شہرکراچی کے قدیم و نادرمجسمے
آج یہ تمام مجسمے کراچی کے موہٹا پیلس کی زینت بنے ہوئے ہیں اور دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں
NEW DELHI:
شہر کراچی کی قدامت سے کسی کو انکار نہیں۔ یہ شہر کتنا قدیم ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بعض مؤرخین اس کی قدامت زمانہ قبل از مسیح تک بتاتے ہیں جبکہ بعض اسے ابتدائی عیسوی صدیوں کا شہر قرار دیتے ہیں۔ کچھ مؤرخین اس کا رشتہ عرب دور، ترخانی دور، مغل دور، کلہوڑا دور سے جوڑتے ہیں۔ بہرحال، کراچی جتنا بھی قدیم ہو اور کسی بھی نام سے جانا پہچانا جاتا رہا ہو، یہ شہر ہمیشہ سے محبتوں کا امین رہا ہے۔
اس شہر کے اندر ماضی میں مسلمان، عیسائی، ہندو، پارسی، یہودی، سکھ انتہائی بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے اور نہ صرف ایک دوسرے کا احترام کرتے نظر آتے تھے بلکہ مذہبی راستے جدا ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے سے قدم ملا کرچلنے کے ساتھ ساتھ شہر کی تعمیر و ترقی میں مل جل کر حصہ لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر نے انتہائی تیزی سے ترقی کی اور اس ترقی کا سہرا کسی ایک مذہب اور قوم کو نہیں دیا جاسکتا۔ مسلمانوں نے اگر اس شہر میں مادر علمی قائم کیں تو عیسائی اور پارسی، ہندو و دیگر قومیں بھی پیچھے نہ رہیں اور انہوں نے نہ صرف بڑی بڑی درس گاہیں تعمیر کیں بلکہ غریبوں کو مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے کےلئے ہسپتال جبکہ مسافروں کے ٹھہرنے کےلئے سرائے، مسافر خانے اور دھرم شالے بنائے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تمام قوموں اور مذاہب کے ان لوگوں نے نام و نمود کےلئے یہ کام فلاحی کام نہیں کئے تھے مگر پھر بھی کراچی میں بسنے والی تمام قوموں نے نہ صرف ان کی خدمات کو سراہا بلکہ ان کی خدمات کے اعتراف میں شہر کے مختلف مقامات پر ان کے مجسمے تک نصب کرا ئے۔
افسوس کہ ان مجسموں کو پاکستان کی مذہبی بنیادوں کے نام پر ہٹا دیا گیا۔ اسی لیے یہ مجسمے کبھی بلدیہ کی ورک شاپ میں تو کبھی کہیں اور نظر آئے۔ بعد میں ان تمام مجسموں کو دوبارہ اکٹھا کردیا گیا اور اس وقت یہ مجسمے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو دی جانے والی عمارت ''موہٹا پیلس'' میں رکھے ہیں جسے آج کل ''قصر فاطمہ'' بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں آنے والے لوگ ان شاہکار مجسموں کو دیکھ کر داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
اس ضمن میں اہل کراچی کی جانب سے شہر کی ترقی میں نمایاں کام کرکے اسے چار چاند لگانے والے سندھ کے پہلے گورنر سر چارلس نیپئر کا مجسمہ یکم دسمبر 1847 کو کیماڑی پر، ان کی مصر روانگی سے قبل نصب کرایا تھا۔ اس مجسمے کی تنصیب سے انہیں بندرگاہ کی ترقی اور ریلوے کے نظام پر زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہو ئے الوداعی سلامی پیش کی گئی۔
اسی قسم کے دو مزید (قدِ آدم) مجسمے جو ملکہ وکٹوریہ اور شاہ ایڈورڈ ہفتم کے تھے اور سنگِ مرمر سے تراشے ہوئے تھے، بالترتیب 1906 اور 1916 میں فریئر ہال میں نصب کروا ئے تھے۔ ان میں سے ایک مجسمے میں ملکہ وکٹوریہ نے اپنے ایک ہا تھ میں عصائے سلطانی اور دوسرے ہا تھ میں قرص اٹھا رکھا ہے۔
کراچی کے ایک پارسی ایڈلجی ڈنشا جنہوں نے شہر میں لاتعداد فلاحی کام کئے تھے، ان کا مجسمہ بھی عبداللہ ہارون روڈ پر نصب کیا گیا۔ یہ مجسمہ سنگ مرمر کا بنا ہوا تھا جس میں ان کے سر پر پارسیوں کی روایتی ٹوپی اور جسم پر سادہ کپڑے تھے۔ ان کے فرزند نادرشا ایڈلجی ڈنشا نے بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کراچی میں کئی ایک فلاحی کام کروائے جن میں انجینئرنگ کالج کا قیام بھی شامل ہے (جو آج ''این ای ڈی یونیورسٹی'' کے نام سے مشہور ہے)۔ ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں 1933 میں قائداعظم ہاؤس کے عین سامنے نصب کیا گیا تھا جس پر ان کی تاریخ پیدائش 9 جولائی 1862 جبکہ تاریخ وفات 17 نومبر 1922 درج تھی۔
ماضی میں کیونکہ ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں میں کسی قسم کا کوئی تنازع نہیں تھا اسی لئے اہل کراچی نے مہاتما گاندھی کا کانسی کا قد آدم مجسمہ بھی موجودہ سندھ ہائی کورٹ کے سامنے نصب کرایا تھا جس کے نیچے مہاتما گاندھی سے منسوب قول ''آزادی ،سچائی اور اہنسا'' تحریر تھا صدر کے علاقے میں پارسی انسٹیٹیوٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے اس وقت شہر کے بسنے والوں نے جواہر لال نہرو کا مجسمہ بھی نصب کیا تھا جو قیام پاکستان کے قبل تک اسی جگہ نصب رہا تھا۔
مگر قیام پاکستان کے بعد ان تمام مجسموں کو اسلامی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے ہٹا دیا گیا۔ شہر کراچی نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم نہ صرف دیکھی تھیں بلکہ ان میں حصہ بھی لیا تھا۔ جب پہلی جنگ عظیم ہوئی تو بلوچ انفنٹری رجمنٹ کے لاتعداد بلوچ سپاہی اور افسران شہید ہوئے۔ ان کی یاد میں بھی برطانوی دور میں جودھ پوری پتھروں سے 1922 میں ایک یادگار تعمیر کرائی جس پر شہید ہو نے والے تمام افسران و سپاہیوں کے نام درج ہیں۔ بر طانوی دور تک اس یاد گار پر سال میں دو بار پھول چڑھا نے کے ساتھ ساتھ سلامی دی جاتی تھی اور یہ یادگار آج بھی فریئر ہال کے عقب میں اسی آن بان شان کے ساتھ موجود ہے جسے دیکھنے کےلئے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ اب گو کہ یہ مجسمے اسلامی ملک ہو نے کے سبب شاہراہوں اور سڑکوں پر موجود نہیں مگر انہیں آج بھی موہٹا پیلس میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ان سب کے علاوہ شہر کراچی کی سڑکوں پر نصب سپاہیوں اور ثقافتی رنگ پیش کرنے والی خواتین کے مجسمے بھی آج اسی موہٹا پیلس کی زینت ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
شہر کراچی کی قدامت سے کسی کو انکار نہیں۔ یہ شہر کتنا قدیم ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بعض مؤرخین اس کی قدامت زمانہ قبل از مسیح تک بتاتے ہیں جبکہ بعض اسے ابتدائی عیسوی صدیوں کا شہر قرار دیتے ہیں۔ کچھ مؤرخین اس کا رشتہ عرب دور، ترخانی دور، مغل دور، کلہوڑا دور سے جوڑتے ہیں۔ بہرحال، کراچی جتنا بھی قدیم ہو اور کسی بھی نام سے جانا پہچانا جاتا رہا ہو، یہ شہر ہمیشہ سے محبتوں کا امین رہا ہے۔
اس شہر کے اندر ماضی میں مسلمان، عیسائی، ہندو، پارسی، یہودی، سکھ انتہائی بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے اور نہ صرف ایک دوسرے کا احترام کرتے نظر آتے تھے بلکہ مذہبی راستے جدا ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے سے قدم ملا کرچلنے کے ساتھ ساتھ شہر کی تعمیر و ترقی میں مل جل کر حصہ لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر نے انتہائی تیزی سے ترقی کی اور اس ترقی کا سہرا کسی ایک مذہب اور قوم کو نہیں دیا جاسکتا۔ مسلمانوں نے اگر اس شہر میں مادر علمی قائم کیں تو عیسائی اور پارسی، ہندو و دیگر قومیں بھی پیچھے نہ رہیں اور انہوں نے نہ صرف بڑی بڑی درس گاہیں تعمیر کیں بلکہ غریبوں کو مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے کےلئے ہسپتال جبکہ مسافروں کے ٹھہرنے کےلئے سرائے، مسافر خانے اور دھرم شالے بنائے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تمام قوموں اور مذاہب کے ان لوگوں نے نام و نمود کےلئے یہ کام فلاحی کام نہیں کئے تھے مگر پھر بھی کراچی میں بسنے والی تمام قوموں نے نہ صرف ان کی خدمات کو سراہا بلکہ ان کی خدمات کے اعتراف میں شہر کے مختلف مقامات پر ان کے مجسمے تک نصب کرا ئے۔
افسوس کہ ان مجسموں کو پاکستان کی مذہبی بنیادوں کے نام پر ہٹا دیا گیا۔ اسی لیے یہ مجسمے کبھی بلدیہ کی ورک شاپ میں تو کبھی کہیں اور نظر آئے۔ بعد میں ان تمام مجسموں کو دوبارہ اکٹھا کردیا گیا اور اس وقت یہ مجسمے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو دی جانے والی عمارت ''موہٹا پیلس'' میں رکھے ہیں جسے آج کل ''قصر فاطمہ'' بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں آنے والے لوگ ان شاہکار مجسموں کو دیکھ کر داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
اس ضمن میں اہل کراچی کی جانب سے شہر کی ترقی میں نمایاں کام کرکے اسے چار چاند لگانے والے سندھ کے پہلے گورنر سر چارلس نیپئر کا مجسمہ یکم دسمبر 1847 کو کیماڑی پر، ان کی مصر روانگی سے قبل نصب کرایا تھا۔ اس مجسمے کی تنصیب سے انہیں بندرگاہ کی ترقی اور ریلوے کے نظام پر زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہو ئے الوداعی سلامی پیش کی گئی۔
اسی قسم کے دو مزید (قدِ آدم) مجسمے جو ملکہ وکٹوریہ اور شاہ ایڈورڈ ہفتم کے تھے اور سنگِ مرمر سے تراشے ہوئے تھے، بالترتیب 1906 اور 1916 میں فریئر ہال میں نصب کروا ئے تھے۔ ان میں سے ایک مجسمے میں ملکہ وکٹوریہ نے اپنے ایک ہا تھ میں عصائے سلطانی اور دوسرے ہا تھ میں قرص اٹھا رکھا ہے۔
کراچی کے ایک پارسی ایڈلجی ڈنشا جنہوں نے شہر میں لاتعداد فلاحی کام کئے تھے، ان کا مجسمہ بھی عبداللہ ہارون روڈ پر نصب کیا گیا۔ یہ مجسمہ سنگ مرمر کا بنا ہوا تھا جس میں ان کے سر پر پارسیوں کی روایتی ٹوپی اور جسم پر سادہ کپڑے تھے۔ ان کے فرزند نادرشا ایڈلجی ڈنشا نے بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کراچی میں کئی ایک فلاحی کام کروائے جن میں انجینئرنگ کالج کا قیام بھی شامل ہے (جو آج ''این ای ڈی یونیورسٹی'' کے نام سے مشہور ہے)۔ ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں 1933 میں قائداعظم ہاؤس کے عین سامنے نصب کیا گیا تھا جس پر ان کی تاریخ پیدائش 9 جولائی 1862 جبکہ تاریخ وفات 17 نومبر 1922 درج تھی۔
ماضی میں کیونکہ ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں میں کسی قسم کا کوئی تنازع نہیں تھا اسی لئے اہل کراچی نے مہاتما گاندھی کا کانسی کا قد آدم مجسمہ بھی موجودہ سندھ ہائی کورٹ کے سامنے نصب کرایا تھا جس کے نیچے مہاتما گاندھی سے منسوب قول ''آزادی ،سچائی اور اہنسا'' تحریر تھا صدر کے علاقے میں پارسی انسٹیٹیوٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے اس وقت شہر کے بسنے والوں نے جواہر لال نہرو کا مجسمہ بھی نصب کیا تھا جو قیام پاکستان کے قبل تک اسی جگہ نصب رہا تھا۔
مگر قیام پاکستان کے بعد ان تمام مجسموں کو اسلامی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے ہٹا دیا گیا۔ شہر کراچی نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم نہ صرف دیکھی تھیں بلکہ ان میں حصہ بھی لیا تھا۔ جب پہلی جنگ عظیم ہوئی تو بلوچ انفنٹری رجمنٹ کے لاتعداد بلوچ سپاہی اور افسران شہید ہوئے۔ ان کی یاد میں بھی برطانوی دور میں جودھ پوری پتھروں سے 1922 میں ایک یادگار تعمیر کرائی جس پر شہید ہو نے والے تمام افسران و سپاہیوں کے نام درج ہیں۔ بر طانوی دور تک اس یاد گار پر سال میں دو بار پھول چڑھا نے کے ساتھ ساتھ سلامی دی جاتی تھی اور یہ یادگار آج بھی فریئر ہال کے عقب میں اسی آن بان شان کے ساتھ موجود ہے جسے دیکھنے کےلئے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ اب گو کہ یہ مجسمے اسلامی ملک ہو نے کے سبب شاہراہوں اور سڑکوں پر موجود نہیں مگر انہیں آج بھی موہٹا پیلس میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ان سب کے علاوہ شہر کراچی کی سڑکوں پر نصب سپاہیوں اور ثقافتی رنگ پیش کرنے والی خواتین کے مجسمے بھی آج اسی موہٹا پیلس کی زینت ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔