آلودہ پانی اور ماحولیاتی آلودگی

اﷲ نے تو پانی سمیت ہر چیز خالص اور فائدے مند پیدا کی لیکن انسان نے اپنے شر کے باعث اپنے ہی بھائیوں کو نقصان پہنچایا۔

nasim.anjum27@gmail.com

پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں، پانی ہے تو زندگی ہے، لیکن اس زندگی کے خاتمے اور اسے تکلیف دہ بنانے کے لیے مفاد پرست نہ صرف ہر دم کمربستہ رہتے ہیں بلکہ اپنے فرائض اور انسانیت کے تقاضوں کو یکسر فراموش کرچکے ہیں، یہی وجہ ہے آئے دن پانی کا مسئلہ سر اٹھاتا ہے، گاؤں دیہات میں پانی سرے سے نہیں ہے، وہ بے چارے دور دراز کے علاقوں سے گھڑوں کو سروں پر لاد کر لاتے ہیں، صراحی، مٹکے، مٹکیاں بغلوں میں دبائے ہوئے سرگرداں پھرتے ہیں۔ موسموں کی شدت کے باوجود وہ یہ مشقت کرنے کے لیے مجبور ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے کاندھوں پر لیڈر چڑھ کر آتے ہیں اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی انھیں فراموش کردیتے ہیں، ان کی اسی خودغرضی و بے حسی کے باعث آج بھی پورے پاکستان خاص طور پر سندھ، پنجاب کے گاؤں گوٹھوں میں پانی کی سہولتیں فراہم نہیں کی گئی ہیں اور جنھیں سہولیات حاصل تھیں ان سے چھین لی گئی ہیں۔

اﷲ نے تو پانی سمیت ہر چیز خالص اور فائدے مند پیدا کی، لیکن انسان نے اپنے شر کے باعث اپنے ہی بھائیوں کو نقصان پہنچایا، آئے دن پانی نہ آنے کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ اخبارات میں خبریں چھپتی ہیں، کہیں پانی سرے سے نہیں آتا، ان علاقوں میں ٹینکر مافیا کی چاندی ہوجاتی ہے اور جہاں آتا ہے وہاں آئے دن گدلا، بدبودار پانی کی شکایت رہتی ہے۔ حال ہی کی خبر کے مطابق اولڈ سٹی ایریا میں آلودہ پانی کی فراہمی سے شہری بے حد پریشانی کا شکار ہیں اور اس آلودہ پانی کے استعمال سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے، مضرصحت پانی کے استعمال سے شہری بیمار ہوگئے ہیں، مکینوں کو شدید تکلیف کا سامنا ہے۔ کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ، سی ٹی او کمپاؤنڈ، محمد بن قاسم روڈ، پاکستان چوک، حقانی چوک، برنس روڈ کے علاقے گدلے پانی کی سپلائی کی وجہ سے سخت پریشان ہیں بلکہ ان علاقوں میں صفائی کا بھی ناقص انتظام ہے، کچرا کنڈیاں کچرے سے بھر گئی ہیں، ان علاقوں میں تعفن پھیل رہا ہے، ان متاثرہ سڑکوں سے راہگیروں کا گزرنا مشکل ترین ہوچکا ہے، خاکروب ان علاقوں سے غائب ہیں، کوئی پرسان حال نہیں۔

پانی بہت بڑی نعمت ہے، جہاں پانی وافر مقدار میں آتا ہے وہاں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو پانی کی قدر نہیں کرتے، بے جا ضایع کرتے ہیں، شاید انھیں یہ نہیں معلوم کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں ہر چیز کا حساب کتاب روز محشر لازمی ہوگا۔ اپنی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے پانی کو احتیاط سے خرچ کرنا اور ان لوگوں اور ان علاقوں کو ضرور یاد رکھیں جہاں پانی بالکل نہیں آتا ہے، بہت سے پوش علاقے ایسے ہیں جو پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں اور یہ پانی ان کے لیے آب حیات سے کم نہیں ہے۔ ان کے گھروں کے باغات، کیاریاں، لان، بنجر زمین کا نقشہ پیش کر رہے ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو زیادہ سے زیادہ ٹینکر ڈلواتے ہیں اور وہ اپنے پیڑ پودوں کو مردہ ہونے سے بچالیتے ہیں، لیکن ٹینکر مفت میں نہیں آتے ہیں بلکہ تین ہزار سے لے کر 4 ہزار تک کا پورا ٹینکر آتا ہے، اتنی تنخواہ تو بے چارے غریب انسان پورا دن کام کرکے بھی حاصل نہیں کرتے ہیں۔

فیکٹریوں، کارخانوں میں ضرورت مندوں کا خون چوسا جاتا ہے اور بدلے میں قلیل تنخواہ، دن بھر کے تھکے ماندے یہ محنت کش جب اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو پانی، بجلی اور گیس سے محروم، بجلی اور گیس کے غم پر تو صبر کرلیتے ہیں کہ اس کی متبادل چیزوں کو استعمال میں لے آتے ہیں، لیکن پانی کہاں سے لائیں؟ کسی پڑوسی سے نہیں مانگ سکتے کہ سب کا ایک ہی حال ہے، سرکاری نلکے سے نہیں لے سکتے کہ سرکاری نلکے اب نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر کہیں ہیں بھی تو ان میں سے پانی نہیں ہوا نکلتی ہے، بچوں کے کھیلنے کے لیے یہ کھلونوں سے کم نہیں۔


کیا کیا جائے، تنگدست انسان بھوکا شکم بھرے کہ اپنے معصوم بچوں کی خواہشات کو پورا کرے؟ انھیں تعلیمی ماحول مہیا کرے، کھلونے اور کھانے پینے کی مزے دار چیزیں خرید کر دے، یہ اس کے لیے ممکن ہی نہیںہے، یہی وجہ ہے اولڈ سٹی ایریاز میں اکثر بچے گلیوں میں کھیلتے کودتے نظر آئیں گے، یہی بچے بعض اوقات اغوا کرلیے جاتے ہیں اور انھی میں سے اکثر بری صحبت میں پڑجاتے ہیں اس طرح ہر دن، ہر سال باقاعدگی کے ساتھ جرائم پیشہ افراد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ارباب اقتدار کی اپنے فرائض سے چشم پوشی نے پورے معاشرے کو پستی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے اور انارکی کی طرف پورا ملک بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔

سابق صدر مشرف کے دور حکومت میں سڑکوں، فلائی اوورز، برج کی تعمیرات نے شہریوں کے لیے بے حد آسانیاں پیدا کی تھیں اور یہ بڑا کام سابق ناظم شہر مصطفیٰ کمال کا تھا، جس طرح نواز شریف نے لاہور کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی لی تھی اور آج ہر شخص یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ اب تو لاہور کا نقشہ ہی بدل چکا ہے۔ نقشہ توکراچی کا بھی بدلا تھا، لیکن اب پھر پرانے مسائل سامنے آرہے ہیں، تعمیروترقی کا کام اس طرح انجام نہیں دیا جارہا ہے، صفائی ستھرائی کا بھی فقدان ہے، ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ماحول میں بڑھتے زہریلے اثرات عوام کے لیے مضر ہیں۔ عوام کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ فضا میں سیسہ سمیت آرسینک اور اسپتال کے طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر تلف نہ کرنے کی وجہ سے پھیلنے والے زہریلے اثرات پاکستان میں لاکھوں افراد کو متاثر کر رہے ہیں، یہ معلومات آغا خان یونیورسٹی میں ماحولیاتی اثرات پر منعقد کیے جانے والے سیمینار میں مختلف ماہرین طب نے بہم پہنچائیں۔

سیمینار میں برمنگھم یونیورسٹی البامہ کے ڈپارٹمنٹ آف ایپی ڈیمیولوجی فار اسکول آف پبلک ہیلتھ کی پروفیسر ساتھیا کمار نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی اور کہا کہ پاکستان میں معاشی ترقی کی کوششوں نے ماحولیاتی مسائل مثلاً آبی آلودگی پر فوقیت حاصل کرلی ہے، زرخیز زمین کا سیم زدہ ہوجانا، جنگلات کی کٹائی کے باعث پاکستان شدید معاشی مسائل کا سامنا کر رہا ہے، دوسرا اہم مسئلہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر ظفر فاطمی نے ایک تحقیق کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پینے کے پانی میں آرسینک موجود ہے۔

یہ تو وہ حقائق تھے جنھیں ڈاکٹروں کی ٹیم نے بے نقاب کیا اور روزمرہ پیش آنے والے مسائل کی نشاندہی عوام کرتی ہے، لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔ اکثر وبیشتر گلشن اقبال اور گلستان جوہر کے کئی علاقوں میں پینے کے پانی میں سیوریج لائنیں مل جاتی ہیں، جس کی وجہ سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے، پانی بدبودار آنے کی وجہ سے جسمانی پاکی خصوصاً ''وضو'' وغیرہ نہیں کیا جاسکتا ہے، اور اگر پینے کے لیے استعمال کیا جائے تب بیماریاں پھیلتی ہیں بعض اوقات جلد پر اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں اکثر پیٹ کی بیماری لاحق ہوجاتی ہیں۔ بے چارے بہت سے شہری ایسے میں جو بے حد مجبوری کے باعث گندا پانی استعمال کرتے ہیں چونکہ ہر شخص صاحب حیثیت نہیں ہے کہ وہ مہنگا ترین ٹینکر ڈلوائے۔

یہ ان اداروں کا فرض ہے جن کا تعلق صاف پانی کی فراہمی سے ہے کہ وہ شہریوں کی ذہنی اذیت کو دور کریں اور بلدیہ عظمیٰ شہر سے غلاظت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے تاکہ ان کی تنخواہیں حلال رزق میں شامل ہوسکیں۔
Load Next Story