حکومتی کارنامے اور ایک حکومتی اشتہار

اخبارات میں اشتہار چھپا ہے کہ پی پی پی پی (چار مرتبہ پی) کو الیکشن کے ٹکٹ کے لیے ملک بھر سے امیدوار درکار ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

ہمارے جرات مند اور بہادر وزیراعظم جناب راجہ پرویز اشرف نے علی الاعلان کہا ہے کہ جتنے کام پیپلز پارٹی نے پانچ برسوں کی حکومت میں کر دیے ہیں، اتنے ملک کے گزشتہ 65 برسوں میں نہیں کیے گئے۔ میں نے اپنے بچے کھچے وزیراعظم کو اگر جرات مند اور بہادر کہا ہے تو غلط نہیں کہا، پاکستان کی گزشتہ 65 برسوں کی تاریخ میرے سامنے ہے اور جو کام اور کارنامے پیپلز پارٹی کی رواں حکومت نے کر دکھائے ہیں، ملک کے پورے ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی بلکہ ماضی میں تو پارٹی کے موجودہ کارناموں کے برعکس کام کیے گئے ہیں۔ یہ بجلیاں، یہ ریلوے، یہ پی آئی اے، یہ اسٹیل ملیں، یہ صنعتیں، یہ کاروبار اور بہت کچھ، یہ سب ان گزشتہ 65برسوں کے کرتوت ہیں جن کو پارٹی نے ادھر ادھر کر دیا ہے اور اپنی شاندار کارگزاری کو آیندہ الیکشن کے لیے قوم کو پیش کردیا ہے کہ اگر یہ ترقیاتی زندگی جاری رکھنی ہے جو اسے پیپلز پارٹی کے طفیل ملی ہے تو پھر اسے ووٹ دیں اور مزے کریں۔

جناب وزیراعظم کو میں نے 'بچا کھچا' وزیراعظم اس لیے کہا ہے کہ ان کے واحد پیشرو گیلانی صاحب کو سپریم کورٹ نے جس طرح بے آبرو کر کے نکالا ہے، وہ خود انھیں تو یاد نہیں لیکن قوم کو یاد ہے ذرا ذرا۔ ان کی عزت سادات کی رخصتی کے بعد جو کچھ سامنے آیا ہے، اس کا اہل ملتان کو ہم سے زیادہ علم تھا چنانچہ انھوں نے بار بار رننگ کمینٹری کی کہ شاہ صاحب کیا کررہے ہیں اور عزت سادات کس مرحلے میں ہے اور اس کا کیا بننے والا ہے۔ ان کی رخصتی کے بعد تو بہت کچھ مستند ذریعوں سے سامنے آ گیا لیکن وہ یہ سب ہضم کر گئے ہیں جیسے ہمارے نئے وزیراعظم بھی جو ان دنوں عدالت کے رحم و کرم پر رواں ہیں اور جلد ہی اپنے پیشرو کی صف میں شامل ہونے والے ہیں، کر رہے ہیں، اب بھی اپنے بارے میں خود ہی ضروری اطلاعات دیتے رہتے ہیں۔

مثلاً وہ گزشتہ دنوں ولایت گئے بمعہ اہل و عیال تو وہاں انھوں نے لندن کے اسٹوروں میں تھرتھلی مچا دی،کبھی عرب خریدار یہاں ایسے شاپنگ والے ہنگامے برپا کرتے تھے، اب ان میں عربوں کے نام لیوا پاکستانی رئوسا بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اگرچہ اب بھی لاکھوں کروڑوں کی شاپنگ اور شاہی دورے کے اخراجات کی خبریں آتی ہیں تو اس ایڈیٹ قوم نے مزید موقع دیا تو کسی دن مزید یہ خبر بھی آسکتی ہے کہ کسی پاکستانی کے لیے اتوار کو بھی فلاں نامی گرامی اسٹور کھولا گیا ہے جیسے بعض عربوں کے لیے اسے کھولا گیا اور یہ بڑی خبر بن گئی تھی۔

بات شروع ہوئی تھی وزیراعظم کے اس اعلان کے بعد کہ جو کچھ ہم نے چند برسوں میں کر دیا ہے وہ پاکستان کی عمر بھر میں نہیں کیا گیا بالکل درست فرمایا ہے کہ اب تک سابقہ نالائق اور کرپٹ حکومتوں نے بجلی کے جو پیداواری منصوبے چلائے تھے، وہ اس حکومت نے کمال ہنر مندی سے بند کرا دیے یا ان کی پیداوار کم کرکے ملک کو نہ صرف اندھیروں بلکہ اس کی صنعت اور ٹیوب ویل والی زراعت کو بھی ایسا دھکا دیا کہ وہ منہ کے بل گر پڑی۔ یاد رہے اور یہ کسے یاد نہیں کہ بجلی کی اس زبردست ترقی کے زمانے کے بجلی کے وزیر ہمارے وزیراعظم جناب راجہ پرویز اشرف ہی تھے۔ انھوں نے خدا جانے کیا کیا تماشے کیے۔ کرائے کے بجلی کے پیداواری کارخانے منگوائے، انھیں بھاری رقمیں ادا کی گئیں، ان بھاری رقموں کو اپنے لیے کچھ ہلکا بھی کیا گیا کہ باہر والوں پر زیادہ بوجھ نہ پڑے، اب تک یہ حساب کتاب چل رہے ہیں لیکن جو چلنا تھا وہ چل چکا ہے۔


اب تو وہ وزیراعظم ہیں اور پورا ملک رینٹل پاور بن چکا ہے۔ دیکھیں جب پردہ مزید اٹھے گا تو کیا کچھ دیکھنے کو ملے گا، ابھی تو ذرا سا سر کا ہی ہے تو ہمارے اخبار والے بھونچکے رہ گئے ہیں، سنا ہے لندن میں ہمارے ہائی کمیشن کے بعض افسر اس کا ذکر کر کے روتے بھی ہیں۔ مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بہت کچھ بتا بھی دیں تاکہ دل کا کچھ بوجھ تو ہلکا ہو۔ اسی لندن میں ہمارے ایک پریس قونصلر تھے بدقسمتی سے اس پاکستانی کا نام یاد نہیں آ رہا، وہ لندن میں تھے کہ سقوط ڈھاکہ ہوا، اس سے ان کے دل پر ایسی چوٹ پڑی کہ پاکستان لوٹ آئے اور دل کی بیماری سے چل بسے۔

اس ملک کو کیسے کیسے پاکستانی ملے ہیں یہی تو تھے جنہوں نے گزشتہ 65 برسوں میں اس ملک کے لیے کچھ نہیں کیا، صرف جان دی۔ تو بات ہماری حکومت کے کارناموں کی ہو رہی تھی، بجلی وغیرہ کی ہو چکی، اب ریلوے کا حال سنئیے۔ اس کے وزیر بلور صاحب تھے، وہ لوہے اور فولاد کا یہ رسل رسائل کا سلسلہ لکڑ ہضم پتھر ہضم قسم کے چورن کی مدد سے غائب کرگئے۔ بجلی کی طرح یہ بھی پوری قوم کو ازبر ہے بلکہ دن رات ہوتا رہتا ہے۔ ہماری اس عوامی حکومت کے ایسے لاتعداد کارناموں پر تو کتابیں لکھی جائیں گی، ایک کالم کی بساط ہی کیا ہے، جاتے جاتے اس حکومت اور پارٹی کا ایک اور نمونہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

اخبارات میں اشتہار چھپا ہے کہ پی پی پی پی (چار مرتبہ پی) کو الیکشن کے ٹکٹ کے لیے ملک بھر سے امیدوار درکار ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے چالیس ہزار روپے اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ کے لیے تیس ہزار روپے کا بینک ڈرافٹ پارٹی کے نام لازماً بھجوا دیں یعنی وہ پارٹی جس کے ٹکٹ کے لیے امیدوار کیا جتن ہیں جو نہیں کیا کرتے تھے، اب ان امیدواروں کی تلاش میں اشتہار چھپا ہے۔ یہ اشتہار در حقیقت پارٹی کے مکمل زوال کا اشتہار ہے جو پارٹی نے اپنے خرچ پر چھپوایا ہے۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ہمارے ایک کرمفرما سردار عاشق مزاری (اے ایم کے مزاری) نے قومی اسمبلی کا ٹکٹ لینے کے لیے بڑی مشکل سے اوپر تک رسائی کا راستہ نکالا اور نقد 65 ہزار روپے ٹکٹ کے عوض خدمت عالی میں پیش کیے اور مراد پائی۔ یہ اوپر تک اب بھی بہت اوپر ہے لیکن مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔

یاد آیا کہ الیکشن میں کسی پارٹی نے ٹکٹ کے لیے امیدواروں کی تلاش میں پہلا اشتہار ایئر مارشل اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال نے چھپوایا تھا جس پر ملک بھر میں حیرت کا اظہار کیا گیا تھا کہ اب ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اس طرح بھی کام کرنا شروع ہو گئی ہیں، اس کے بعد اب پیپلز پارٹی نے ایسی غیر سیاسی حرکت کی ہے، خدا خیر کرے اور پارٹی مع چار عدد 'پی' کے سلامت رہے۔ آیندہ الیکشن کے بعد پارٹی کی حکومت کی آمد کا کوئی سیاسی امکان نہیں ہے اور اس کے ساتھ دوسرے تمام مالی امکانات بھی ختم ہی سمجھئے چنانچہ جاتے جاتے چوروں کی لنگوٹی ہی سہی۔ بطور ایک سیاسی وقایع نگار کے مجھے اس اشتہار پر دکھ ہوا ہے کہ کتنی بڑی پارٹی اب کس حال تک جا پہنچی ہے۔ اب میں اس بارے میں مزید کچھ عرض کرنا نہیں چاہتا ورنہ کون ہے جو اس حمام میں کپڑوں کے سمیت ہے۔
Load Next Story