ڈاکٹر محمد تاج اپنی ذات میں انجمن
عوام کے مسائل کے ساتھ اس حد تک جڑے ہوتے تھے کہ لمحہ بہ لمحہ ان کے مسائل کی آگہی رکھتے تھے۔
ڈاکٹر محمد تاج پیدا تو دیر میں ہوئے لیکن ان کی زندگی کا بیشتر حصہ کراچی میں گزرا۔ تعلیم کراچی میں ہی پائی۔ انھوں نے 1976 میں کراچی یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹرز کیا۔ کامریڈ محمد تاج نے طالب علمی کی زندگی سے ہی انقلابی سیاست کو اپنا لیا تھا۔ بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رکن بن گئے۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور نیشنل پروگریسو پارٹی کراچی کے تسلسل سے صدر بھی تھے۔ وہ ہنس مکھ اور خوش مزاج انسان تھے۔
عوام کے مسائل کے ساتھ اس حد تک جڑے ہوتے تھے کہ لمحہ بہ لمحہ ان کے مسائل کی آگہی رکھتے تھے۔ فرنٹیئر کالونی کراچی میں لوگوں نے اپنے مسائل پر جدوجہد کے لیے ''پختون جرگہ'' نامی تنظیم تشکیل دی تھی، کامریڈ تاج بھی اس کے رکن تھے۔ انھوں نے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اجلاس میں تجویز رکھی کہ مسائل تو پورے کراچی کے ہیں اور سب کے مسائل ایک ہی جیسے ہیں، اس لیے جرگے کا نام ''پختون جرگہ'' کے بجائے 'مزدور جرگہ' رکھا جائے، اس لیے بھی کہ ہم سب مزدور ہیں اور مزدور بستی کے رہائشی ہیں۔ ان کی اس تجویز کو سب نے تسلیم کرلیا۔ اس تنظیم نے فرنٹیئر کالونی میں ایک بیت الخلا تعمیر کیا اور لوگوں کو اپنی حاجت پوری کرنے کی سہولت مفت مہیا کی۔
آج بھی کسی نہ کسی شکل میں یہ عوامی بیت الخلاء موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب فیملی پلاننگ میں ملازمت کرتے تھے اور آخری دنوں میں وکالت بھی کرنے لگے۔ ڈاکٹر تاج بڑی جرأت مندی سے بنارس چوک، ریگل، صدر، لیاقت آباد، لیمارکیٹ، تین ہٹی، لانڈھی، کورنگی، اورنگی اور ملیر میں عوامی مسائل پر مظاہرہ کرتے اور جلوس نکالتے تھے۔ کیٹرک ہال صدر کے ایک سیمینار میں کچھ دیر کے لیے آپس میں بدمزگی ہوگئی تھی، جسے ڈاکٹر تاج نے ہی سنبھالا تھا۔
مزدور طلبہ کسان عوامی رابطہ کمیٹی کی جانب سے سائٹ میں ایک مظاہرہ کیا جانا تھا تو کامریڈ تاج نے ''مزدور شہید چوک'' کے پاس ندی میں پولیس کو چکمہ دے کر مظاہرہ کر ڈالا۔ اور ایک بار بنارس چوک (موجودہ باچا خان چوک) پر مظاہرہ ہورہا تھا، مظاہرے کے دوران ایک مذہبی انتہاپسند نے عوام میں کھڑے ہوکر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ 'کمیونسٹ' ہیں، ان کے مظاہرے میں شرکت نہیں کرو اور مظاہرے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ جس پر ڈاکٹر تاج ایڈووکیٹ نے اس کے ہاتھ پکڑ کر وہاں سے بھگا دیا اور چیلنج کرنے پر دوسرے دن پھر اسی مقام پر مظاہرہ کیا۔
میری کامریڈ تاج سے قرابت تقریباً دس سال کی تھی۔ وہ اپنی روح کی گہرائیوں سے ایک سچے کمیونسٹ تھے۔ محنت کش عوام کے لیے فکرمند رہتے تھے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرتے تھے۔ آخری دنوں میں اسی کی دہائی میں وہ اپنے آبائی علاقے دیر واپس چلے گئے۔ وہاں بھی وہ غریب کسانوں کا مفت علاج کرتے تھے اور عدالت میں مفت پیش ہوتے تھے۔ اپنی مدد آپ کی بنیاد پر گاؤں کے لوگوں سے مل کر پہاڑ پر عوام کی سہولت کے لیے راستہ بھی بنایا تھا۔
یہ عوامی کام رجعت پرستوں اور سامراجی آلہ کاروں کی آنکھوں میں اس لیے نہیں بھایا کہ آیندہ قومی الیکشن میں انھیں ڈاکٹر صاحب سے شکست کا ڈر تھا۔ اس لیے کامریڈ تاج کو غیر ملکی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر 3 اکتوبر 1983 میں کلاشنکوف کی گولیوں سے شہید کردیا۔ عدالت، صحافت اور وزارت انھیں کوئی انصاف نہ دلا پائی، اس کا بدلہ اب کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے ہی لیا جائے گا۔
سامراجی آلہ کاروں نے سمجھا تھا کہ اس طرح سے سامراج مخالف انقلابیوں اور کمیونسٹوں کو شہید کرنے سے محنت کشوں کی کمیونسٹ تحریک ختم ہوجائے گی اور سرمایہ دار عوام کو لوٹتے رہیں گے، یہ ان کی بھول تھی۔ آج کے پی کے سمیت ملک بھر میں ہزاروں محنت کش اور پیداواری قوتیں عوام کے مسائل حل کروانے کے لیے کمیونسٹ تحریک کے ساتھ تیزی سے جڑ رہی ہیں اور دنیا بھر میں کمیونسٹ تحریک تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ڈاکٹر تاج کی جلائی ہوئی شمع آج ملک بھر میں جل رہی ہے، بلکہ زنجیر تک پگھلانے جارہی ہے۔
عوام اپنے مسائل کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں، حکومت ان کا بوجھ کم کرنے کے بجائے اس پر مزید مہنگائی کا بوجھ لادتی جارہی ہے۔ حالیہ پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ جمہوری دور میں غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ حال ہی میں سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ملک بھر میں لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت لاپتہ افراد کے بارے میں سینیٹ سفارشات کا جائزہ لے۔
یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ کیونکہ ملک بھر سے کئی ہزار لوگ لاپتہ ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہزاروں لوگ غائب ہورہے ہیں اور ان کے ورثا کی شنوائی نہیں۔ پہلے تو بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لیے بلوچستان کے عوام ہی احتجاج کرتے تھے، اب تو سندھ میں بھی بڑے پیمانے پر شہریوں کو اغوا کیا جارہا ہے۔ بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کے پی کے اور پنجاب سے بھی لوگ اغوا ہورہے ہیں۔
آج سے برسوں قبل زیادہ تر ڈاکو لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کرتے تھے اور پھر رقم لے کر چھوڑ دیتے تھے۔ بعض مواقع پر رقم نہ ملنے پر انھیں جان سے مار دیتے تھے۔ ڈاکو باقاعدہ فون کرکے بتایا کرتے تھے کہ آپ کا آدمی ہمارے پاس ہے، اتنی رقم دو تو چھوڑ دیں گے۔ مگر اب تو فون کرتے ہیں، بتاتے ہیں اور نہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک ادیب، صحافی اور کمیونسٹ کارکن واحد بلوچ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
مہینوں کے بعد نامعلوم افراد اسے کراچی کے مضافاتی علاقے میں چھوڑ گئے۔ اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور وزن بھی پچاس فیصد گھٹ گیا تھا۔ ان ماؤں سے پوچھیں جن کے بچے برسوں سے لاپتہ ہیں، گھر میں چولہے نہیں جل رہے ہیں۔ ان کی آہ و بکا اور چیخ و پکار حکمرانوں کے کانوں تک نہیں پہنچتی ہے۔ ان آوازوں کو پہنچانے کے لیے سماج انقلاب کا منتظر ہے اور وہ آواز کامریڈ ڈاکٹر تاج کی پکار ہے۔
عوام کے مسائل کے ساتھ اس حد تک جڑے ہوتے تھے کہ لمحہ بہ لمحہ ان کے مسائل کی آگہی رکھتے تھے۔ فرنٹیئر کالونی کراچی میں لوگوں نے اپنے مسائل پر جدوجہد کے لیے ''پختون جرگہ'' نامی تنظیم تشکیل دی تھی، کامریڈ تاج بھی اس کے رکن تھے۔ انھوں نے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اجلاس میں تجویز رکھی کہ مسائل تو پورے کراچی کے ہیں اور سب کے مسائل ایک ہی جیسے ہیں، اس لیے جرگے کا نام ''پختون جرگہ'' کے بجائے 'مزدور جرگہ' رکھا جائے، اس لیے بھی کہ ہم سب مزدور ہیں اور مزدور بستی کے رہائشی ہیں۔ ان کی اس تجویز کو سب نے تسلیم کرلیا۔ اس تنظیم نے فرنٹیئر کالونی میں ایک بیت الخلا تعمیر کیا اور لوگوں کو اپنی حاجت پوری کرنے کی سہولت مفت مہیا کی۔
آج بھی کسی نہ کسی شکل میں یہ عوامی بیت الخلاء موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب فیملی پلاننگ میں ملازمت کرتے تھے اور آخری دنوں میں وکالت بھی کرنے لگے۔ ڈاکٹر تاج بڑی جرأت مندی سے بنارس چوک، ریگل، صدر، لیاقت آباد، لیمارکیٹ، تین ہٹی، لانڈھی، کورنگی، اورنگی اور ملیر میں عوامی مسائل پر مظاہرہ کرتے اور جلوس نکالتے تھے۔ کیٹرک ہال صدر کے ایک سیمینار میں کچھ دیر کے لیے آپس میں بدمزگی ہوگئی تھی، جسے ڈاکٹر تاج نے ہی سنبھالا تھا۔
مزدور طلبہ کسان عوامی رابطہ کمیٹی کی جانب سے سائٹ میں ایک مظاہرہ کیا جانا تھا تو کامریڈ تاج نے ''مزدور شہید چوک'' کے پاس ندی میں پولیس کو چکمہ دے کر مظاہرہ کر ڈالا۔ اور ایک بار بنارس چوک (موجودہ باچا خان چوک) پر مظاہرہ ہورہا تھا، مظاہرے کے دوران ایک مذہبی انتہاپسند نے عوام میں کھڑے ہوکر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ 'کمیونسٹ' ہیں، ان کے مظاہرے میں شرکت نہیں کرو اور مظاہرے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ جس پر ڈاکٹر تاج ایڈووکیٹ نے اس کے ہاتھ پکڑ کر وہاں سے بھگا دیا اور چیلنج کرنے پر دوسرے دن پھر اسی مقام پر مظاہرہ کیا۔
میری کامریڈ تاج سے قرابت تقریباً دس سال کی تھی۔ وہ اپنی روح کی گہرائیوں سے ایک سچے کمیونسٹ تھے۔ محنت کش عوام کے لیے فکرمند رہتے تھے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرتے تھے۔ آخری دنوں میں اسی کی دہائی میں وہ اپنے آبائی علاقے دیر واپس چلے گئے۔ وہاں بھی وہ غریب کسانوں کا مفت علاج کرتے تھے اور عدالت میں مفت پیش ہوتے تھے۔ اپنی مدد آپ کی بنیاد پر گاؤں کے لوگوں سے مل کر پہاڑ پر عوام کی سہولت کے لیے راستہ بھی بنایا تھا۔
یہ عوامی کام رجعت پرستوں اور سامراجی آلہ کاروں کی آنکھوں میں اس لیے نہیں بھایا کہ آیندہ قومی الیکشن میں انھیں ڈاکٹر صاحب سے شکست کا ڈر تھا۔ اس لیے کامریڈ تاج کو غیر ملکی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر 3 اکتوبر 1983 میں کلاشنکوف کی گولیوں سے شہید کردیا۔ عدالت، صحافت اور وزارت انھیں کوئی انصاف نہ دلا پائی، اس کا بدلہ اب کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے ہی لیا جائے گا۔
سامراجی آلہ کاروں نے سمجھا تھا کہ اس طرح سے سامراج مخالف انقلابیوں اور کمیونسٹوں کو شہید کرنے سے محنت کشوں کی کمیونسٹ تحریک ختم ہوجائے گی اور سرمایہ دار عوام کو لوٹتے رہیں گے، یہ ان کی بھول تھی۔ آج کے پی کے سمیت ملک بھر میں ہزاروں محنت کش اور پیداواری قوتیں عوام کے مسائل حل کروانے کے لیے کمیونسٹ تحریک کے ساتھ تیزی سے جڑ رہی ہیں اور دنیا بھر میں کمیونسٹ تحریک تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ڈاکٹر تاج کی جلائی ہوئی شمع آج ملک بھر میں جل رہی ہے، بلکہ زنجیر تک پگھلانے جارہی ہے۔
عوام اپنے مسائل کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں، حکومت ان کا بوجھ کم کرنے کے بجائے اس پر مزید مہنگائی کا بوجھ لادتی جارہی ہے۔ حالیہ پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ جمہوری دور میں غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ حال ہی میں سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ملک بھر میں لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت لاپتہ افراد کے بارے میں سینیٹ سفارشات کا جائزہ لے۔
یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ کیونکہ ملک بھر سے کئی ہزار لوگ لاپتہ ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہزاروں لوگ غائب ہورہے ہیں اور ان کے ورثا کی شنوائی نہیں۔ پہلے تو بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لیے بلوچستان کے عوام ہی احتجاج کرتے تھے، اب تو سندھ میں بھی بڑے پیمانے پر شہریوں کو اغوا کیا جارہا ہے۔ بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کے پی کے اور پنجاب سے بھی لوگ اغوا ہورہے ہیں۔
آج سے برسوں قبل زیادہ تر ڈاکو لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کرتے تھے اور پھر رقم لے کر چھوڑ دیتے تھے۔ بعض مواقع پر رقم نہ ملنے پر انھیں جان سے مار دیتے تھے۔ ڈاکو باقاعدہ فون کرکے بتایا کرتے تھے کہ آپ کا آدمی ہمارے پاس ہے، اتنی رقم دو تو چھوڑ دیں گے۔ مگر اب تو فون کرتے ہیں، بتاتے ہیں اور نہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک ادیب، صحافی اور کمیونسٹ کارکن واحد بلوچ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
مہینوں کے بعد نامعلوم افراد اسے کراچی کے مضافاتی علاقے میں چھوڑ گئے۔ اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور وزن بھی پچاس فیصد گھٹ گیا تھا۔ ان ماؤں سے پوچھیں جن کے بچے برسوں سے لاپتہ ہیں، گھر میں چولہے نہیں جل رہے ہیں۔ ان کی آہ و بکا اور چیخ و پکار حکمرانوں کے کانوں تک نہیں پہنچتی ہے۔ ان آوازوں کو پہنچانے کے لیے سماج انقلاب کا منتظر ہے اور وہ آواز کامریڈ ڈاکٹر تاج کی پکار ہے۔