حُسنِ اخلاق
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضور اکرمؐ تک تمام انبیائے کرامؑ کو بہترین اخلاق کے ساتھ دنیا میں مبعوث فرمایا۔
DI KHAN:
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور انسانی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس سے متعلق اسلام نے راہ نمائی نہ کی ہو۔
انسان کی معاشرتی زندگی کے حوالے سے جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ حُسنِ اخلاق ہے۔ اسے انسانی برتری اور عظمت کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں جا بہ جا عمدہ اخلاق پر زور دیا گیا ہے کیوں کہ خوش گفتاری اور نرم خوئی دلوں پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے جس کا مشاہدہ عام زندگی میں بھی کیا جاتا ہے۔ نرم خوئی دلوں کو فتح کرنے کا سبب بنتی ہے جب کہ سخت کلامی دل شکنی اور دکھوں کا باعث بنتی ہے۔
حُسنِ اخلاق اعلیٰ ترین انسان اوصاف کی بنیاد ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، مفہوم: '' نرم بات کہنا اور معاف کردینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو۔ (سورۃ البقرہ )
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضور اکرمؐ تک تمام انبیائے کرامؑ کو بہترین اخلاق کے ساتھ دنیا میں مبعوث فرمایا۔ بالخصوص حضورؐ نے حُسنِ اخلاق کی تعلیم پر بہت زور دیا اور اسلام کے دنیا بھر میں پھیلنے کا ایک بڑا سبب بھی حضورؐ اور صحابہ کرامؓ کے عمدہ اخلاق تھے۔
حُسنِ اخلاق کی اہمیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبؐ اور وجۂ تخلیق کائنات کو اس کی تعلیم دے رہے ہیں کہ لوگوں کو راغب کرنے کے لیے نرم خو ہونا اور خوش گفتار ہونا نہایت ضروری ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ عرب جیسے اخلاقی برائیوں سے بھرپور معاشرے میں ''صادق'' اور ''امین'' کہلانا اور عربوں جیسے سخت گیر لوگوں کو اپنے آبا و اجداد کے دین سے اسلام کی جانب راغب کرنا محض آپؐ کے اخلاق ہی کی وجہ سے ممکن تھا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم اخلاق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور اس کی گواہی قرآن مجید کے ذریعے یوں دی گئی، مفہوم: ''ہم نے آپؐ کو عظیم اخلاق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔''
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے آپؐ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: '' آپؐ کا اخلاق قرآن ہے۔'' یعنی جو معیارِِ اخلاق قرآن مجید میں تعلیم کیا گیا ہے آپؐ اس کی عملی تفسیر ہیں۔ خود حضورؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا، مفہوم : ''میری بعثت ہی اس لیے ہوئی کہ میں مکارم الاخلاق کو پایۂ تکمیل تک پہنچاؤں۔''
یہی وہ تعلیمات تھیں جن کی بنا پر اسلام پورے عالم میں پھیلا۔ حضورؐ نے صحابہ کرامؓ کی ایسی تعلیم فرمائی کہ انھوں نے ایک دنیا کو مسخر کیا، آپس میں بھائی چارے کی ایسی فضا قائم کی کہ صحابہ کرامؓ دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے۔
آپؐ نے فرمایا: '' تم کسی نیکی کو حقیر مت سمجھو اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔'' معاشرتی استحکام اور رواداری کو پروان چڑھانے میں حُسنِ اخلاق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ حضورؐ نے فرمایا : ''اچھی اور میٹھی بات بھی صدقہ ہے۔'' اخلاق کے یہی وہ معیار تھے جن کی مدد سے آپؐ اور آپؐ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ نے ایک ایسے معاشرے کو بدل کر رکھ دیا جس میں لڑنا، جھگڑنا، قتل و غارت معمول کی باتیں تھیں، جہاں احترام انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ حضورؐ نے ان حضرات کی ایسی تربیت کی اور ایسا معاشرہ پروان چڑھایا کہ انھوں نے ایک دنیا کی امامت کی اور دنیا کے کونے کونے میں اسلام کی حقانیت کو پہنچایا۔
حدیث کی کتابوں میں حضورؐ کا یہ ارشاد بھی ملتا ہے، مفہوم: '' انسان حُسن خلق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے سے اور رات بھر عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔'' حضورؐ جب اپنے سفیروں یا عہدے داروں کو کسی علاقے میں روانہ کرتے تو انہیں عمدہ اخلاق کی تعلیم فرماتے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں : ''حضورؐ نے مجھے یمن بھیجتے وقت جو آخری نصیحت فرمائی وہ یہ تھی کہ لوگوں سے بہتر اخلاق سے پیش آنا۔''
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ دنیا کے جس کونے میں بھی گئے لوگ ان کے عمدہ اخلاق سے متاثر ہوتے اور اسلام میں داخل ہوتے گئے یوں دنیا بھر میں اسلام کو عروج حاصل ہوا۔ صحابہ کرامؓ کی پیروی میں اولیائے کرامؒ اور بزرگان دین نے بھی اپنے عمدہ اخلاق کی بہ دولت دنیا بھر میں اسلام کے پیغام کو پھیلایا۔ خود ہمارے برصغیر میں اسلام کی ترویج میں اولیائے کرام نے بڑا اہم کردار ادا کیا وہ لوگوں سے نرم خوئی سے پیش آتے، لوگوں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم فرماتے اور ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرتے تھے۔ یوں لوگ ان کے گرد جمع ہوتے اور ان کی بات کو توجہ سے سنتے تھے۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جب تک حضورؐ کی سیرت اور صحابہ کرامؓ کے کردار و اخلاق کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کیں انھیں نہ تو کوئی مغلوب کرسکا اور نہ ہی وہ کسی قوم کے سامنے عاجز آئے بل کہ دنیا بھر میں ان کی برتری قائم رہی۔
اخلاق کے اس نصب العین کے حصول کے لیے ماضی میں دو اداروں کا کردار ہمیشہ مثالی رہا، پہلا گھرانا (والدین اور عزیز و اقارب) اور دوسرا تعلیمی ادارے (اساتذہ کرام) ان دونوں نے نسلوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیا اور پوری نسلیں ان کے زیر اثر پروان چڑھتی رہیں۔ ہر بچہ سلیم الفطرت پیدا ہوتا ہے اور اس کی شخصیت کی تعمیر میں ان دونوں کا بنیادی کردار ہے۔ ہمارے ہاں جب تک یہ دونوں ادارے موثر کردار ادا کرتے رہے تعلیم کے ساتھ تربیت کا عمل بھی جاری رہا اور اس میں عمدہ اخلاق کی تربیت کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے یوں ایک نسل کے اعلیٰ اوصاف دوسری نسل کو منتقل ہوتے رہے ہیں اور یوں معاشرتی استحکام، رواداری اور بھائی چارے کی فضا قائم رہی ہے اور یہ صرف قرآن مجید اور حضورؐ کی تعلیمات کو اگلی نسلوں میں منتقل کرنے سے ہوا۔
لیکن بدقسمتی سے جب ہمارے معاشرے سے اخلاقی اوصاف زوال پزیر ہوئے اور ان کی جگہ مادیت کا دور شروع ہوا۔ تو ان دو اداروں کا کردار کم زور ہوا تو کردار سازی کا عمل بھی کم زور ہونا شروع ہوا۔ وہ بنیادی انسانی اوصاف اور حُسن کردار جو دلوں کو جوڑنے کا باعث بنتا ہے ہم اس سے عاری ہونا شروع ہوگئے۔ جب تعلیم و تربیت کے بہ جائے فقط کاروبار رہ گئی اور حُسن کردار کو نظر انداز کیا جانے لگا تو بے چینی، معاشرتی انتشار اور بے امنی کا دور دورہ شروع ہوا۔ لہٰذا آج کی ہماری نسلیں ان بنیادی اخلاقی قدروں سے بہت دور ہوگئی ہیں۔ کردار سازی، حُسن اخلاق، حُسن معاشرت ہمارے تعلیمی نظام کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتے۔
آج ہمارا نظام اخلاق جس بگاڑ کا شکار ہے وہ روحانی قدروں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ آج بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اسلام کی وہ بنیادی اقدار خلوص، مروت، بھائی چارہ، روا داری اور ایثار کہیں نظر نہیں آتیں۔
جب سے ہم نے مادہ پرستی کا سفر شروع کیا ہے ہماری نسل اپنے اسلاف کے حُسن اخلاق اور حُسن کردار کو بھول ہی گئی ہے۔ ہم معاشرتی بے سکونی، انتشار، بے امنی کا شکار ہیں۔ آج کی ہماری نسل کو مغرب کے لکھاری کا یہ قول تو یاد ہے کہ ''میٹھے بول میں جادو ہے'' حالاں کہ ہمیں تو چودہ سو سال پہلے یہ تعلیم دی گئی تھی کہ '' اچھی اور میٹھی بات بھی صدقہ ہے'' اور انہی اصولوں کے تحت معاشرتی تشکیل ہوئی تھی جس کا اثر پورے عالم نے قبول کیا۔
آپؐ نے فرمایا: '' تم میں سے بہترین مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔''
لہٰذا آج ہمیں اپنے اسلاف کے حُسنِ اخلاق کی طرف رجوع کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ آج ہم جس معاشرتی بے سکونی و بے اطمینانی کا شکار ہیں اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کی اخلاقی تربیت کو اپنی بنیادی ترجیح بنائیں۔ اسلام نے جن اخلاقی اصولوں کی تعلیم دی ہے ہم ان پر سختی سے عمل پیرا ہوں اور اپنا خود محاسبہ کریں۔ حضورؐ کے صحابہ کرامؓ ستاروں کی مانند ہیں ہم اپنے کردار و عمل اور اپنے اخلاق کو ان کے حُسنِ کردار کے مطابق ڈھال لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دنیا میں عزت و وقار اور اعلیٰ مقام حاصل نہ کرسکیں۔ اس میں ہمیں انفرادی طور پر بھی توجہ دینی ہوگی اور بہ حیثیت مجموعی معاشرتی بہتری کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس سے ایک طرف ہمارے معاشرتی مسائل میں کمی واقع ہوگی تو دوسری طرف پوری دنیا میں مسلمانوں کا تشخص بحال ہونے کے امکانات پیدا ہوں گے۔
اللہ پاک ہمیں حضورؐ، صحابہ کرامؓ اور اولیائے کرامؒ کے حُسنِ اخلاق کو اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق فرمائے۔ (آمین)
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور انسانی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس سے متعلق اسلام نے راہ نمائی نہ کی ہو۔
انسان کی معاشرتی زندگی کے حوالے سے جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ حُسنِ اخلاق ہے۔ اسے انسانی برتری اور عظمت کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں جا بہ جا عمدہ اخلاق پر زور دیا گیا ہے کیوں کہ خوش گفتاری اور نرم خوئی دلوں پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے جس کا مشاہدہ عام زندگی میں بھی کیا جاتا ہے۔ نرم خوئی دلوں کو فتح کرنے کا سبب بنتی ہے جب کہ سخت کلامی دل شکنی اور دکھوں کا باعث بنتی ہے۔
حُسنِ اخلاق اعلیٰ ترین انسان اوصاف کی بنیاد ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، مفہوم: '' نرم بات کہنا اور معاف کردینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو۔ (سورۃ البقرہ )
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضور اکرمؐ تک تمام انبیائے کرامؑ کو بہترین اخلاق کے ساتھ دنیا میں مبعوث فرمایا۔ بالخصوص حضورؐ نے حُسنِ اخلاق کی تعلیم پر بہت زور دیا اور اسلام کے دنیا بھر میں پھیلنے کا ایک بڑا سبب بھی حضورؐ اور صحابہ کرامؓ کے عمدہ اخلاق تھے۔
حُسنِ اخلاق کی اہمیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبؐ اور وجۂ تخلیق کائنات کو اس کی تعلیم دے رہے ہیں کہ لوگوں کو راغب کرنے کے لیے نرم خو ہونا اور خوش گفتار ہونا نہایت ضروری ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ عرب جیسے اخلاقی برائیوں سے بھرپور معاشرے میں ''صادق'' اور ''امین'' کہلانا اور عربوں جیسے سخت گیر لوگوں کو اپنے آبا و اجداد کے دین سے اسلام کی جانب راغب کرنا محض آپؐ کے اخلاق ہی کی وجہ سے ممکن تھا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم اخلاق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور اس کی گواہی قرآن مجید کے ذریعے یوں دی گئی، مفہوم: ''ہم نے آپؐ کو عظیم اخلاق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔''
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے آپؐ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: '' آپؐ کا اخلاق قرآن ہے۔'' یعنی جو معیارِِ اخلاق قرآن مجید میں تعلیم کیا گیا ہے آپؐ اس کی عملی تفسیر ہیں۔ خود حضورؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا، مفہوم : ''میری بعثت ہی اس لیے ہوئی کہ میں مکارم الاخلاق کو پایۂ تکمیل تک پہنچاؤں۔''
یہی وہ تعلیمات تھیں جن کی بنا پر اسلام پورے عالم میں پھیلا۔ حضورؐ نے صحابہ کرامؓ کی ایسی تعلیم فرمائی کہ انھوں نے ایک دنیا کو مسخر کیا، آپس میں بھائی چارے کی ایسی فضا قائم کی کہ صحابہ کرامؓ دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے۔
آپؐ نے فرمایا: '' تم کسی نیکی کو حقیر مت سمجھو اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔'' معاشرتی استحکام اور رواداری کو پروان چڑھانے میں حُسنِ اخلاق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ حضورؐ نے فرمایا : ''اچھی اور میٹھی بات بھی صدقہ ہے۔'' اخلاق کے یہی وہ معیار تھے جن کی مدد سے آپؐ اور آپؐ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ نے ایک ایسے معاشرے کو بدل کر رکھ دیا جس میں لڑنا، جھگڑنا، قتل و غارت معمول کی باتیں تھیں، جہاں احترام انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ حضورؐ نے ان حضرات کی ایسی تربیت کی اور ایسا معاشرہ پروان چڑھایا کہ انھوں نے ایک دنیا کی امامت کی اور دنیا کے کونے کونے میں اسلام کی حقانیت کو پہنچایا۔
حدیث کی کتابوں میں حضورؐ کا یہ ارشاد بھی ملتا ہے، مفہوم: '' انسان حُسن خلق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے سے اور رات بھر عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔'' حضورؐ جب اپنے سفیروں یا عہدے داروں کو کسی علاقے میں روانہ کرتے تو انہیں عمدہ اخلاق کی تعلیم فرماتے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں : ''حضورؐ نے مجھے یمن بھیجتے وقت جو آخری نصیحت فرمائی وہ یہ تھی کہ لوگوں سے بہتر اخلاق سے پیش آنا۔''
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ دنیا کے جس کونے میں بھی گئے لوگ ان کے عمدہ اخلاق سے متاثر ہوتے اور اسلام میں داخل ہوتے گئے یوں دنیا بھر میں اسلام کو عروج حاصل ہوا۔ صحابہ کرامؓ کی پیروی میں اولیائے کرامؒ اور بزرگان دین نے بھی اپنے عمدہ اخلاق کی بہ دولت دنیا بھر میں اسلام کے پیغام کو پھیلایا۔ خود ہمارے برصغیر میں اسلام کی ترویج میں اولیائے کرام نے بڑا اہم کردار ادا کیا وہ لوگوں سے نرم خوئی سے پیش آتے، لوگوں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم فرماتے اور ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرتے تھے۔ یوں لوگ ان کے گرد جمع ہوتے اور ان کی بات کو توجہ سے سنتے تھے۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جب تک حضورؐ کی سیرت اور صحابہ کرامؓ کے کردار و اخلاق کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کیں انھیں نہ تو کوئی مغلوب کرسکا اور نہ ہی وہ کسی قوم کے سامنے عاجز آئے بل کہ دنیا بھر میں ان کی برتری قائم رہی۔
اخلاق کے اس نصب العین کے حصول کے لیے ماضی میں دو اداروں کا کردار ہمیشہ مثالی رہا، پہلا گھرانا (والدین اور عزیز و اقارب) اور دوسرا تعلیمی ادارے (اساتذہ کرام) ان دونوں نے نسلوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیا اور پوری نسلیں ان کے زیر اثر پروان چڑھتی رہیں۔ ہر بچہ سلیم الفطرت پیدا ہوتا ہے اور اس کی شخصیت کی تعمیر میں ان دونوں کا بنیادی کردار ہے۔ ہمارے ہاں جب تک یہ دونوں ادارے موثر کردار ادا کرتے رہے تعلیم کے ساتھ تربیت کا عمل بھی جاری رہا اور اس میں عمدہ اخلاق کی تربیت کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے یوں ایک نسل کے اعلیٰ اوصاف دوسری نسل کو منتقل ہوتے رہے ہیں اور یوں معاشرتی استحکام، رواداری اور بھائی چارے کی فضا قائم رہی ہے اور یہ صرف قرآن مجید اور حضورؐ کی تعلیمات کو اگلی نسلوں میں منتقل کرنے سے ہوا۔
لیکن بدقسمتی سے جب ہمارے معاشرے سے اخلاقی اوصاف زوال پزیر ہوئے اور ان کی جگہ مادیت کا دور شروع ہوا۔ تو ان دو اداروں کا کردار کم زور ہوا تو کردار سازی کا عمل بھی کم زور ہونا شروع ہوا۔ وہ بنیادی انسانی اوصاف اور حُسن کردار جو دلوں کو جوڑنے کا باعث بنتا ہے ہم اس سے عاری ہونا شروع ہوگئے۔ جب تعلیم و تربیت کے بہ جائے فقط کاروبار رہ گئی اور حُسن کردار کو نظر انداز کیا جانے لگا تو بے چینی، معاشرتی انتشار اور بے امنی کا دور دورہ شروع ہوا۔ لہٰذا آج کی ہماری نسلیں ان بنیادی اخلاقی قدروں سے بہت دور ہوگئی ہیں۔ کردار سازی، حُسن اخلاق، حُسن معاشرت ہمارے تعلیمی نظام کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتے۔
آج ہمارا نظام اخلاق جس بگاڑ کا شکار ہے وہ روحانی قدروں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ آج بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اسلام کی وہ بنیادی اقدار خلوص، مروت، بھائی چارہ، روا داری اور ایثار کہیں نظر نہیں آتیں۔
جب سے ہم نے مادہ پرستی کا سفر شروع کیا ہے ہماری نسل اپنے اسلاف کے حُسن اخلاق اور حُسن کردار کو بھول ہی گئی ہے۔ ہم معاشرتی بے سکونی، انتشار، بے امنی کا شکار ہیں۔ آج کی ہماری نسل کو مغرب کے لکھاری کا یہ قول تو یاد ہے کہ ''میٹھے بول میں جادو ہے'' حالاں کہ ہمیں تو چودہ سو سال پہلے یہ تعلیم دی گئی تھی کہ '' اچھی اور میٹھی بات بھی صدقہ ہے'' اور انہی اصولوں کے تحت معاشرتی تشکیل ہوئی تھی جس کا اثر پورے عالم نے قبول کیا۔
آپؐ نے فرمایا: '' تم میں سے بہترین مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔''
لہٰذا آج ہمیں اپنے اسلاف کے حُسنِ اخلاق کی طرف رجوع کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ آج ہم جس معاشرتی بے سکونی و بے اطمینانی کا شکار ہیں اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کی اخلاقی تربیت کو اپنی بنیادی ترجیح بنائیں۔ اسلام نے جن اخلاقی اصولوں کی تعلیم دی ہے ہم ان پر سختی سے عمل پیرا ہوں اور اپنا خود محاسبہ کریں۔ حضورؐ کے صحابہ کرامؓ ستاروں کی مانند ہیں ہم اپنے کردار و عمل اور اپنے اخلاق کو ان کے حُسنِ کردار کے مطابق ڈھال لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دنیا میں عزت و وقار اور اعلیٰ مقام حاصل نہ کرسکیں۔ اس میں ہمیں انفرادی طور پر بھی توجہ دینی ہوگی اور بہ حیثیت مجموعی معاشرتی بہتری کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس سے ایک طرف ہمارے معاشرتی مسائل میں کمی واقع ہوگی تو دوسری طرف پوری دنیا میں مسلمانوں کا تشخص بحال ہونے کے امکانات پیدا ہوں گے۔
اللہ پاک ہمیں حضورؐ، صحابہ کرامؓ اور اولیائے کرامؒ کے حُسنِ اخلاق کو اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق فرمائے۔ (آمین)