سعودی عرب میں روشن خیالی
برائی اور باطل ابتدائی شکل میں بڑے معصوم ہوتے ہیں ہر معاشرے نے ایسے ہی معصوم اقدامات کیے اور پھر گڑھے میں جاگرے۔
سعودی حکومت کے قیام کو 87 سال ہوگئے یہ حکومت جب وجود میں آئی تو آل سعود اور آل شیخ میں معاہدے کے تحت طے پایا تھا کہ آل سعود حکمرانی اور عام انتظامی نظم وضبط کے ذمے دار ہوگی جب کہ آل شیخ نفاذ اسلام کے ذمے دار ہوںگے۔ آل شیخ نے سعودیہ میں سلفی عقائد کی بنیاد پر مذہبی ڈھانچے کو ترتیب دیا اور آل سعود نے اپنے طرز حکمرانی کے ذریعے ان عقائد کو بزور قوت اور شدت سے نافذ کیا۔
دنیا میں سعودی حکومت واحد ریاست تھی جہاں اسلامی قوانین نافذ تھے، مثلاً چوری (مقررہ مالیت کی) کی سزا میں ہاتھ کاٹنا، زنا کی سزا میں سنگسار یا قتل، نشہ آور اشیا کی خرید و فروخت، فراہمی اور در آمد وبرآمد پر سزائے موت وغیرہ اور قتل عمد کی سزا میں گردن زدنی یا قصاص وغیرہ ان سزاؤں کو مغرب اور مغربی اثرات کے تحت پرورش پانے والے مسلم ممالک بھی وحشیانہ تو سمجھتے تھے مگر ان کے خلاف لب کشائی کی ہمت بھی نہیں رکھتے تھے کیونکہ وہ بھی یہ جانتے تھے کہ یہ سزائیں اور قوانین قرآن وسنت کے مطابق ہیں، البتہ دبے دبے لفظوں میں کہہ دیا جاتا تھا کہ اب یہ سزائیں وقت کیمطابق یا معاشرتی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
البتہ مغربی ممالک کھل کر ان قوانین کی مخالفت کرتے اور سعودیہ کو ایک بنیاد پرست، دقیانوسی اور وحشیانہ قوانین کی حامل ریاست قرار دیتے تھے لیکن چونکہ ان کے مفادات تیل کی دولت سے وابستہ تھے اس لیے وہ اس سلسلے میں حدود میں رہ کر ہی بات کرتے تھے۔ سعودیہ میں جب تک جاندار حکومتیں قائم رہیں وہ اہل مغرب کے دباؤ کو یکسر مسترد کرتی رہیں، خصوصاً شاہ فیصل مغربی دباؤ کو اس شدت سے مسترد کرتے تھے کہ اہل مغرب پھر زبان درازی تو کیا لب کشائی کی ہمت بھی نہ کرسکتے تھے۔
کہاجاتا ہے کہ ایک بار امریکا کے ایک انتہائی متحرک وزیرخارجہ نے شاہ فیصل سے کہاکہ امریکا سعودی تیل کے کنوؤں کو برباد کرسکتا ہے، شاہ نے کہا بالکل کرسکتا ہے اور کر دے ہم اپنے اونٹ کو لے کر اپنے خیموں میں واپس چلے جائیںگے مگر امریکی عوام اپنی عیش کوشی جس بل بوتے پر جاری رکھے ہوئے ہیں وہ اس سے محروم ہوجائیںگے۔ اس کے بعد کسی امریکی وزیر، امیرکو سعودیہ کو کھلی دھمکی دینے کی ہمت نہ ہوسکی۔
شاہ فیصل مبینہ طور پر مغربی سازش کے نتیجے میں قتل کیے گئے اور ان کے بعد جو حکمران آئے وہ امریکی دباؤ کو زیادہ عرصے برداشت نہ کرسکے۔امریکیوں نے دباؤ آہستہ آہستہ بڑھانا شروع کیا اور اسلامی قوانین کی منسوخی یا حکومت کے اسلامی مزاج پر کھلی تنقیدکے بجائے ان حکمرانوں کو اس طرح اپنا دست نگر بنانا شروع کیا جس طرح انگریزوں نے دور زوال کے مغل حکمرانوں کو برصغیر میں اپنا طفیلی بناکر چھوڑا تھا اور جب یہ امریکیوں کے طفیلی بن گئے تو اب بلی تھیلے سے باہر آگئی اور ایک ہی وار میں سعودیہ بھی ''روشن خیالی'' کی راہ پر گامزن ہوگیا۔
کہا یہ جارہاہے کہ یہ سب کچھ شاہ سلیمان کے وژن2030ء کے تحت ہورہاہے، مگر یہ وژن یہ ہے کہ اب سعودی عوام کو تیل کی پیداواری صلاحیت اور اقتصادی اہمیت کے بجائے دوسرے عوامل پر توجہ دینا چاہیے اور روزگار کے لیے مواقعے فراہم کرکے اپنے کو زیادہ باصلاحیت بنانا چاہیے۔اس کی عملی شکل یہ برآمد ہوئی کہ ریاض میں سعودی حکمرانی کی 87 ویں سالگرہ عام ممالک کی طرح منائی گئی، رقص و سرور کی محافل برپا ہوئیں جو اس سے قبل حرام نہیں تو ممنوع ضرور تھیں۔ ان محافل میں پہلی بار خواتین کو شرکت کی اجازت دی گئی، پہلی مرتبہ ہی اتنے جرأت مندانہ اقدام 87 سالہ محنت اور مزاحمت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہیں۔
ادھر سعودیہ نے عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت اور ڈرائیونگ لائسنس کا اجرا بھی شروع کر دیا ہے جب اس پر لے دے ہوئی تو شرط یہ عائد کر دی گئی کہ یہ لائسنس شوہر کی اجازت سے مشروط ہو گا۔اس وژن 2030ء پر عمل درآمد سے قبل سعودی چھلنی سے چھن کر جو خبریں دنیا کو مل سکی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ متعدد علما کو گرفتار بھی کیا گیا ہے اور ان کے عہدوں سے سبکدوش بھی کیا گیا ہے، ظاہر ہے یہ وہ علما ہوںگے جو ''روشن خیالی'' کے مخالف رہے ہوںگے اور اپنے موقف پر اصرار کر رہے ہوںگے۔
سعودی حکومت دنیا میں واحد حکومت تھی جہاں اگرچہ بادشاہت تھی مگر قوانین بڑی حد تک اسلامی نافذ تھے اور اس لیے ان کے مخالفین بھی زیادہ زبان درازی نہیں کرتے تھے۔ بادشاہت بھی اہل عالم کو اسی لیے گورا تھی کہ حکمرانی کی یہ شکل بہر حال اسلام کو نافذ کیے ہوئے ہے۔
برائی اور باطل ابتدائی شکل میں بڑے معصوم ہوتے ہیں ہر معاشرے نے ایسے ہی معصوم اقدامات کیے اور پھر گڑھے میں جاگرے۔ سعودی معاشرہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہے گا۔ یہی مقام افسوس ہے کہ دنیا کی واحد حکومت جو اسلامی قوانین کے نفاذ کی شہرت رکھتی تھی اب انحراف کی راہ پر چل نکلی ہے۔سوشل میڈیا پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مسٹر ٹلرسن کا ایک بڑا معنی خیز بیان انھیں کی زبان میں سنایا جا رہا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
''ہم نے ریاض میں ایک مشترکہ دفتر قائم کیا ہے تاکہ مذہبی کتابوں کو انتہا پسندی سے پاک کیا جا سکے اور ان کے بجائے اب سعودیہ میں نئی مرتبہ کتابوں کو تدریس میں شامل کیا جائے اور تقسیم کیا جائے۔ اس سلسلے میں تمام نصابی کتابوں کو تدریس کے لیے تقسیم کیا جائے۔ جدید نوجوان اماموں کا تقرر مساجد میں وائٹ ہاؤس کے براہ راست کنٹرول میں کیا جائے'' یہ وار اتنا کاری ہے کہ کسی مضبوط سے مضبوط معاشرے کا بھی اس سے محفوظ رہنا ممکن نہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا کی ہر بات معتبر نہیں ہوتی مگر یہ بیان محض لفظی نہیں تصویری بھی ہے اور تقریری بھی۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو پھر سعودی معاشرے کا اس آئیڈیل پر (انا ﷲ) پڑھ لینا چاہیے جسے مسلمان امت ابھی تک قبول کیے ہوئے تھی اور اسے اپنے لیے مبارک گردانتی تھی۔
دنیا میں سعودی حکومت واحد ریاست تھی جہاں اسلامی قوانین نافذ تھے، مثلاً چوری (مقررہ مالیت کی) کی سزا میں ہاتھ کاٹنا، زنا کی سزا میں سنگسار یا قتل، نشہ آور اشیا کی خرید و فروخت، فراہمی اور در آمد وبرآمد پر سزائے موت وغیرہ اور قتل عمد کی سزا میں گردن زدنی یا قصاص وغیرہ ان سزاؤں کو مغرب اور مغربی اثرات کے تحت پرورش پانے والے مسلم ممالک بھی وحشیانہ تو سمجھتے تھے مگر ان کے خلاف لب کشائی کی ہمت بھی نہیں رکھتے تھے کیونکہ وہ بھی یہ جانتے تھے کہ یہ سزائیں اور قوانین قرآن وسنت کے مطابق ہیں، البتہ دبے دبے لفظوں میں کہہ دیا جاتا تھا کہ اب یہ سزائیں وقت کیمطابق یا معاشرتی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
البتہ مغربی ممالک کھل کر ان قوانین کی مخالفت کرتے اور سعودیہ کو ایک بنیاد پرست، دقیانوسی اور وحشیانہ قوانین کی حامل ریاست قرار دیتے تھے لیکن چونکہ ان کے مفادات تیل کی دولت سے وابستہ تھے اس لیے وہ اس سلسلے میں حدود میں رہ کر ہی بات کرتے تھے۔ سعودیہ میں جب تک جاندار حکومتیں قائم رہیں وہ اہل مغرب کے دباؤ کو یکسر مسترد کرتی رہیں، خصوصاً شاہ فیصل مغربی دباؤ کو اس شدت سے مسترد کرتے تھے کہ اہل مغرب پھر زبان درازی تو کیا لب کشائی کی ہمت بھی نہ کرسکتے تھے۔
کہاجاتا ہے کہ ایک بار امریکا کے ایک انتہائی متحرک وزیرخارجہ نے شاہ فیصل سے کہاکہ امریکا سعودی تیل کے کنوؤں کو برباد کرسکتا ہے، شاہ نے کہا بالکل کرسکتا ہے اور کر دے ہم اپنے اونٹ کو لے کر اپنے خیموں میں واپس چلے جائیںگے مگر امریکی عوام اپنی عیش کوشی جس بل بوتے پر جاری رکھے ہوئے ہیں وہ اس سے محروم ہوجائیںگے۔ اس کے بعد کسی امریکی وزیر، امیرکو سعودیہ کو کھلی دھمکی دینے کی ہمت نہ ہوسکی۔
شاہ فیصل مبینہ طور پر مغربی سازش کے نتیجے میں قتل کیے گئے اور ان کے بعد جو حکمران آئے وہ امریکی دباؤ کو زیادہ عرصے برداشت نہ کرسکے۔امریکیوں نے دباؤ آہستہ آہستہ بڑھانا شروع کیا اور اسلامی قوانین کی منسوخی یا حکومت کے اسلامی مزاج پر کھلی تنقیدکے بجائے ان حکمرانوں کو اس طرح اپنا دست نگر بنانا شروع کیا جس طرح انگریزوں نے دور زوال کے مغل حکمرانوں کو برصغیر میں اپنا طفیلی بناکر چھوڑا تھا اور جب یہ امریکیوں کے طفیلی بن گئے تو اب بلی تھیلے سے باہر آگئی اور ایک ہی وار میں سعودیہ بھی ''روشن خیالی'' کی راہ پر گامزن ہوگیا۔
کہا یہ جارہاہے کہ یہ سب کچھ شاہ سلیمان کے وژن2030ء کے تحت ہورہاہے، مگر یہ وژن یہ ہے کہ اب سعودی عوام کو تیل کی پیداواری صلاحیت اور اقتصادی اہمیت کے بجائے دوسرے عوامل پر توجہ دینا چاہیے اور روزگار کے لیے مواقعے فراہم کرکے اپنے کو زیادہ باصلاحیت بنانا چاہیے۔اس کی عملی شکل یہ برآمد ہوئی کہ ریاض میں سعودی حکمرانی کی 87 ویں سالگرہ عام ممالک کی طرح منائی گئی، رقص و سرور کی محافل برپا ہوئیں جو اس سے قبل حرام نہیں تو ممنوع ضرور تھیں۔ ان محافل میں پہلی بار خواتین کو شرکت کی اجازت دی گئی، پہلی مرتبہ ہی اتنے جرأت مندانہ اقدام 87 سالہ محنت اور مزاحمت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہیں۔
ادھر سعودیہ نے عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت اور ڈرائیونگ لائسنس کا اجرا بھی شروع کر دیا ہے جب اس پر لے دے ہوئی تو شرط یہ عائد کر دی گئی کہ یہ لائسنس شوہر کی اجازت سے مشروط ہو گا۔اس وژن 2030ء پر عمل درآمد سے قبل سعودی چھلنی سے چھن کر جو خبریں دنیا کو مل سکی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ متعدد علما کو گرفتار بھی کیا گیا ہے اور ان کے عہدوں سے سبکدوش بھی کیا گیا ہے، ظاہر ہے یہ وہ علما ہوںگے جو ''روشن خیالی'' کے مخالف رہے ہوںگے اور اپنے موقف پر اصرار کر رہے ہوںگے۔
سعودی حکومت دنیا میں واحد حکومت تھی جہاں اگرچہ بادشاہت تھی مگر قوانین بڑی حد تک اسلامی نافذ تھے اور اس لیے ان کے مخالفین بھی زیادہ زبان درازی نہیں کرتے تھے۔ بادشاہت بھی اہل عالم کو اسی لیے گورا تھی کہ حکمرانی کی یہ شکل بہر حال اسلام کو نافذ کیے ہوئے ہے۔
برائی اور باطل ابتدائی شکل میں بڑے معصوم ہوتے ہیں ہر معاشرے نے ایسے ہی معصوم اقدامات کیے اور پھر گڑھے میں جاگرے۔ سعودی معاشرہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہے گا۔ یہی مقام افسوس ہے کہ دنیا کی واحد حکومت جو اسلامی قوانین کے نفاذ کی شہرت رکھتی تھی اب انحراف کی راہ پر چل نکلی ہے۔سوشل میڈیا پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مسٹر ٹلرسن کا ایک بڑا معنی خیز بیان انھیں کی زبان میں سنایا جا رہا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
''ہم نے ریاض میں ایک مشترکہ دفتر قائم کیا ہے تاکہ مذہبی کتابوں کو انتہا پسندی سے پاک کیا جا سکے اور ان کے بجائے اب سعودیہ میں نئی مرتبہ کتابوں کو تدریس میں شامل کیا جائے اور تقسیم کیا جائے۔ اس سلسلے میں تمام نصابی کتابوں کو تدریس کے لیے تقسیم کیا جائے۔ جدید نوجوان اماموں کا تقرر مساجد میں وائٹ ہاؤس کے براہ راست کنٹرول میں کیا جائے'' یہ وار اتنا کاری ہے کہ کسی مضبوط سے مضبوط معاشرے کا بھی اس سے محفوظ رہنا ممکن نہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا کی ہر بات معتبر نہیں ہوتی مگر یہ بیان محض لفظی نہیں تصویری بھی ہے اور تقریری بھی۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو پھر سعودی معاشرے کا اس آئیڈیل پر (انا ﷲ) پڑھ لینا چاہیے جسے مسلمان امت ابھی تک قبول کیے ہوئے تھی اور اسے اپنے لیے مبارک گردانتی تھی۔