بینظیر کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
بینظیر بھٹو کے قاتل پر روز اول سے پوائنٹ اسکورنگ کا سلسلہ جاری ہے جس میں تمام سیاستدان،حکمران،اپنے اور غیر سب شریک ہیں
27 دسمبرکو لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو کے اندوہناک قتل کے بعد ملکی سیاست میں ایک بھونچال آگیا۔ کئی روز تک جاری رہنے والے ہنگاموں میں نصف صد کے قریب انسانی زندگیاں تلف ہوئیں، اربوں روپے مالیت کی نجی و سرکاری املاک تہس نہس کردی گئیں۔ پٹرول پمپس، فیکٹریاں، بازار،گودام، سرکاری دفاتر، بینکس، ریلوے،گاڑیوں کی قطاروں کی قطاریں جلاکر بھسم کردی گئیں، جرائم پیشہ افراد نے گوداموں، مارکیٹوں کو لوٹنے اورگاڑیوں سے قیمتی سامان نکال کر نذرآتش کیا، شہریوں سے کھلے عام نقدی، موبائل و دیگر قیمتی اشیا لوٹی گئیں خواتین سے زیورات اتروائے گئے ان کے اغوا اور ان سے زیادتی کے واقعات کی خبریں بھی آئیں۔
تین دنوں کے ہنگاموں کے دوران پولیس بالکل غائب رہی، بالآخر حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج کو بلانا پڑا۔ اس کے بعد اس قومی سانحے اور اس کے بعد ہونے والے ہنگاموں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی اور لوٹ مار کی تحقیقات شروع ہوئیں ثانی الذکر تحقیقات تو کچھ عرصے کے بعد ختم کردی گئیں،البتہ قتل کے مقدمے میں جو 10 سال سے زیادہ زیر سماعت رہا کا فیصلہ 21 ستمبر کو سنا دیا گیا، جس کے مطابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سعود عزیز اور ایس ایس پی خرم شہزاد کو 17,17 سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مقدمے کے پانچ ملزمان پہلے ہی بری کردیے گئے تھے جب کہ پرویز مشرف کو اشتہاری ملزم قرار دے کر ان کی جائیداد کی قرقی کا حکم جاری کیا گیا تھا۔
مقدمے کے فیصلے کے دوسرے ہی دن سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا بیان سامنے آیا کہ مرتضیٰ اور بینظیر بھٹو کے قتل میں آصف زرداری کا ہاتھ ہے کیونکہ قتل کا فائدہ ان کو پہنچا اس لیے وہ ذمے دار ہیں میرا تو اس سے نقصان ہوا ہے وہ اس پر خاموش کیوں تھے؟ پرویز مشرف کے بیان کے جواب میں زرداری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار یوں کیا ہے کہ ''پرویز مشرف اتنا بہادر ہے تو آجائے نا آکر کورٹ میں پیش ہوجائے، کمر خراب ہے لیکن وہاں تو ڈسکو ہو رہے ہیں۔'' خورشید شاہ نے کہا ہے کہ انھیں پکا یقین ہے کہ پرویز مشرف بینظیر کے قتل میں ملوث ہے اس نے اس سے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔ ہم جو بات کرتے ہیں اس کے ہمارے پاس ثبوت ہوتے ہیں۔''
بینظیر بھٹو کے قاتل پر روز اول سے پوائنٹ اسکورنگ کا سلسلہ جاری ہے جس میں تمام سیاستدان، حکمران، اپنے اور غیر سب شریک ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آصف زرداری صدر پرویز مشرف کی تائید اور ان کے مہیا کردہ جہاز سے پاکستان آئے تھے اس وقت صدر مشرف ایک طاقتور اور بااختیار صدر اور سیاہ و سفید کے مالک تھے تو ان کی التفات زرداری دوستی یا بینظیر دشمنی پر مبنی تھی؟ اس وقت انھوں نے یہ راز کیوں افشا نہیں کیا اس پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا؟ اس کے بعد جب پرویز مشرف ایوان اقتدار سے رخصت ہوئے تو صدر آصف زرداری نے بصد احترام گارڈ آف آنر دے کر کلین چٹ کیوں دی؟ اب صدر مشرف کہتے ہیں کہ یہ دیکھا جائے کہ بینظیر کے قتل سے فائدہ کس کو پہنچا؟ اس واقعے میں سہ سطحی غور و فکر کی ضرورت ہے کہ قتل کا فائدہ کس کو پہنچا، اس کا نقصان کس کو پہنچا یا ممکنہ نقصان سے کون محفوظ رہا۔
حالات و واقعات تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بینظیر کے قتل کا نقصان ملک و قوم، ملکی سیاست اور قومی اداروں کو یا پھر ان کی اولادوں کو پہنچا ہے، بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ جب مجھے انصاف نہیں ملا تو عام لوگوں کو کیسے ملے گا۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد یہی شکوہ ان کی بیٹی فاطمہ بھٹو کو تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پرویز مشرف بینظیر قتل کیس میں زرداری کے ملوث ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور زرداری تو روز اول سے کہتے رہے ہیں کہ وہ قاتلوں کو جانتے ہیں۔ نواز شریف نے بھی لاڑکانہ جاکر دعویٰ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر قاتلوں کو بے نقاب کریں گے تو پھر قاتل بے نقاب کیوں نہیں ہوسکے۔
رحمٰن ملک نے تو یہاں تک دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے قاتلوں کو سازشیوں سمیت گرفتار کرلیا ہے تو پھر وہ نام سامنے کیوں نہیں آئے۔ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم نے بھی رحمٰن ملک پر تحقیقات میں تعاون نہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ سانحہ کارساز کے بعد بینظیر بھٹو نے اپنے امریکی لابسٹ مارک سیگل کو ای میل کی تھی جس میں بتایا تھا کہ پرویز مشرف نے انھیں دھمکی دی ہے اور پرائیویٹ سیکیورٹی کی اجازت بھی نہیں دی اگر ان کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو پرویز مشرف ذمے دار ہوں گے۔
حکومتی ترجمان بھی اس حادثے پر متضاد بیانات دیتے رہے ہیں پہلے موت کی وجہ گاڑی کے سن اسکرین میں لگے لیور کو قرار دیا گیا، سردار آصف نے کہا کہ یہ قتل القاعدہ نے نہیں ایجنسیوں نے کرایا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا الزام بھی اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے ایجنسیوں پر عائد کیا تھا۔ مرتضیٰ بھٹو کیس میں 8 افراد ہلاک اور پولیس اہلکاروں سمیت 5 افراد زخمی ہوئے تھے۔اس وقت بھی پی پی پی کی حکومت تھی فرق یہ تھا کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے چند ہفتوں بعد پی پی پی کی حکومت ختم کردی گئی تھی اور بینظیر بھٹو کے قتل کے چند ہفتوں بعد پی پی پی کی حکومت قائم ہوئی تھی لیکن دونوں واقعات کے اصل کردار سامنے نہ آسکے۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ، اقوام متحدہ اور ملکی ایجنسیوں اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹیوں کے ذریعے تحقیقات پر کثیر رقم اور زرمبادلہ خرچ کرنے کے باوجود بھی جرم کے مرتکب اصل مجرم بے نقاب نہ ہوسکے جن دو افسران کو سزائیں ہوئی ہیں وہ قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ جائے وقوعہ کو دھو کر اور پوسٹ مارٹم نہ کراکے شواہد ضایع کرنے اور اپنے فرائض میں غفلت برتنے کی وجہ سے دی گئی ہیں، اگر ریاستی ادارے آزاد و غیر جانبدار ہوتے تو یہ نوبت پیش نہ آتی۔ مرتضیٰ بھٹو کیس میں ایس ایچ او کا قتل یا خودکشی، کوئٹہ میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کامران کا قتل یا خودکشی، ایان علی کیس کے انکوائری آفیسر کا قتل اور اس قسم کے لاتعداد واقعات یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ ادارے اور ان سے منسلک اہلکار کسی قدر دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
بینظیر قتل کیس کے فیصلے کے خلاف حکومت، ایف آئی اے اور پی پی پی نے عدالت عالیہ میں اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے لاہور ہائیکورٹ کی راولپنڈی بنچ میں آصف زرداری کی جانب سے اپیل کی ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے اے ٹی سی سے تمام ریکارڈ طلب کرکے سماعت 27 نومبر تک ملتوی کردی ہے۔ اس اپیل میں سابق صدر پرویز مشرف کو آئین و قانون کے مطابق سخت سزا دینے بری کیے گئے اور سزا یافتہ ملزمان کو سزائے موت دینے کی استدعا کی گئی ہے ان اپیلوں کے نتیجے میں سزا یافتہ افسران کی سزاؤں میں تحریف و تخفیف کے امکانات تو ہوسکتے ہیں لیکن شواہد کی عدم موجودگی کے سبب اصل مجرموں کے قانون کے شکنجے میں آنے کے امکانات معدوم ہی نظر آتے ہیں۔
تین دنوں کے ہنگاموں کے دوران پولیس بالکل غائب رہی، بالآخر حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج کو بلانا پڑا۔ اس کے بعد اس قومی سانحے اور اس کے بعد ہونے والے ہنگاموں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی اور لوٹ مار کی تحقیقات شروع ہوئیں ثانی الذکر تحقیقات تو کچھ عرصے کے بعد ختم کردی گئیں،البتہ قتل کے مقدمے میں جو 10 سال سے زیادہ زیر سماعت رہا کا فیصلہ 21 ستمبر کو سنا دیا گیا، جس کے مطابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سعود عزیز اور ایس ایس پی خرم شہزاد کو 17,17 سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مقدمے کے پانچ ملزمان پہلے ہی بری کردیے گئے تھے جب کہ پرویز مشرف کو اشتہاری ملزم قرار دے کر ان کی جائیداد کی قرقی کا حکم جاری کیا گیا تھا۔
مقدمے کے فیصلے کے دوسرے ہی دن سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا بیان سامنے آیا کہ مرتضیٰ اور بینظیر بھٹو کے قتل میں آصف زرداری کا ہاتھ ہے کیونکہ قتل کا فائدہ ان کو پہنچا اس لیے وہ ذمے دار ہیں میرا تو اس سے نقصان ہوا ہے وہ اس پر خاموش کیوں تھے؟ پرویز مشرف کے بیان کے جواب میں زرداری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار یوں کیا ہے کہ ''پرویز مشرف اتنا بہادر ہے تو آجائے نا آکر کورٹ میں پیش ہوجائے، کمر خراب ہے لیکن وہاں تو ڈسکو ہو رہے ہیں۔'' خورشید شاہ نے کہا ہے کہ انھیں پکا یقین ہے کہ پرویز مشرف بینظیر کے قتل میں ملوث ہے اس نے اس سے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔ ہم جو بات کرتے ہیں اس کے ہمارے پاس ثبوت ہوتے ہیں۔''
بینظیر بھٹو کے قاتل پر روز اول سے پوائنٹ اسکورنگ کا سلسلہ جاری ہے جس میں تمام سیاستدان، حکمران، اپنے اور غیر سب شریک ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آصف زرداری صدر پرویز مشرف کی تائید اور ان کے مہیا کردہ جہاز سے پاکستان آئے تھے اس وقت صدر مشرف ایک طاقتور اور بااختیار صدر اور سیاہ و سفید کے مالک تھے تو ان کی التفات زرداری دوستی یا بینظیر دشمنی پر مبنی تھی؟ اس وقت انھوں نے یہ راز کیوں افشا نہیں کیا اس پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا؟ اس کے بعد جب پرویز مشرف ایوان اقتدار سے رخصت ہوئے تو صدر آصف زرداری نے بصد احترام گارڈ آف آنر دے کر کلین چٹ کیوں دی؟ اب صدر مشرف کہتے ہیں کہ یہ دیکھا جائے کہ بینظیر کے قتل سے فائدہ کس کو پہنچا؟ اس واقعے میں سہ سطحی غور و فکر کی ضرورت ہے کہ قتل کا فائدہ کس کو پہنچا، اس کا نقصان کس کو پہنچا یا ممکنہ نقصان سے کون محفوظ رہا۔
حالات و واقعات تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بینظیر کے قتل کا نقصان ملک و قوم، ملکی سیاست اور قومی اداروں کو یا پھر ان کی اولادوں کو پہنچا ہے، بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ جب مجھے انصاف نہیں ملا تو عام لوگوں کو کیسے ملے گا۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد یہی شکوہ ان کی بیٹی فاطمہ بھٹو کو تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پرویز مشرف بینظیر قتل کیس میں زرداری کے ملوث ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور زرداری تو روز اول سے کہتے رہے ہیں کہ وہ قاتلوں کو جانتے ہیں۔ نواز شریف نے بھی لاڑکانہ جاکر دعویٰ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر قاتلوں کو بے نقاب کریں گے تو پھر قاتل بے نقاب کیوں نہیں ہوسکے۔
رحمٰن ملک نے تو یہاں تک دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے قاتلوں کو سازشیوں سمیت گرفتار کرلیا ہے تو پھر وہ نام سامنے کیوں نہیں آئے۔ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم نے بھی رحمٰن ملک پر تحقیقات میں تعاون نہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ سانحہ کارساز کے بعد بینظیر بھٹو نے اپنے امریکی لابسٹ مارک سیگل کو ای میل کی تھی جس میں بتایا تھا کہ پرویز مشرف نے انھیں دھمکی دی ہے اور پرائیویٹ سیکیورٹی کی اجازت بھی نہیں دی اگر ان کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو پرویز مشرف ذمے دار ہوں گے۔
حکومتی ترجمان بھی اس حادثے پر متضاد بیانات دیتے رہے ہیں پہلے موت کی وجہ گاڑی کے سن اسکرین میں لگے لیور کو قرار دیا گیا، سردار آصف نے کہا کہ یہ قتل القاعدہ نے نہیں ایجنسیوں نے کرایا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا الزام بھی اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے ایجنسیوں پر عائد کیا تھا۔ مرتضیٰ بھٹو کیس میں 8 افراد ہلاک اور پولیس اہلکاروں سمیت 5 افراد زخمی ہوئے تھے۔اس وقت بھی پی پی پی کی حکومت تھی فرق یہ تھا کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے چند ہفتوں بعد پی پی پی کی حکومت ختم کردی گئی تھی اور بینظیر بھٹو کے قتل کے چند ہفتوں بعد پی پی پی کی حکومت قائم ہوئی تھی لیکن دونوں واقعات کے اصل کردار سامنے نہ آسکے۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ، اقوام متحدہ اور ملکی ایجنسیوں اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹیوں کے ذریعے تحقیقات پر کثیر رقم اور زرمبادلہ خرچ کرنے کے باوجود بھی جرم کے مرتکب اصل مجرم بے نقاب نہ ہوسکے جن دو افسران کو سزائیں ہوئی ہیں وہ قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ جائے وقوعہ کو دھو کر اور پوسٹ مارٹم نہ کراکے شواہد ضایع کرنے اور اپنے فرائض میں غفلت برتنے کی وجہ سے دی گئی ہیں، اگر ریاستی ادارے آزاد و غیر جانبدار ہوتے تو یہ نوبت پیش نہ آتی۔ مرتضیٰ بھٹو کیس میں ایس ایچ او کا قتل یا خودکشی، کوئٹہ میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کامران کا قتل یا خودکشی، ایان علی کیس کے انکوائری آفیسر کا قتل اور اس قسم کے لاتعداد واقعات یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ ادارے اور ان سے منسلک اہلکار کسی قدر دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
بینظیر قتل کیس کے فیصلے کے خلاف حکومت، ایف آئی اے اور پی پی پی نے عدالت عالیہ میں اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے لاہور ہائیکورٹ کی راولپنڈی بنچ میں آصف زرداری کی جانب سے اپیل کی ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے اے ٹی سی سے تمام ریکارڈ طلب کرکے سماعت 27 نومبر تک ملتوی کردی ہے۔ اس اپیل میں سابق صدر پرویز مشرف کو آئین و قانون کے مطابق سخت سزا دینے بری کیے گئے اور سزا یافتہ ملزمان کو سزائے موت دینے کی استدعا کی گئی ہے ان اپیلوں کے نتیجے میں سزا یافتہ افسران کی سزاؤں میں تحریف و تخفیف کے امکانات تو ہوسکتے ہیں لیکن شواہد کی عدم موجودگی کے سبب اصل مجرموں کے قانون کے شکنجے میں آنے کے امکانات معدوم ہی نظر آتے ہیں۔