حقوق العباد موومنٹ
فرمان نبویؐ ہے کہ ’’کوئی مسلمان جھوٹا نہیں ہوسکتا۔
فرض کیجیے ایک شخص نہ صرف حرام جانورکا گوشت کھاتا ہے بلکہ یہ اس کا گویا معمول سا بنا ہوا ہے، مگر ساتھ ہی یہ شخص کوئی نمازکوئی روزہ نہیں چھوڑتا، حج اور عمرے کرتا ہے، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات میں بھی آگے آگے رہتا ہے۔ تو کیا اس کی ان سب عبادتوں، ریاضتوں، نیکیوں سے اس کے لیے حرام جانور کا گوشت حلال ہو جائے گا؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ وہ حرام مال جس کے بارے میں رب العالمین کے آخری نبیؐ نے فرمایا کہ ''جو بھی کوئی حج یا عمرہ کے لیے جائے جب پہلی بار اس کی نظر بیت اللہ پر پڑے تو وہ جو بھی دعا مانگے، قبول ہو جاتی ہے، لیکن اگر کوئی صحراؤں میں طویل سفر کرکے آیا ہو، تھکاوٹ سے نڈھال ہو تو بھی اگر اس کی کمائی حلال کی نہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی ایسی دعا بھی قبول نہیں فرماتے۔'' ہم نے پھر کیسے اپنے لیے حکمرانوں سے لے کر ایک عام آدمی تک کے لیے حرام مال کو حلال کردیا کہ معاشرے میں حرام حلال کی تمیز ہی ختم ہوگئی ہے۔
چار پانچ عشرے قبل اسی معاشرے میں کرپشن بے ایمانی کا مال کمانے اور کھانے والے چھپ چھپا کے یہ کرتے تھے، معاشرہ ان کا سوشل بائیکاٹ کردیا کرتا تھا جب کہ آج حرام کمانے اور کھانے والے سینہ تان کے حرام کماتے ہیں، یہ کیسے ہوا ہم اس پہ آگے چل کے بات کرتے ہیں۔ حرام مال کمانے اورکھانے والے کا معاملہ صرف اس کی ذات تک محدود نہیں ہوتا، اس سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ آپ حکمرانوں کی مثال لے لیجیے کہ عوام کے لیے حاصل کیے گئے قرضے غبن کرلیتے ہیں، چھوٹے بڑے سرکاری معاملات میں بھاری بھرکم کمیشن کھا جاتے ہیں، سیاسی، لسانی اور رشوت کی بنیادوں پہ چھوٹے بڑے سرکاری عہدوں پہ نااہل اور بدعنوان لوگوں کو تعینات کرتے ہیں، اپنی طاقت کے لیے جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان کے حاصل کیے گئے بھتے میں سے اپنا حصہ لیتے ہیں۔ اب آپ ذرا دیکھئے کہ ان کا کمایا گیا یہ سارا حرام مال بیشمار لوگوں کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ قرضوں اور حکومتی ٹیکسوں کے پیسے عوام کی صحت، علاج معالجے، صاف پانی کی فراہمی، سیوریج اور کوڑا کرکٹ تلف کرنے کے نظام کی تشکیل، تعلیم، غربت میں حقیقی کمی، روزگار کی فراہمی، معیشت کی ترقی، پولیس سمیت تمام اداروں کی بہتری پہ خرچ نہ ہونے سے کروڑوں لوگ ہر روز کتنی ہی تکالیف اور مسائل کا سامنا کرتے ہیں، غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں کتنے ہی لوگ بے ایمانی اور جرائم کی طرف مائل ہوتے ہیں، یہ روز کی کروڑوں تکلیفیں ہر لمحے ضرب ہوتی ہوئی اربوں کھربوں سے آگے نکل جاتی ہیں۔
یہ تمام تکلیفیں، مسائل و مصائب و جرائم حکمرانوں کے گناہ بن کر ہر لمحے کے حساب سے ضرب ہوتے ہوئے اتنے بنتے جاتے ہیں کہ صرف خدا کے فرشتے ہی ان کا حساب رکھ سکتے ہیں اور پھر ان سب گناہوں میں کمیشن کھانے، کرپٹ نااہل لوگوں کو عہدوں پہ بٹھانے، جرائم اور جرائم پیشہ لوگوں کی سرپرستی کرنے کے بے حساب مزید گناہ ہر لمحے کے حساب سے شامل ہوتے جاتے ہیں اور صرف حکمران، سیاستدان، جنرل، کرنل، سرکاری افسر و اہلکار ہی کیا یہاں تو جیسے زمیندار، تھانیدار،ٹھیکے دار، دکاندار، صنعتکار، آڑھتی، تاجر، آجر، ڈاکٹر، انجینئر، استاد، طالبعلم، مالک مکان و کرائے دار، بلڈر، امپورٹر، ایکسپورٹر، ٹی وی اینکر، پرائیویٹ افسر و ملازم ہر ایک نے ہی حرام مال کو اپنے اوپر حلال کردیا ہے، جو فائدے اور سہولتیں ان کے لیے ناجائز ہیں وہ اپنے لیے جائز کرلیے ہیں جن حقوق پہ ان کا کوئی حق نہیں وہ اپنا حق بنا لیے ہیں۔
ان کو کوئی نہیں بتاتا کہ تم خدا کے عذاب کے حقدار ہو، دوزخ کا مال ہو کہ اللہ کے آخری نبیؐ نے فرمادیا کہ ''جو شخص اس بات کی پرواہ نہیں کرتا، وہ کہاں سے اور کس طرح مال کماتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پرواہ نہیں کریگا کہ اس کو کہاں سے دوزخ میں داخل کرے۔'' ان تمام کرپٹ، بے ایمان، بے حس کرداروں سے لے کر اپنے وی آئی پی پروٹوکول سے ٹریفک رکوانے والی وی آئی پی سواریوں سے لے کر رانگ سائیڈ آکر ٹریفک جام کروانیوالے موٹرسائیکل سواروں تک کو کوئی نہیں بتاتا ہے کہ تعلیمات نبویؐ ہیں کہ ''شرک کے بعد بدترین گناہ ایذا رسانی خلق ہے۔'' اپنے اپنے کرپٹ اور ظالم سیاسی آقاؤں کی ٹی وی ٹاک شوز میں حمایت کرنے والوں سے لے کر انھیں ووٹ دینے والوں تک کو کوئی نہیں بتاتا ہے کہ اللہ کے آخری نبیؐ نے فرمایا کہ ''جس کسی نے ظالم کی جان بوجھ کر مدد کی، اس نے گویا قہر الٰہی کو خود اپنے سر لیا۔'' معاشرے میں ہر خاص و عام اٹھتے بیٹھتے جھوٹ بولتا ہے اور پھر خود کو مسلمان بتاتا ہے کسی نے نہیں بتایا کہ فرمان نبویؐ ہے کہ ''کوئی مسلمان جھوٹا نہیں ہوسکتا۔'' ہمارا دراصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہمیں یہ سب کوئی نہیں بتاتا اور اس لیے نہیں بتاتا ہے کہ ہم نے نہایت کامیابی سے اپنے مذہب کو اپنی زندگیوں سے نکال کر چند عبادات تک محدود کردیا ہے۔
مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ پہاڑ برابر سے لے کر ذرہ برابر بھی حقوق العباد کا گناہ اللہ تعالیٰ تب تک معاف نہیں فرمائے گا جب تک جس کا حق مارا گیا ہے وہ خود معاف نہیں کرتا۔ یہاں تو ایک ایک آدمی کروڑوں عوام کا مال کھا کھا کے اپنی عبادتوں کی فلمیں اور تصویریں دکھاتا پھرتا ہے۔ ہمارا ملک جو ایک زمانے میں ترقی پذیر ممالک کے لیے ترقی کی بہترین مثال تھا آج حکومتی، معاشی، انتظامی تقریباً ہر شعبے میں ہی زوال کی ایسی بدترین مثال بن گیا ہے کہ کئی شعبوں میں بہت سے افریقی ممالک بھی ہم سے آگے ہیں۔ ملک کا یہ زوال معاشرے کے زوال سے جڑا ہوا ہے اور جیسے جیسے ہم اپنی زندگیوں سے حقوق العباد کے احترام کو خراج کرتے گئے ہیں ویسے ویسے ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہوتا گیا ہے۔ ہمیں اگر اس ملک کو مزید زوال سے بچانا ہے تو ہمیں اس معاشرے کو مزید زوال سے بچانا ہوگا۔ ہمارے بزرگوں نے یہ ملک بنانے کے لیے پاکستان موومنٹ چلائی تھی، ہمیں اس ملک کو بچانے کے لیے حقوق العباد موومنٹ چلانی ہو گی اور پاکستان موومنٹ کی طرح ہم سب ہی کو اس حقوق العباد موومنٹ میں حصہ لینا ہوگا۔
ہمارے ٹی وی چینلز پرائم ٹائم کے ہر گھنٹے میں صرف ایک منٹ ہی حقوق العباد پہ مبنی پیغامات کو دے دیں، ہمارے وہ سیٹھ اور کمپنیاں جو مذہبی و فلاحی کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں ٹی وی چینلز پہ حقوق العباد پیغامات پہ مبنی کمپین چلائیں، ہمارے اساتذہ حقوق العباد کے بارے میں اپنے طالبعلموں کو کبھی کچھ بتا دیا کریں لوگ اپنی قریبی مسجدوں کے امام حضرات سے باقاعدگی سے دست بستہ درخواست کریں کہ وہ ''سارے گناہ'' معاف ہونے کی خوش خبریوں کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے حقوق العباد کے بارے میں بھی نمازیوں کو بتا کر ناانصافی، بے ایمانی، بے رحمی، بے حسی، منافقت میں سر تک ڈوبے اس معاشرے کے حال پہ کچھ رحم فرما دیا کریں۔ ہمارے ہاں حقوق العباد کی معلومات عام نہیں مگر جب ان تعلیمات کو پھیلانے کی باقاعدہ اور مستقل کوششیں ہونگی تو آگہی بڑھتی جائے گی معاشرہ بہتر ہوتا جائے گا، ملک بہتر ہوتا جائے گا۔ ہماری عاقبت بہتر ہوتی جائے گی۔
چار پانچ عشرے قبل اسی معاشرے میں کرپشن بے ایمانی کا مال کمانے اور کھانے والے چھپ چھپا کے یہ کرتے تھے، معاشرہ ان کا سوشل بائیکاٹ کردیا کرتا تھا جب کہ آج حرام کمانے اور کھانے والے سینہ تان کے حرام کماتے ہیں، یہ کیسے ہوا ہم اس پہ آگے چل کے بات کرتے ہیں۔ حرام مال کمانے اورکھانے والے کا معاملہ صرف اس کی ذات تک محدود نہیں ہوتا، اس سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ آپ حکمرانوں کی مثال لے لیجیے کہ عوام کے لیے حاصل کیے گئے قرضے غبن کرلیتے ہیں، چھوٹے بڑے سرکاری معاملات میں بھاری بھرکم کمیشن کھا جاتے ہیں، سیاسی، لسانی اور رشوت کی بنیادوں پہ چھوٹے بڑے سرکاری عہدوں پہ نااہل اور بدعنوان لوگوں کو تعینات کرتے ہیں، اپنی طاقت کے لیے جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان کے حاصل کیے گئے بھتے میں سے اپنا حصہ لیتے ہیں۔ اب آپ ذرا دیکھئے کہ ان کا کمایا گیا یہ سارا حرام مال بیشمار لوگوں کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ قرضوں اور حکومتی ٹیکسوں کے پیسے عوام کی صحت، علاج معالجے، صاف پانی کی فراہمی، سیوریج اور کوڑا کرکٹ تلف کرنے کے نظام کی تشکیل، تعلیم، غربت میں حقیقی کمی، روزگار کی فراہمی، معیشت کی ترقی، پولیس سمیت تمام اداروں کی بہتری پہ خرچ نہ ہونے سے کروڑوں لوگ ہر روز کتنی ہی تکالیف اور مسائل کا سامنا کرتے ہیں، غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں کتنے ہی لوگ بے ایمانی اور جرائم کی طرف مائل ہوتے ہیں، یہ روز کی کروڑوں تکلیفیں ہر لمحے ضرب ہوتی ہوئی اربوں کھربوں سے آگے نکل جاتی ہیں۔
یہ تمام تکلیفیں، مسائل و مصائب و جرائم حکمرانوں کے گناہ بن کر ہر لمحے کے حساب سے ضرب ہوتے ہوئے اتنے بنتے جاتے ہیں کہ صرف خدا کے فرشتے ہی ان کا حساب رکھ سکتے ہیں اور پھر ان سب گناہوں میں کمیشن کھانے، کرپٹ نااہل لوگوں کو عہدوں پہ بٹھانے، جرائم اور جرائم پیشہ لوگوں کی سرپرستی کرنے کے بے حساب مزید گناہ ہر لمحے کے حساب سے شامل ہوتے جاتے ہیں اور صرف حکمران، سیاستدان، جنرل، کرنل، سرکاری افسر و اہلکار ہی کیا یہاں تو جیسے زمیندار، تھانیدار،ٹھیکے دار، دکاندار، صنعتکار، آڑھتی، تاجر، آجر، ڈاکٹر، انجینئر، استاد، طالبعلم، مالک مکان و کرائے دار، بلڈر، امپورٹر، ایکسپورٹر، ٹی وی اینکر، پرائیویٹ افسر و ملازم ہر ایک نے ہی حرام مال کو اپنے اوپر حلال کردیا ہے، جو فائدے اور سہولتیں ان کے لیے ناجائز ہیں وہ اپنے لیے جائز کرلیے ہیں جن حقوق پہ ان کا کوئی حق نہیں وہ اپنا حق بنا لیے ہیں۔
ان کو کوئی نہیں بتاتا کہ تم خدا کے عذاب کے حقدار ہو، دوزخ کا مال ہو کہ اللہ کے آخری نبیؐ نے فرمادیا کہ ''جو شخص اس بات کی پرواہ نہیں کرتا، وہ کہاں سے اور کس طرح مال کماتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پرواہ نہیں کریگا کہ اس کو کہاں سے دوزخ میں داخل کرے۔'' ان تمام کرپٹ، بے ایمان، بے حس کرداروں سے لے کر اپنے وی آئی پی پروٹوکول سے ٹریفک رکوانے والی وی آئی پی سواریوں سے لے کر رانگ سائیڈ آکر ٹریفک جام کروانیوالے موٹرسائیکل سواروں تک کو کوئی نہیں بتاتا ہے کہ تعلیمات نبویؐ ہیں کہ ''شرک کے بعد بدترین گناہ ایذا رسانی خلق ہے۔'' اپنے اپنے کرپٹ اور ظالم سیاسی آقاؤں کی ٹی وی ٹاک شوز میں حمایت کرنے والوں سے لے کر انھیں ووٹ دینے والوں تک کو کوئی نہیں بتاتا ہے کہ اللہ کے آخری نبیؐ نے فرمایا کہ ''جس کسی نے ظالم کی جان بوجھ کر مدد کی، اس نے گویا قہر الٰہی کو خود اپنے سر لیا۔'' معاشرے میں ہر خاص و عام اٹھتے بیٹھتے جھوٹ بولتا ہے اور پھر خود کو مسلمان بتاتا ہے کسی نے نہیں بتایا کہ فرمان نبویؐ ہے کہ ''کوئی مسلمان جھوٹا نہیں ہوسکتا۔'' ہمارا دراصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہمیں یہ سب کوئی نہیں بتاتا اور اس لیے نہیں بتاتا ہے کہ ہم نے نہایت کامیابی سے اپنے مذہب کو اپنی زندگیوں سے نکال کر چند عبادات تک محدود کردیا ہے۔
مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ پہاڑ برابر سے لے کر ذرہ برابر بھی حقوق العباد کا گناہ اللہ تعالیٰ تب تک معاف نہیں فرمائے گا جب تک جس کا حق مارا گیا ہے وہ خود معاف نہیں کرتا۔ یہاں تو ایک ایک آدمی کروڑوں عوام کا مال کھا کھا کے اپنی عبادتوں کی فلمیں اور تصویریں دکھاتا پھرتا ہے۔ ہمارا ملک جو ایک زمانے میں ترقی پذیر ممالک کے لیے ترقی کی بہترین مثال تھا آج حکومتی، معاشی، انتظامی تقریباً ہر شعبے میں ہی زوال کی ایسی بدترین مثال بن گیا ہے کہ کئی شعبوں میں بہت سے افریقی ممالک بھی ہم سے آگے ہیں۔ ملک کا یہ زوال معاشرے کے زوال سے جڑا ہوا ہے اور جیسے جیسے ہم اپنی زندگیوں سے حقوق العباد کے احترام کو خراج کرتے گئے ہیں ویسے ویسے ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہوتا گیا ہے۔ ہمیں اگر اس ملک کو مزید زوال سے بچانا ہے تو ہمیں اس معاشرے کو مزید زوال سے بچانا ہوگا۔ ہمارے بزرگوں نے یہ ملک بنانے کے لیے پاکستان موومنٹ چلائی تھی، ہمیں اس ملک کو بچانے کے لیے حقوق العباد موومنٹ چلانی ہو گی اور پاکستان موومنٹ کی طرح ہم سب ہی کو اس حقوق العباد موومنٹ میں حصہ لینا ہوگا۔
ہمارے ٹی وی چینلز پرائم ٹائم کے ہر گھنٹے میں صرف ایک منٹ ہی حقوق العباد پہ مبنی پیغامات کو دے دیں، ہمارے وہ سیٹھ اور کمپنیاں جو مذہبی و فلاحی کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں ٹی وی چینلز پہ حقوق العباد پیغامات پہ مبنی کمپین چلائیں، ہمارے اساتذہ حقوق العباد کے بارے میں اپنے طالبعلموں کو کبھی کچھ بتا دیا کریں لوگ اپنی قریبی مسجدوں کے امام حضرات سے باقاعدگی سے دست بستہ درخواست کریں کہ وہ ''سارے گناہ'' معاف ہونے کی خوش خبریوں کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے حقوق العباد کے بارے میں بھی نمازیوں کو بتا کر ناانصافی، بے ایمانی، بے رحمی، بے حسی، منافقت میں سر تک ڈوبے اس معاشرے کے حال پہ کچھ رحم فرما دیا کریں۔ ہمارے ہاں حقوق العباد کی معلومات عام نہیں مگر جب ان تعلیمات کو پھیلانے کی باقاعدہ اور مستقل کوششیں ہونگی تو آگہی بڑھتی جائے گی معاشرہ بہتر ہوتا جائے گا، ملک بہتر ہوتا جائے گا۔ ہماری عاقبت بہتر ہوتی جائے گی۔