سابق کرکٹرز ہار پر مایوس چلے ہوئے کارتوسوں سے جان چھڑانے کا مطالبہ

بیٹسمین جس طرح پیسرز کے ہاتھوں بے بس ہوئے اس کے بعد کپتان، نائب کپتان اور کوچ سے بازپرس ہونی چاہیے، راشد لطیف

سلیکشن کمیٹی کی غلطیوں اور بورڈ کی ناقص پلاننگ کے باعث ٹیم کو وائٹ واش کا سامناکرناپڑا، راشد لطیف، عامر سہیل اور شعیب اختر کی رائے ۔ فوٹو : فائل

جنوبی افریقہ کے ہاتھوں کلین سوئپ پر سابق کرکٹرز کی طرف سے ٹیسٹ ٹیم کی مکمل اوور ہالنگ اور چلے ہوئے کارتوسوں سے جان چھڑانے کا مطالبہ سامنے آگیا۔

حنیف محمد نے کہا کہ ہمارے بیٹسمین غلطیوں سے سبق سیکھنے میں ناکام رہے، وسیم اکرم نے کہا کہ کھلاڑیوں میں ٹیسٹ کرکٹ کیلیے درکار مہارت اور تحمل ہی موجود نہیں، راشد لطیف نے بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کو ضروری قرار دیدیا، شعیب اختر کا کہنا ہے کہ سلیکشن کمیٹی کی غلطیوں اور بورڈ کی ناقص پلاننگ کے باعث رسوائی ہوئی، عامر سہیل کے مطابق نمبر ون پروٹیز کیخلاف سیریز کی تیاریاں نامکمل تھیں، نوجوان کرکٹرز کی تکنیکی خامیاں درست کیے بغیر آئندہ کارکردگی میں بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی،عبدالرزاق کے مطابق مشکل کنڈیشنز کا صحیح اندازہ کیے بغیر کھیلنے والی ٹیم کو حد سے زیادہ خود اعتمادی لے ڈوبی۔ تفصیلات کے مطابق جنوبی افریقہ کیخلاف بدترین شکست نے تنقیدی توپوں کا رُخ پی سی بی، قومی ٹیم اور مینجمنٹ کی جانب کر دیا ہے۔

سابق کپتان حنیف محمد نے کہا کہ ہماری ٹیم تکنیکی طور پر کمزور نظر آئی، جنوبی افریقی کوالٹی فاسٹ بولرز کے سامنے بیٹسمینوں میں انہماک کی واضح کمی دکھائی دی، انھوں نے کہا کہ بہتر شاٹس سلیکشن فرق ثابت ہو سکتی تھی مگر بیٹسمین غلطیوں سے سبق سیکھنے میں ناکام رہے،آف اسٹمپ کی جانب آنے والی گیندوں کا سامنا کرنے کیلیے تکنیکی مہارت کی بھی کمی تھی، انھوں نے کہا کہ پاکستان دوسرے ٹیسٹ میں پلاننگ سے کھیلتے ہوئے ذرا سی ہمت دکھاتا تو میچ جیت جاتا، انھوں نے کہا کہ جنوبی افریقی کنڈیشنز کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹیم کا تربیتی کیمپ میٹنگ وکٹ پر لگانا مناسب ہوتا۔وسیم اکرم نے کہا کہ پاکستانی کھلاڑیوں میں میزبان ٹیم کا مقابلہ کرنے کیلیے مطلوبہ مہارت ہی نہیں تھی، ٹیسٹ کرکٹ اسکلز، ٹیلنٹ اور تحمل ہر چیز کا امتحان لیتی ہے۔




وکٹ بچاتے ہوئے اسٹروکس کھیلنا پڑتے ہیں، پاکستان ٹیم کی طرف سے صرف یونس خان ہی کسی حد تک اس معیار پر پورا اترتے تھے، تبدیلیاں ناگزیر ہو چکیں۔ راشد لطیف نے کہاکہ میں قطعی طور پر اس قدر رسوائی کی توقع نہیں کر رہا تھا، باؤنسی وکٹوں پر بیٹسمین جس طرح پیسرز کے ہاتھوں بے بس ہوئے اس کے بعد پی سی بی، کپتان، نائب کپتان اور کوچ سے بازپرس ہونی چاہیے، سابق کپتان نے کہا کہ ہمارے بیٹسمین 6 اننگز میں صرف ایک بار 300 کا ہندسہ عبور کر سکے' کب تک فاسٹ اور سیمنگ ٹریکس پر بیٹنگ کا تجربہ نہ ہونے کا رونا روتے رہیں گے، کرکٹ پروفیشنلز کا کھیل ہے،کسی کھلاڑی کو قومی ٹیم کا حصہ بنایا جائے تو مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی سرفہرست ٹیموں کا مقابلہ کر سکے، ہمارے بیٹسمین سیمرز کو کھیلتے ہوئے باربار ایک جیسی غلطیاں دہرا کر اپنی وکٹوں کا تحفہ پیش کرتے رہے۔

انھوں نے کہا کہ بڑی ٹیموں کا مقابلہ کرنے کیلیے سلیکٹرز کو تینوں فارمیٹ کے اسپیشلسٹ کھلاڑی تلاش کرنا ہوں گے،کچھ کرکٹر خود کو ہر طرز کی کرکٹ کیلیے موزوں خیال کرتے ہوئے مسلسل خراب کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں یہ رویہ تبدیل ہونا چاہیے۔ عامر سہیل نے کہاکہ توقعات کے مطابق ہی نتیجہ سامنے آیا، جنوبی افریقی ٹیم ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھی جبکہ ہم ٹیسٹ کرکٹ کے تقاضوں کے مطابق تیاری ہی نہیں کر سکے اور اس کا خمیازہ بھی بھگت لیا، سابق چیف سلیکٹر نے کہا کہ اُبھرتے ہوئے ہر نوجوان باصلاحیت کرکٹر میں کچھ نہ کچھ تکنیکی خامیاں ضرور ہوتی ہیں۔

جنھیں دور کرنے پرکوئی توجہ نہیں دی جا رہی، دوسری طرف پروٹیز نے آسٹریلوی کرکٹ سے سبق سیکھتے ہوئے معاملات درست کیے اور آج حکمرانی کر رہے ہیں۔ شعیب اختر نے کہاکہ سلیکشن کمیٹی کی غلطیوں اور بورڈ کی ناقص پلاننگ کے باعث ٹیم کو وائٹ واش کا سامناکرناپڑا، کھلاڑیوں کو ان کی قابلیت کے مطابق ون ڈے، ٹیسٹ یا ٹوئنٹی20ٹیم میں شامل کرنا چاہیے،انھوں نے کہاکہ کھلاڑی اچھا بھی ہو لیکن ٹیسٹ کرکٹ کے قابل نہیں تواسے ٹیم میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں، سابق فاسٹ بولر نے کہا کہ پی سی بی کو ملک میں کرکٹ کے انفرا اسٹرکچر کو مضبوط بنانے کیلیے مزید اقدامات کرنے ہونگے، ون ڈے سیریز میں کامیابی کیلیے دلیری کامظاہرہ کرنا چاہیے بصورت دیگر نتیجہ زیادہ مختلف نہ ہو گا۔ عبدالرزاق نے کہاکہ حد سے زیادہ خود اعتمادی پاکستانی ٹیم کو لے ڈوبی۔
Load Next Story