سانپ کے منہ میں چھچھوندر
ملک کے سب کے سب طبقے آپ کی حکمرانی کے طور طریقوں پر تنقید کر رہے ہیں اور کیچڑ بھی اچھال رہے ہیں۔
موجودہ جمہوری حکومت کا 5 سالہ دور حکومت اختتام پذیر ہونے والا ہے، چند ہفتوں کی بات ہے کوئی مہینوں، سالوں کی بات نہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ حکمرانوں کی کارکردگی میں عوامی مفادات کو ترجیحات میں شامل کرنا کہیں نہیں دکھائی دیتا۔ کسی بھی مسئلے پر عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ہمیشہ عوام کے حقوق کے خلاف ہی ردعمل سامنے آیا۔ یوں تو جب حکمراں اقتدار میں آئے تھے بڑے بلند بانگ دعوے کر رہے تھے، جانے والی حکومت پر تنقید کررہے ہیں، بس ایک ہی رٹا لگا رہے تھے کہ یہ گھمبیر مسائل ہمیں ورثے میں ملے۔ ارے بابا! اگر ورثے میں ملے تھے تو کون سی آفت ٹوٹ پڑی تھی؟ اس کے بدلے عوام نے بھی تو آپ کو 5 سال کی مدت دی تھی۔
کیا عوام کی طرف سے آپ پر اعتماد نہ تھا کہ انھوں نے آپ کو اکثریت سے منتخب کیا تھا؟ کم ازکم آپ اپنے اس 5 سالہ دور میں عوام کے اعتماد کا بھرم ہی رکھ لیتے۔ لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ نے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاکر اسے پس پشت ڈال دیا۔ آپ نے اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت (یا مک مکا) کیوں کیا تھا؟ اپنی برتری کی بنیاد پر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے، مفاہمت اسی لیے کی گئی تھی ناں کہ آپ کی کارکردگی پر کوئی انگشت درازی نہ ہو اور آپ اپنے ہی ایجنڈے پر کام کرتے ہیں؟کیا آپ کو معلوم نہیں تھا؟ آپ یہ کیوں نہیں سمجھ سکے کہ اپوزیشن نے مفاہمانہ رویہ کیوں اختیار کیا؟ یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے لیکن چشم پوشی اختیار کی گئی۔ اپوزیشن نے تو مفاہمت کرکے اپنے دامن کو داغدار ہونے سے بچالیا کہ آپ کی خراب کارکردگی، ناقص پالیسیوں اور دیگر عوامل کا الزام ان پر نہ آئے اور اس ناقص کارکردگی کے دھبے آپ ہی کے دامن پر رہیں۔ دیکھا آپ نے کیسی چال چلی اپوزیشن نے کہ ''ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ آئے چوکھا''۔ آپ کے ساتھ بھی رہے اور عوام میں جاکر آپ کی خراب کارکردگی کا شور بھی مچایا کہ ہم ان حکمرانوں کو بہتر تجاویز دیتے رہے، اچھے مشوروں سے نوازا، ان کو اپنی کارکردگی درست کرنے کا موقع بھی دیا، لیکن انھوں نے ہماری باتوں پر دھیان دیا اور نہ ہی ان پر عمل کیا بلکہ ہمیں جھوٹے وعدوں پر ٹرخادیا گیا۔
ملک کے سب کے سب طبقے آپ کی حکمرانی کے طور طریقوں پر تنقید کر رہے ہیں اور کیچڑ بھی اچھال رہے ہیں۔ آپ کی فرینڈلی اپوزیشن کے ہی نامور رہنما مختلف مسائل کے حل کے لیے عدالت عظمیٰ میں اپنی پٹیشنز لے کر جا رہے ہیں۔ اس طرح عدالت عظمیٰ کی توجہ تمام عوامی مسائل پر مرکوز ہوگئی اور متعدد مقدمات میں تو عدالت عظمیٰ کو ازخود نوٹس (سوموٹو ایکشن) لینا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ ''ہرکام عدلیہ نے کرنا ہے تو پھر حکومت کی کیا ضرورت ہے، حکومت گھر بیٹھ جائے۔'' ایسی صورت حال اسی لیے پیدا ہوئی کہ حکومت کی کارکردگی ناقص اور غیرتسلی بخش رہی۔ہمارے ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ ہر قتل کا سانحہ ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوتا بلکہ اس میں ذاتی جھگڑے، زمین و جائیداد کے تنازعات اور مختلف قسم کے مافیاز کے تنازعات بھی شامل ہیں۔
یہ سب کچھ صحیح مان بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ آخر حکومت ان وقوعات سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟ اس سوال کا حل سوچتے سوچتے موجودہ حکومت کی معیاد حکمرانی اختتام تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن 5 سالہ دور حکومت کے دوران پیدا کردہ کشیدہ صورت حال جوں کی توں موجود ہے۔ اس غیر یقینی صورت حال نے عوام کو خستہ حال کردیا اور ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ ہمارا ملک اب ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے کہ اندرونی و بیرونی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ افراتفری کے اس ماحول میں ہماری ملکی معیشت بھی چکنا چور ہوگئی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کا آنا تو رہ گیا ایک طرف اس کے برعکس ہمارے اپنے سرمایہ کار بھی اپنا کاروبار سمیٹ کر بیرون ملک سدھار رہے ہیں۔ اسی دوران ایک مرحلہ ایسا آگیا تھا کہ اسٹاک مارکیٹ کرپش ہونے لگی تھی اور خطرہ تھا کہ یہ لڑکھڑاتی معیشت بیٹھ نہ جائے۔
اسٹیٹ بینک وقتاً فوقتاً اسی مخدوش صورت حال میں اپنی جائزہ رپورٹس جاری کرتا رہا۔ جس میں معاشی نمو میں کمی کی وجہ سے پیدا شدہ صورت حال کو اجاگر کیا جاتا رہا۔ حکومتی قرضوں کا بھی جائزہ لیا گیا جو خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔ جس کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ بہرحال اس معاشی بدحالی پر حکام بالا اور حکومتی ارکان نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا، کیا جن حالات کا ذکر مذکورہ بالا سطور میں کیا گیا ہے حکمرانوں کی نااہلیت کا ثبوت نہیں؟ بس ایک ہی راگ الاپتے رہے کہ ''سب اچھا ہے'' ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے جھوٹے وعدے اور کاغذی کارروائیوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
جب اقتدار میں آئے تو نعرہ لگایا تھا کہ عوام کے مسائل حل کریں گے۔ روٹی، کپڑا اور مکان مہیا کریں گے، غربت کا خاتمہ کریں گے، روزگار مہیا کریں گے۔ بس یہ نعرے، نعرے ہی رہے۔ عمل صفرکا صفر ہی رہا۔ غریب غریب تر ہوتا رہا اور امیر امیر تر ہوتا گیا۔ کیا یہی ڈھنگ ہوتے ہیں عوام کی حکمرانی کے؟ ہر جگہ، ہر موقعے پر عوام، عوام کی رٹ لگاتے رہے، مگر عوام کو دکھ،درد، تکلیف اور مسائل کے انبار تلے دبانے کے سوا کچھ نہ دیا۔ کرپشن تلے عوام کی خواہش کو روند دیا گیا۔ خوف، دہشت اور زبوں حالی کا ماحول پیدا کردیا گیا۔ مردوں کو تو کیا، عورتوں اور بچوں کو بھی معاشی بد حالی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ کیا یہی عوام کی خدمت اور عوام کی حکمرانی کے لچھے ہوتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ ناقص کارکردگی اور نااہلی کا ثبوت ہیں۔
ہر فرد پریشان ہے، ہر ایک کی زبان پر یہی جملہ ہے کہ'' اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت کرے''۔ اسی لیے ہر کوئی تبدیلی کی خواہش کر رہا ہے، خدا کرے آیندہ آنے والے انتخابات خوشگوار ماحول میں مقررہ وقت پر منعقد ہوجائیں۔ ابھی تو نگراں حکومت کے مسئلے پر ہی اتفاق نہیں ہو پارہا ہے۔ مشاورتوں کا عمل جاری ہے، مگر کچھ مثبت صورت حال سامنے نہیں آرہی ہے۔ معلوم نہیں ابھی اور کتنا وقت درکار ہوگا کہ مشاورت کا عمل مکمل ہو اور عبوری نگراں حکومت کا قیام عمل میں آئے۔ ایک طرف حکومت گو مگو کی حالت سے دوچار ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف بھی طرح طرح کی تجاویز و مطالبات پیش کر رہی ہے، نگراں حکومت کا قیام ایسا مسئلہ بن گیا کہ ''سانپ کے منہ چھچھوندر کہ نگلتے بنے نہ اگلتے بنے'' ۔ نگراں حکومت کا قیام تو دور کی بات یہاں نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہوپارہا ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ حکمرانوں کی کارکردگی میں عوامی مفادات کو ترجیحات میں شامل کرنا کہیں نہیں دکھائی دیتا۔ کسی بھی مسئلے پر عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ہمیشہ عوام کے حقوق کے خلاف ہی ردعمل سامنے آیا۔ یوں تو جب حکمراں اقتدار میں آئے تھے بڑے بلند بانگ دعوے کر رہے تھے، جانے والی حکومت پر تنقید کررہے ہیں، بس ایک ہی رٹا لگا رہے تھے کہ یہ گھمبیر مسائل ہمیں ورثے میں ملے۔ ارے بابا! اگر ورثے میں ملے تھے تو کون سی آفت ٹوٹ پڑی تھی؟ اس کے بدلے عوام نے بھی تو آپ کو 5 سال کی مدت دی تھی۔
کیا عوام کی طرف سے آپ پر اعتماد نہ تھا کہ انھوں نے آپ کو اکثریت سے منتخب کیا تھا؟ کم ازکم آپ اپنے اس 5 سالہ دور میں عوام کے اعتماد کا بھرم ہی رکھ لیتے۔ لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ نے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاکر اسے پس پشت ڈال دیا۔ آپ نے اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت (یا مک مکا) کیوں کیا تھا؟ اپنی برتری کی بنیاد پر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے، مفاہمت اسی لیے کی گئی تھی ناں کہ آپ کی کارکردگی پر کوئی انگشت درازی نہ ہو اور آپ اپنے ہی ایجنڈے پر کام کرتے ہیں؟کیا آپ کو معلوم نہیں تھا؟ آپ یہ کیوں نہیں سمجھ سکے کہ اپوزیشن نے مفاہمانہ رویہ کیوں اختیار کیا؟ یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے لیکن چشم پوشی اختیار کی گئی۔ اپوزیشن نے تو مفاہمت کرکے اپنے دامن کو داغدار ہونے سے بچالیا کہ آپ کی خراب کارکردگی، ناقص پالیسیوں اور دیگر عوامل کا الزام ان پر نہ آئے اور اس ناقص کارکردگی کے دھبے آپ ہی کے دامن پر رہیں۔ دیکھا آپ نے کیسی چال چلی اپوزیشن نے کہ ''ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ آئے چوکھا''۔ آپ کے ساتھ بھی رہے اور عوام میں جاکر آپ کی خراب کارکردگی کا شور بھی مچایا کہ ہم ان حکمرانوں کو بہتر تجاویز دیتے رہے، اچھے مشوروں سے نوازا، ان کو اپنی کارکردگی درست کرنے کا موقع بھی دیا، لیکن انھوں نے ہماری باتوں پر دھیان دیا اور نہ ہی ان پر عمل کیا بلکہ ہمیں جھوٹے وعدوں پر ٹرخادیا گیا۔
ملک کے سب کے سب طبقے آپ کی حکمرانی کے طور طریقوں پر تنقید کر رہے ہیں اور کیچڑ بھی اچھال رہے ہیں۔ آپ کی فرینڈلی اپوزیشن کے ہی نامور رہنما مختلف مسائل کے حل کے لیے عدالت عظمیٰ میں اپنی پٹیشنز لے کر جا رہے ہیں۔ اس طرح عدالت عظمیٰ کی توجہ تمام عوامی مسائل پر مرکوز ہوگئی اور متعدد مقدمات میں تو عدالت عظمیٰ کو ازخود نوٹس (سوموٹو ایکشن) لینا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ ''ہرکام عدلیہ نے کرنا ہے تو پھر حکومت کی کیا ضرورت ہے، حکومت گھر بیٹھ جائے۔'' ایسی صورت حال اسی لیے پیدا ہوئی کہ حکومت کی کارکردگی ناقص اور غیرتسلی بخش رہی۔ہمارے ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ ہر قتل کا سانحہ ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوتا بلکہ اس میں ذاتی جھگڑے، زمین و جائیداد کے تنازعات اور مختلف قسم کے مافیاز کے تنازعات بھی شامل ہیں۔
یہ سب کچھ صحیح مان بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ آخر حکومت ان وقوعات سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟ اس سوال کا حل سوچتے سوچتے موجودہ حکومت کی معیاد حکمرانی اختتام تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن 5 سالہ دور حکومت کے دوران پیدا کردہ کشیدہ صورت حال جوں کی توں موجود ہے۔ اس غیر یقینی صورت حال نے عوام کو خستہ حال کردیا اور ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ ہمارا ملک اب ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے کہ اندرونی و بیرونی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ افراتفری کے اس ماحول میں ہماری ملکی معیشت بھی چکنا چور ہوگئی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کا آنا تو رہ گیا ایک طرف اس کے برعکس ہمارے اپنے سرمایہ کار بھی اپنا کاروبار سمیٹ کر بیرون ملک سدھار رہے ہیں۔ اسی دوران ایک مرحلہ ایسا آگیا تھا کہ اسٹاک مارکیٹ کرپش ہونے لگی تھی اور خطرہ تھا کہ یہ لڑکھڑاتی معیشت بیٹھ نہ جائے۔
اسٹیٹ بینک وقتاً فوقتاً اسی مخدوش صورت حال میں اپنی جائزہ رپورٹس جاری کرتا رہا۔ جس میں معاشی نمو میں کمی کی وجہ سے پیدا شدہ صورت حال کو اجاگر کیا جاتا رہا۔ حکومتی قرضوں کا بھی جائزہ لیا گیا جو خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔ جس کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ بہرحال اس معاشی بدحالی پر حکام بالا اور حکومتی ارکان نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا، کیا جن حالات کا ذکر مذکورہ بالا سطور میں کیا گیا ہے حکمرانوں کی نااہلیت کا ثبوت نہیں؟ بس ایک ہی راگ الاپتے رہے کہ ''سب اچھا ہے'' ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے جھوٹے وعدے اور کاغذی کارروائیوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
جب اقتدار میں آئے تو نعرہ لگایا تھا کہ عوام کے مسائل حل کریں گے۔ روٹی، کپڑا اور مکان مہیا کریں گے، غربت کا خاتمہ کریں گے، روزگار مہیا کریں گے۔ بس یہ نعرے، نعرے ہی رہے۔ عمل صفرکا صفر ہی رہا۔ غریب غریب تر ہوتا رہا اور امیر امیر تر ہوتا گیا۔ کیا یہی ڈھنگ ہوتے ہیں عوام کی حکمرانی کے؟ ہر جگہ، ہر موقعے پر عوام، عوام کی رٹ لگاتے رہے، مگر عوام کو دکھ،درد، تکلیف اور مسائل کے انبار تلے دبانے کے سوا کچھ نہ دیا۔ کرپشن تلے عوام کی خواہش کو روند دیا گیا۔ خوف، دہشت اور زبوں حالی کا ماحول پیدا کردیا گیا۔ مردوں کو تو کیا، عورتوں اور بچوں کو بھی معاشی بد حالی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ کیا یہی عوام کی خدمت اور عوام کی حکمرانی کے لچھے ہوتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ ناقص کارکردگی اور نااہلی کا ثبوت ہیں۔
ہر فرد پریشان ہے، ہر ایک کی زبان پر یہی جملہ ہے کہ'' اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت کرے''۔ اسی لیے ہر کوئی تبدیلی کی خواہش کر رہا ہے، خدا کرے آیندہ آنے والے انتخابات خوشگوار ماحول میں مقررہ وقت پر منعقد ہوجائیں۔ ابھی تو نگراں حکومت کے مسئلے پر ہی اتفاق نہیں ہو پارہا ہے۔ مشاورتوں کا عمل جاری ہے، مگر کچھ مثبت صورت حال سامنے نہیں آرہی ہے۔ معلوم نہیں ابھی اور کتنا وقت درکار ہوگا کہ مشاورت کا عمل مکمل ہو اور عبوری نگراں حکومت کا قیام عمل میں آئے۔ ایک طرف حکومت گو مگو کی حالت سے دوچار ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف بھی طرح طرح کی تجاویز و مطالبات پیش کر رہی ہے، نگراں حکومت کا قیام ایسا مسئلہ بن گیا کہ ''سانپ کے منہ چھچھوندر کہ نگلتے بنے نہ اگلتے بنے'' ۔ نگراں حکومت کا قیام تو دور کی بات یہاں نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہوپارہا ہے۔