پاکستان کے کالے ہیرے
سب سے زیادہ ناانصافی پاکستان کے سیاہ فاموں سے لیاری میں ہوئی جو کسی زمانے میں فٹ بال کی نرسری تھی
''سیاہ فام یا تو خطرہ ہیں یا پھر انٹرٹینمنٹ۔'' یہ بات ایک ماہر نسلیات نے کہی ہے، جسے مغرب، غلاموں کی تجارت، امریکی معاشرے میں سیاہ فاموں کی شناخت سے محرومی، ان کی اہلیت، تخلیقی صلاحیتوں اور رنگت میں بے رنگی، بے مائیگی، تفریق اور تعصبات کے اٹھتے ہوئے بگولوں سے وحشت کا احساس تھا۔
سیاہ فام نسل کے مختلف قافلوں نے تاریخ کا دردانگیز سفر طے کیا ہے، غلامی کا ادارہ تو ایک وحشیانہ دور کی الگ تاریخ رکھتا ہے مگر اسی انسانی تاریخ کے عہد حاضر کے آئینہ میں سیاہ فام اب ان لاحقوں سے مشروط نہیں جو ماضی میں ان سے منسوب اور وابستہ تھے۔
ایک وہ دور تھا جب ''انکل ٹامز کیبن'' نامی بے مثال فلم سے پہلے اس کی رائٹر ہیریٹ بیچر اسٹوو کے تہلکہ خیز ناول کی صورت امریکی سماج میں نسل پرستی اور غلامی کے خلاف انقلابی شعور کا سونامی آیا۔ پھر ایلکس ہیلے نے اپنے ناول ''روٹس'' میں سیاہ فاموں پر ہونے والے ظلم وستم اور انسانیت سوز بربریت کی چالیس سالہ تحقیق کی دلگداز کہانی پیش کی، اسی ناول کی ٹی وی سیریل نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور کتنے ہی بلیک اداکار اور اداکارائیں پردہ اسکرین پر چھا گئیں، انسانی جذبات و احساسات کے اظہار کا ایک نیا نصاب اجاگر ہوا، جس نے ثابت کیا کہ کالی رنگت اداکاری کی روحانیت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ سچے انسانی جذبوں کی تخلیق خون سیاہ فام کے جگر سے بھی اسی طرح نمود ہوتی ہے جیسا سفید فام کے توسط سے۔
غالباً یہی وہ مقام تھا جب ایک سیاہ فام دانشور نے کہا تھا کہ ٹالسٹائی کاکیسئیش نسل سے تھے۔ گاندھی جی ایشیائی جب کہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نیگرو تھے، لیکن ان تینوں کے دل عدم تشدد کے نظریے اور تصور سے دھڑکتے تھے۔ مارٹن لوتھر کنگ کو یہ دولت گاندھی سے ملی، گاندھی نے اس ورثہ کو ٹالسٹائی سے مستعار لیا اور ٹالسٹائی کو یہ چیز یسوع مسیح سے ملی۔ ابراہم لنکن نے غلامی کے خاتمہ میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ ہالی ووڈ نے سیکڑوں فلمیں اور ڈاکومنٹریز سیاہ فاموں پر ڈھائے گئے مظالم پر عکس بند کی ہیں۔
اس دور کے برس ہا برس بعد سیاہ فاموں کو کاسمیٹکس جیسی چیز سمجھا گیا، رفتہ رفتہ اقوام عالم نے سیاہ فاموں میں اٹھنے والے بھنور اور غیر معمولی انقلاب کی دھمک سنی۔ افریقہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ سمیت یورپی ملکوں میں موجود سیاہ فاموں کی تخلیقی صلاحیتوں کے چراغ کیا جلے کہ ساری فلمی صنعت، فیشن انڈسٹری، ماڈلنگ، ادب، صحافت، معیشت، سیاست، سفارت کاری، تعلیم، صحت، جنگ و جدل اور امن کے کارواں سیاہ فاموں کی پیشہ ورانہ خدمات اور کارکردگی سے جگمگانے لگے۔بیسویں صدی کے علمی، تحقیقی اور تاریخ کے شعبوں میں اس صداقت کی تشہیر ہوئی کہ وہ جذبات جو انسان کو منور کرتے ہیں، کبھی بھی نسل پرستی یا انسانی رشتوں کی تضحیک گوارا نہیں کرتے، کسی تفریق سے آلودہ نہیں ہوتے۔
یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ کسی انسان کی رنگت اس کے کردار اور اس میں مضمر صلاحیتوں کی کوئی تعریف متعین نہیں کرسکتی، یہاں تک کہ سیاہ فاموں کے خوابوں کی تعبیر ان کی رنگت سے نہیں مل سکتی۔ مادام اسٹیفانی لاہارٹ نے تو سیاہ فام نوجوانوں کے حوصلے بلند کرنے اور زندگی میں عملی قدم رکھنے کے لیے بہترین نصیحتوں پر مبنی تحریریں لکھیں، انہیں پیغام دیا کہ وہ خود سے مایوس نہ ہوں، اپنے آپ سے نہ شرمائیں، خود کو منوائیں۔ سیاہ فام مفکر جانیتھن انتھونی نے لکھا کہ میں انسانوں میں اختلافات اور تفریق سے واقف ہوں۔
میں نے دیکھا ہے کہ سفید فام ہر جگہ ایک ساتھ نظر آتے ہیں، یہودی باہم جڑے ہوئے ہیں، اسپینی ساتھ کھڑے ہیں، مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے اختلاف اور تنوع کے باوجود وہ سب مشترکہ میراث رکھتے ہیں، مگر مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ سیاہ فام کیوں ایک دوسرے سے شاکی اور الگ ہیں، وہ ایک کیوں نہیں ہوتے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اسمارٹ اور مضبوط جسمانی ساخت رکھتے ہیں، اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں پھر کیوں ایک پرچم تلے جمع نہیں ہوتے؟
ڈارنل لیمانٹ کا کہنا تھا کہ ہولوکاسٹ سے بچنے والے ہر اس آدمی سے نفرت کرتے ہیں جو اس کے خاندان اور ہم زبانوں کی نسل کشی میں ملوث رہا، لیکن سیاہ فام اپنے خلاف ہونیوالے مظالم کے باوجود اس مائنڈ سیٹ کے اسیر نہیں، اور یہی سیاہ رنگت مخالفت کی لہر اسے زندگی میں روادارانہ روش پر چلنے کا شعور دے چکی ہے۔
قارئین کرام حیران ہوں گے کہ نسل پرستی اور سیاہ فام اقوام کا ذکر کسی خاص مقصد کا حامل ہے یا کوئی دوسرا اہم مسئلہ ہے جسے ڈسکس کرنا باقی ہے۔ جی ہاں سیاہ فام کا حوالہ ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہے جو تلخ بھی ہے اور پاکستان کے رہنے والے سیاہ فام لوگوں سے گریز پائی، چشم پوشی، ترک تعلق اور انہیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر انداز کرنے کا الم ناک باب بھی ہے۔ ایک احتجاج بھی ہے۔
سب سے زیادہ ناانصافی پاکستان کے سیاہ فاموں سے لیاری میں ہوئی جو کسی زمانے میں فٹ بال کی نرسری تھی اور جسے بیدردی سے اجاڑا گیا۔ مغرب میں سیاہ فاموں کے خلاف ظلم پر سفید فام بھی سڑکوں پر آئے، ہزاروں کتابیں نسل پرستی، غلامی اور سیاہ فاموں کی عدم شناخت سے متعلق دنیا کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔
آج دنیا بھر میں blacks ڈائمند کہلاتے ہیں، فلم، تھیٹر، ماڈلنگ، فیشن، ادب، صحافت، الیکٹرانک میڈیا میں ان کی حکمرانی ہے، مگر آج کا موضوع کچھ اور ہے، اس دکھ کی کہانی لیاری کے سیاہ فام نوجوانوں کے فٹ بال، باکسنگ، سائیکلنگ، جمناسٹک اور کرکٹ اور ہاکی کے کھیل سے دوری کی ہے۔ ٹھیک ہے لیاری میں کئی فٹ بال دوست کلبس کی نگرانی کرتے ہیں اور ان ہی کی بدولت فٹبال اور باکسنگ کے میدان اور رنگز آباد ہیں، مگر کہاں ہے وہ قومی فٹ بال ٹیم جسے 70 سال گزرنے کے بعد بھی آنکھیں فیفا کے عالمی کپ میں کوالیفائی کرکے لاسٹ راؤنڈ میں کھیلتے دیکھنا چاہتی ہیں۔
کیا شائقین کی آنکھوں کی روشنی ختم ہوجانے کے بعد فٹ بال فیڈریشن کے کرتا دھرتا فٹبال ٹیم کو اس قابل بنائیں گے؟ ملک کے چاروں صوبوں میں کہاں ہیں وہ شاندار انٹرنیشنل جدید ترین سہولتوں سے آراستہ اسٹیڈیمز۔ وہ فٹ بالر نسل کہاں کھو گئی جو بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے سابق مشرقی پاکستان اور انڈیا کی پروفیشنل لیگز میں اپنے جوہر دکھاتی رہتی تھی، وہ محمد عمر کسے یاد ہے جو کلکتہ محمڈن کا سپر اسٹار تھا، دوسرا غلام عباس کیوں پیدا نہیں ہوا، حسین کلر، عبدالغفور مجنا، استاد داد محمد، مولا بخش مومن، رحمان، خمیسہ، شفیع، فیض محمد، غلام محمد گولو اور ان گنت سیاہ فام فٹ بالروں کے روشن دن کیا ہوئے؟ کے ایم سی اسٹیڈیم، کے پی ٹی اور ریلوے گراؤنڈ کی مقبولیت اور فٹ بال شائقین کا جوش وخروش تاریخ کے کن اوراق میں چھپ گیا۔
دوسری جانب دیکھیے تو دنیا کے سیاہ فام فٹبالروں کی ایک کہکشاں نظر آتی ہے، ملین ڈالر فٹبالر ہیں، کل ہنری تھیئری غضب کا اسٹرائیکر تھا، آج سفید فام میسی اور کرسٹائن رونالڈو کے ساتھی کھلاڑیوں میں سیاہ فام دفاعی اور فارورڈ پوزیشنوں میں کھیلتے ہوئے کھیل کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں، گھانا کے سیاہ فام نوجوان کھلاڑی بھارت میں کھیلے، اس ٹیم کو آئندہ ورلڈ کپ کا خطرناک اسکواڈ قراردیا جاتا ہے، یحییٰ طورے بہترین افریقی فٹ بالر کا اعزاز رکھتے ہیں، راشدی یقینی ماضی کا تھرکتا جادوگر کہلایا، فٹبال کے عظیم ترین فارورڈ ''پیلے'' کو کون نہیں جانتا، سیاہ فام عثمان ڈیمبلے کو میسی کا ہم پلہ فارورڈ قرار دیا جارہا ہے، ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔
لوکا کو آج سب سے مقبول اسٹرائیکر ہے، برازیل کی ٹیم جن سیاہ فام کھلاڑیوں سے سجی ہوئی ہے ان جیسے ہزاروں سیاہ فام پاکستان کے صرف ایک علاقہ لیاری سے چنے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ اس بدنصیب علاقہ سے چشم پوشی کا خاتمہ ہو۔ اگر سینیگال، کیمرون اور گھانا کی بلیک ٹیمیں ورلڈ کپ میں سنسنی پھیلا سکتی ہیں تو پاکستان میں سیاہ فاموں میں کون سی کمی ہے، ان کے کیمپ لیاری میں کیوں نہیں لگتے، باکسنگ میں دوسرا انور چوہدری جیسا منتظم کیوں نہیں آتا، اگر عابد بروہی، اصغر بلوچ، ناصر جمال باکسنگ اور فٹبال کے معاملات میں دلچسپی نہ لیتے تو ان گیمز کے جنازے کب کے اٹھ چکے ہوتے۔
یہیں پر رینجرز کا کردار فیصلہ کن نظر آتا ہے، ان کی گیمز سے متعلق دلچسپی سے لیاری میں زندگی لوٹ آئی ہے، مگر کئی مسائل حل طلب ہیں۔ سوال یہ ہے کہ باکسنگ کوچ نذر محمد اپنی ساری زندگی باکسروں کی تراش خراش میں گزارتا رہا، اس مسکین و معصوم کوچ کے گھرانے کو کیوں مالی امداد سے محروم رکھا گیا؟ فٹ بال ٹیمیں آکر چیمپئین شپ کھیلیں گی۔
گینگ وار مسائل اور بربادیون کو الگ رکھیے، لیاری کے سیاہ فام اسی قدر وقیمت کے حامل ہیں جس عزت افزائی کے قابل ایکواڈور، ٹرنیڈیڈ اور افریقی ملکوں کے بیش بہا فٹ بالرز ہیں۔ یہ غربت کی کوکھ سے نکلے ہیں۔ کن کن کے نام لیے جائیں، انگلش، لیگ میچز ہوں یا اٹلی، سپین، فرنچ لیگز، یوئیفا کپ ہو یا دیگر انگنت چیمپئن شپس، سیاہ فاموں کے بغیر فٹبال ٹیمیں بغیر دم کی چڑیا نظر آئیں گی۔ پاکستان کے سیاہ فاموں کو نظر انداز مت کیجیے۔ یہ کالے ہیں تو کیا ہوا دل والے ہیں۔
سیاہ فام نسل کے مختلف قافلوں نے تاریخ کا دردانگیز سفر طے کیا ہے، غلامی کا ادارہ تو ایک وحشیانہ دور کی الگ تاریخ رکھتا ہے مگر اسی انسانی تاریخ کے عہد حاضر کے آئینہ میں سیاہ فام اب ان لاحقوں سے مشروط نہیں جو ماضی میں ان سے منسوب اور وابستہ تھے۔
ایک وہ دور تھا جب ''انکل ٹامز کیبن'' نامی بے مثال فلم سے پہلے اس کی رائٹر ہیریٹ بیچر اسٹوو کے تہلکہ خیز ناول کی صورت امریکی سماج میں نسل پرستی اور غلامی کے خلاف انقلابی شعور کا سونامی آیا۔ پھر ایلکس ہیلے نے اپنے ناول ''روٹس'' میں سیاہ فاموں پر ہونے والے ظلم وستم اور انسانیت سوز بربریت کی چالیس سالہ تحقیق کی دلگداز کہانی پیش کی، اسی ناول کی ٹی وی سیریل نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور کتنے ہی بلیک اداکار اور اداکارائیں پردہ اسکرین پر چھا گئیں، انسانی جذبات و احساسات کے اظہار کا ایک نیا نصاب اجاگر ہوا، جس نے ثابت کیا کہ کالی رنگت اداکاری کی روحانیت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ سچے انسانی جذبوں کی تخلیق خون سیاہ فام کے جگر سے بھی اسی طرح نمود ہوتی ہے جیسا سفید فام کے توسط سے۔
غالباً یہی وہ مقام تھا جب ایک سیاہ فام دانشور نے کہا تھا کہ ٹالسٹائی کاکیسئیش نسل سے تھے۔ گاندھی جی ایشیائی جب کہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نیگرو تھے، لیکن ان تینوں کے دل عدم تشدد کے نظریے اور تصور سے دھڑکتے تھے۔ مارٹن لوتھر کنگ کو یہ دولت گاندھی سے ملی، گاندھی نے اس ورثہ کو ٹالسٹائی سے مستعار لیا اور ٹالسٹائی کو یہ چیز یسوع مسیح سے ملی۔ ابراہم لنکن نے غلامی کے خاتمہ میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ ہالی ووڈ نے سیکڑوں فلمیں اور ڈاکومنٹریز سیاہ فاموں پر ڈھائے گئے مظالم پر عکس بند کی ہیں۔
اس دور کے برس ہا برس بعد سیاہ فاموں کو کاسمیٹکس جیسی چیز سمجھا گیا، رفتہ رفتہ اقوام عالم نے سیاہ فاموں میں اٹھنے والے بھنور اور غیر معمولی انقلاب کی دھمک سنی۔ افریقہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ سمیت یورپی ملکوں میں موجود سیاہ فاموں کی تخلیقی صلاحیتوں کے چراغ کیا جلے کہ ساری فلمی صنعت، فیشن انڈسٹری، ماڈلنگ، ادب، صحافت، معیشت، سیاست، سفارت کاری، تعلیم، صحت، جنگ و جدل اور امن کے کارواں سیاہ فاموں کی پیشہ ورانہ خدمات اور کارکردگی سے جگمگانے لگے۔بیسویں صدی کے علمی، تحقیقی اور تاریخ کے شعبوں میں اس صداقت کی تشہیر ہوئی کہ وہ جذبات جو انسان کو منور کرتے ہیں، کبھی بھی نسل پرستی یا انسانی رشتوں کی تضحیک گوارا نہیں کرتے، کسی تفریق سے آلودہ نہیں ہوتے۔
یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ کسی انسان کی رنگت اس کے کردار اور اس میں مضمر صلاحیتوں کی کوئی تعریف متعین نہیں کرسکتی، یہاں تک کہ سیاہ فاموں کے خوابوں کی تعبیر ان کی رنگت سے نہیں مل سکتی۔ مادام اسٹیفانی لاہارٹ نے تو سیاہ فام نوجوانوں کے حوصلے بلند کرنے اور زندگی میں عملی قدم رکھنے کے لیے بہترین نصیحتوں پر مبنی تحریریں لکھیں، انہیں پیغام دیا کہ وہ خود سے مایوس نہ ہوں، اپنے آپ سے نہ شرمائیں، خود کو منوائیں۔ سیاہ فام مفکر جانیتھن انتھونی نے لکھا کہ میں انسانوں میں اختلافات اور تفریق سے واقف ہوں۔
میں نے دیکھا ہے کہ سفید فام ہر جگہ ایک ساتھ نظر آتے ہیں، یہودی باہم جڑے ہوئے ہیں، اسپینی ساتھ کھڑے ہیں، مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے اختلاف اور تنوع کے باوجود وہ سب مشترکہ میراث رکھتے ہیں، مگر مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ سیاہ فام کیوں ایک دوسرے سے شاکی اور الگ ہیں، وہ ایک کیوں نہیں ہوتے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اسمارٹ اور مضبوط جسمانی ساخت رکھتے ہیں، اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں پھر کیوں ایک پرچم تلے جمع نہیں ہوتے؟
ڈارنل لیمانٹ کا کہنا تھا کہ ہولوکاسٹ سے بچنے والے ہر اس آدمی سے نفرت کرتے ہیں جو اس کے خاندان اور ہم زبانوں کی نسل کشی میں ملوث رہا، لیکن سیاہ فام اپنے خلاف ہونیوالے مظالم کے باوجود اس مائنڈ سیٹ کے اسیر نہیں، اور یہی سیاہ رنگت مخالفت کی لہر اسے زندگی میں روادارانہ روش پر چلنے کا شعور دے چکی ہے۔
قارئین کرام حیران ہوں گے کہ نسل پرستی اور سیاہ فام اقوام کا ذکر کسی خاص مقصد کا حامل ہے یا کوئی دوسرا اہم مسئلہ ہے جسے ڈسکس کرنا باقی ہے۔ جی ہاں سیاہ فام کا حوالہ ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہے جو تلخ بھی ہے اور پاکستان کے رہنے والے سیاہ فام لوگوں سے گریز پائی، چشم پوشی، ترک تعلق اور انہیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر انداز کرنے کا الم ناک باب بھی ہے۔ ایک احتجاج بھی ہے۔
سب سے زیادہ ناانصافی پاکستان کے سیاہ فاموں سے لیاری میں ہوئی جو کسی زمانے میں فٹ بال کی نرسری تھی اور جسے بیدردی سے اجاڑا گیا۔ مغرب میں سیاہ فاموں کے خلاف ظلم پر سفید فام بھی سڑکوں پر آئے، ہزاروں کتابیں نسل پرستی، غلامی اور سیاہ فاموں کی عدم شناخت سے متعلق دنیا کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔
آج دنیا بھر میں blacks ڈائمند کہلاتے ہیں، فلم، تھیٹر، ماڈلنگ، فیشن، ادب، صحافت، الیکٹرانک میڈیا میں ان کی حکمرانی ہے، مگر آج کا موضوع کچھ اور ہے، اس دکھ کی کہانی لیاری کے سیاہ فام نوجوانوں کے فٹ بال، باکسنگ، سائیکلنگ، جمناسٹک اور کرکٹ اور ہاکی کے کھیل سے دوری کی ہے۔ ٹھیک ہے لیاری میں کئی فٹ بال دوست کلبس کی نگرانی کرتے ہیں اور ان ہی کی بدولت فٹبال اور باکسنگ کے میدان اور رنگز آباد ہیں، مگر کہاں ہے وہ قومی فٹ بال ٹیم جسے 70 سال گزرنے کے بعد بھی آنکھیں فیفا کے عالمی کپ میں کوالیفائی کرکے لاسٹ راؤنڈ میں کھیلتے دیکھنا چاہتی ہیں۔
کیا شائقین کی آنکھوں کی روشنی ختم ہوجانے کے بعد فٹ بال فیڈریشن کے کرتا دھرتا فٹبال ٹیم کو اس قابل بنائیں گے؟ ملک کے چاروں صوبوں میں کہاں ہیں وہ شاندار انٹرنیشنل جدید ترین سہولتوں سے آراستہ اسٹیڈیمز۔ وہ فٹ بالر نسل کہاں کھو گئی جو بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے سابق مشرقی پاکستان اور انڈیا کی پروفیشنل لیگز میں اپنے جوہر دکھاتی رہتی تھی، وہ محمد عمر کسے یاد ہے جو کلکتہ محمڈن کا سپر اسٹار تھا، دوسرا غلام عباس کیوں پیدا نہیں ہوا، حسین کلر، عبدالغفور مجنا، استاد داد محمد، مولا بخش مومن، رحمان، خمیسہ، شفیع، فیض محمد، غلام محمد گولو اور ان گنت سیاہ فام فٹ بالروں کے روشن دن کیا ہوئے؟ کے ایم سی اسٹیڈیم، کے پی ٹی اور ریلوے گراؤنڈ کی مقبولیت اور فٹ بال شائقین کا جوش وخروش تاریخ کے کن اوراق میں چھپ گیا۔
دوسری جانب دیکھیے تو دنیا کے سیاہ فام فٹبالروں کی ایک کہکشاں نظر آتی ہے، ملین ڈالر فٹبالر ہیں، کل ہنری تھیئری غضب کا اسٹرائیکر تھا، آج سفید فام میسی اور کرسٹائن رونالڈو کے ساتھی کھلاڑیوں میں سیاہ فام دفاعی اور فارورڈ پوزیشنوں میں کھیلتے ہوئے کھیل کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں، گھانا کے سیاہ فام نوجوان کھلاڑی بھارت میں کھیلے، اس ٹیم کو آئندہ ورلڈ کپ کا خطرناک اسکواڈ قراردیا جاتا ہے، یحییٰ طورے بہترین افریقی فٹ بالر کا اعزاز رکھتے ہیں، راشدی یقینی ماضی کا تھرکتا جادوگر کہلایا، فٹبال کے عظیم ترین فارورڈ ''پیلے'' کو کون نہیں جانتا، سیاہ فام عثمان ڈیمبلے کو میسی کا ہم پلہ فارورڈ قرار دیا جارہا ہے، ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔
لوکا کو آج سب سے مقبول اسٹرائیکر ہے، برازیل کی ٹیم جن سیاہ فام کھلاڑیوں سے سجی ہوئی ہے ان جیسے ہزاروں سیاہ فام پاکستان کے صرف ایک علاقہ لیاری سے چنے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ اس بدنصیب علاقہ سے چشم پوشی کا خاتمہ ہو۔ اگر سینیگال، کیمرون اور گھانا کی بلیک ٹیمیں ورلڈ کپ میں سنسنی پھیلا سکتی ہیں تو پاکستان میں سیاہ فاموں میں کون سی کمی ہے، ان کے کیمپ لیاری میں کیوں نہیں لگتے، باکسنگ میں دوسرا انور چوہدری جیسا منتظم کیوں نہیں آتا، اگر عابد بروہی، اصغر بلوچ، ناصر جمال باکسنگ اور فٹبال کے معاملات میں دلچسپی نہ لیتے تو ان گیمز کے جنازے کب کے اٹھ چکے ہوتے۔
یہیں پر رینجرز کا کردار فیصلہ کن نظر آتا ہے، ان کی گیمز سے متعلق دلچسپی سے لیاری میں زندگی لوٹ آئی ہے، مگر کئی مسائل حل طلب ہیں۔ سوال یہ ہے کہ باکسنگ کوچ نذر محمد اپنی ساری زندگی باکسروں کی تراش خراش میں گزارتا رہا، اس مسکین و معصوم کوچ کے گھرانے کو کیوں مالی امداد سے محروم رکھا گیا؟ فٹ بال ٹیمیں آکر چیمپئین شپ کھیلیں گی۔
گینگ وار مسائل اور بربادیون کو الگ رکھیے، لیاری کے سیاہ فام اسی قدر وقیمت کے حامل ہیں جس عزت افزائی کے قابل ایکواڈور، ٹرنیڈیڈ اور افریقی ملکوں کے بیش بہا فٹ بالرز ہیں۔ یہ غربت کی کوکھ سے نکلے ہیں۔ کن کن کے نام لیے جائیں، انگلش، لیگ میچز ہوں یا اٹلی، سپین، فرنچ لیگز، یوئیفا کپ ہو یا دیگر انگنت چیمپئن شپس، سیاہ فاموں کے بغیر فٹبال ٹیمیں بغیر دم کی چڑیا نظر آئیں گی۔ پاکستان کے سیاہ فاموں کو نظر انداز مت کیجیے۔ یہ کالے ہیں تو کیا ہوا دل والے ہیں۔