ماضی کی مقبول سنگر جیونی بائی
عدالت نے انھیں سزائے موت سنائی، اس فیصلے کے بعد پورے ہندوستان میں جیسے آگ سی لگ گئی۔
KARACHI:
اللہ پاک نے ہر انسان کوکسی نہ کسی ٹیلنٹ سے نوازا ہے چاہے وہ شہر میں رہتا ہو یا دیہات میں، لیکن ایک بات شہر اور گاؤں میں رہنے والے میں فرق ضرور رکھتی ہے وہ ہے قدرت کے بارے میں مشاہدہ۔ شہر کے لوگ قدرتی نظاروں سے محروم ہیں جب کہ دیہات میں رہنے والے قدرت کی ہر ایک خوبصورت چیزکو اصل شکل میں دیکھتے ہیں اور مشاہدے کی وجہ سے ان کی طبیعت، مزاج، حسن اور سوچ میں بڑی تبدیلی ہوتی ہے جس سے وہ زیادہ ٹیلنٹڈ ہوتے ہیں۔
میں ایک ایسی گانے والی کی زندگی کے بارے میں بتا رہا ہوں جن کی شکل وصورت خوبصورت نہیں تھی مگر ان کی آواز میں ایک مٹھاس اور جادو تھا، ان کی آواز سننے کے لیے لوگ لمبے سفر کرکے وہاں پہنچ جاتے تھے جہاں پر وہ گانے آتی تھیں۔اس کوئل کا نام تھا جیونی بائی۔
جیونی بائی راجستھان کے علاقے بھیل پورکی رہنے والی تھیں،ان کی پیدائش 22 جنوری 1901ء میں ہوئی۔ ان کے والدین بہت غریب تھے اور وہ لوگ گھر گھر جاکرکچھ گا کر سناتے تھے جس کے عوض انھیں چاول، آٹا اور کچھ رقم مل جاتی تھی، جس سے وہ اپنا گزارا کرتے تھے۔ جیونی بھی 8 سال کی عمر سے اپنے والدین کے ساتھ جایا کرتی تھیں۔ آگے چل کر جب وہ بڑی ہوئیں تو انھوں نے اپنے ساتھ کچھ اور لڑکیاں ملاکر فقیرنیوں کا گروپ بنا لیا جس سے انھیں تحفظ بھی حاصل ہوگیا۔ انھوں نے بھیک مانگنے کا انداز گا کر بنایا۔
اب جیونی اپنے والد کے ساتھ اپنا علاقہ چھوڑ کر 1918ء میں شہر ملتان میں آباد ہوگئیں جہاں پر ان کی ملاقات استاد امیر خان کے ساتھ ہوئی، انھوں نے جب جیونی کی آواز سنی تو بے حد متاثر ہوئے۔ استاد نے جیونی کی تربیت کرنا شروع کی جس سے جیونی کی آواز میں مزید جادو پیدا ہوگیا۔ استاد کا اخلاق، ادب اور جذبہ دیکھ کر جیونی اپنی پوری فیملی کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔ جیونی نے مانگنے کا پروفیشن چھوڑ کر میلوں اور دوسری اچھی تقریبات میں گانے لگیں جس سے ایک تو ان کی آمدنی عزت اور احترام کے ساتھ بڑھنے لگی اور دوسرا مقبولیت کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے، موسیقی کی دنیا میں ایک مقام بنالیا۔
ان کی مقبولیت اتنی بڑھ گئی کہ انھیں دعوت دے کر بلایا جانے لگا تھا اور اچھی خاصی رقم دی جانے لگی اور ان کا آنا دعوت دینے والوں کے لیے عزت وشان سمجھی جاتی تھی۔ جیونی کی سریلی آواز کراچی تک بھی پہنچ گئی۔ میرے نانا قادر بخش کھوکھر بھی ان کے بڑے مداح تھے اور انھوں نے جیونی کو اپنی بہن بنا لیا تھا۔ وہ اکثر اپنے مونوگرام سے جیونی بائی کے گانے سنتا تھے۔ میں نے بھی انھیں سنا واقعی ان کی آواز میں ایک سچائی اور اپنے فن سے محبت سنائی دیتی تھی۔
گانے سے عشق کی وجہ سے وہ شاعرہ بھی بن گئیں جس کے انھوں نے گانے ریکارڈ کروائے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بزرگ سمن سرکار نے جب ان کے کلام کو سنا تو انھیں 'حال' آگیا اور وہ اس حالت میں سورج نکلنے تک رہے۔ اکثر لوگ کہتے تھے کہ جیونی کی آواز میں ایک مقناطیسی کشش ہے جو بھی اسے سنتا ہے وہ ان کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔ انھیں سندھ سے بے حد محبت تھی اور وہ ہر سال بغیر کسی ناغے کے آل انڈیا میوزک کانفرنس میں 13 سال تک مسلسل شرکت کرتی رہیں، اور اس کانفرنس میں سندھ کی نمایندگی کرکے وہ فخر محسوس کرتی تھیں۔
جب پہلی مرتبہ جیونی شاہ عبدالکریم بلڑی والے کے میلے میں شریک ہوئی تو ان کی ملاقات استاد خیر محمد خان سے ہوئی جو جیونی کو سن کر بے حد متاثر ہوا اور جیونی بھی استاد کے اخلاق سے بڑی خوش ہوئی اور ملتان چھوڑ کر حیدرآباد چلی آئی۔ وہاں پر اس نے استاد سے سندھی کی شاعری میں کافی کی تربیت حاصل کرنا شروع کی۔ اسے سندھی کلام کی کوئل کا خطاب دیا گیا جو استاد کی سندھی موسیقی کی کمپنی تھی۔ اب جیونی نے پورے سندھ کا دورہ کیا اور وہاں کے لوگوں کے دل جیت لیے۔ وہ جہاں بھی جاتی لوگ راہوں میں آنکھیں بچھا دیتے۔
وہ رانی پور کے سید صالح شاہ کی مرید بن گئی جنھوں نے 1928ء میں ان کا نام جیوی سے جیونی رکھا تھا۔ جیونی نے قران پاک کی تعلیم عالم اللہ بخش نوناری سے حاصل کی اور اس کے ساتھ اسلامی تعلیم بھی حاصل کرتی رہیں۔ 1933ء میں ان کی شادی نواب ماکا سے ہوئی مگر افسوس کہ اسے کوئی اولاد نہیں ہوئی جس کا انھیں بڑا افسوس تھا۔ یہ ایک تاریخی بات ہے کہ شاہ قادری کے میلے کے موقعے پر بڑے بڑے گائیک آئے ہوئے تھے جن میں استاد بیبو خان، استاد خیر محمد خان، سید قاسم علی شاہ، بھورو سکھ، ماسٹر چندر اور جیونی بائی۔ مگر وہاں پر موجود سننے والوں نے جیونی بائی کو بہت پسند کیا۔
اس وقت کے مقبول اور مشہور گانے والے ماسٹر چندر نے جیونی کی آواز کو بے حد پسند کیا اور اسے کراچی آنے کی دعوت دی جہاں پر ان کے گانے ریکارڈ کیے گئے جس کے انجینئر لال چندر تھے۔ جب یہ ریکارڈ پورے سندھ میں سنے گئے تو موسیقی کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا جس کی وجہ سے وہ سندھ کے مقبول ترین گانے والوں کی فہرست میں ٹاپ پر آگئیں۔
جیونی بائی کی شخصیت پروقار تھی جس میں شائستگی، بڑی پرکشش آنکھیں، مشکی رنگ، مضبوط جسم، لمبا قد، گول چہرہ شامل ہے۔ لوگ ان کی بڑی عزت اور احترام کرتے تھے اور انھیں بہن بناکر فخر محسوس کرتے۔ ان کی عادتوں میں سخاوت اور اسلامی اصولوں اور نماز، روزے کی پابندی شامل تھی۔
Masters Voice Co نے ان کے 100 سے زائد گانے ریکارڈ کیے تھے جن کی خوب سیل ہوئی اورکمپنی کو کثیر مالی فائدہ ہوا جس کی وجہ سے کمپنی نے جیونی کے احترام میں ایک پروگرام منعقد کیا، جس میں انھیں کمپنی کا گولڈ مونو گرام دیا گیا جو تقریباً ساڑھے دس گرام کا تھا۔
جب جیونی کو اس پروقار تقریب میں بڑی عزت اور مرتبے سے نوازا گیا تو جیونی کو اپنے بچپن کے بارے میں کچھ یادیں ذہن میں آنے لگیں کہ ان کی ماں مانکی ان کو ایک کپڑے میں باندھ کر جب پیٹ کے پیچھے لٹکا کر پورا دن بھیک مانگتی اور پھر جب وہ بڑی ہوئی تو اسے بھی ایک کٹورا اور ایک لاٹھی کے ساتھ کندھے پر لٹکانے والا سلا ہوا تھیلا دیا گیا کہ وہ جو کچھ بھی آٹا، چاول ملے تو اس کپڑے میں ڈال دے اور لاٹھی کتوں کو بھگانے کے کام آتی تھی۔ اس وقت ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل آئے۔
ایسی تقریبات میں جو بھی رقم ملتی تھی وہ اس میں غریبوں کا حصہ بھی نکالتی تھیں، مہمان خانہ چلتا تھا اور جو بھی استاد یا گانے والے اور ان کے ساتھ سازندے والے آتے وہ بھی جیونی بائی کے گھر قیام کرتے جن کے لیے خاص طعام کا بندوبست ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ جب جیونی کو معلوم ہوا کہ ان کے ملتان والے استاد امید علی بڑی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں تو وہ جاکر انھیں حیدرآباد لے آئیں اور ان کی خدمت کیا کرتی تھیں، ان کے ہاتھ پاؤں بھی اپنے ہاتھوں سے دھوتی۔بر صغیر کے بڑے گائیک استاد بڑے غلام علی خان بھی اکثر ان کے پاس آکر ٹھہرتے جس کے لیے انھوں نے الگ چارپائی بنائی تھی کیونکہ کہتے ہیں کہ وہ خاصے دارز قد تھے۔
جیونی بائی ایک مرتبہ ٹرین میں سفرکررہی تھیں کہ ان کے کمپارٹمنٹ میں پولیس پہنچ کر کچھ تلاش کرنے لگی اور جب ایک ٹرنک سے لاش ملی تو پولیس نے انھیں گرفتارکرلیا، عدالت نے انھیں سزائے موت سنائی، اس فیصلے کے بعد پورے ہندوستان میں جیسے آگ سی لگ گئی۔ یہ بات سن کر اصلی قاتل نے عدالت میں آ کر کہا کہ اس نے یہ قتل کیا ہے اور پھر جیونی کو رہا کردیا گیا۔
ایک دن اچانک جیونی کی طبیعت خراب ہوگئی مگر انھیں منہ بولے بھائی سچل میمن کے بیٹے کی شادی میں کوٹری جانا تھا جہاں فرمائش کے مطابق پرفارم بھی کرنا تھا۔ طبیعت کی خرابی کے باوجود وہ حیدرآباد سے کوٹری پہنچی، شادی کی تقریب میں گایا اور جیسے ہی رات کے ڈھائی بجے تو ان کی طبیعت مزید خراب ہوگئی اور وہ لاہور میل کے ذریعے حیدرآباد کے لیے روانہ ہوگئی۔ حیدرآباد اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد انھیں ان کے شوہر کے گہرے دوست حسین بابو مل گئے جن سے کچھ منٹ بات کی اور پھر گھوڑا گاڑی کی طرف چل پڑیں مگر اچانک انھوں نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور وہیں ان کی روح پرواز کر گئی ۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔
اللہ پاک نے ہر انسان کوکسی نہ کسی ٹیلنٹ سے نوازا ہے چاہے وہ شہر میں رہتا ہو یا دیہات میں، لیکن ایک بات شہر اور گاؤں میں رہنے والے میں فرق ضرور رکھتی ہے وہ ہے قدرت کے بارے میں مشاہدہ۔ شہر کے لوگ قدرتی نظاروں سے محروم ہیں جب کہ دیہات میں رہنے والے قدرت کی ہر ایک خوبصورت چیزکو اصل شکل میں دیکھتے ہیں اور مشاہدے کی وجہ سے ان کی طبیعت، مزاج، حسن اور سوچ میں بڑی تبدیلی ہوتی ہے جس سے وہ زیادہ ٹیلنٹڈ ہوتے ہیں۔
میں ایک ایسی گانے والی کی زندگی کے بارے میں بتا رہا ہوں جن کی شکل وصورت خوبصورت نہیں تھی مگر ان کی آواز میں ایک مٹھاس اور جادو تھا، ان کی آواز سننے کے لیے لوگ لمبے سفر کرکے وہاں پہنچ جاتے تھے جہاں پر وہ گانے آتی تھیں۔اس کوئل کا نام تھا جیونی بائی۔
جیونی بائی راجستھان کے علاقے بھیل پورکی رہنے والی تھیں،ان کی پیدائش 22 جنوری 1901ء میں ہوئی۔ ان کے والدین بہت غریب تھے اور وہ لوگ گھر گھر جاکرکچھ گا کر سناتے تھے جس کے عوض انھیں چاول، آٹا اور کچھ رقم مل جاتی تھی، جس سے وہ اپنا گزارا کرتے تھے۔ جیونی بھی 8 سال کی عمر سے اپنے والدین کے ساتھ جایا کرتی تھیں۔ آگے چل کر جب وہ بڑی ہوئیں تو انھوں نے اپنے ساتھ کچھ اور لڑکیاں ملاکر فقیرنیوں کا گروپ بنا لیا جس سے انھیں تحفظ بھی حاصل ہوگیا۔ انھوں نے بھیک مانگنے کا انداز گا کر بنایا۔
اب جیونی اپنے والد کے ساتھ اپنا علاقہ چھوڑ کر 1918ء میں شہر ملتان میں آباد ہوگئیں جہاں پر ان کی ملاقات استاد امیر خان کے ساتھ ہوئی، انھوں نے جب جیونی کی آواز سنی تو بے حد متاثر ہوئے۔ استاد نے جیونی کی تربیت کرنا شروع کی جس سے جیونی کی آواز میں مزید جادو پیدا ہوگیا۔ استاد کا اخلاق، ادب اور جذبہ دیکھ کر جیونی اپنی پوری فیملی کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔ جیونی نے مانگنے کا پروفیشن چھوڑ کر میلوں اور دوسری اچھی تقریبات میں گانے لگیں جس سے ایک تو ان کی آمدنی عزت اور احترام کے ساتھ بڑھنے لگی اور دوسرا مقبولیت کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے، موسیقی کی دنیا میں ایک مقام بنالیا۔
ان کی مقبولیت اتنی بڑھ گئی کہ انھیں دعوت دے کر بلایا جانے لگا تھا اور اچھی خاصی رقم دی جانے لگی اور ان کا آنا دعوت دینے والوں کے لیے عزت وشان سمجھی جاتی تھی۔ جیونی کی سریلی آواز کراچی تک بھی پہنچ گئی۔ میرے نانا قادر بخش کھوکھر بھی ان کے بڑے مداح تھے اور انھوں نے جیونی کو اپنی بہن بنا لیا تھا۔ وہ اکثر اپنے مونوگرام سے جیونی بائی کے گانے سنتا تھے۔ میں نے بھی انھیں سنا واقعی ان کی آواز میں ایک سچائی اور اپنے فن سے محبت سنائی دیتی تھی۔
گانے سے عشق کی وجہ سے وہ شاعرہ بھی بن گئیں جس کے انھوں نے گانے ریکارڈ کروائے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بزرگ سمن سرکار نے جب ان کے کلام کو سنا تو انھیں 'حال' آگیا اور وہ اس حالت میں سورج نکلنے تک رہے۔ اکثر لوگ کہتے تھے کہ جیونی کی آواز میں ایک مقناطیسی کشش ہے جو بھی اسے سنتا ہے وہ ان کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔ انھیں سندھ سے بے حد محبت تھی اور وہ ہر سال بغیر کسی ناغے کے آل انڈیا میوزک کانفرنس میں 13 سال تک مسلسل شرکت کرتی رہیں، اور اس کانفرنس میں سندھ کی نمایندگی کرکے وہ فخر محسوس کرتی تھیں۔
جب پہلی مرتبہ جیونی شاہ عبدالکریم بلڑی والے کے میلے میں شریک ہوئی تو ان کی ملاقات استاد خیر محمد خان سے ہوئی جو جیونی کو سن کر بے حد متاثر ہوا اور جیونی بھی استاد کے اخلاق سے بڑی خوش ہوئی اور ملتان چھوڑ کر حیدرآباد چلی آئی۔ وہاں پر اس نے استاد سے سندھی کی شاعری میں کافی کی تربیت حاصل کرنا شروع کی۔ اسے سندھی کلام کی کوئل کا خطاب دیا گیا جو استاد کی سندھی موسیقی کی کمپنی تھی۔ اب جیونی نے پورے سندھ کا دورہ کیا اور وہاں کے لوگوں کے دل جیت لیے۔ وہ جہاں بھی جاتی لوگ راہوں میں آنکھیں بچھا دیتے۔
وہ رانی پور کے سید صالح شاہ کی مرید بن گئی جنھوں نے 1928ء میں ان کا نام جیوی سے جیونی رکھا تھا۔ جیونی نے قران پاک کی تعلیم عالم اللہ بخش نوناری سے حاصل کی اور اس کے ساتھ اسلامی تعلیم بھی حاصل کرتی رہیں۔ 1933ء میں ان کی شادی نواب ماکا سے ہوئی مگر افسوس کہ اسے کوئی اولاد نہیں ہوئی جس کا انھیں بڑا افسوس تھا۔ یہ ایک تاریخی بات ہے کہ شاہ قادری کے میلے کے موقعے پر بڑے بڑے گائیک آئے ہوئے تھے جن میں استاد بیبو خان، استاد خیر محمد خان، سید قاسم علی شاہ، بھورو سکھ، ماسٹر چندر اور جیونی بائی۔ مگر وہاں پر موجود سننے والوں نے جیونی بائی کو بہت پسند کیا۔
اس وقت کے مقبول اور مشہور گانے والے ماسٹر چندر نے جیونی کی آواز کو بے حد پسند کیا اور اسے کراچی آنے کی دعوت دی جہاں پر ان کے گانے ریکارڈ کیے گئے جس کے انجینئر لال چندر تھے۔ جب یہ ریکارڈ پورے سندھ میں سنے گئے تو موسیقی کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا جس کی وجہ سے وہ سندھ کے مقبول ترین گانے والوں کی فہرست میں ٹاپ پر آگئیں۔
جیونی بائی کی شخصیت پروقار تھی جس میں شائستگی، بڑی پرکشش آنکھیں، مشکی رنگ، مضبوط جسم، لمبا قد، گول چہرہ شامل ہے۔ لوگ ان کی بڑی عزت اور احترام کرتے تھے اور انھیں بہن بناکر فخر محسوس کرتے۔ ان کی عادتوں میں سخاوت اور اسلامی اصولوں اور نماز، روزے کی پابندی شامل تھی۔
Masters Voice Co نے ان کے 100 سے زائد گانے ریکارڈ کیے تھے جن کی خوب سیل ہوئی اورکمپنی کو کثیر مالی فائدہ ہوا جس کی وجہ سے کمپنی نے جیونی کے احترام میں ایک پروگرام منعقد کیا، جس میں انھیں کمپنی کا گولڈ مونو گرام دیا گیا جو تقریباً ساڑھے دس گرام کا تھا۔
جب جیونی کو اس پروقار تقریب میں بڑی عزت اور مرتبے سے نوازا گیا تو جیونی کو اپنے بچپن کے بارے میں کچھ یادیں ذہن میں آنے لگیں کہ ان کی ماں مانکی ان کو ایک کپڑے میں باندھ کر جب پیٹ کے پیچھے لٹکا کر پورا دن بھیک مانگتی اور پھر جب وہ بڑی ہوئی تو اسے بھی ایک کٹورا اور ایک لاٹھی کے ساتھ کندھے پر لٹکانے والا سلا ہوا تھیلا دیا گیا کہ وہ جو کچھ بھی آٹا، چاول ملے تو اس کپڑے میں ڈال دے اور لاٹھی کتوں کو بھگانے کے کام آتی تھی۔ اس وقت ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل آئے۔
ایسی تقریبات میں جو بھی رقم ملتی تھی وہ اس میں غریبوں کا حصہ بھی نکالتی تھیں، مہمان خانہ چلتا تھا اور جو بھی استاد یا گانے والے اور ان کے ساتھ سازندے والے آتے وہ بھی جیونی بائی کے گھر قیام کرتے جن کے لیے خاص طعام کا بندوبست ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ جب جیونی کو معلوم ہوا کہ ان کے ملتان والے استاد امید علی بڑی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں تو وہ جاکر انھیں حیدرآباد لے آئیں اور ان کی خدمت کیا کرتی تھیں، ان کے ہاتھ پاؤں بھی اپنے ہاتھوں سے دھوتی۔بر صغیر کے بڑے گائیک استاد بڑے غلام علی خان بھی اکثر ان کے پاس آکر ٹھہرتے جس کے لیے انھوں نے الگ چارپائی بنائی تھی کیونکہ کہتے ہیں کہ وہ خاصے دارز قد تھے۔
جیونی بائی ایک مرتبہ ٹرین میں سفرکررہی تھیں کہ ان کے کمپارٹمنٹ میں پولیس پہنچ کر کچھ تلاش کرنے لگی اور جب ایک ٹرنک سے لاش ملی تو پولیس نے انھیں گرفتارکرلیا، عدالت نے انھیں سزائے موت سنائی، اس فیصلے کے بعد پورے ہندوستان میں جیسے آگ سی لگ گئی۔ یہ بات سن کر اصلی قاتل نے عدالت میں آ کر کہا کہ اس نے یہ قتل کیا ہے اور پھر جیونی کو رہا کردیا گیا۔
ایک دن اچانک جیونی کی طبیعت خراب ہوگئی مگر انھیں منہ بولے بھائی سچل میمن کے بیٹے کی شادی میں کوٹری جانا تھا جہاں فرمائش کے مطابق پرفارم بھی کرنا تھا۔ طبیعت کی خرابی کے باوجود وہ حیدرآباد سے کوٹری پہنچی، شادی کی تقریب میں گایا اور جیسے ہی رات کے ڈھائی بجے تو ان کی طبیعت مزید خراب ہوگئی اور وہ لاہور میل کے ذریعے حیدرآباد کے لیے روانہ ہوگئی۔ حیدرآباد اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد انھیں ان کے شوہر کے گہرے دوست حسین بابو مل گئے جن سے کچھ منٹ بات کی اور پھر گھوڑا گاڑی کی طرف چل پڑیں مگر اچانک انھوں نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور وہیں ان کی روح پرواز کر گئی ۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔