فضل الرحمن نے چالاکی کے ساتھ نوازشریف کو رام کرلیا
زرداری کوسمجھنے کیلیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے تو فضل الرحمن کیلیے ایم اے ضروری ہے
جے یوآئی(ف) کے تیز اور چالاک سربراہ مولانا فضل الرحمن بالآخر مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف کو ممکنہ انتخابی اتحاد پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس اقدام سے دونوں جماعتوں کو تو شاید خیبرپختونخوا اور فاٹا میں فائدہ ہوسکتا ہے لیکن جماعت اسلامی کو مایوسی ہوگی۔ ماضی کی طرح مذہبی جماعتوں نے آئندہ انتخابات میں بھی چند نشستیں جیتنے کیلیے نسبتاً روشن خیال جماعتوں کا سہارا لینے پر کام شروع کردیا ہے۔ انتہائی محترم مذہبی شخصیت مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن جنھیں آج صدر زرداری کے بعد چالاک ترین سیاسی رہنما سمجھا جاتا ہے کو عام انتخابات میں عمران خان کی زیرقیادت تحریک انصاف کے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ اگر صدر زرداری کی سیاسی چالیں سمجھنے کیلیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے تو مولانا فضل الرحمن کو سمجھنے کیلیے کم ازکم ایم اے ضروری ہے۔
جماعت اسلامی کو اس بات کا ہمیشہ سے پچھتاوا رہا ہے کہ 1980کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد ختم ہونے کے بعد وہ بہت پیچھے رہ گئی ہے جبکہ ان 30برسوں کے دوران جے یوآئی نے مدارس کی تعمیر پر توجہ دی اور اس وقت ملک بھر میں 30ہزار مدارس کے اندازاً 10لاکھ طلبا ہیں، جماعت اسلامی کے رہنما نجی محفلوں میں یہ اعتراف کرتے پائے گئے ہیں کہ جے یوآئی کو انہی مدارس کے باعث انتخابی سیاست میں زبردست فوائد حاصل ہوئے ہیں، یہ فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت تھی جس نے جے یوآئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو بھی تقریباً تنہا کردیا ہے۔
جو اس وقت بھی ملک کے سب سے بڑے مدرسے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے منتظم ہیں اور انھیں طالبان کے سربراہ ملاعمر کے بھی انتہائی قریب سمجھا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جے یوآئی کو واحد دھچکا 2002کے انتخابات میں اس وقت لگا جب خواتین کی مخصوص نشستوں پر نامزدگی کیلیے ان کے پاس امیدوار خواتین دستیاب نہیں تھیں کیونکہ جے یوآئی کا خواتین ونگ ہی نہیں چنانچہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر اسے اپنا کوٹہ جماعت اسلامی کو دینا پڑا۔ اب مولانا خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی دونوں کو تنہا کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلیے انھیں (ن)لیگ کی حمایت کی ضرورت ہے جبکہ (ن)لیگ کو بھی جے یوآئی کا سہارا درکار ہے۔
دونوں جماعتوں کو خیبرپختونخوا میں عمران خان کی متوقع برتری کا خوف ہے۔ یقیناً فضل الرحمن اپنی مجوزہ کل جماعتی کانفرنس یا جرگے سے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک تو وہ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں طالبان کے اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے دوم وہ 2014میں افغانستان سے نیٹو فوج کے انخلا سے متعلق مستقبل میں کسی بھی مذاکرات کے معاملے کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ امکان ہے کہ اے این پی کے مقابلے میں جے یوآئی کی کل جماعتی کانفرنس زیادہ کامیاب ثابت ہوگی، اے این پی کے اجلاس میں بڑی مذہبی جماعتوں نے شرکت نہیں کی تھی کیونکہ وہ اے این پی کو ایک سیکولر جماعت سمجھتی ہیں۔
البتہ اے این پی کے خلاف واضح مئوقف رکھنے کے باوجود جے یوآئی مولانا فضل الرحمن کی مخصوص سوچ کے عین مطابق اے این پی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر برا نہیں منائے گی۔ (ن)لیگ اور جے یوآئی بلوچستان میں بھی مفاہمت کرسکتی ہیں جہاں مئوخرالذکر کو زیادہ برتری حاصل ہے۔ اس تناظر میں (ن)لیگ اور جے یوآئی کا اتحاد تحریک انصاف کیلئے تشویش کا باعث بن سکتا ہے اگرچہ عمران خان ابھی تک پراعتماد ہیں کہ وہ انتخابات میں سب کو حیران کردیں گے۔ خیبرپختونخوا میں مناسب نشستیں ملنے پر (ن) لیگ جے یو آئی کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش کرسکتی ہے اور انتخابات کے بعد جماعت اسلامی کو بھی ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔
جے یوآئی اور جماعت اسلامی پاکستان کی دو قدیم ترین مذہبی جماعتیں ہیں جو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے ملک کو اسلامی ریاست بنانے پر یقین رکھتی ہیں، اس کے برعکس جماعۃ الدعوۃ جیسی دیگر مذہبی جماعتیں انتخابی عمل پر یقین نہیں رکھتیں۔ دوسری طرف بظاہر لبرل نظر آنے والی نسبتاً نئی جماعت تحریک انصاف کے امکانات زیادہ روشن ہیں ہیں حتیٰ کہ وہ اگلی حکومت بنانے کی بھی امید رکھتی ہے۔ فضل الرحمن اور سید منورحسن دونوں متحدہ مجلس عمل کیدوبارہ فعال ہونے کے معاملے پر ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہے ہیں، بلوچستان حکومت سے علیٰحدہ نہ ہونے پر منور حسن نے کہا کہ فضل الرحمن دہرا کردار ادا کررہے ہیں اور ایم ایم اے کی بحالی میں رکاوٹ ہیں۔
جماعت اسلامی کا اپنے طور پر الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کرنے کا ریکارڈ زیادہ اچھا نہیں، اب بھی اس نے دفاع پاکستان کونسل کو انتخابی اتحاد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جسے جماعۃ الدعوۃ کے حافظ سعید کی سخت مزاحمت پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس تمام صورتحال میں جے یوآئی کو دیگر مذہبی جماعتوں پر سیاسی بالادستی حاصل رہے گی۔ جماعت اسلامی ممکن ہے تحریک انصاف اور ن لیگ کے ساتھ اشتراک کار سے زیادہ بہتر نتائج دے سکتی ہو لیکن مولانا فضل الرحمن کا اگلا قدم کیا ہوگا وہ کوئی نہیں جانتا کیونکہ بہرحال میں نے بھی مولانا کی سیاست پر ایم اے نہیں کررکھا۔
اس اقدام سے دونوں جماعتوں کو تو شاید خیبرپختونخوا اور فاٹا میں فائدہ ہوسکتا ہے لیکن جماعت اسلامی کو مایوسی ہوگی۔ ماضی کی طرح مذہبی جماعتوں نے آئندہ انتخابات میں بھی چند نشستیں جیتنے کیلیے نسبتاً روشن خیال جماعتوں کا سہارا لینے پر کام شروع کردیا ہے۔ انتہائی محترم مذہبی شخصیت مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن جنھیں آج صدر زرداری کے بعد چالاک ترین سیاسی رہنما سمجھا جاتا ہے کو عام انتخابات میں عمران خان کی زیرقیادت تحریک انصاف کے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ اگر صدر زرداری کی سیاسی چالیں سمجھنے کیلیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے تو مولانا فضل الرحمن کو سمجھنے کیلیے کم ازکم ایم اے ضروری ہے۔
جماعت اسلامی کو اس بات کا ہمیشہ سے پچھتاوا رہا ہے کہ 1980کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد ختم ہونے کے بعد وہ بہت پیچھے رہ گئی ہے جبکہ ان 30برسوں کے دوران جے یوآئی نے مدارس کی تعمیر پر توجہ دی اور اس وقت ملک بھر میں 30ہزار مدارس کے اندازاً 10لاکھ طلبا ہیں، جماعت اسلامی کے رہنما نجی محفلوں میں یہ اعتراف کرتے پائے گئے ہیں کہ جے یوآئی کو انہی مدارس کے باعث انتخابی سیاست میں زبردست فوائد حاصل ہوئے ہیں، یہ فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت تھی جس نے جے یوآئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو بھی تقریباً تنہا کردیا ہے۔
جو اس وقت بھی ملک کے سب سے بڑے مدرسے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے منتظم ہیں اور انھیں طالبان کے سربراہ ملاعمر کے بھی انتہائی قریب سمجھا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جے یوآئی کو واحد دھچکا 2002کے انتخابات میں اس وقت لگا جب خواتین کی مخصوص نشستوں پر نامزدگی کیلیے ان کے پاس امیدوار خواتین دستیاب نہیں تھیں کیونکہ جے یوآئی کا خواتین ونگ ہی نہیں چنانچہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر اسے اپنا کوٹہ جماعت اسلامی کو دینا پڑا۔ اب مولانا خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی دونوں کو تنہا کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلیے انھیں (ن)لیگ کی حمایت کی ضرورت ہے جبکہ (ن)لیگ کو بھی جے یوآئی کا سہارا درکار ہے۔
دونوں جماعتوں کو خیبرپختونخوا میں عمران خان کی متوقع برتری کا خوف ہے۔ یقیناً فضل الرحمن اپنی مجوزہ کل جماعتی کانفرنس یا جرگے سے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک تو وہ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں طالبان کے اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے دوم وہ 2014میں افغانستان سے نیٹو فوج کے انخلا سے متعلق مستقبل میں کسی بھی مذاکرات کے معاملے کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ امکان ہے کہ اے این پی کے مقابلے میں جے یوآئی کی کل جماعتی کانفرنس زیادہ کامیاب ثابت ہوگی، اے این پی کے اجلاس میں بڑی مذہبی جماعتوں نے شرکت نہیں کی تھی کیونکہ وہ اے این پی کو ایک سیکولر جماعت سمجھتی ہیں۔
البتہ اے این پی کے خلاف واضح مئوقف رکھنے کے باوجود جے یوآئی مولانا فضل الرحمن کی مخصوص سوچ کے عین مطابق اے این پی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر برا نہیں منائے گی۔ (ن)لیگ اور جے یوآئی بلوچستان میں بھی مفاہمت کرسکتی ہیں جہاں مئوخرالذکر کو زیادہ برتری حاصل ہے۔ اس تناظر میں (ن)لیگ اور جے یوآئی کا اتحاد تحریک انصاف کیلئے تشویش کا باعث بن سکتا ہے اگرچہ عمران خان ابھی تک پراعتماد ہیں کہ وہ انتخابات میں سب کو حیران کردیں گے۔ خیبرپختونخوا میں مناسب نشستیں ملنے پر (ن) لیگ جے یو آئی کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش کرسکتی ہے اور انتخابات کے بعد جماعت اسلامی کو بھی ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔
جے یوآئی اور جماعت اسلامی پاکستان کی دو قدیم ترین مذہبی جماعتیں ہیں جو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے ملک کو اسلامی ریاست بنانے پر یقین رکھتی ہیں، اس کے برعکس جماعۃ الدعوۃ جیسی دیگر مذہبی جماعتیں انتخابی عمل پر یقین نہیں رکھتیں۔ دوسری طرف بظاہر لبرل نظر آنے والی نسبتاً نئی جماعت تحریک انصاف کے امکانات زیادہ روشن ہیں ہیں حتیٰ کہ وہ اگلی حکومت بنانے کی بھی امید رکھتی ہے۔ فضل الرحمن اور سید منورحسن دونوں متحدہ مجلس عمل کیدوبارہ فعال ہونے کے معاملے پر ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہے ہیں، بلوچستان حکومت سے علیٰحدہ نہ ہونے پر منور حسن نے کہا کہ فضل الرحمن دہرا کردار ادا کررہے ہیں اور ایم ایم اے کی بحالی میں رکاوٹ ہیں۔
جماعت اسلامی کا اپنے طور پر الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کرنے کا ریکارڈ زیادہ اچھا نہیں، اب بھی اس نے دفاع پاکستان کونسل کو انتخابی اتحاد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جسے جماعۃ الدعوۃ کے حافظ سعید کی سخت مزاحمت پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس تمام صورتحال میں جے یوآئی کو دیگر مذہبی جماعتوں پر سیاسی بالادستی حاصل رہے گی۔ جماعت اسلامی ممکن ہے تحریک انصاف اور ن لیگ کے ساتھ اشتراک کار سے زیادہ بہتر نتائج دے سکتی ہو لیکن مولانا فضل الرحمن کا اگلا قدم کیا ہوگا وہ کوئی نہیں جانتا کیونکہ بہرحال میں نے بھی مولانا کی سیاست پر ایم اے نہیں کررکھا۔