محنت کشوں کی جان و ملازمت کا تحفظ
تمام صنعتی اداروں میں حفاظتی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ محنت کشوں کی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
اگرچہ گڈانی بلوچستان کے ساحلی شہر میں گزشتہ نصف صدی سے ناکارہ بحری جہازوں کو اسکریپ کرنے کا عمل جاری ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ جس طرح ملک کے دیگر حصوں میں صنعتی اداروں میں محنت کشوں کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات پر اکثر مقامات پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں بھی محنت کشوں کے تحفظ کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ۔ انجام کار اکثر چھوٹے بڑے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان حادثات میں محنت کش اپنی جانوں سے محروم ہوتے رہتے ہیں، البتہ یکم نومبر 2016 کو ایک بحری جہاز کو اسکریپ کرنے کے دوران ایک آتشزدگی کا ایسا سانحہ بھی برپا ہوا کہ جس میں 30 محنت کش شہید و 42 شدید زخمی ہوئے۔
یوں تو لفظ زخمی ہوئے ایک عام سا لفظ محسوس ہوتا ہے مگر وہ 42 زخمی کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اس کے تصور ہی سے حساس دل انسان کو جھرجھری آجاتی ہے یوں تو سانحہ گڈانی کو ایک برس ہونے کو ہے مگر آج بھی شپ بریکنگ کے گڈانی کے محنت کش انھی حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ جن حالات میں سانحہ یکم نومبر 2016 میں کام کر رہے تھے اگرچہ سانحہ یکم نومبر 2016 کے بعد پرانے جہازوں کو اسکریپ کرنے کی صنعت کو قانون کے دائرے میں لانے کے وعدے کیے گئے تھے کہ شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے والے محنت کشوں کو تمام قسم کے قانونی حقوق حاصل ہوں گے۔ جن میں اول ترجیح محنت کشوں کا تحفظ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ محنت کشوں کی صحت و سلامتی لیبر قوانین کے اطلاق سے لے کر قانون سازی تک کسی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
ستم تو یہ ہے کہ نہ تو شپ بریکنگ مالکان اور نہ ہی متعلقہ ادارے محنت کشوں کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات اٹھانے پر آمادہ نظر آتے ہیں نتیجہ یہ کہ حفاظتی اقدامات نہ اٹھانے کے باعث مزید چھوٹے بڑے حادثات کے باعث محنت کشوں کی قیمتی جانیں تلف ہو رہی ہیں ۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ 8 جنوری 2017 کو پلاٹ نمبر 69 پر ایک محنت کش دلشاد ولد نیکو کام کے دوران جہاز سے گر کر جاں بحق ہوگیا جب کہ اس الم ناک واقعے کے فقط ایک روز بعد پلاٹ نمبر 60 پر ایک اور سانحہ رونما ہوگیا جس میں پانچ محنت کش سعید خان ولد حبیب خان، نعمت شاہ ولد عبدالکریم، الف جان ولد امیر جان، صابر ولد سدوزئی، محمد سعید ولد شیرین جاں بحق ہوگئے البتہ متعدد محنت کش ایسے بھی ہیں جوکہ کام کے دوران زخمی بھی ہوئے حادثات رونما ہونے کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، فقط اسی باعث حادثات رونما ہو رہے ہیں کہ مناسب حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں البتہ انتظامیہ نے یہ ضرور کیا ہے کہ چند حفاظتی آلات پلاٹ نمبر 64 کے پاس نصب کر دیے ہیں مگر عام حالات میں نہ تو یہ حفاظتی آلات استعمال کے قابل ہیں اور نہ ہی ان حفاظتی آلات کو استعمال کرنے والے ماہرین موجود ہیں۔
سانحہ یکم نومبر 2016 کے موقعے پر سہ فریقی اجلاس میں مالکان کی جانب سے تمام قسم کے حفاظتی اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر عمل ندارد، یقین دہانی تو شپ بریکنگ کے محنت کشوں کے لیے ایک اسپتال قائم کرنے کی بھی کرائی گئی تھی البتہ تاحال اسپتال کی تعمیر کا کام شروع نہیں ہوسکا باوجود اس کے کہ ایک مقامی شخص نے 14 کنال اراضی اسپتال کے لیے عطیہ کے طور پر بھی دی ہے۔
ہاں دکھاوے کے لیے ایک ایمبولینس ضرور کھڑی کردی گئی ہے وہ بھی بغیر ڈرائیور کے جب کہ چند عطائی قسم کے ڈسپنسرز ضرور لوگوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں وعدے تو یہ بھی کیے گئے تھے کہ محنت کشوں کو کم داموں کھانا فراہم کرنے کے لیے کینٹین قائم کی جائے گی اور صاف پانی کے لیے R.O پلانٹ لگائے جائیں گے۔
اسی طرح کمشنر قلات ڈپٹی کمشنر لسبیلہ، لیبر ڈپارٹمنٹ مالکان و محنت کشوں کے درمیان ایک اجلاس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ شپ بریکنگ ورکرز کو لیبر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے خصوصی شناخت ناموں کا اجرا کیا جائے گا۔ تاکہ ان ورکرز کو سوشل سیکیورٹی و ای او بی آئی جیسے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے مگر تاحال کوئی بھی وعدہ ایفا نہ ہوسکا تاہم چند روز ہوئے شپ بریکنگ ورکرز یونین و نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس کراچی پریس کلب میں منعقد کی اور یہ مطالبات پیش کیے کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کی صنعت کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ محنت کشوں کی اجرتوں میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے، خصوصی شناختی کارڈز کا اجرا کیا جائے ہر ورکرز کو سوشل سیکیورٹی و ای او بی آئی سے رجسٹرڈ کیا جائے ہر ایک پلاٹ میں ڈسپنسری و ایمبولینس کی سہولت فراہم کی جائے۔
آٹھ گھنٹے سے زائد کام کرنے کی صورت میں ڈبل اوور ٹائم دیا جائے، محنت کشوں کو پینے کے صاف پانی کی سپلائی کے لیے R.O پلانٹ لگائے جائیں و کم داموں پر کھانا فراہم کرنے کے لیے کینٹین قائم کی جائے و ورکرز کے حقیقی نمایندوں کی مشاورت سے شپ بریکنگ کے لیے قانون سازی کا آغاز کیا جائے اب تذکرہ محنت کشوں کے دیگر مسائل کا۔ چنانچہ اب یہ روایت بن چکی ہے کہ اگر کوئی محنت کش حقوق کے حصول کے لیے آواز اٹھاتا ہے تو اسے فی الفور ملازمت سے برطرف کردیا جاتا ہے۔
ایک انفرادی مثال ہے ریلوے مزدور یونین اوپن لائن (رجسٹرڈ) کراچی ڈویژن کے صدر ملک مقدر زمان کی ملک مقدر زمان کا دوش یہ تھا کہ انھوں نے سندھ ہائی کورٹ میں گارڈ گریڈ ون P-10 کورس کا رزلٹ جاری نہ کرنے پر ایک پٹیشن دائر کی ہوئی ہے یہ پٹیشن دائر کرنا ہی ان کا جرم ہے جس کے باعث انھیں ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے حالانکہ ان کا 30 برس کی ملازمت میں بے داغ کردار رہا ہے۔
بات کریں اجتماعی برطرفیوں کی تو گزشتہ برس کورنگی صنعتی ایریا سے ایک ہی وقت میں 980 محنت کشوں کو ایک مقامی صنعتی یونٹ سے فارغ کردیا گیا جن میں 150 مرد و 830 خواتین شامل تھیں بعدازاں احتجاج کرنے پر ان خواتین و حضرات کو پولیس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ لاہور کی ایک فیکٹری سے 200 خاکروب ملازمین کو اس لیے ملازمت سے نکال دیا گیا کہ ان خاکروب محنت کشوں نے فقط انتظامیہ کے سامنے یہ مطالبہ رکھا تھا کہ انھیں بھی کینٹین سے کھانے کی سہولت فراہم کی جائے جیسے کہ دیگر محنت کشوں کو کینٹین سے کھانے کی سہولت حاصل ہے حالانکہ اس فیکٹری کے تمام ملازمین ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرتے تھے۔
چنانچہ امتیازی سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کرنے پر انھیں ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ ایک اور مثال ہے حب چوکی کیڈ بری فیکٹری کی جہاں سے درجنوں محنت کشوں کو یکایک ملازمت سے نکال دیا گیا۔ البتہ ان درجنوں محنت کشوں نے عدلیہ سے بھی رجوع کیا عدلیہ نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان ملازمین کی بحالی کا حکم بھی صادر فرمایا مگر عمل ندارد۔ اب یہ محنت کش کس کے سامنے اپنی فریاد لے کر جائیں۔
بہرکیف تمام گفتگو کا ماحاصل یہ ہے کہ تمام صنعتی اداروں میں حفاظتی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ محنت کشوں کی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ مزید یہ کہ تمام صنعتی اداروں سے ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کرکے تمام محنت کشوں کی ملازمتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے کیونکہ محفوظ محنت کش کسی بھی ادارے کی ترقی کی ضمانت ہے۔
اسی طرح گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں بھی محنت کشوں کے تحفظ کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ۔ انجام کار اکثر چھوٹے بڑے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان حادثات میں محنت کش اپنی جانوں سے محروم ہوتے رہتے ہیں، البتہ یکم نومبر 2016 کو ایک بحری جہاز کو اسکریپ کرنے کے دوران ایک آتشزدگی کا ایسا سانحہ بھی برپا ہوا کہ جس میں 30 محنت کش شہید و 42 شدید زخمی ہوئے۔
یوں تو لفظ زخمی ہوئے ایک عام سا لفظ محسوس ہوتا ہے مگر وہ 42 زخمی کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اس کے تصور ہی سے حساس دل انسان کو جھرجھری آجاتی ہے یوں تو سانحہ گڈانی کو ایک برس ہونے کو ہے مگر آج بھی شپ بریکنگ کے گڈانی کے محنت کش انھی حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ جن حالات میں سانحہ یکم نومبر 2016 میں کام کر رہے تھے اگرچہ سانحہ یکم نومبر 2016 کے بعد پرانے جہازوں کو اسکریپ کرنے کی صنعت کو قانون کے دائرے میں لانے کے وعدے کیے گئے تھے کہ شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے والے محنت کشوں کو تمام قسم کے قانونی حقوق حاصل ہوں گے۔ جن میں اول ترجیح محنت کشوں کا تحفظ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ محنت کشوں کی صحت و سلامتی لیبر قوانین کے اطلاق سے لے کر قانون سازی تک کسی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
ستم تو یہ ہے کہ نہ تو شپ بریکنگ مالکان اور نہ ہی متعلقہ ادارے محنت کشوں کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات اٹھانے پر آمادہ نظر آتے ہیں نتیجہ یہ کہ حفاظتی اقدامات نہ اٹھانے کے باعث مزید چھوٹے بڑے حادثات کے باعث محنت کشوں کی قیمتی جانیں تلف ہو رہی ہیں ۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ 8 جنوری 2017 کو پلاٹ نمبر 69 پر ایک محنت کش دلشاد ولد نیکو کام کے دوران جہاز سے گر کر جاں بحق ہوگیا جب کہ اس الم ناک واقعے کے فقط ایک روز بعد پلاٹ نمبر 60 پر ایک اور سانحہ رونما ہوگیا جس میں پانچ محنت کش سعید خان ولد حبیب خان، نعمت شاہ ولد عبدالکریم، الف جان ولد امیر جان، صابر ولد سدوزئی، محمد سعید ولد شیرین جاں بحق ہوگئے البتہ متعدد محنت کش ایسے بھی ہیں جوکہ کام کے دوران زخمی بھی ہوئے حادثات رونما ہونے کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، فقط اسی باعث حادثات رونما ہو رہے ہیں کہ مناسب حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں البتہ انتظامیہ نے یہ ضرور کیا ہے کہ چند حفاظتی آلات پلاٹ نمبر 64 کے پاس نصب کر دیے ہیں مگر عام حالات میں نہ تو یہ حفاظتی آلات استعمال کے قابل ہیں اور نہ ہی ان حفاظتی آلات کو استعمال کرنے والے ماہرین موجود ہیں۔
سانحہ یکم نومبر 2016 کے موقعے پر سہ فریقی اجلاس میں مالکان کی جانب سے تمام قسم کے حفاظتی اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر عمل ندارد، یقین دہانی تو شپ بریکنگ کے محنت کشوں کے لیے ایک اسپتال قائم کرنے کی بھی کرائی گئی تھی البتہ تاحال اسپتال کی تعمیر کا کام شروع نہیں ہوسکا باوجود اس کے کہ ایک مقامی شخص نے 14 کنال اراضی اسپتال کے لیے عطیہ کے طور پر بھی دی ہے۔
ہاں دکھاوے کے لیے ایک ایمبولینس ضرور کھڑی کردی گئی ہے وہ بھی بغیر ڈرائیور کے جب کہ چند عطائی قسم کے ڈسپنسرز ضرور لوگوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں وعدے تو یہ بھی کیے گئے تھے کہ محنت کشوں کو کم داموں کھانا فراہم کرنے کے لیے کینٹین قائم کی جائے گی اور صاف پانی کے لیے R.O پلانٹ لگائے جائیں گے۔
اسی طرح کمشنر قلات ڈپٹی کمشنر لسبیلہ، لیبر ڈپارٹمنٹ مالکان و محنت کشوں کے درمیان ایک اجلاس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ شپ بریکنگ ورکرز کو لیبر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے خصوصی شناخت ناموں کا اجرا کیا جائے گا۔ تاکہ ان ورکرز کو سوشل سیکیورٹی و ای او بی آئی جیسے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے مگر تاحال کوئی بھی وعدہ ایفا نہ ہوسکا تاہم چند روز ہوئے شپ بریکنگ ورکرز یونین و نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس کراچی پریس کلب میں منعقد کی اور یہ مطالبات پیش کیے کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کی صنعت کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ محنت کشوں کی اجرتوں میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے، خصوصی شناختی کارڈز کا اجرا کیا جائے ہر ورکرز کو سوشل سیکیورٹی و ای او بی آئی سے رجسٹرڈ کیا جائے ہر ایک پلاٹ میں ڈسپنسری و ایمبولینس کی سہولت فراہم کی جائے۔
آٹھ گھنٹے سے زائد کام کرنے کی صورت میں ڈبل اوور ٹائم دیا جائے، محنت کشوں کو پینے کے صاف پانی کی سپلائی کے لیے R.O پلانٹ لگائے جائیں و کم داموں پر کھانا فراہم کرنے کے لیے کینٹین قائم کی جائے و ورکرز کے حقیقی نمایندوں کی مشاورت سے شپ بریکنگ کے لیے قانون سازی کا آغاز کیا جائے اب تذکرہ محنت کشوں کے دیگر مسائل کا۔ چنانچہ اب یہ روایت بن چکی ہے کہ اگر کوئی محنت کش حقوق کے حصول کے لیے آواز اٹھاتا ہے تو اسے فی الفور ملازمت سے برطرف کردیا جاتا ہے۔
ایک انفرادی مثال ہے ریلوے مزدور یونین اوپن لائن (رجسٹرڈ) کراچی ڈویژن کے صدر ملک مقدر زمان کی ملک مقدر زمان کا دوش یہ تھا کہ انھوں نے سندھ ہائی کورٹ میں گارڈ گریڈ ون P-10 کورس کا رزلٹ جاری نہ کرنے پر ایک پٹیشن دائر کی ہوئی ہے یہ پٹیشن دائر کرنا ہی ان کا جرم ہے جس کے باعث انھیں ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے حالانکہ ان کا 30 برس کی ملازمت میں بے داغ کردار رہا ہے۔
بات کریں اجتماعی برطرفیوں کی تو گزشتہ برس کورنگی صنعتی ایریا سے ایک ہی وقت میں 980 محنت کشوں کو ایک مقامی صنعتی یونٹ سے فارغ کردیا گیا جن میں 150 مرد و 830 خواتین شامل تھیں بعدازاں احتجاج کرنے پر ان خواتین و حضرات کو پولیس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ لاہور کی ایک فیکٹری سے 200 خاکروب ملازمین کو اس لیے ملازمت سے نکال دیا گیا کہ ان خاکروب محنت کشوں نے فقط انتظامیہ کے سامنے یہ مطالبہ رکھا تھا کہ انھیں بھی کینٹین سے کھانے کی سہولت فراہم کی جائے جیسے کہ دیگر محنت کشوں کو کینٹین سے کھانے کی سہولت حاصل ہے حالانکہ اس فیکٹری کے تمام ملازمین ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرتے تھے۔
چنانچہ امتیازی سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کرنے پر انھیں ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ ایک اور مثال ہے حب چوکی کیڈ بری فیکٹری کی جہاں سے درجنوں محنت کشوں کو یکایک ملازمت سے نکال دیا گیا۔ البتہ ان درجنوں محنت کشوں نے عدلیہ سے بھی رجوع کیا عدلیہ نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان ملازمین کی بحالی کا حکم بھی صادر فرمایا مگر عمل ندارد۔ اب یہ محنت کش کس کے سامنے اپنی فریاد لے کر جائیں۔
بہرکیف تمام گفتگو کا ماحاصل یہ ہے کہ تمام صنعتی اداروں میں حفاظتی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ محنت کشوں کی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ مزید یہ کہ تمام صنعتی اداروں سے ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کرکے تمام محنت کشوں کی ملازمتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے کیونکہ محفوظ محنت کش کسی بھی ادارے کی ترقی کی ضمانت ہے۔