خرد و جنوں کے درمیاں

سیاسی حکمران اگر اپنے عوام کو خوش رکھ سکیں تو کسی کی کیا مجال کہ ان کے خلاف کوئی سازش کر سکے

Abdulqhasan@hotmail.com

LAS VEGAS:
کبھی کبھی مجھے میاں نواز شریف بہت یاد آتے ہیں۔ ان کی یاد مجھے اس لیے آتی ہے کہ ایک عرصہ ہوا ان سے بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں ایک سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ میں اب حکمرانوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ ان کے بہت قریب رہ کر بھی دیکھا تو جتنا کچھ میں ان کے بارے میں جانتا ہوں آپ کو وہ معلوم نہ ہی ہو تو بہترہے تا کہ آپ کا اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے متعلق تصوراتی خاکہ اچھا بنا رہے۔

مجھے میاں صاحب کی یاد ان کے خلاف بنائے گئے مقدمے بھی نہیں دلاتے کہ میں ان مقدموں کے بارے خبریں کم ہی پڑھتا ہوں لیکن پھر بھی ٹی وی کی وجہ سے کچھ نہ کچھ کان میں پڑ ہی جاتا ہے۔ حساب کا معاملہ ہو یا قانون کا دونوں میرے پلے کبھی نہیں پڑے اور ان دونوں سے عدم واقفیت میں ہی زندگی گزر گئی اور بہت اچھی گزر گئی۔ ہمارے سیاستدان قوم کو ہر وقت کسی نہ کسی چکر اور مقدمے میں مبتلا رکھتے ہیں۔

سیاسی حکمران اگر اپنے عوام کو خوش رکھ سکیں تو کسی کی کیا مجال کہ ان کے خلاف کوئی سازش کر سکے اور ان خلاف سازش کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے۔ لیکن مفاد پرست ٹولے کے ساتھ حکومت کرنے والے سیاستدان یہ بھی جانتے ہیں کہ وقت آنے پر یہ مفاد پرست ٹولہ اپنے حکمرانوں کو فراموش کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرتا اور متوقع نئے حکمرانوں سے اپنی وفاداری کو وابستہ کر لیتا ہے۔

میاں صاحب نے اپنی عدالتی نااہلی کو قبول نہیں کیا اور اس کے بارے میں مسلسل اظہار خیال کرتے رہے اور بات یہاں تک آ پہنچی کہ ان کے نام سے منسوب مسلم لیگ کی صدارت جب ان کی نااہلی کی وجہ سے ان سے چھن گئی تو اس کو بھی انھوں نے قبول نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب محمد خان جونیجو کا انتقال ہوا تو وہ مسلم لیگ کے صدر اور اقبال احمد خاں اس کے سیکریڑی جنرل تھے۔

اقبال احمد خاں جن سے میری نیاز مندی کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ جب جونیجو مرحوم کی میت ان کے آبائی گاؤں لے جانے کے لیے ایئر پورٹ سے روانہ کی جا رہی تھی تو میاں صاحب مجھے ایک طرف لے گئے اور کہا کہ آپ مسلم لیگ کے لیے میری صدارت کا اعلان کر دیں، جس پر خاں صاحب نے جواب دیا کہ پہلے صدر کی تدفین تو ہو لینے دیں۔

اس کے بعد کی کہانی یہ ہے کہ نواز شریف اپنے نام سے مسلم لیگ کے بانی صدر چلے آ رہے ہیں اس میں رکاوٹ پرویز مشرف کے دور میں آئی تھی جب میاں نواز شریف اپنی مسلم لیگ کی صدارت سے فارغ ہو گئے تھے اور اب اپنی نااہلی کے فیصلے کے بعد وہ نواز لیگ کے صدر نہ رہے لیکن انھوں نے بھی ہمت نہ ہاری اور اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے آئین میں ہی ترمیم کر ڈالی اور یہ کہا جائے تو مناسب ہو گا کہ وہ راتوں رات بلا مقابلہ پھر سے اپنی مسلم لیگ کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ کاش کہ اتنی تیزی سے عوامی مفاد کے فیصلوں کے لیے بھی ترامیم ہوں اور یہ تاثر ختم ہو جائے کہ فرد واحد کی حکمرانی کو بچانے کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کیا گیا۔

مجھے ایک روایت یاد آگئی ہے جس سے کسی کی دل آزاری ہر گز مقصود نہیں۔ جموں کشمیر کے علاوہ لاہور میں بھی اٹھارویں صدی کے آخری سالوں میں راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت قائم ہوئی۔ اس زمانے میں اندازِ حکومت اور قوانین کی ترویج کے بارے میں ایک اصطلاح ایجاد ہوئی جو آج تک ''سکھا شاہی'' کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔


اس دور میں عوامی فلاح کے کئی منصوبوں کا ذکر بھی ملتا ہے لیکن زبان زدِ عام وہ طرزِ حکمرانی ہے جس کے تحت بعض اوقات بڑے مضحکہ خیز قسم کے فیصلے صادر کیے جاتے تھے، مثلاً دربار میں پیشی کے لیے دائیں جانب سے داخل ہو نے والوں کو برَی کر دیا جاتا جب کہ بائیں جانب سے داخل ہونے والوں کو پھانسی لگا دی جاتی۔ یہ مطلق العنان حکومت کا ایک انداز تھا اور حکمرانوں کے کسی حد تک نامعقولانہ طرزِ حکومت کو لاہوریوں نے اپنے انداز میں یاد رکھنے کے لیے ''سکھا شاہی'' قوانین کا نام دیا۔

آج بھی کسی سوجھ بوجھ سے مبرا قانون کو اسی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی بھی قانون ہو سکتا ہے جو کہ اپنی مرضی اور مفاد کے لیے بنایا گیا ہو اور اس کی تازہ ترین جھلک ہم نے نواز شریف کو عجلت میں دوبارہ نواز لیگ کا صدر منتخب ہونے کی صورت میں دیکھی ہے۔ اس قانون کو بڑے دربار یعنی جدید عہد کی پارلیمان میں بیٹھے سیاسی اکابرین زور و شور سے 'برحق' قرار دیں اور خوشی میں میزیں بجائیں حالانکہ یہ دراصل سر پیٹنے کا مقام ہے۔

خیر قانون سازی اشرافیہ کا کام ہے ان باریک و لطیف معاملات سے ہم جیسے عام لوگوں کا کیا لینا دینا ہمارا کام تو ان قوانین پر سر دھننا ہے یا حیران ہونا۔ پارلیمانی نظام میں سیا سی اداروں کے اپنے اپنے حدودِ کار متعین ہیں لیکن یہ آپس میں مربوط ہیں۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ایک دوسرے کی معاونت سے حکومت چلاتے ہیں اور ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ عدلیہ کے فیصلوں کی پاسداری کروانا مقننہ اور انتظامیہ کی ذمے داری ہے۔ سیاسی رہنما اور جماعتیں عدلیہ کے عوام سے رابطے کا ذریعہ ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے معاملات انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں اور اس عظیم ادارے کے فیصلے عوامی سوجھ بوجھ سے مبرا ہوتے ہیں مگر یہ عوام کی قسمت بناتے ہیں۔ یہ ادارہ عوام کے حقوق کا سب سے بڑا ضامن ہے اور پارلیمان، انتظامیہ، کابینہ، سیاسی جماعتیں اس ادارے کے احترام کے پابند ہیں۔

حسرت موہانی کا ایک خوبصورت شعرحالات کی صحیح ترجمانی کر تا ہے۔

خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
Load Next Story