یقین اور محبت یہ دو رویے انسانی زندگی میں سکون اور اعتدال پیدا کرتے ہیں۔ آج کل یہ ناپید ہیں۔ شاہ لطیف نے اپنی شاعری کے توسط سے ان تمام منفی رویوں کی نفی کی ہے جو انسانی زندگی میں بے یقینی پیدا کرتے ہیں۔شاہ لطیف فرماتے ہیں:
شیرینی ہی شیرینی ہے' جو کچھ پریتم دے
دل سے گر چکھ لے' ذرا نہیں کڑواہٹ
رابطوں میں انتشارکی وجہ دہرا معیار اور زیادہ توقعات ہیں۔ بددلی سے کوئی رشتہ نہیں نبھایا جا سکتا ہے۔ جب تک دل اور روح شامل نہ ہوں، رشتے اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ جو دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا ہے، اس کے اپنے من میں کھوٹ ہے، اگر لہجے میں محبت کی چاشنی ہو تو پرائے بھی اپنے بن جاتے ہیں۔ رشتے خون کے ہوں یا احساس کے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ نیچا دکھانے کے مقابلے پروان چڑھتے ہیں اور نفرت کے گڑھے کھودے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ منفی رویے معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی محبت کے امرت سے منہ موڑ لیا گیا ہے۔ بقول شاہ لطیف کے:
تیر چڑھا چلے پر' ساجن مار نہ موہے
تیر لگے گا توہے' مجھ میں تو ہے ساجن
ایک تعلق کے ساتھ بہت سے رابطے جڑے ہوتے ہیں۔ احساس کا آئینہ ٹوٹتا ہے تو بہت سے ہاتھ زخمی ہوتے ہیں، ان کرچیوں کو سمیٹنے کی کوشش میں۔ مگر انسانی مزاج ہی عجب ہے۔ اذیت پسندی اس کی سرشت میں شامل ہے۔ تمام تر مسائل کا حل فقط محبت کرنے میں ہے۔ محبت کے بہت سارے سلسلے ہیں۔ محبت بھرے دل کے کان روشن ہوتے ہیں، لہٰذا غلط فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ محبت کی تاثیر شفاف بنانا ہے۔
برا کہے جب کوئی' خود میں رہ تو مگن
غیظ و غضب تو سائیں' دکھ کا ہیں کارن
وہ ہیں خالی دامن' جن کے من میں کینہ
(شاہ)
انسان نفرت کر کے کبھی خوش نہیں رہ سکتا، وہ محبت بانٹ کے سکھی رہتا ہے، مگر عطا کرنے کا عرفان ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ جو عطا کرنے کا اہل نہیں ہے وہ پانے کا بھی حقدار نہیں ہے۔ اس کی جیت عارضی ہے، جو جلد شکست کے دکھ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
من میں اندھیرا ہو تو باہر روشنی کی تلاش فضول ہے۔ روح کا پھول نہ مہکے تو باغ میں جانے کا کیا فائدہ؟ جو خوشی کا جواز ڈھونڈتے ہیں وہ زندگی کے خالص پن سے دور ہیں۔ اسے ہجوم سے کیا ملے گا جو تنہائی سے دوستی نہ کر پایا۔ محبت کا آغاز جو گھر سے نہیں کرتے، ان کے دروازے پر خوشحالی دستک دینا بھول جاتی ہے۔ قریبی رشتوں کو چھوڑ کر دنیا پر محبت نچھاور کرتے ہیں۔
پریتم آپ پلائیں تو پئیں بجھائیں پیاس
ورنہ چشمہ رحمت سے' آئے نہ قطرہ راس
(شاہ)
درحقیقت تمام تر انتشارکی وجہ چیزوں کا مدار سے ہٹنا ہے۔ جس میں محبت کا خالص پن بھی شامل ہے۔ محبت کے مزاج میں سمجھ نہ ہو تو وہ مسیحائی کی تاثیر نہیں رکھتی۔ خالق کائنات تک پہنچنے کا وسیلہ بھی وہ احساس بنتا ہے جو انسانیت کی روح سے جڑا ہوا ہے۔ شاہ کی سوچ عام بھلائی کے تصور سے وابستہ ہے۔ جس طرح مذہب کو ہر دور میں دنیاوی مفاد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، اسی طرح تصوف کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔ صوفی شاعری یا پیغام کی حقیقت کو سمجھے بنا اسے اجاگر نہیں کیا جاسکتا یا تصوف کو محض نظریہ بنا کے پیش کیا جائے جو عمل کی اہمیت سے غافل ہو۔ صوفی کے نزدیک محبت کا جو بھی رنگ ہے، جو بھی انداز ہے وہ انسانی شخصیت میں معنویت کے رنگ بھرتی ہے۔
وجود کی سمجھ کے زینے سے، ذہن کائنات کے لازوال کو جان پاتا ہے، پھر باقی زینے طے کرتا ہے۔ جس میں ایثار، صبر، حزن و ملال، کسر نفسی، عفو و درگزر و دیگر مثبت رویے شامل ہیں جو انسان کے اندر نرمی اور انسانیت سے ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔ ذات کی نفی کے بغیر وہ فاصلہ طے نہیں ہو پاتا، جو محبت کی منزل پر جا کے ختم ہوتا ہے۔ دنیاوی محبت غرض کی آمیزش لیے ہوتی ہے، مگر عشق حقیقی جستجو کا لامتناہی سمندر ہے۔ مجازی محبت کے بغیر عشق حقیقی کی تڑپ پیدا نہیں ہوتی۔ یہ تعلق کی ڈور ہے، جس میں زندگی تمام ترکائنات کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ یہ رابطے کا دائرہ ہے، جو اپنے محور پر قائم رہتا ہے۔ محبت عاجزی کی دین ہے۔
تن تندور کی مانند دہکے' مار ذرا سا چھینٹا
من میں عجز کی آگ جلا کر' اپنی جان جلا
اپنے اندر منزل منزل' آگے بڑھتا جا
کہے لطیف کہ پیار کی اگنی' اور کو مت دکھلا
کہیں یہ دکھلاوا' وصل کے آڑے آئے